Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
102 - 157
اور دو۲ قسم باقی کو بعض اکابر حجّت جانتے جمہور مورثِ ضعف مانتے ہیں۔ امام زین الدین عراقی الفیہ میں فرماتے ہیں:
واختلفوا ھل یقبل المجھول        وھو علی ثلثۃ مجعول

مجھول عین من لہ راو فقط        وردّہ الاکثر والقسم الوسط

مجھول حال باطن وظاھر        وحکمہ الردلدی الجماھر

الثالث المجھول للعدالۃ        فی باطن فقط فقدرأی لہ

حجیۃ بعض من منع            ماقبلہ منھم سلیم (عـہ) فقطع ۲؎
 (مجہول کے بارے میں علماءِ حدیث کا اختلاف ہے کہ آیا اسے قبول کیا جائیگا یا نہیں؟اس کی تین۳ اقسام ہیں، مجہول العین جس کو صرف ایک شخص نے روایت کیا ہو، اسے اکثر نے رَد کردیا ہے۔اور دوسری قسم وہ مجہول ہے جس کے راوی کی ظاہری اور باطنی عدالت دونوں ثابت نہ ہوں اسے جمہور نے رَد کردیا ہے تیسری قسم وہ مجہول ہے جس میں راوی کی صرف باطنی عدالت ثابت نہ ہو،اسے بعض نے رَد کیاہے اور بعض نے قبول کیاہے اور قبول کرنے والوں میں امام سلیم ہیں تو انہوں نے قطعی قبول کیا ہے۔ ت)
عـہ: ای للامام سلیم بالتصغیر ابن ایوب الرازی الشافعی فانہ قطع بقبولہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)

اس سے مراد امام سلیم (تصغیر) ابن ایوب رازی شافعی ہیں ان کے نزدیک ایسی روایت کو قطعاً قبول کیا جائیگا ۱۲ منہ   

رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۲؎ الفیہ فی اصول الحدیث مع فتح المغیث معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد دارالامام الطبری بیروت    ۲/۴۳)
اسی طرح تقریب النواوی وتدریب الراوی وغیرہما میں ہے بلکہ امام نووی نے مجہول العین کا قبول بھی بہت محققین کی طرف نسبت فرمایامقدمہ منہاج میں فرماتے ہیں:
المجھول اقسام مجھول العدالۃ ظاھراً وباطنا،ومجھولھاباطنامع وجودھاظاھراوھو المستور،ومجھول العین،فاما الاول فالجمھورعلی انہ لایحتج بہ، وامّا الاخران فاحتج بھما کثیرون من المحققین ۱؎۔
مجہول کی کئی اقسام ہیں،ایک یہ کہ راوی کی عدالت ظاہر وباطن میں غیر ثابت ہو، دُوسری قسم عدالت باطناً مجہول مگر ظاہراً معلوم ہو، اور یہ مستور ہے، اور تیسری قسم مجہول العین ہے، پہلی قسم کے بارے میں جمہور کا اتفاق ہے کہ یہ قابلِ قبول نہیں اور دوسری دونوں اقسام سے اکثر محققین استدلال کرتے ہیں۔ (ت)
 (۱؎ مقدمہ للامام النووی من شرح صحیح مسلم    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۱۷)
بلکہ امام اجل عارف باللہ سیدی ابوطالب مکّی قدس سرّہ الملکی اسی کو فقہائے کرام واولیائے عظام قدست اسرارہم کا مذہب قرار دیتے ہیں،کتاب مستطاب جلیل القدر عظیم الفخر قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب کی فصل ۳۱ میں فرماتے ہیں :
بعض مایضعف بہ رواۃ الحدیث وتعلل بہ احادیثھم، لایکون تعلیلا ولاجرحاً عند الفقہاء ولاعند العلماء باللّٰہ تعالٰی مثل ان یکون الراوی مجھولا،لایثارہ الخمول وقدندب الیہ، اولقلۃ الاتباع لہ اذلم یقم لھم الاثرۃ عنہ ۲؎۔
یعنی بعض وہ باتیں جن کے سبب راویوں کو ضعیف اور ان کی حدیثوں کو غیر صحیح کہہ دیا جاتاہے، فقہاء وعلماء کے نزدیک باعثِ ضعف وجرح نہیں ہوتیں،جیسے راوی کا مجہول ہونااس لئے کہ اس نے گمنامی پسندکی کہ خود شرع مطہر نے اس کی ترغیب فرمائی یا اُس کے شاگرد کم ہُوئے کہ لوگوں کو اس سے روایت کا اتفاق نہ ہوا۔
 (۲؎ قوت القلوب    فصل الحادی والثلاثون باب تفضیل الاخبار    مطبوعہ دارصادر بیروت    ۱/۱۷۷)
بہرحال نزاع اس میں ہے کہ جہالت سرے سے وجوہِ طعن سے بھی ہے یا نہیں، یہ کوئی نہیں کہتاکہ جس حدیث کا راوی مجہول ہو خواہی نخواہی باطل ومجعول ہو، بعض متشددین نے اگر دعوے سے قاصر دلیل ذکر بھی کی علماء نے فوراً ردوابطال فرمادیاکہ جہالت کو وضع سے کیا علاقہ، مولانا علی قاری رسالہ فضائل نصف شعبان فرماتے ہیں:
جھالۃ بعض الرواۃ لاتقتضی کون الحدیث موضوعاً وکذا نکارہ الالفاظ، فینبغی ان یحکم علیہ بانہ ضعیف، ثم یعمل بالضعیف فی فضائل الاعمال ۱؎۔
یعنی بعض راویوں کا مجہول یا الفاظ کا بے قاعدہ ہونا یہ نہیں چاہتا کہ حدیث موضوع ہو، ہاں ضعیف کہو، پھر فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل کیاجاتا ہے۔
(۱؎ رسالہ فضائل نصف شعبان)
مرقاۃ شرح(عـہ۱)مشکوٰۃ میں امام ابن حجر مکّی سے نقل فرمایا:
فیہ راومجھول،ولایضر لانہ من احادیث الفضائل ۲؎
 (اس میں ایک راوی مجہول ہے اور کچھ نقصان نہیں کہ یہ حدیث تو فضائل کی ہے)
عـہ۱:  ذکرہ فی باب فضل الاذان واجابۃ المؤذن آخر الفصل الثانی ۱۲ منہ (م)

