Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
101 - 157
تو یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صحتِ حدیث سے انکار نفی حسن میں بھی نص نہیں جس سے قابلیت احتجاج منتفی ہو نہ کہ صالح ولائق اعتبار نہ ہونانہ کہ محض باطل وموضوع ٹھہرناجس کی طرف کسی جاہل کا بھی ذہن نہ جائیگاکہ صحیح وموضوع دونوں ابتداء وانتہاء کے کناروں پر واقع ہیں،سب سے اعلٰی صحیح اور سب سے بدتر موضوع اور وسط میں بہت اقسامِ حدیث ہیں درجہ بدرجہ،(حدیث کے مراتب اور اُن کے احکام) مرتبہ صحیح کے بعد حسن لذاتہٖ بلکہ صحیح لغیرہ پھر حسن لذاتہ، پھر حسن لغیرہ، پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیتِ اعتبار باقی رکھے جیسے اختلاطِ راوی یا سُوءِ حفظ یا تدلیس وغیرہا،اوّل کے تین بلکہ چاروں قسم کو ایک مذہب پر اسم ثبوت متناول ہے اور وہ سب محتج بہاہیں اور آخر کی قسم صالح،یہ متابعات وشواہد میں کام آتی ہے اور جابر سے قوّت پاکر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے،اُس وقت وہ صلاحیت احتجاج وقبول فی الاحکام کا زیور گرانبہاپہنتی ہے، ورنہ دربارہ فضائل تو آپ ہی مقبول وتنہا کافی ہے، پھر درجہ ششم میں ضعف قوی ووہن شدید ہے جیسے راوی کے فسق وغیرہ قوادح قویہ کے سبب متروک ہونا بشرطیکہ ہنوز سرحد کذب سے جُدائی ہو،یہ حدیث احکام میں احتجاج درکنار اعتبار کے بھی لائق نہیں، ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلقاً اور بعض کے طور پر بعد انجبار بتعدد مخارج وتنوع طرق منصب قبول وعمل پاتی ہے،کماسَنُبَینُہ اِن شاء اللّٰہ تعالٰی (اِن شاء اللہ تعالٰی عنقریب ان کی تفصیلات آرہی ہیں۔ ت) پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح ہے جس کا مدار وضاع کذاب یا متہم بالکذب پر ہو، یہ بدترین اقسام ہے بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقاً اور ایک اصطلاح پر اس کی نوعِ اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو عین موضوع، یا نظرِ تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخل موضوع حکمی ہے۔ان سب کے بعد درجہ موضوع کاہے،یہ بالاجماع نہ قابلِ انجبار،نہ فضائل وغیرہا کسی باب میں لائق اعتبار، بلکہ اُسے حدیث کہنا ہی توسع وتجوز ہے،حقیقۃً حدیث نہیں محض مجعول وافترا ہے، والعیاذ باللہ تبارک وتعالٰی۔ وسیرد علیک تفاصیل جل ذلک ان شاء اللّٰہ العلی الاعلٰی(اس کی روشن تفاصیل ان شاء اللہ تعالٰی آپ کے لئے بیان کی جائیں گی۔ ت)طالبِ تحقیق ان چند حرفوں کو یاد رکھے کہ باوصف وجازت محصل وملخص علم کثیر ہیں اور شاید اس تحریر نفیس کے ساتھ ان سطور کے غیر میں کم ملیں، وللّٰہ الحمد والمنۃ(سب خوبیاں اور احسان اللہ تعالٰی کیلئے ہے۔ ت)خیر بات دُور پڑتی ہے کہنا اس قدر ہے کہ جب صحیح اور موضوع کے درمیان اتنی منزلیں ہیں تو انکارِ صحت سے اثباتِ وضع ماننا زمین وآسمان کے قلابے ملانا ہے،بلکہ نفیِ صحت اگر بمعنی نفیِ ثبوت ہی لیجئے یعنی اُس فرقہ محدثین کی اصطلاح پر جس کے نزدیک ثبوت صحت وحسن دونوں کو شامل، تاہم اُس کا حاصل اس قدر ہوگا کہ صحیح وحسن نہیں نہ کہ باطل وموضوع ہے کہ حسن موضوع کے بیچ میں بھی دُور دراز میدان پڑے ہیں۔
