Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
105 - 157
افادہ ہفتم: (ایسا غافل کہ حدیث میں دوسرے کی تلقین قبول کرلے اس کی حدیث بھی موضوع نہیں) پھر کسی ہلکے سے ضعف کی خصوصیت نہیں، بلکہ سخت سخت اقسام جرح میں جن کا ہر ایک جہالتِ راوی سے بدرجہا بدتر ہے، یہی تصریح ہے کہ اُن سے بھی موضوعیت لازم نہیں، مثلاً راوی کی اپنی مرویات میں ایسی غفلت کہ دوسرے کی تلقین قبول کرلے یعنی دُوسرا جو بتادے کہ تُونے یہ سُنا تھا وہی مان لے، پر ظاہر کہ یہ شدّتِ غفلت سے ناشی اور غفلت کا طعن فسق سے بھی بدتر اور جہالت سے تو چار درجہ زیادہ سخت ہے، امام الشان نے نخبۃ الفکر میں اسباب طعن کی دس۱۰ قسمیں فرمائیں:
 (۱)    کذب: کہ معاذاللہ قصداً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء کرے۔

(۲)    تہمت: کذب کہ جو حدیث اُس کے سوا دوسرے نے روایت نہ کی، مخالف قواعدِ دینیہ ہویا اپنے کلام میں جھُوٹ کا عادی ہو۔

(۳)    کثرت غلط    (۴)    غفلت     (۵)    فسق        (۶)    وہم

(۷)    مخالفتِ ثقات    (۸)    جہالت   (۹)    بدعت        (۱۰)    سُوءِ حفظ

اور تصریح فرمائی کہ ہر پہلا دوسرے سے سخت تر ہے،
حیث قال الطعن یکون بعشرۃ اشیاء بعضھا اشد فی القدح من بعض وترتیبھا علی الاشد فلاشد فی موجب الرد ۱؎ اھ ملخصا۔
الفاظ یہ ہیں کہ اسبابِ طعن دس۱۰ اشیاء ہیں، بعض بعض سے جرح میں اشد ہیں اور ان میں موجب رد 

کے اعتبار سے ''فالاشد'' کی ترتیب ہے اھ ملخصا (ت)
 (۱؎ شرح نخبۃ الفکر    بحث المرسل الخفی    مطبوعہ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور    ص۵۴)
پھر علماء فرماتے ہیں ایسے غافل شدید الطعن کی حدیث بھی موضوع نہیں، اواخر تعقبات میں ہے:
فیہ یزید بن ابی زیاد وکان یلقن فیتلقن، قلت ھذا لایقتضی الحکم بوضع حدیثہ ۲؎۔
اس میں یزید ابن ابوزیاد ہے اسے تلقین کی جاتی تو وہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا، میں کہتا ہوں کہ یہ قول اس کی وضع حدیث کا تقاضا نہیں کرتا۔ (ت)
 (۲؎ تعقبات باب المناقب            مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ص۵۸)
افادہ ہشتم: (منکر الحدیث کی حدیث بھی موضوع نہیں) یوں ہی منکر الحدیث، اگرچہ یہ جرح امام اجل محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ رحمۃ الباری نے فرمائی ہو حالانکہ وہ ارشاد فرماچکے کہ میں جسے منکر الحدیث (عــہ۱) کہوں اُس سے روایت حلال نہیں، میزان الاعتدال امام ذہبی میں ہے:
نقل ابن (عــہ۲) القطان ان البخاری قال کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ ۳؎۔
 (۳؎ میزان الاعتدال فی ترجمہ ابان بن جبلۃ الکوفی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۶)
ابن القطان نے نقل کیا ہے کہ امام بخاری نے فرمایا ہر وہ شخص جس کے بارے میں منکر الحدیث کہوں اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔ (ت)
عــہ۱:  کانہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان یتورع عن اطلاق الفاظ شدیدۃ مخافۃ ان یکون بعضہ من باب شتم الاعراض وقدوجب الذب عن الاحادیث فاصطلح علی ھذا جمعا بین الامرین ۱۲ منہ (م)
گویا امام بخاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے تاکہ کسی کی عزت دری لازم نہ آئے حالانکہ احادیث کی حفاظت ودفاع لازم ہے لہذا دونوں امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ اصطلاح استعمال کی ہے ۱۲ 

منہ (ت)
عــہ۲: ذکرہ فی ابان بن جبلۃ الکوفی ۱۲ منہ (م)

ابان بن جبلہ الکوفی کے ترجمہ کے تحت اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
اُسی (عــہ۱) میں ہے:
قدمر لنا ان البخاری قال من قلت فیہ منکر الحدیث فلایحل روایۃ حدیثہ ۱؎۔
پیچھے امام بخاری کا یہ قول گزرچکا ہے کہ جس کے بارے میں مَیں منکر الحدیث کہہ دوں اس کی حدیث روایت کرنا جائز نہیں۔ (ت)
عــہ۱ : قالہ فی سلیمن بن داود الیمانی ۱۲ منہ (م)

