اُسی (عـہ۲) میں ہے : حدیث ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ''علیکم بلباس الصوف تجدواحلاوۃ الایمان فی قلوبکم'' علیکم الحدیث بطولہ، فیہ الکدیمی وضاع قلت، قالت البھیقی فی الشعب ''ھذہ الجملۃ من الحدیث معروفۃ من غیر ھذا الطریق، وزاد الکدیمی فیہ زیادۃ منکرۃ، ویشبہ ان یکون من کلام بعض الرواۃ فالحق بالحدیث انتھٰی، والجملۃ معروفۃ اخرجھا الحکم فی المستدرک والحدیث المطول من قسم المدرج لاالموضوع ۲؎۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ تم صوف کا لباس پہنو اس سے تمہارے دلوں کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوگی(طویل حدیث)اس میں کدیمی راوی حدیث گھڑنے والا ہے،میں کہتا ہوں کہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں کہا ہے حدیث کا یہ حصہ اس سند کے علاوہ سے معروف ہے اور کدیمی نے اس میں ایسی زیادتی کی ہے جو منکر ہے اور ممکن ہے کہ یہ کسی راوی کاکلام ہو اور انہوں نے اسے حدیث کاحصہ بنادیاہو انتہی، اور اس جملہ معروفہ کی امام حاکم نے مستدرک میں تخریج کی ہے اور یہ طویل حدیث مدرج ہے موضوع نہیں۔ (ت)
عـہ۲: اول باب اللباس ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م) باب اللباس کے شروع میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات باب اللباس مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۳۳)
افادہ پنجم: (جس حدیث میں راوی بالکل مبہم ہو وہ بھی موضوع نہیں)خیر جہالت راوی کا تو یہ حاصل تھا کہ شاگرد ایک یا عدالت مشکوک شخص تو معین تھا کہ فلاں ہے، مبہم میں تو اتنا بھی نہیں، جیسے حدثنی رجل(مجھ سے ایک شخص نے حدیث بیان کی) یا بعض اصحابنا (ایک رفیق نے خبر دی) پھر یہ بھی صرف مورثِ ضعف ہے نہ کہ موجبِ وضع۔
امام الشان علامہ ابنِ حجر عسقلانی رسالہ قوۃ الحجّاج فی عموم المغفرۃ للحجّاج پھر خاتم الحفاظ لآلی میں فرماتے ہیں:
لایستحق الحدیث ان یوصف بالوضع بمجرد ان روایہ لم یسم ۱؎۔
صرف راوی کا نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے حدیث موضوع کہنے کی مستحق نہیں ہوجاتی۔ (ت)
(۱؎ اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ کتاب اللباس مطبعۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ۲/۲۶۴)
(تعددِ طرق سے مبہم کا جبر نقصان ہوتا ہے) ولہذا تصریح فرمائی کہ حدیث مبہم کا طرق دیگر سے جبر نقصان ہوجاتا ہے،تعقبات میں زیر حدیث
اطلبوا الخیر عندحسان الوجوہ
(حسین چہرے والوں سے بھلائی طلب کرو۔ ت)کہ عقیلی نے بطریق یزید بن ھارون قال انبأنا شیخ من قریش عن الزھری عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا روایت کی، فرمایا:
اوردہ (یعنی اباالفرج) من حدیث عائشۃ من طرق، فی الاول رجل لم یسم، وفی الثانی عبدالرحمٰن بن ابی بکر الملیکی متروک، وفی الثالث الحکم بن عبداللّٰہ الایلی احادیثہ موضوعۃ،قلت عبدالرحمٰن لم یتھم بکذب، ثمّ انہ ینفردبہ بل تابعہ اسمٰعیل بن عیاش وکلاھما یجبران ابھام الذی فی الطریق الاول ۲؎ اھ مختصرا۔
اسے اس(یعنی ابوالفرج)نے حدیثِ عائشہ سے مختلف سندوں سے روایت کیاہے، پہلی سند میں مجہول شخص ہے (نامعلوم)اور دوسری میںعبدالرحمن بن ابی بکر الملیکی متروک راوی ہے، تیسری میں حکم بن عبداللہ الایلی ہے جس کی احادیث موضوع ہیں،میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن متہم بالکذب نہیں، پھر وہ اس میں منفرد بھی نہیں بلکہ اسمٰعیل بن عیاش نے اس کی متابعت کی ہے اور ان دونوں نے اس ابہام کی کمی کا ازالہ کردیا جو سند اول میں تھا اھ مختصراً۔ (ت)
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات باب الادب والرقایق مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۳۵)
(حدیث مبہم دوسری حدیث کی مقوی ہوسکتی ہے) بلکہ وہ خود حدیثِ دیگر کو قوّت دینے کی لیاقت رکھتی ہے استاذ الحفّاظ قوۃ الحجاج پھر خاتم الحفاظ تعقبات (عــہ) میں فرماتے ہیں:
عـہ۱:باب الحج حدیث دعالامتہ عشیۃ عرفۃ بالمغفرۃ ۱۲ منہ (م)