فضیلتِ اذان اور جوابِ اذان کے باب کی فصل ثانی کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ    باب الاذان فصل ثانی    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۱۷۱)
موضوعات کبیر میں استاذ المحدثین امام زین الدین عراقی سے نقل فرمایا:
انہ (عـہ۲) لیس بموضوع وفی سندہ مجھول ۳؎
 (یہ موضوع نہیں اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے)
عـہ۲: یرید حدیث عالم قریش یملؤ الارض علما ۱۲ منہ (م)

حدیث ''قریش کا ایک عالم زمین کو علم کی دولت سے بھر دیگا'' کے تحت اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۳؎ الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ    حدیث ۶۰۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ص ۱۵۷)
امام بدر الدین زرکشی پھر امام محقق جلال الدین سیوطی لآلی مصنوعہ میں فرماتے ہیں:
لوثبتت (عـہ۳) جھالتہ لم یلزم ان یکون الحدیث موضوعامالم یکن فی اسنادہ من یتھم بالوضع ۴؎۔
یعنی روی کی جہالت ثابت بھی ہوتو حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں جب تک اس کی سند میں کوئی راوی وضع حدیث سے متہم نہ ہو۔
 (۴؎ لآلی مصنوعہ        صلوٰۃ التسبیح        مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۴۴)
عـہ۳: قالہ فی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فی صلاۃ التسبیح لکن اھملہ ابوالفرج بجھالۃ موسٰی بن عبدالعزیز ۱۲ منہ۔ (م)

صلوٰۃ التسبیح کے بارے میں حضرت عبداللہ ابنِ عباس کی حدیث میں اس کو ذکر کیاہے لیکن ابوالفرج نے موسٰی بن عبدالعزیز کی جہالت کی بنا پر اس کو چھوڑدیا ہے۔ (ت)
یہی دونوں امام تخریج احادیث رافعی ولآلی میں فرماتے ہیں:لایلزم (عـہ۱) من الجھل بحال الراوی ان یکون الحدیث موضوعا ۱؎۔
راوی کے مجہول الحال ہونے سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔
عـہ۱: قالاہ فی حدیث وعبدتارک الحج فلیمت ان شاء یھودیا اونصرانیا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

