Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
1 - 157
بِسْمِ اللّٰہِ الرحمٰنِ الرَّحِیم ط

کتابُ الصَّلٰوۃ
مسئلہ (۲۴۹) از اوجین مکان میرخادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ مُلّا یعقوب علی خان۱۵جمادی الاولٰی ۱۳۱۰ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز پنجگانہ میں کون سی نماز سب سے پہلے کس نبی نے پڑھی ہے اور اگلے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اور اُن کی امتوں پر بھی یہی نماز پنجگانہ فرض تھی یا یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ہمارا خاصہ ہے۔ بینّوا توجروا۔
الجواب

الحمدللّٰہ وحدہ÷ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ÷ وعلی اٰلہ وصحبہ المکرمین عندہ۔
اللہ ہی کیلئے تعریف ہے جو اکیلا ہے اور صلاۃ وسلام اس ہستی پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اس کے آل واصحاب پر جو اس کے ہاں بہت مکرم ہیں۔ (ت)

نماز پنجگانہ اللہ عزّوجل کی وہ نعمتِ عظمٰی ہے کہ اس نے اپنے کرمِ عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سے پہلے کسی امت کو نہ ملی، بنی اسرائیل پر دو۲ ہی وقت کی فرض تھی وہ بھی صرف چار۴ رکعتیں دو۲ صبح دو۲ شام، وہ بھی ان سے نہ نبھی سنن نسائی شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیثِ معراج مبارک میں ارشاد فرماتے ہیں
ثم ردت الی خمس صلوات، قال: فارجع الٰی ربک فاسألہ التخفیف فانہ فرض علٰی بنی اسرائیل صلاتین فماقاموا بھما ۱؎
یعنی پھر پچاس ۵۰ نمازوں کی پانچ رہیں موسٰی علیہ الصلاۃ والسّلام نے عرض کی کہ حضور پھر جائیں اور اپنے رب سے تخفیف چاہیں کہ اس نے بنی اسرائیل پر دو۲ نمازیں فرض فرمائی تھیں وہ انہیں بھی بجانہ لائے۔
 (۱؎ سنن النسائی    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۷۸    )
علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں: ورد ان بنی اسرائیل کلفوا برکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی۔ قیل، ورکعتین عند الزوال، فماقاموا بماکلفوا بہ ۲؎۔
روایت ہے کہ بنی اسرائیل کو دو۲ رکعتیں صبح اور دو رکعتیں رات کو پڑھنے کا مکلف بنایاگیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ دو۲ رکعتیں زوال کی بھی تھیں مگر وہ اس پر کاربند نہ رہ سکے۔ (ت)
 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب    المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر    ۶/۱۴۲)
اور امتوں کا حال خدا جانے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ پانچوں اُن میں کسی کو نہ ملیں علماء نے بے خلاف اس کی تصریح فرمائی، مواہب شریف بیان خصائص امت مرحومہ میں لکھا:
ومنھا مجموع الصلوات الخمس، ولم تجمع لاحد غیرھم ۳؎۔
اور ان خصوصیات میں سے پانچ نمازوں کا مجموعہ بھی ہے کیونکہ اُمتِ مسلمہ کے علاوہ کسی اور اُمت کیلئے پانچ نمازیں جمع نہیں کی گئیں۔ (ت)
 (۳؎ المواھب اللدنیۃ    المقصد الرابع خصائص تعلق بالصلوٰۃ،    المکتب الاسلامی، بیروت    ۲/۷۱۱)