سلیمان بن داؤد یمانی کے ترجمہ میں یہ تحریر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ میزان الاعتدال        فی ترجمہ سلیمان بن داود الیمانی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۲۰۲)
بااینہمہ علما نے فرمایا ایسے کی حدیث بھی موضوع نہیں، تعقبات (عــہ۲) میں ہے:
قال البخاری منکر الحدیث، ففایۃ امر حدیثہ انیکون ضعیفا ۲؎۔
بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے تو زیادہ سے زیادہ اس کی حدیث ضعیف ہوگی۔ (ت)
عــہ۲:باب فضائل القرآن  ۱۲ منہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔باب فضائل القران میں یہ مذکور ہے ۔۱۲ منہ (ت)
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات        باب فضائل القرآن        مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۹)
افادہ نہم: (متروک کی حدیث بھی موضوع نہیں) ضعیفوں میں سب سے بدتر درجہ متروک کا ہے جس کے بعد صرف (عــہ۳) مہتم بالوضع یا کذاب دجال کا مرتبہ ہے،
عــہ۳: بلکہ مولانا علی قاری نے حاشیہ نزہۃ النظر میں متروک ومہتم بالوضع کا ایک مرتبہ میں ہونا نقل کیا:

حیث قال فالمرتبۃ الثالثۃ فلان متھم بالکذب اوالوضع اوساقط اوھالک اوذاھب الحدیث وفلان متروک اومتروک الحدیث ۳؎ اوترکوہ ملخصاً اقول وکان ھذا القائل ایضا لایقول باستواء جمیع ماذکر فی المرتبۃ بل فیھا ایضا تشکیک عندہ وکانہ الی ذلک اشار باعادۃ فلان قبل قولہ متروک الا ان فیہ ان ساقطا ومابعدہ لایفوق متروکا ومابعدہ فافھم ۱۲ منہ (م)

ان کے الفاظ یہ ہیں تیسرا مرتبہ یہ ہے فلان مہتم بالکذب یا بالوضع یا ساقط یا ہالک یا ذاہب الحدیث اور فلان متروک یا متروک الحدیث یا لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے اقول گویا اس قائل نے بھی تمام مذکور کو ایک مرتبہ میں برابر قرار نہیں دیا بلکہ اس میں بھی اس کے نزدیک تشکیک ہے۔ گویا انہوں نے اپنے قول ''متروک'' سے پہلے ''فلان'' کا اعادہ کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے مگر اس میں کلام ہے کہ ساقط اور اس کا مابعد، متروک اس کے مابعد سے فوق وبلند مرتبہ نہیں ہوسکتے ۱۲ منہ (ت)
 (۳؎ حاشیۃ نزہۃ النظر مع نخبۃ الفکر مراتب الجرح            مطبع علیمی        ص ۱۱۱)
میزان میں ہے:
اردی عبارات الجرح، دجال کذاب، اووضاع یضع الحدیث ثم متھم بالکذب ومتفق علی ترکہ، ثم متروک ۱؎ الخ
جرح کے سب سے گھٹیا الفاظ یہ ہیں، دجال، کذاب، وضاع جو حدیثیں گھڑتا ہے اس کے بعد متہم بالکذب ومتفق علٰی ترکہ ہے پھر متروک کا لفظ ہے الخ (ت)
 (۱؎ میزان الاعتدال    مقدمۃ الکتاب    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۴)
امام الشان تقریب التہذیب میں ذکر مراتب دو روایتیں فرماتے ہیں:
العشرۃ، من لم یوثق البتۃ وضعف مع ذلک بقادح والیہ الاشارۃ بمتروک اومتروک الحدیث اوواھی الحدیث اوساقط، الحادیۃ عشر، من اتھم بالکذب ''الثانیۃ عشر'' من اطلق علیہ اسم الکذب والوضع ۲؎۔
دسواں مرتبہ یہ ہے کہ اس راوی کی کسی نے توثیق نہ کی ہو اور اسے جرح کے ساتھ ضعیف کہاگیا ہو، اس کی طرف اشارہ متروک یا متروک الحدیث یا واہی الحدیث اور ساقط کے ساتھ کیا جاتا ہے ''گیارھواں درجہ یہ ہے'' جو متہم بالکذب ہو، اور بارھواں درجہ یہ ہے کہ جس پر کذب ووضع کے اسم کا اطلاق ہو۔(ت)
 (۲؎ تقریب التہذیب    مقدمۃ الکتاب       مطبع فاروقی دہلی    ص ۳)
اس پر بھی علماء نے تصریح فرمائی کہ متروک کی حدیث بھی صرف ضعیف ہی ہے موضوع نہیں، امام حجر اطراف العشرۃ پھر خاتم الحفاظ لآلی عــہ۱ میں فرماتے ہیں:
زعم ابن ھبان وتبعہ ابن الجوزی ان ھذا المتن موضوع، ولیس کماقال، فان الراوی وان کان متروکا عندالاکثر ضعیفا عندالبعض، فلم ینسب للوضع ۳؎ اھ مختصرا۔
ابن حبان نے یہ زعم کیا اور ابن جوزی نے ان کی اتباع میں کہا کہ یہ متن موضوع ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگرچہ راوی اکثر کے نزدیک متروک اور بعض کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن یہ وضع کی طرف منسوب نہیں ہے اھ مختصر (ت)
عــہ۱: فی التوحید تحت حدیث ابن عدی ان اللّٰہ عزوجل قرأ طہ وٰیسین قبل ان یخلق آدم الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس کا ذکر کتاب التوحید میں ابن عدی کی اس حدیث کے تحت ہے جس میں ہے کہ اللہ عزوجل نے طٰہٰ اور یس تخلیق آدم علیہ السلام سے پہلے پڑھا الحدیث ۱۲ منہ (ت)
 (۳؎ اللآلی المصنوعۃ    کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۱۰)
Flag Counter