فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
اما استدلال مقاتل بقولہ تعالٰی وسبح بحمدربک بالعشی والابکار ۱؎، فاقول: اضعف، واضعف؛ بل لیس بشیئ اصلا، فان الاٰیۃ من سورۃ حم المؤمن، وقدتأخر نزولھا عن سورۃ بنی اسرائیل النازلۃ بخبر الاسراء، بزمان طویل، فقد روی ابن الضریس فی فضائل القراٰن عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنھما، فی حدیث ترتیب نزول السور ، قال : کان اول مانزل من القراٰن اقرأ باسم ربک، ثم ن ، فذکر الحدیث الی ان قال: ثم بنی اسرائیل، ثم یونس، ثم ھود، ثم یوسف، ثم الحجر، ثم الانعام، ثم الصفت، ثم لقمان، ثم سبا، ثم الزمر، ثم حم المؤمن ۲؎۔ الحدیث۔
رہا مقاتل کا استدلال اللہ تعالٰی کے اس فرمان سے ''اور تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ رات کو اور صبح سویرے''۔ تو میں کہتا ہوں کہ بہت ضعیف ہے اور بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ سرے سے بیکار ہے، کیونکہ یہ آیت سورہ حم مومن کی ہے اور اس کا نزول سورہ بنی اسرائیل سے، جس میں معراج کا ذکر ہے، طویل زمانے کے بعد ہوا ہے۔ چنانچہ ابن ضریس نے فضائل قرآن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سُورتیں نازل ہونے کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے کہ ابن عباس نے کہا ہے کہ ''قرآن میں سب سے پہلے سورہ اقرأ باسم ربک نازل ہوئی، پھر نۤ۔ ابن ضریس نے یہ روایت پوری بیان کی ہے یہاں تک کہ کہا ہے ''پھر بنی اسرائیل، پھر یونس، پھر ہود، پھر یوسف، پھر حجر، پھر انعام، پھر صٰفّٰت، پھر لقمان، پھر سبا، پھر زمر، پھر حم مومن آخر تک۔ تو پھر حم مومن کی آیت سے۔
(؎۱ القرآن سورہ مؤمن ۴۰ آیت ۵۵) (۲؎ فضائل القرآن لابن الضریس)
فکیف یستدل بھا علی ایجاب صلاۃ قبل الاسراء؟ لاجرم ان فسرھا ترجمان القراٰن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بالصلوات الخمس ۱؎، کمافی المعالم۔ وقد یستدل بماروی ابن ابی حاتم فی تفسیرہ عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی حدیث الاسراء واتیانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بیت المقدس ''لم البث الا یسیرا حتی اجتمع ناس کثیر، ثم اذن مؤذن واقیمت الصلاۃ'' قال: فقمنا صفوفا ننتظر من یؤمنا فاخذ جبریل علیہ الصلاۃ والسلام بیدی فقدَّمَنی فصلیت بھم، فلما انصرفت، قال لی جبریل: اتدری من صلی خلفک؟ قلت: لا، قال: صلی خلفک کل نبی بعثہ اللّٰہ ۲؎۔ وھو الحدیث المشار الیہ فی کلام الزرقانی عن الامام النعمانی ۔
کس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ معراج سے پہلے بھی نماز فرض تھی (جبکہ اس وقت تک وہ سورۃ نازل ہی نہیں ہوئی تھی) اسی لئے ترجمان القرآن رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر پانچ نمازوں سے کی ہے۔ جیسا کہ معالم میں ہے۔ اور کبھی استدلال کیا جاتا ہے اس حدیث سے جو ابن ابی حاتم نے انس رضی اللہ عنہ سے واقعہ معراج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت المقدس میں آنے کے بارے میں روایت کی ہے (اس میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا) ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے پھر ایک مؤذن نے اذان دی اور نماز کیلئے اقامت کہی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم سب صفیں باندھ کر اس انتظار میں کھڑے ہوگئے کہ ہمارا امام کون بنتا ہے، تو جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا، چنانچہ میں نے سب کو نماز پڑھائی، جب میں نے سلام پھیرا تو جبریل نے مجھ سے کہا: ''کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پیچھے کن لوگوں نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا نہیں جبریل نے کہا آپ کے پیچھے ہر اس نبی نے نماز پڑھی ہے جسے اللہ تعالٰی نے مبعوث فرمایا ہے۔ یہی وہ حدیث ہے جس کی طرف زرقانی کے کلام میں نعمانی کے حوالے سے اشارہ کیا گیا ہے۔ (ت)
(۱؎ معالم التنزیل مع تفسیر الخازن زیر آیت فلولا انہ کان من المسبحین مطبوعہ مصطفی البابی مصر۶/۹۸) (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۶/۶۲)
اقول: ولعل مطمح نظر المستدل وقوع الاذان والاقامۃ فانھما من خصائص الفرائض اوّلاً فلان الاذان والاقامۃ المعروفین ماشرعا الابالمدینۃ، والاسراء قبل الھجرۃ ولذاقال الزرقانِیْ فی تفسیر الحدیث، اذن مؤذن، ای اعلم بطلب الصلاۃ، فاقیمت الصلٰو ۃ، ای تھیئولھا وَشَرعوا فیھا، فلایردان الاذان والاقامۃ انماشرعا بالمدینۃ والاسراء کان بمکۃ ۱؎ اھ ماثانیاً فلان تخصیصھما بالفرائض انما عرف بعد ماشرعا للامۃ، اماقبل ذلک فایُّ دلیل علیہ؟ واما ثالثاً، وھو القاطع، فلان الاسراء انما کان باللیل، وقدعلمنا ان صلاۃ اللیل کانت فریضۃ قبل فرض الخمس، فمایدریک لعلھا ھی۔ وبہ یظھر الجواب عما عسی ان یتعلق بہ متعلق، مماروی مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی حدیث الاسراء ''وحانت الصلاۃ فاممتھم ۲؎''۔
میں کہتا ہوں کہ شاید دلیل پیش کرنے والے کا مطمحِ نظر یہ ہوکہ اس نماز میں اذان واقامت ہوئی تھی اور یہ فرائض کے ساتھ خاص ہیں، لیکن اس پر اعتراض ظاہر ہے۔ اوّلاً اس لئے کہ معروف اذان واقامت تو مدینہ میں شروع ہُوئی تھی، جبکہ معراج ہجرت سے پہلے ہُوا تھا۔ اسی لئے زرقانی نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ''ایک مؤذن نے اذان کہی'' کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ اس نے نماز کے لئے طلب کیے جانے سے ان کو آگاہ کیا، ''اور نماز کیلئے اقامت کہی گئی'' کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس کیلئے تیار ہوگئے اور اس میں شروع ہوگئے، اس لئے یہ اعتراض نہیں پیدا ہوگا کہ اذان واقامت تو مدینہ میں شروع ہوئی تھیں اور معراج مکّہ میں ہُوا تھا۔ ثانیاً، اس لئے کہ اذان واقامت کا فرائض کے ساتھ مخصوص ہونا تو اُمّت کیلئے ان کے مشروع ہونے کے بعد معلوم ہوا ہے۔ مشروعیت سے پہلے تخصیص پر کون سی دلیل ہے؟ ثالثاً، اس لئے اور یہ اعتراض استدلال کی جڑ کاٹنے والا ہے کہ معراج رات کو ہوئی تھی اور یہ ہم جان چکے ہیں کہ رات کی نماز، پانچ نمازوں کے فرض ہونے سے پہلے بھی فرض تھی، تو کیا پتا، ہوسکتا ہے یہ وہی رات کی نماز ہو! اسی سے اس کا جواب بھی ظاہر ہوجاتا ہے جس کو ہوسکتا ہے کوئی مستدل بطور دلیل پیش کرے یعنی مسلم کی وہ روایت جو ابوہریرہ سے حدیثِ معراج میں مروی ہے (کہ رسول اللہ نے فرمایا) اور نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے انہیں نماز پڑھائی۔ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۶/۵۷) (۲؎ الصحیح لمسلم باب الاسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۹۶ )