رح زرقانی مقصد معراج مقدس میں زیر حدیث مذکور نسائی لکھا: ھذا ھوالصواب، وماوقع فی البیضاوی انہ فرض علیھم خمسون صلاۃ فی الیوم واللیلۃ، فقال السیوطی: ھذا غلط، ولم یفرض علی بنی اسرائیل خمسون صلاۃ قط بل ولاخمس صلاۃ، ولم تجمع الخمس الالھذہ الامۃ، وانما فرض علی بنی اسرائیل صلاتان فقط، کما فی الحدیث ۱؎۔
یہی درست ہے اور جو بیضاوی میں ہے کہ بنی اسرائیل پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں، تو سیوطی نے کہا کہ یہ غلط ہے ، ان پر پچاس نمازیں کبھی بھی فرض نہیں کی گئی تھیں بلکہ ان پر تو پانچ نمازیں بھی فرض نہیں تھیں، پانچ صرف اس امت کیلئے جمع کی گئی ہیں۔ بنی اسرائیل پر تو صرف دو۲ نمازیں فرض تھیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب     فی المقصد الخامس تخصیصہ علیہ السلام بخصائص المعراج والاسراء     مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ،   ۶/۱۴۱)
لمعات شیخ محقق دہلوی وشرح مشکوٰۃ امام ابن حجر مکی میں ہے: مجموع ھذہ الخمس من خصوصیاتنا ۲؎
 (ان پر پانچ نمازوں کا مجموعہ ہماری خصوصیات میں سے ہے۔ ت)
(۲؎ لمعات التنقیح     الفصل الثانی کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت    مکتبۃ المعارف العلمیۃ لاہور    ۲/۲۳۱)
اشعۃ اللمعات میں ہے: مجموع خمس اوقات مخصوص ایں اُمت ست ۳؎
(پانچ اوقات کا مجموع اس امت کی خصوصیت ہے۔ ت)
(۳؎ اشعّۃ اللمعات        الفصل الثانی کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۸۷)
تیسیر وسراج المنیر شروح جامع صغیر میں زیرِ حدیث وصلوا خمسکم
 (اور پڑھو اپنی پانچ نمازیں۔ ت) لکھا:
اضافھا الیھم لانھا لم تجتمع لغیرھم ۴؎
(اپنی کہہ کر) پانچ نمازوں کو امت کی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ کسی اور اُمت کیلئے یوں جمع نہیں کی گئیں۔ ت)
 (۴؎ السراج المنیر شرح جامع صغیر    تحت حدیث ''اتقوا اللّٰہ وصلوا خمسکم'' مطبوعہ مطبعہ ازہریہ مصر ۱/۳۷)
بلکہ یہ معنی (عـــہ)خود ارشادِ حضور پُرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت۔
عــــہ:  فان قلت الم تذکر بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اتقو اللّٰہ وصلوا خمسکم ۵؎ فانہ حدیث صحیح رواہ الترمذی وحسنہ وصححہ وابن حبان والحاکم عن ابی امامۃ الباھلی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ولقد احتجوا بہ علی الاختصاص قال العلامۃ الزرقانی حجۃ ذلک قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اتقوا اللّٰہ وصلوا خمسکم فاضافتھا الیھم یعطی ذلک ۶؎ اھ وقد نقلت کلام العزیزی والمناوی فمامعنی ھذا الترقی۔ اقول بلی ولکن لی فی کونہ حجۃ فی المقام مقال فان امر الاضافات اوسع من ھذا تقول ربکم ونبیکم بل فی آخر نفس الحدیث تدخلوا جنۃ ربکم و زاد فی روایۃ وعند الخلعی وحجوا بیت ربکم وایضا یجوز التخصیص باعتبار اھل الزمان وایضا قدثبت خصوصنا فیھا بوجوہ کمایاتی فلایدل علٰی خصوص نفس الخمس ولوبالجمع واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (م)