ایسا بندہ جو حج کو ترک کرنے والا ہو اگر وہ چاہے تو یہودی یا نصرانی مرجائے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۱؎ لآلی مصنوعہ    صلوٰۃ التسبیح            مطبوعۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۱۱۸)
امام ابوالفرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب موضوعات میں حدیث من قرض بیت شعر بعد العشاء الاٰخرۃ لم تقبل لہ صلاۃ تلک اللیلۃ ۲؎
 (جس نے آخری عشاء کے بعد کوئی (لغو) شعر کہا اس کی اس رات کی نماز قبول نہ ہوگی۔ ت) کی یہ علت بیان کی کہ اس میں ایک راوی مجہول اور دوسرا مضطرب کثیر الخطا ہے،
اس پر شیخ الحفاظ امام ابن حجر عسقلانی نے القول المسددفی الذب عن مسند احمد پھر امام سیوطی نے لآلی وتعقبات میں فرمایا:
لیس فی شیئ مماذکرہ ابوالفرج مایقتضی الوضع ۳؎۔
یہ علتیں جو ابوالفرج نے ذکر کیں ان میں ایک بھی موضوعیت کی مقتضی نہیں۔
 (۲؎ کتاب الموضوعات    فی حدیث انشاء الشعر بعد العشاء    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/۲۶۱)

(۳؎ القول المسدد    الحدیث الثانی    مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن ہند    ص ۳۶)
امام ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں حدیثِ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فی تزویج فاطمۃ من علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما کی نسبت فرماتے ہیں:
کونہ کذبا فیہ نظر، وانما ھو غریب فی سندہ مجھول ۴؎۔
اس کا کذب ہونا مسلّم نہیں،ہاں غریب ہے اور راوی مجہول۔
 (۴؎ الصواعق المحرقہ    الباب الحادی عشر    مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان        ص ۱۴۳)
علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں (عـہ۲) : قال السھیلی فی اسنادہ (عـہ۱) مجاھیل وھو یفید ضعفہ فقط، وقال ابن کثیر منکرجدا وسندہ مجھول وھو ایضا صریح فی انہ ضعیف فقط،فالمنکر من قسم الضعیف، ولذا قال السیوطی بعدمااورد قول ابن عساکر ''منکر'' ھذا حجۃ لماقلتہ من انہ ضعیف، لاموضوع، لان المنکر من قسم الضعیف،وبینہ وبین الموضوع فرق معروف فی الفن،فالمنکر ما انفرد بہ الراوی الضعیف مخالفالرواتہ الثقات فان انتفت کان ضعیفا وھی مرتبۃ فوق المنکر اصلح حالامنہ ۱؎ اھ ملخصا
امام سہیلی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہیں جو اس کے فقط ضعف پر دال ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ بہت زیادہ منکر ہے اور اس کی سند مجہول ہے اور یہ بھی اس بات کی تصریح ہے کہ یہ فقط ضعیف ہے، کیونکہ منکر ضعف کی اقسام میں سے ہے،اسی لئے امام سیوطی نے ابنِ عساکر کے قول ''یہ منکر ہے'' وارد کرنے کے بعد فرمایا یہ میرے اس قول ''یہ ضعیف ہے'' کی دلیل ہے موضوع ہونے کی نہیں کیونکہ منکر ضعیف کی قسم ہے اس کے بعد اور حدیث موضوع کے درمیان فنِ اصول حدیث میں فرق واضح اور مشہور ہے منکر اس روایت کو کہتے ہیں جس کا راوی ضعیف ہو اور روایت کرنے میں منفرد اور ثقہ راویوں کے خلاف ہویہ کمزوری اگر منتفی ہوجائے تو صرف ضعیف ہوگی اور اس کا مرتبہ منکر سے اعلٰی ہے اور اس سے حال کے لحاظ سے بہتر ہے اھ ملخصا (ت)
عـہ۲: باب وفاۃ امہ ومایتعلق بابویہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

باب وفاۃ امہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عـہ۱: یعنی حدیث احیاء الابوین الکریمین حتی اٰمنا بہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

یعنی وہ حدیث جس میں ہے کہ حضور کے والدین کریمین زندہ ہوکر آپ کی ذات پر ایمان لائے یہ اس حدیث کے تحت مذکور ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب باب وفات امّہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر      ۱/۱۹۶)
خلاصہ یہ کہ سند میں متعدد مجہولوں کا ہونا حدیث میں صرف ضعف کا مورث ہے اور صرف ضعیف کا مرتبہ حدیث منکر سے احسن واعلٰی ہے جسے ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کے خلاف روایت کیاہو، پھر وہ بھی موضوع نہیں، تو فقط ضعیف کو موضوعیت سے کیا علاقہ،امام جلیل جلال الدین سیوطی نے ان مطالب کی تصریح فرمائی واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter