افادہ اوّل:(حدیث صحیح نہ ہونے کے یہ معنٰی نہیں کہ غلط ہے) محدثین کرام کا کسی حدیث کو فرمانا کہ صحیح نہیں اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ غلط وباطل ہے،بلکہ صحیح اُن کی اصطلاح میں ایک اعلٰی درجہ کی حدیث ہے جس کے شرائط سخت ودشوار اور موانع وعلائق کثیر وبسیار،حدیث میں اُن سب کا اجتماع اور اِن سب کا ارتفاع کم ہوتا ہے، پھر اس کمی کے ساتھ اس کے اثبات میں سخت دقتیں، اگر اس مبحث کی تفصیل کی جائے کلام طویل تحریر میں آئے ان کے نزدیک جہاں ان باتوں میں کہیں بھی کمی ہوئی فرمادیتے ہیں ''یہ حدیث صحیح نہیں'' یعنی اس درجہ علیا کو نہ پہنچی، اس سے دوسرے درجہ کی حدیث کو حَسَن کہتے ہیں یہ باآنکہ صحیح نہیں پھر بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ورنہ حَسن ہی کیوں کہلاتی، فقط اتنا ہوتا ہے کہ اس کا پایہ بعض اوصاف میں اس بلند مرتبے سے جھُکا ہوتا ہے،اس قسم کی بھی سَیکڑوں حدیثیں صحیح مسلم وغیرہ کتب صحاح بلکہ عندالتحقیق بعض صحیح بخاری میں بھی ہیں، یہ قسم بھی استناد واحتجاج کی پُوری لیاقت رکھتی ہے۔ وہی علماء جو اُسے صحیح نہیں کہتے برابر اُس پر اعتماد فرماتے اور احکامِ حلال وحرام میں حجت بناتے ہیں،امام محقق محمد محمد محمد ابن امیرالحاج حلبی رحمہ اللہ تعالٰی حلیہ شرح منیہ(عـہ۱) میں فرماتے ہیں:
قول الترمذی ''لایصح عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی ھذا الباب شیئٌ انتھٰی لاینفی وجود الحسن ونحوہ والمطلوب لایتوقف ثبوتہ علی الصحیح،بل کمایثبت بہ یثبت بالحسن ایضا ۱؎۔
ترمذی کا یہ فرمانا کہ اس باب میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث نہیں ملی انتہی حسن اور اُس کے مثل کی نفی نہیں کرتا اور ثبوت مقصود کچھ صحیح ہی پر موقوف نہیں، بلکہ جس طرح اس سے ثابت ہوتا ہے یونہی حسن سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
(۱؎ حلیۃ المحلی)
عـہ۱: ذکرہ فی مسئلۃ المسح بالمندیل بعد الوضوء ۱۲ منہ : وضو کے بعدتولیہ استعمال کرنے کے مسئلہ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ ۱۲ منہ (ت)
اُسی (عـہ۲) میں ہے : علی المشی علی مقتضی الاصطلاح الحدیثی لایلزم من نفی الصحۃ نفی الثبوت علی وجہ الحسن ۲؎۔
یعنی اصطلاح علم حدیث کی رُو سے صحت کی نفی حسن ہوکر ثبوت کی نافی نہیں۔
( ۲؎ حلیۃ المحلی)
عـہ۲: آخر صفۃ الصلاۃ قبیل فصل فیما کرہ فعلہ فی الصلٰوۃ ۱۲ منہ :
صفۃ الصلوٰۃ کے آخر میں فیما کرہ فعلہ فی الصلٰوۃ سے تھوڑا پہلے اسے ذکر کیاہے ۱۲ منہ (ت)
امام ابن حجر مکی صواعقِ محرقہ (۳عـہ) میں فرماتے ہیں:
قول احمد ''انہ حدیث لایصح ای لذاتہ فلاینفی کونہ حسنا لغیرہ، والحسن لغیرہ یحتج بہ کمابین فی علم الحدیث ۱؎۔
یعنی امام احمد کا فرمانا کہ یہ حدیث صحیح نہیں، اس کے یہ معنے ہیں کہ صحیح لذاتہ نہیں تو یہ حسن لغیرہ ہونے کی نفی نہ کریگا اور حسن اگرچہ لغیرہ ہو حجت ہے جیسا کہ علمِ حدیث میں بیان ہوچکا۔
عـہ۳: ذکرہ فی حدیث التوسعۃ علی العیال یوم العاشوراء فی اٰخر الفصل الاول من الباب الحادی عشر قبیل الفصل الثانی ۱۲ منہ
گیارھویں باب کی فصل اول کے آخر اور فصل ثانی سے تھوڑا پہلے عاشورا کے دن اہل وعیال پر وسعت والی حدیث میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
سیدی نورالدین علی سمہودی جواہر العقدین فی فضل الشرفین میں فرماتے ہیں:
قدیکون غیر صحیح وھوصالح للاحتجاج بہ،اذالحسن رتبۃ بین الصحیح والضعیف ۵؎۔
یعنی کبھی حدیث صحیح نہیں ہوتی اور باوجود اس کے وہ قابلِ حجّت ہے،اس لئے کہ حسن کا رتبہ صحیح وضعیف کے درمیان ہے۔
(۵؎ جواہر العقدین فی فضل الشرفین)
حدیث کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ینھی ان ینتعل الرجل قائما ۶؎
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہوکر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ ت)
کو امام ترمذی نے جابر وانس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرکے فرمایا:
کلا الحدیثین لایصح عند اھل الحدیث ۱؎۔
دونوں حدیثیں محدثین کے نزدیک صحیح نہیں۔
(۶؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی کراہیۃ المشی فی النعل الواحدۃ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۲۰۹)
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی کراہیۃ المشی فی النعل الواحدۃ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۲۰۹)
علامہ عبدالباقی زرقانی شرح مواہب میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں (عـہ) :
نفیہ الصحۃ لاینافی انہ حسن کماعلم ۲؎۔
صحت کی نفی حسن ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے۔
عـہ: المقصد الثالث النوع الثانی ذکر نعلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)
تیسرے مقصد دوسری نوع نعلِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر میں اس کا بیان ہے۔ (ت)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب ذکر نعلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبعۃ عامرہ مصر ۵/۵۵)
شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی شرح صراط المستقیم میں فرماتے ہیں:
حکم بعدم صحت کردن بحسب اصطلاح محدثین غرابت ندارد چہ صحت درحدیث چنانچہ درمقدمہ معلوم شددرجہ اعلٰی ست دائرہ آں تنگ ترجمیع احادیث کہ درکتب مذکور ست، حتی دریں شش کتاب کہ آنرا صحاح ستہ گویند ہم بہ اصطلاح ایشاں صحیح نیست،بلکہ تسمیہ آنہا صحاح باعتبار تغلیب ست ۳؎۔
اصطلاحِ محدثین میں عدمِ صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلٰی ترین درجہ ہے جیسا کہ مقدمہ میں معلوم ہوچکا ہے اور اس کا دائرہ نہایت ہی تنگ ہے تمام احادیث جو کتابوں میں مذکور ہیں حتی کہ ان چھ۶ کتب میں بھی جن کو صحاح ستّہ کہا جاتا ہے۔ محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحیح نہیں ہیں بلکہ ان کو تغلیباً صحیح کہا جاتا ہے۔ (ت)