میں اس واضح بات پر سندیں کیا پیش کرتامگر کیاکیجئے کہ کام اُن صاحبوں سے پڑاہے جو اغوائے عوام کے لئے دیدہ 

ودانستہ محض اُمّی عامی بن جاتے اور مہر منیر کو زیردامن مکرو تزویر چھپانا چاہتے ہیں۔ لہذا کلماتِ علماء سے اس روشن مقدمہ کی تصریحیں لیجئے:

امام سندالحفّاظ وامام محقق علی الاطلاق وامام حلبی وامام مکی وعلامہ زرقانی وعلامہ سمہودی وعلامہ ہروی کی عبارات کہ ابھی مذکور ہُوئیں بحکم دلالۃ النص وفحوی الخطاب اس دعوٰی بینہ پر دلیل مبین کہ جب نفیِ صحت سے نفیِ حسن تک لازم نہیں تو اثباتِ وضع تو خیال محال سے ہمدوش وقرین۔

(حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے)تاہم عبارات النص سُنئے:
امام بدرالدین زرکشی کتاب النکت علی ابن الصلاح پھر امام جلال الدین سیوطی لآلی مصنوعہ پھر علامہ علی بن محمد بن عراق کنانی تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ عن الاخبار الشنیعہ الموضوعہ پھر علامہ محمد طاہر فتنی خاتمہ مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں :
بین قولنا لم یصح وقولنا موضوع بون کبیر، فان الوضع اثبات الکذب والاختلاق، وقولنا لم یصح لایلزم منہ اثبات العدم، وانما ھو اخبار عن عدم الثبوت، وفرق بین الامرین ۱؎۔
یعنی ہم محدثین کا کسی حدیث کو کہنا کہ یہ صحیح نہیں اور موضوع کہنا ان دونوں میں بڑا بل ہے، کہ موضوع کہنا تو اسے کذب وافتراء ٹھہرانا ہے اور غیر صحیح کہنے سے نفیِ حدیث لازم نہیں،بلکہ اُس کا حاصل تو سلب ثبوت ہے،اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
 (۱؎ مجمع بحارالانوار    فصل وعلومہ واصطلاحتہ    نولکشور لکھنؤ            ۳/۵۰۶)
یہ لفظ لآلی کے ہیں اور اسی سے مجمع میں مختصراً نقل کیا،تنزیہ میں اس کے بعد اتنا اور زیادہ فرمایا:
وھذا یجیئ فی کل حدیث قال فیہ ابن الجوزی ''لایصح'' او''نحوہ'' ۲؎۔
یعنی امام ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں جس جس حدیث کو غیر صحیح یا اس کے مانند کوئی لفظ کہا ہے ان سب میں یہی تقریر جاری ہے کہ ان اوصاف کے عدم سے ثبوت وضع سمجھنا حلیہ صحت سے عاطل وعاری ہے۔
 (۲؎ تنزیہ الشریعۃ    کتاب التوحید فصل ثانی    دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱/۱۴۰)
امام ابنِ حجر عسقلانی القول المسددفی الذب عن مسند احمد میں فرماتے ہیں:
لایلزم من کون الحدیث لم یصح ان یکون موضوعا ۳؎۔
یعنی حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔
 (۳؎ القول المسدد    الحدیث السابع    مطبوعہ دائرۃ المعارف النعمانیہ حیدرآباد دکن ہند    ص ۴۵)
امام سیوطی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں فرماتے ہیں:
اکثر ماحکم الذھبی علی ھذا الحدیث،انہ قال متن لیس بصحیح وھذا صادق بضعفہ ۱؎۔
یعنی بڑھ سے بڑھ اس حدیث پر امام ذہبی نے اتناحکم کیا یہ متن صحیح نہیں، یہ بات ضعیف ہونے سے بھی صادق ہے۔
 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب بدء الخلق والانبیاء     مکتبہ اشرعیہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۴۹)
علی قاری موضوعات میں زیر بیان احادیث نقل فرماتے ہیں :
لایلزم عن عدم الصحۃ وجود الوضع کمالایخفی ۲؎۔
یعنی کھلی ہُوئی بات ہے کہ حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا،
 (۲؎ موضوعات ملا علی قاری    بیان احادیث العقل حدیث ۱۲۲۳    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۳۱۸)
اسی میں روزِ عاشورا سُرمہ لگانے کی حدیث پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی کا حکم ''لایصح ھذا الحدیث''(یہ حدیث صحیح نہیں۔ ت) نقل کرکے فرماتے ہیں :
قلت لایلزم من عدم صحتہ ثبوت وضعہ وغایتہ انہ ضعیف ۳؎۔
یعنی میں کہتا ہوں اس کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں، غایت یہ کہ ضعیف ہو۔
 (۳؎ موضوعات ملاعلی قاری    بیان احادیث الاکتحال یوم عاشورا الخ    حدیث ۱۲۹۸ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۳۴۱)
علامہ طاہر صاحبِ مجمع تذکرۃ الموضوعات میں امام سند الحفاظ عسقلانی سے ناقل:
ان لفظ ''لایثبت'' لایثبت الوضع فان الثابت یشمل الصحیح فقط، والضعیف دونہ ۴؎۔
یعنی کسی حدیث کو بے ثبوت کہنے سے اس کی موضوعیت ثابت نہیں ہوتی کہ ثابت تو وہی حدیث ہے جو صحیح ہو اور ضعیف کا درجہ اس سے کم ہے۔
 (۴؎ مجمع تذکرۃ الموضوعات    الباب الثانی فی اقسام الواضعین    کتب خانہ مجیدیہ ملتان    ص ۷)
بلکہ مولٰنا علی قاری آخر موضوعات کبیر میں حدیث البطیخ قبل الطعام یغسل البطن غسلا ویذھب بالداء اصلا(کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خُوب دھودیتا ہے اور بیماری کو جڑ سے ختم کردیتا ہے۔ ت)کی نسبت قولِ امام ابن عساکر ''شاذلایصح''(یہ شاذ ہے صحیح نہیں۔ ت)نقل کرکے فرماتے ہیں:
ھو یفیدانہ غیر موضوع کمالایخفی ۵؎۔
یعنی اُن کا یہ کہنا ہی بتارہا ہے کہ حدیث موضوع نہیں جیسا کہ خود ظاہر ہے۔

یعنی موضوع جانتے تو باطل یا کذب یا موضوع یا مفتری یا مختلق کہتے نفیِ صحت پر کیوں اقتصار کرتے ، فافہم واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۵؎ موضوعات ملاعلی قاری    حدیث البطیخ قبل الطعام حدیث ۱۳۳۳    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت   ص ۳۵۰)
تنبیہ: بحمداللہ تعالٰی یہاں سے ان متکلمین طائفۃ منکرین کا جہل شنیع وزور فظیع بوضوع تام طشت ازبام ہوگیا جو کلمات علمامثل مقاصد حسنہ ومجمع البحار وتذکرۃ الموضوعات ومختصر المقاصد وغیرہا سے احادیث تقبیلِ ابہامین کی نفی صحت نقل کرکے بے دھڑک دعوٰی کردیتے ہیں کہ اُن کے کلام سے بخوبی ثابت ہواکہ جو احادیث انگوٹھے چُومنے میں لائی جاتی ہیں سب موضوع ہیں اور یہ فعل ممنوع وغیر مشروع ہے، سبحان اللہ کہاں نفیِ صحت کہاں حکمِ وضع،کیا مزہ کی بات ہے کہ جہاں درجات متعددہ ہوں وہاں سب میں اعلٰی کی نفی سے سب میں ادنٰی کا ثبوت ہوجائیگا،مثلاً زیدکوکہیے کہ بادشاہ نہیں تو اُس کے معنی یہ ٹھہریں کہ نانِ شبینہ کو محتاج ہے،یا متکلمینِ طائفہ کو کہئے کہ اولیا نہیں تو اس کا مطلب یہ قرار پائے کہ سب کافر ہیں ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون۔
افادہ دوم : (جہالتِ راوی سے حدیث پر کیا اثر پڑتا ہے)کسی حدیث کی سند میں راوی کا مجہول ہونا اگر اثر کرتا ہے تو صرف اس قدر کہ اُسے ضعیف کہاجائے نہ کہ باطل وموضوع بلکہ علما کو اس میں اختلاف ہے کہ جہالت قادح صحت ومانع حجیت بھی ہے یا نہیں تفصیل مقام یہ کہ (مجہول کی اقسام اور ان کے احکام)مجہول کی تین قسمیں ہیں:

اول مستور،جس کی عدالت ظاہری معلوم اور باطنی کی تحقیق نہیں،اس قسم کے راوی صحیح مسلم شریف میں بکثرت ہیں۔
دوم مجہول العین، جس سے صرف ایک ہی شخص نے روایت کی ہو۔
وھذا علی نزاع فیہ،فان من العلماء من نفی الجھالۃ بروایۃ واحد معتمد مطلقا اواذاکان لایروی الاعن عدل عندہ،کیحیی بن سعید القطان وعبدالرحمن بن مھدی والامام احمد فی مسندہ،وھناک اقوال اٰخر۔
اس قسم میں نزاع ہے بعض محدثین نے مطلقاً صرف ایک ثقہ راوی کی وجہ سے جہالت کی نفی کی ہے یا اس شرط کے ساتھ نفی کی ہے کہ وہ اس سے روایت کرتا ہے جو اس کے ہاں عادل ہے مثلاً یحیٰی بن سعید بن القطان،عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمداپنی مسند میں اور یہاں دیگر اقوال بھی ہیں۔ (ت)
سومجہول الحال، جس کی عدالت ظاہری وباطنی کچھ ثابت نہیں
وقدیطلق علی مایشمل المستور
 (کبھی اس کا اطلاق ایسے معنی پر ہوتا ہے جو مستور کو شامل ہوجائے۔ ت)
قسم اوّل یعنی مستور تو جمہور محققین کے نزدیک مقبول ہے، یہی مذہب امام الائمہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کاہے، فتح المغیث میں ہے:
قبلہ ابوحنیفۃ خلافا للشافعی ۱؎
(امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے قبول کرتے ہیں امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔ ت)
 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد    دارالامام الطبری بیروت    ۲/۵۲)
امام نووی فرماتے ہیں یہی صحیح ہے۔ قالہ فی شرح المھذب،ذکرہ فی التدریب،وکذلک مال الی اختیارہ الامام ابوعمروبن الصلاح فی مقدمتہ، حیث قال فی المسئلۃ الثامنۃ من النوع الثالث والعشرین ویشبہ ان یکون العمل علی ھذا الرأی فی کثیر من کتب الحدیث المشھورۃ فی غیر واحد  من الرواۃ الذین تقادم العھد بھم وتعذرت الخبرۃ الباطنۃ بھم ۱؎۔
یہ شرح المہذب میں ہے، تدریب میں بھی اسے ذکر کیا،امام ابوعمروبن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اسے ہی اختیار فرمایا،انہوں نے تیسویں۳۰ نوع کے آٹھویں مسئلہ میں کہاہے اس رائے پر متعدد ومشہور کتب میں عمل ہے جن میں بہت سے ایسے راویوں سے روایات لی گئی ہیں جن کا عہد بہت پُرانا ہے اور ان کی باطن کے معاملات سے آگاہی دشوار ہے۔ (ت)
 (۱؎ مقدمہ ابن الصلاح    النوع الثالث والعشرون    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۵۳)
Flag Counter