تاہم اس قدر یقینا معلوم کہ معراج مبارک سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نمازیں پڑھتے۔ نمازِ شب کی فرضیت تو خود سورہ مزمل شریف سے ثابت اور اُس کے سوا اور اوقات میں بھی نماز پڑھنا وارد عام ازینکہ فرض ہو یا نفل، حدیث میں ہے:
کان المسلمون قبل ان تفرض الصلوات الخمس یصلون الضحٰی والعصر، فکان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ اذا صلوا اٰخر النھار، تفرقوا فی الشعاب فصلوھا فرادی ۳؎۔رواہ ابن سعد وغیرہ عن عزیزۃ بنت ابی تجراۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا ذکرہ فی ترجمتھا من الاصابۃ۔
(۳؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حدیث ۷۲۳ ترجمہ عزیزہ بنت ابی تجراۃ مطبوعہ دار صادر بیروت لبنان۴/۳۶۴)
فرضیت پنجگانہ سے پہلے مسلمان چاشت اور عصر پڑھا کرتے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام جب آخر روز کی نماز پڑھتے گھاٹیوں میں متفرق ہوکر تنہا پڑھتے۔اس کو ابن سعد وغیرہ نے عزیزہ بنت تجراۃ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ یہ بات اصابہ میں عزیزہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں مذکور ہے۔ (ت)
احادیث اس باب میں بکثرت ہیں اور ان کی جمع وتلفیق کی حاجت نہیں بلکہ نماز شروع روز شریفہ سے مقرر ومشروع ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اوّل بار جس وقت وحی اُتری اور نبوتِ کریمہ ظاہر ہوئی اُسی وقت حضور نے بہ تعلیم جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والتسلیم نماز پڑھی اور اُسی دن بہ تعلیمِ اقدس حضرت اُمّ المومنین خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پڑھی، دُوسرے دن امیر المومنین علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ الاسنی نے حضور کے ساتھ پڑھی کہ ابھی سورہ مزمل نازل بھی نہ ہوئی تھی تو ایمان کے بعد پہلی شریعت نماز ہے۔
فقد اخرج احمد وابن ماجۃ والحارث فی مسندہ وغیرہم عن اسامۃ بن زید عن ابیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ان جبریل اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فی اول مااوحی الیہ، فاراہ الوضوء والصلاۃ، فلما فرغ من الوضوء اخذ غرفۃ من ماء فنضح بھا فرجہ ۱؎۔
تخریج کی ہے احمد اور ابن ماجہ نے اور حارث نے اپنی مُسند میں اور دیگر محدثین نے اسامہ ابن زید سے، وہ اپنے والد سے راوی ہیں کہ وحی کے آغاز میں ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو وضو اور نماز کا طریقہ بتایا، جب وضو سے فارغ ہُوئے تو چُلُّو بھر پانی لیا اور اپنے فرج پر چھڑکا۔
(۱؎ مُسند امام احمد بن حنبل حدیث زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مطبوعہ دارالفکر، بیروت ۴/۱۶۱)
وفی سیرۃ ابن اسحٰق، وسیرۃ ابن ھشام، والمواھب اللدنیۃ من المقصد الاول، وکتاب الخمیس، وافضل القری لقراء ام القری، للامام ابن حجر المکی، ثم حاشیۃ الکنز للعلامۃ السید ابی السعود الازھری، ثم حاشیۃ الدر للعلامۃ السید احمد الطحطاوی، وھذا لفظ القسطلانی، مزیدا من الزرقانی، (قد روی) مرَّضہ لان لہ طرقا لا تخلو من مقال؛ لکنھا متعددۃ یحصل باجتماعھا القوۃ (ان جبریل بدا لہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) وھو باعلی مکۃ، کماعند ابن اسحٰق، ای بجبل الحراء، کمافی الخمیس (فی احسن صورۃ و اطیب رائحۃ فقال: یامحمد! ان اللّٰہ یقرئک السلام ویقول لک: انت رسولی الی