یہ باب الحج کی اس حدیث کے تحت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم نے عرفہ کی شام امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی ہے۔ (ت)
رجالہ ثقات الا ان فیہ مبھما لم یسم فان کان ثقۃ فھو علی شرط الصحیح، وان کان ضعیفا فھو عاضد للمسند المذکور ۱؎۔
اس کے رجال ثقہ ہیں مگر اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام معلوم نہیں ہے پس اگر وہ ثقہ ہے تو یہ صحیح کے شرائط پر ہے اور اگر وہ ثقہ نہیں تو ضعیف ہے مگر سندِ مذکور کو تقویت دینے والی ہے۔ (ت)
(۱؎ التعقبات علی الموضوعات باب الحج مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۲۴)
افادہ ششم: (ضعفِ راویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف ہے) بھلا جہالت وابہام تو عدمِ علم عدالت ہے اور بداہت عقل شاہد کہ علم عدم، عدم علم سے زائد، مجہول ومبہم کا کیا معلوم، شاید فی نفسہٖ ثقہ ہو
کمامر اٰنفا عن الامامین الحافظین
(جیسا کہ ابھی دوحافظ ائمہ کے حوالے سے گزرا ہے۔ ت) اور جس پر جرح ثابت، احتمال ساقط۔ ولہذا محدثین دربارہ مجہول رَد وقبول میں مختلف اور ثابت الجرح کے رَد پر متفق ہُوئے۔ امام نووی مقدمہ منہاج میں ابوعلی غسانی جیانی سے ناقل:
الناقلون سبع طبقات، ثلٰث مقبولۃ، وثلٰث متروکۃ والسابعۃ مختلف فیہا(الی قولہ)السابعۃ قوم مجھولون انفردوا بروایات، لم یتابعوا علیھا، فقبلھم قوم، ووقفھم اٰخرون ۲؎۔
ناقلین کے سات۷ درجات ہیں، تین۳ مقبول، تین۳ متروک، اور ساتواں مختلف فیہ ہے (اس قول تک) ساتواں طبقہ وہ لوگ ہیں جو مجہول ہیں اور روایات کرلینے میں منفرد ہیں، ان کی متابعت کسی نے نہیں کی، بعض نے انہیں قبول کیا ہے اور بعض نے ان کے بارے میں توقف سے کام لیا ہے۔ (ت)
(۲؎ مقدمہ منہاج للنووی من شرح صحیح مسلم مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۱۷)
پھر علماء کی تصریح ہے کہ مجرد ضعف رواۃ کے سبب حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف ہے، حافظ سیف الدین احمد بن ابی المجد پھر قدوۃ الفن شمس ذہبی اپنی تاریخ پھر خاتم الحفاظ تعقبات (عــہ) ولآلی وتدریب میں فرماتے ہیں:
صنف ابن الجوزی کتاب الموضوعات فاصاب فی ذکر(ہ) احادیث(شنیعۃ) مخالفۃ للنقل والعقل، (وما)ومما لم یصب فیہ اطلاقہ الوضع علی احادیث بکلام بعض الناس فی رواتھا، کقولہ فلان ضعیف اولیس بالقوی اولین ولیس ذلک الحدیث ممایشھد القلب ببطلانہ ولافیہ مخالفۃ ولامعارضۃ لکتاب ولاسنۃ ولااجماع ولاحجۃ بانہ موضوع سوی کلام ذلک الرجل فی رواتہ(راویہ) وھذا عدوان ومجازفۃ ۱؎ (انتھی)
ابن جوزی نے کتاب الموضوعات لکھی تو اس میں انہوں نے ایسی روایات کی نشان دہی کرکے بہت ہی اچھا کیا جو عقل ونقل کے خلاف ہیں، لیکن بعض روایات پر وضع کا اطلاق اس لئے کردیا کہ ان کے بعض راویوں میں کلام تھا، یہ درست نہیں کیا، مثلاً راوی کے بارے میں یہ قول کہ فلاں ضعیف ہے یا وہ قوی نہیں یا وہ کمزور ہے یہ حدیث ایسی نہیں کہ اس کے بطلان پر دل گواہی دے نہ اس میں مخالف ہے نہ یہ کتاب وسنّت اور اجماع کے معارض ہے اور نہ ہی یہ اس بات پر حجت ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ماسوائے راویوں میں اس آدمی کے کلام کے اور یہ زیادتی وتخمین ہے۔ (ت)
عــہ: قالہ تحت حدیث من قراٰیۃ الکرسی دبرکل صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الا ان یموت ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
یہ انہوں نے اس حدیث کے تحت کہا ہے جس شخص نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اس کے جنت میں داخل ہونے کو موت کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہیں ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ تدریب الراوی النوع الحادی والعشرون مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور ۱/۲۷۸)
( التعقبات علی الموضوعات باب فضائل القرآن مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۸)