Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۴(کتاب الطہارۃ)
8 - 2323
المقام الثانی : قد تبینانہ ان ظن العطاء وجب الطلب اوالمنع لابقی الشک فاعتری فیہ الشک وجاء ت العبارات علی وجھین فی الحاقہ باحدالظنین۔
مقامِ دوم: یہ واضح ہوچکاکہ اگر دینے کا گمان ہو تو مانگنا واجب ہے اور نہ دینے کا گمان ہو تو واجب نہیں۔ شک کا حکم رہ گیا تو اس میں شک درآیا اور اسے ظن عطا وظن منع کسی ایک سے ملحق کرنے سے متعلق عبارتیں دو۲ طرح آئیں:
احدھما: قال صدرالشریعۃوفی الزیادات اذاکان خارج الصلاۃولم یطلب وتیمم لایحل لہ الشروع بالشک فان القدرۃ والعجزمشکوک فیھا ۱؎ اھ فقدالحقہ بظن العطاء فکما لایجوزالتیمم اذاظن العطاء کذلک اذاشک لکن نص فی الحلیۃ ان حکم صورۃ الشک غیرمنصوص علیہ فی الزیادات ۲؎ اھ
اول: صدر الشریعۃنے فرمایا: ''زیادات میں ہے کہ جب بیرونِ نماز ہو اور طلب نہ کرے اور تیمم کرے تو شک کے ساتھ شروع کرنااس کے لئے جائز نہیں اس لئے کہ قدرت وعجز دونوں میں شک ہے'' اھ اس عبارت میں شک کو ظن عطاسے ملحق کیاہے جیسے ظن عطاکی صورت میں تیمم جائز نہیں۔ اسی طرح شک کی صورت میں لیکن حلیہ میں تصریح ہے کہ ''صورت شک کاحکم زیادات میں منصوص نہیں'' اھ ،
 (۱؎ شرح االوقایۃ    باب التیمم    مطبع المکتبۃ الرشیدیہ دہلی        ۱/۱۰۱)

(۲؎ حلیۃ)
والذی ذکرفی البحر وجعلہ حاصل الزیادات وغیرھا یخالف مافی شرح الوقایۃ وعبارتہ وفی الزیادات ان المتیمم المسافر الٰی اٰخر مانقلنا فی المسألۃ الثالثۃ وقال فیھا بعد قولہ فلایقطع بالشک بخلاف مااذاکان خارج الصلاۃ الٰی اٰخر مانقلناھھنافلعل قولہ بخلاف الخ مدرج من عند الامام بین مسألتی الزیادات علی مایقتضیہ کلام الحلیۃ والبحر ولذالم یعزہ فی الحلیۃ الا الیہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ھذا  ووقع فی الخادمی حکایۃ ان الحاقہ بظن العطاء مصحح قال فی الدرر قبل طلبہ جاز التیمم اختیارہ فی الھدایۃ وقیل لااختارہ فی المبسوط ۳؎ اھ
اور بحر میں جو ذکر کیاہے اسے زیادات وغیرہاکاحاصل قرار دیا ہے وہ اس کے برخلاف ہے جو شرح وقایہ میں ہے شرح وقایہ کی عبارت یہ ہے:''زیادات میں ہے کہ تیمم والا مسافر اس کے آخر تک جو ہم نے مسئلہ سوم میں نقل کیا۔اس میں ''فلایقطع بالشک تو شک کی وجہ سے نماز نہ توڑے گا'' کے بعد یہ بھی لکھا ہے: ''بخلاف اس صورت کے جب بیرونِ نماز ہو اس کے آخر تک جو ہم نے یہاں نقل کیا شاید عبارت ''بخلاف الخ'' امام صدر الشریعۃ کی طرف سے زیادات کے دونوں مسئلوں کے درمیان درج ہوئی ہے جیسا کہ حلیہ اور بحر کے کلام کا اقتضاہے اسی لئے اسے حلیہ میں ان ہی کی طرف منسوب کیا۔اور خدائے برتر ہی خُوب جاننے والا ہے۔ یہ ذہن نشین رہے۔ خادمی میں حکایۃ آیا ہے کہ شک کو ظن عطا سے لاحق کرنا تصحیح یافتہ ہے۔ درر میں فرمایا: ''مانگنے سے پہلے تیمم جائز ہے۔ اسی کو ہدایہ میں اختیار کیا اور کہا گیا: جائز نہیں۔ اس کو مبسوط میں اختیار کیا'' اھ
 (۳؎ درر شرح الغرر    باب التیمم    مطبع دار السعادت کامل بیروت    ۱/۳۲)
فقال الخادمی المصحح ان رجا اعطاء ہ اوشک یعید والالا ۱؎ اھ ولم یعزہ لاحد ولم ارہ لمعتمد فاللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اس پر خادمی نے لکھا کہ: ''تصحیح یافتہ یہ ہے کہ اگر دینے کی اُمید یا شک ہو تو اعادہ کرے ورنہ نہیں اھ''۔ اور اس پر کسی کا حوالہ نہ دیا۔ نہ ہی میں نے کسی معتمد کے کلام میں اسے پایا، تو خدائے برتر ہی خوب جاننے والا ہے۔ (ت)
 (۱؎ حاشیۃ علی الدرر    باب التیمم        مطبع عثمانیہ بیروت        ص۲۹)
وثانیھما: قال فی المبتغی بالغین مع رفیقہ ماء ظن انہ یعطیہ لایتیمم والاتیمم ۲؎ اھ فقد الحقہ بظن المنع وھو قضیۃ مافی المنیۃ اذقال ان کان مع رفیقہ ماء لایجوزلہ التیمم قبل ان یسأل عنہ اذا کان علی غالب ظنہ انہ یعطیہ۳؎ اھ
دوم:مبتغی (غین معجمہ سے)میں فرمایا: ''ہم سفر کے پاس پانی ہے اگر گمان ہوکہ وہ دے دے گا تو تیمم نہ کرے ورنہ تیمم کرے''۔ اھ انہوں نے شک کو ظن منع سے لاحق کیا۔یہی عبارت منیہ کا بھی مقتضٰی ہے۔ اس میں یہ لکھا ہے: ''اگر اس کے رفیق کے پاس پانی ہو تو اس کیلئے اس سے مانگنے سے پہلے تیمم جائز نہیں جب کہ اس کا غالب گمان یہ ہو کہ دے دے گا''۔اھ،
 (۲؎ المبتغی)

(۳؎ منیۃ المصلی    فصل فی التیمم        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور    ص۴۹)
وفی البرجندی عن الخزانۃان کان غالب ظنہ انہ یعطیہ لایجوزلہ ان یتیمم قبل الطلب ۴؎ اھ وفی جامع الرموزعن البحرالمحیط ان ظنہ وجب الطلب والالا ۵؎ اھ و
  برجندی میں خزانہ کے حوالہ سے یہ ہے: ''اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ اسے دے دے گا تو مانگنے سے پہلے اس کیلئے تیمم کرنا جائز نہیں'' اھ جامع الرموز میں بحر محیط کے حوالہ سے لکھا ہے: ''اگر دینے کا گمان ہو تومانگنا واجب ہے ورنہ نہیں'' اھ۔
 (۴؎  البرجندی          فصل فی التیمم        مطبوعہ نولکشور لکھنؤ        ۱/۴۸)

(۵  جامع الرموز       فصل فی التیمم      مکتبہ اسلامیہ ایران        ۱/۷۰)
ھذا مارجحہ فی الحلیۃ اذقال احتمال الحاق الشک بظن المنع(عـہ) ارجح کمایظھر من توجیہ ھٰذا التفصیل وان کان فی شرح الوقایۃ لصدر الشریعۃ انہ لایحل لہ الشروع بالشک فان القدرۃ والعجز مشکوک فیھما اھ ثم ذکر التوجیہ بقولہ ولایبعد القول بان الاول (ای ادارۃ الامر علٰی ظنہ) اوجہ لان الماء لیس بمبذول للاستعمال غالبافی الاسفار وخصوصافی مواضع عزتہ فالعجز متحقق نظراً الٰی ذلک ولان ملک الغیرحاجزعن التصرف والقدرۃموھومۃ فیصلح التمسک بھٰذاالاصل مبیحاللتیمم مالم یعارضہ مایخرجہ عن مقتضاہ وھوظن دفعہ ۱؎ اھ وھو ماخوذ عن الفتح وقدمنا نصہ قبل المقام الاول وعن البدائع وقدمنا نصہ فیہ۔
یہی وہ ہے جسےحلیہ میں ترجیح دی۔ لکھتے ہیں: ''شک کو ظن منع سے لاحق کرنے کا احتمال زیادہ راجح ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل کی توجیہ سے ظاہر ہوگا۔اگرچہ صدرالشریعۃ کی شرح وقایہ میں یہ ہے کہ شک کے ساتھ اس کیلئے نماز شروع کرنا جائز نہیں اس لئے کہ قدرت وعجز میں شک ہے اھ''۔ پھر توجیہ یوں ذکر کی: ''یہ کہنا بعید نہ ہوگا کہ اول(یعنی اس کے گمان پر معاملہ کو دائر رکھنا)زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ سفروں میں زیادہ تر یہی ہوتاہے کہ پانی استعمال کیلئے نہیں دیاجاتا خصوصاً ایسی جگہوں میں جہاں پانی کم یاب ہو تو اس بات پر نظر کرتے ہوئے عجز متحقق ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ملکِ غیر،تصرف سے مانع ہے اور قدرت موہوم ہے۔ تو تیمم کے جواز کیلئے اس قاعدہ سے تمسُّک بجاہے جب تک کہ اس کے معارض کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اس کے مقتضٰی سے اسے باہر لائے اور وہ یہ ہے کہ دینے کا گمان ہو'' اھ۔ یہ توجیہ فتح القدیرسے ماخوذ ہے۔اس کی عبارت مقامِ اول سے قبل ہم نقل کر آئے اور بدائع سے ماخوذ ہے۔ اس کی عبارت ہم نے مقامِ اوّل میں پیش کی۔ (ت)
 (۱؎ حلیہ)
 (عـہ) وقع فی نسختی الحلیۃ بظن العطاء اقول وھو سب قلم اومن خطأ النساخ وانما صوابہ بظن المنع فان الحاقہ بظن العطاء ھو الذی فی صدر الشریعۃ لاخلافہ ویتضح الامر بماذکر من التوجیہ فانہ یثبت الحاقہ بظن المنع کماتری ۱۲منہ غفرلہ(م)

حلیہ کے میرے نسخے میں ''بظن العطاء'' لکھا ہوا ہے اقول یہ سبقتِ قلم ہے یا کاتبوں کی خطا صحیح''بظن المنع''ہی ہے کیونکہ ظنِ عطا سے لاحق کرنایہی تو صدر الشریعۃ کی شرح میں ہے اس کا مقابل نہیں۔آگے صاحبِ حلیہ نے جو توجیہ ذکر کی ہے اس سے معاملہ واضح ہوجاتا ہے اس لئے کہ اس توجیہ سے شک کو ظنِ منع سے ہی لاحق کرنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ پیشِ نظر ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
اقول:  وھذاھوالراجح امااولافلانہ یشھد بہ نظیرہ مسألۃ الطلب غلوۃ فقد نصوا قاطبۃ فیھا انہ ان غلب علی ظنہ قرب الماء وجب الطلب والالا ففی مختصرالامام القدوری والھدایۃ لیس علی المتیمم اذالم یغلب علی ظنہ ان بقربہ ماء ان یطلب الماء وان غلب علی ظنہ لم یجز تیممہ حتی یطلبہ ۱؎ اھ
اقول:اوریہی راجح بھی ہے۔ اولاً اس لئے کہ اس پر اس کی ایک نظیرشاہدہے وہ بقدر غلوہ(تیرپھینکنے کی دُوری کے برابر) پانی تلاش کرنے کا مسئلہ ہے۔اس میں سبھی حضرات نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر اسے غالب گمان ہوکہ قریب میں پانی ہے تو تلاش کرناواجب ہے ورنہ نہیں۔امام قدوری کی مختصر اور ہدایہ میں ہے: ''تیمم والے پر پانی تلاش کرنالازم نہیں جب اس کاغالب گمان یہ نہ ہو کہ اس کے قریب میں پانی ہے۔ اور اگر اس کا غالب گمان یہ ہو توجب تک تلاش نہ کرلے تیمم جائز نہیں'' اھ۔
(۱؎ قدوری        باب التیمم    مطبع مجتبائی کان پور    ص۱۲)
وفی الوقایۃ والنقایۃ والاصلاح والکنز والوافی والملتقی والغرر والتنویرونور الایضاح یجب طلبہ غلوۃ لوظنہ قریباوالافلا ۲؎ اھ
وقایہ، نقایہ، اصلاح، کنز، وافی، ملتقی، غرر، تنویراور نور الایضاح میں ہے: ''غلوہ(تیرپھینکنے پر جہاں تک پہنچے اتنی دوری)کی مقدار پانی تلاش کرناواجب ہے اگر وہ پانی قریب گمان کرتاہو ورنہ نہیں'' اھ
 (۲؎ شرح الوقایہ   باب التیمم    مطبوعہ مکتبۃ الرشیدیہ دہلی    ۱/۱۰۷)
افھم النقایۃ وافصح الکل واقرھم الشراح والمحشون قاطبۃ(عـہ)وقدمنافی المسألۃ الرابعۃ التنصیص بہ عن البدائع والسراج الوھاج والجوھرۃ النیرۃ والبحر والدر والھندیۃ ایضا ومثلہ فی مالایحصی فقد اطبقوا علی الحاق الشک بظن البعد
نقایہ نے اسے مفہوماًبتایا اور سب لوگوں نے صراحۃً بیان کیا اور تمام شارحین ومحشین نے انہیں برقرار رکھا۔ اور ہم مسئلہ چہارم میں بدائع، سراج وہاج، جوہرہ نیرہ، بحر، درمختار اور ہندیہ سے بھی اس کی تصریح پیش کر آئے ہیں۔ اور اسی کے مثل بے شمار کتابوں میں ہے تو شک کو ظنِّ بُعد سے لاحق کرنے پر سب کا اتفاق موجود ہے۔
(عـہ)غیران فی الجوھرۃ عند ابی حنیفۃ اذاشک وجب علیہ الطلب۳ ؎ اھ اقول وھو نقل غریب متوغل فی الاغراب لاسیمابلفظۃ عندوالظاھرانھا تصحیف عن من عند الناسخ فلعلھا ان کانت فروایۃ شاذۃ فاذۃ واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

سوا اس کے کہ جوہرہ میں ہے:عند ابی حنیفۃ اذاشک وجب علیہالطلب (امام ابوحنیفہ کے نزدیک شک کی صورت میں پانی تلاش کرنا اس پر واجب ہے'' اھ اقول یہ نقل غریب غرابت میں حد سے متجاوز ہے خصوصاً بلفظِ ''عند'' ظاہر یہ ہے کہ ناقل کے قلم سے یہ''عن'' کی تصحیف ہے تو یہ کوئی شاذ سب سے الگ تھلگ روایت ہوگی، اور خدائے برتر ہی خُوب جاننے والا ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)
 (۳ ؎ الجوہرۃ النیرۃ    باب التیمم    مطبع مکتبہ امدادیہملتان    ۱/۲۸،۲۹)
Flag Counter