فان قلت (اگر یہ اعتراض ہوکہ) کیا تم کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد عالی یاد نہیں رہا اتقوا اللّٰہ وصلوا خمسکم (اللہ سے ڈرو اور اپنی پانچ نمازیں اداکرو) کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے امام ترمذی نے اسے روایت کرکے حسن وصحیح قرار دیا۔ ابن حبان اور حاکم نے ابوامامہ باہلی سے روایت کیا اور علماء نے اس سے اختصاص پر استدلال کیا ہے علامہ زرقانی کہتے ہیں اس کی دلیل یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: اللہ سے ڈرو اور اپنی نمازیں اداکرو۔ نماز کی اضافت اس امت کی طرف کرنا، اس خصوصیت کا فائدہ دیتی ہے۔ میں نے عزیزی اور مناوی کا کلام نقل کردیا ہے تو اس ترقی کا کیا معنٰی۔
اقول:  (میں کہتا ہوں) کیوں نہیں، لیکن اس حدیث کو اختصاص پر دلیل بنانے میں مجھے اعتراض ہے کیونکہ اضافتوں کا معاملہ اس سے زیادہ وسیع ہے۔ تم کہتے ہو رَبُّکُمْ ونَبِیکُمْ (تمہارا رب اور تمہارا نبی) بلکہ اس حدیث کے آخر میں ہے تدخلوا جنۃ ربکم (اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے) اور خلعی کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے وحجوا بیت ربکم (اور اپنے رب کے گھر کا حج کرو۔ ان مثالوں میں اضافت موجود ہے مگر اختصاص نہیں کیونکہ رب صرف مخاطبین کا نہیں سارے جہان کا ہے) نیز خصوصیت باعتبار اہلِ زمانہ کے بھی ہوسکتی ہے علاوہ ازیں ہماری خصوصیت دیگر وجوہ کی بناء پر ثابت ہے جیسا کہ آرہا ہے پس اس حدیث سے ان پانچوں نمازوں کی خصوصیت اجتماعی طور پر بھی ثابت نہیں ہوتی واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)
 (۵؎ شرح الزرقانی،  مقصد رابع     مطبعہ عامرہ مصر    ۵/۴۲۴ و ۴۲۵)

( ۶؎ شرح الزرقانی،  مقصد رابع     مطبعہ عامرہ مصر    ۵/۴۲۴ و ۴۲۵)
ابن ابی شیبہ مصنف اور ابوداؤد وبیہقی سنن میں بسند حسن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشا کی نسبت فرمایا: اعتموا بھذہ الصلٰوۃ فانکم فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امۃ قبلکم ۱؎۔
اس نماز کو دیر کرکے پڑھو کہ تم اس سے تمام امتوں پر فضیلت دئیے گئے ہو تم سے پہلے کسی اُمت نے یہ نماز نہ پڑھی۔ (ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب وقت العشاء الاخرۃ مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۱۶)
پر ظاہر کہ جب نمازِ عشا ہمارے لئے خاص ہے تو پانچوں کا مجموعہ بھی ہمارے سوا کسی اُمت کو نہ ملا۔ رہا ہمارے نبی سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم کے سوا کسی نبی کو یہ پانچوں نہ ملنا، علماء اس کی بھی تصریح فرماتے ہیں امام جلال الدین سیوطی نے خصائص کبرٰی میں ایک باب وضع فرمایا:
باب اختصاصہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس ولم تجمع لاحد۲؎۔
یعنی وہ باب جس میں بیان کیا گیا ہے کہ پانچ نمازوں کے مجموعے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختص ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کیلئے پانچ نمازیں جمع نہیں کی گئیں۔ (ت)
 (۲؎ الخصائص الکبرٰی    باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم     بمجموع الصلوات الخمس الخ      مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/۲۰۴)
امام محمدمحمد محمدابن امیر الحاج حلبی حلیہ میں بعض علماء سے ناقل ھذہ الصلوات تفرقت فی الانبیاء وجمعت فی ھذہ الامۃ ۱؎
 (یہ نمازیں باقی انبیاء کو متفرق طور پر عطا کی گئیں اس اُمت کے لئے جمع کردی گئیں۔ ت)
 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
علّامہ زرقانی شرح مواہب میں لکھتے ہیں: لم تجمع لاحد غیرھم من الانبیاء والامم ۲؎
(اس امت کے علاوہ باقی انبیاء اور اُمتوں میں سے کسی کیلئے یہ نمازیں جمع نہیں کی گئیں۔ ت)
 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الرابع    خصائص امۃ صلی اللہ علیہ وسلم     مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۵/۴۲۴ )
Flag Counter