افادہ سوم : (حدیث منقطع کا حکم) اسی طرح سند کا منقطع ہونا مستلزمِ وضع نہیں،ہمارے ائمہ کرام اور جمہور علماء کے نزدیک تو انقطاع سے صحت وحجیت ہی میں کچھ خلل نہیں آتا۔ امام محقق کمال الدین محمد بن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :
اسے انقطاع کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے جو کہ نقصان دہ نہیں کیونکہ راویوں کے عادل وثقہ ہونے کے بعد منقطع ہمارے نزدیک مرسل کی طرح ہی ہے۔ (ت)
عـہ۲: قولہ کالا رسال ای علی تفسیر وھو منہ علی اٰخر وھو علی اطلاق ۱۲ منہ (م)
قولہ کالارسال یعنی ایک تفسیر پر اور وہ یہ ہے کہ سند کے آخر سے راوی ساقط ہو اور وہ ارسال انقطاع علی الاطلاق ہے ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھّر ۱/۱۹)
امام ابن امیرالحاج حلیہ (عـہ۱) میں فرماتے ہیں: لایضر ذلک فان المنقطع کالمرسل فی قبولہ من الثقات ۲؎۔
یہ بات نقصان نہیں دیتی کیونکہ منقطع قبولیت میں مرسل کی طرح ہے جبکہ ثقہ سے مروی ہو۔ (ت)
عـہ۱: اول صفۃ الصلاۃ فی الکلام علی زیادۃ وجل ثناؤک فی الثناء ۱۲ منہ (م)
صفۃ الصلوٰۃ کی ابتدا میں جہاں ثناء میں ''وجل ثناء ک'' کے الفاظ کے اضافہ میں کلام ہے وہاں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ
(ت)
(۲؎ حلیۃ المحلی)
مولانا علی قاری مرقاۃ (عـہ۲) میں فرماتے ہیں:
قال ابوداود ھذا مرسل ای نوع مرسل وھو المنقطع لکن المرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور ۳؎۔
ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ مرسل یعنی مرسل کی قسم منقطع ہے لیکن مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ (ت)
عـہ۲: تحت حدیث ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقبل بعض ازواجہ ثم یصلی ولایتوضأ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)
اس کا ذکر المومنین کی اس حدیث کے تحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی بعض ازواجِ مطہرات سے تقبیل فرماتے تو وضو کے بغیر یونہی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
(۳؎ مرقات شرح مشکوٰۃ الفصل الثانی من باب یوجب الوضؤ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۴۳)
اور جو اُسے قادح جانتے ہیں وہ بھی صرف مورثِ ضعف مانتے ہیں نہ کہ مستلزم موضوعیت، مرقاۃ شریف میں امام ابن حجر مکی سے منقول:
یعنی یہ امر یہاں کچھ استدلال کو مضر نہیں کہ منقطع پر فضائل میں تو بالاجماع عمل کیا جاتا ہے۔
عـہ۳: تحت حدیث اذارکع احدکم فقال فی رکوعہ سبحان ربی العظیم ثلٰث مرات فقدتم رکوعہ قال الترمذی لیس اسنادہ بمتصل فقال ابن حجر ھو لایضر ذلک ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)
اس حدیث کے تحت اس کا ذکر ہے کہ جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو وہ رکوع میں تین دفعہ ''سبحان ربی العظیم پڑھے اس طرح اس کا رکوع مکمل ہوجائیگا۔ ترمذی نے کہا اس کی سند متصل نہیں تو حافظ ابن حجر نےکہایہ نقصان دہ نہیں ۱۲منہ (ت)
(۱مرقات شرح مشکوٰۃ الفصل الثانی من باب الرکوع مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۲/۳۱۵)
افادہ چہارم : (حدیث مضطرب بلکہ منکر بلکہ مدرج بھی موضوع نہیں)انقطاع تو ایک امر سہل ہے جسے صرف بعض نے طعن جانا، علماء فرماتے ہیں: حدیث کا مضطرب بلکہ منکر ہونا بھی موضوعیت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا،یہاں تک کہ دربارہ فضائل مقبول رہے گی۔بلکہ فرمایاکہ مدرج بھی موضوع سے جُدا قسم ہے، حالانکہ اُس میں تو کلام غیر کا خلط ہوتا ہے۔
تعقبات (عـہ۱) میں ہے : المضطرب من قسم الضعیف لاالموضوع ۲؎۔
مضطرب، حدیث ضعیف کی قسم ہے موضوع نہیں۔ (ت)
عـہ۱: ذکرہ فی اٰخر باب الجنائز ۱۲ منہ (م)
باب الجنائز کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات باب الجنائز مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۶۲)
اُسی (عـہ۲) میں ہے: المنکر نوع اٰخر غیر الموضوع وھو من قسم الضعیف ۳؎۔
منکر، موضوع کے علاوہ ایک دوسری نوع ہے جو کہ ضعیف کی ایک قسم ہے۔ (ت)
عـہ۲: اول باب الاطمعۃ ۱۲ منہ (م) باب الاطمعہ کے شروع میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
(۳؎ التعقبات علی الموضوعات باب الاطعمہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۳۰)
اُسی (عـہ۳) میں ہے : صرح ابن عدی بان الحدیث منکر فلیس بموضوع ۴؎۔
ابنِ عدی نے تصریح کی ہے کہ حدیث منکر، موضوع نہیں ہوتی۔ (ت)
عـہ۳: اول باب البعث ۱۲ منہ (م) باب البعث کے شروع میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
(۴؎التعقبات علی الموضوعات باب البعث مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۵۱)
اُسی (عـہ۴) میں ہے : المنکر من قسم الضعیف وھو محتمل فی الفضائل ۵؎۔
منکر، ضعیف کی قسم ہے اور یہ فضائل میں قابلِ استدلال ہے۔ (ت)