الجن والانس فادعھم الٰی قول لاالٰہ الااللّٰہ، ثم ضرب برجلہ الارض فنبعت عین ماء فتوضأ منھا جبریل) زاد ابن اسحٰق، ورسول اللّٰہ ینظر الیہ، لیریہ کیف الطھور الی الصلاۃ (ثم امرہ ان یتوضأ، وقام جبریل یصلی، وامرہ ان یصلی معہ) زاد فی روایۃ ابی نعیم عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا، فصلی رکعتین نحوا الکعبۃ (فعلمہ الوضوء والصلاۃ، ثم عرج الی السماء ورجع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، لایمر بحجر ولامدر ولاشجر الا وھو یقول: السلام علیک یارسول اللّٰہ! حتی اتی خدیجۃ، فاخبرھا فغشی علیھا من الفرح، ثم امرھا فتوضأت، وصلی بھا کماصلی بہ جبرئیل) زاد فی روایۃ، وکانت اول من صلی (فکان ذلک اول فرضھا) ای تقدیرھا (رکعتین) ۱؎ اھ ولہ تمام سیأتی۔
سیرت ابنِ اسحٰق میں، سیرت ابنِ ہشام میں، مواہب لدنیہ کے کتاب الخمس میں، ابن حجر مکی کی افضل القِری لقراء ام القرٰی میں، سید ابوالسعود ازہری کے حاشیہ کنز میں، سید احمد طحطاوی کے حاشیہ درمختار میں مذکور ہے اور الفاظ قسطلانی کے ہیں جن میں اس کی شرح زرقانی سے اضافہ کیا گیا ہے (روایت کی گئی ہے) بصیغہ مجہول اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ اس کے جتنے طریقے بھی ہیں وہ اعتراض سے خالی نہیں ہیں، لیکن چونکہ متعدد ہیں اس لئے ان کے اجتماع سے قوت حاصل ہوجاتی ہے (کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے) جبکہ آپ مکّہ کے بالائی حصّہ میں تھے جیسا کہ سیرت ابن اسحٰق میں ہے، یعنی کوہِ حرا پرتھے جیسا کہ خمیس میں ہے (اچھی صورۃ اور عمدہ خوشبو میں اور کہا: ''اے محمد! اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ انسانوں اور جنّوں کی طرف میرے رسول ہیں اس لئے انہیں دعوت دیں کہ وہ لٰااِلٰہ اِلااللّٰہ کہیں۔ پھر جبریل نے اپنا پاؤں زمین پر مارا تو پانی کا چشمہ ابل پڑا اور جبریل نے اس سے وضو کیا) ابن اسحٰق نے اضافہ کیا ہے کہ ''اور رسول اللہ اس کی طرف دیکھ رہے تھے تاکہ رسول اللہ کو نماز کیلئے طہارت کا طریقہ بتائے (پھر آپ سے کہا کہ آپ بھی وضو کریں۔ پھر جبریل نماز پڑھنے لگے اور رسول اللہ کو کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ پڑھیں) ابونعیم نے حضرت عائشہ سے جو روایت کی ہے اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جبریل نے قبلہ رُخ ہوکر دو۲ رکعتیں پڑھیں (چنانچہ وضو اور نماز سکھانے کے بعد جبریل تو آسمان پر چلے گئے اور رسول اللہ گھرکی طرف واپس ہوئے تو راستے میں جس پتھر، ڈھیلے یا درخت کے پاس سے آپ گزرتے وہ کہتا ''السلام علیک یارسول اللہ''۔ یہاں تک کہ آپ خدیجہ کے پاس آئے اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا تو انہیں فرطِ مسرت سے غشی آگئی پھر رسول اللہ نے انہیں بھی وضو کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ نے اُن کو بھی اُسی طرح نماز پڑھائی جس طرح جبریل نے آپ کو پڑھائی تھی) ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ خدیجہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والی ہیں (تو یہ نماز کی پہلی فرضیت تھی) یعنی اس کا اندازہ تھا (دو رکعتیں) اھ اس روایت کا باقی حصہ عنقریب آئے گا۔
(۱؎ شرح الزرقانی المقصد الاوّل فی تشریف اللہ تعالٰی علیہ الصلٰو ۃ والسلام مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۱/۲۷۳)