Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۴(کتاب الطہارۃ)
7 - 2323
واعتمدہ الشرنبلالی فی متنہ وشرحہ فقال یجب طلبہ ممن ھو معہ لانہ مبذول عادۃ فلاذل فی طلبہ انکان فی محل لاتشح بہ النفوس ۱؎ اھ
اور شرنبلالی نے اپنے متن وشرح میں اسی پر اعتماد کرتے ہوئے فرمایا: ''اسے اپنے ساتھی سے مانگنا واجب ہے اس لئے کہ پانی عادۃً دیا جاتا ہے تو اسے مانگنے میں کوئی ذلت نہیں اگر ایسی جگہ ہو جہاں پانی کے معاملہ میں طبیعتوں میں بخل نہیں پایا جاتا''۔ اھ
(۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی        مطبعۃ الازہریۃ مصر    ص۷۱)
ومنھا العبارات التی قدمنا فی المسألۃ الثالثۃ والرابعۃ عن الزیادات ومحیط السرخسی والخانیۃ والخلاصۃ والبزازیۃ وصدر الشریعۃ والبحر والھندیۃ تصریحا وجامع الکرخی والبدائع والحلیۃ مفھوما من الامر بقطع الصلاۃ عندظن الاعطاء فانہ یوجب الوجوب اذ لولاہ(عــہ) لماحل القطع ویقابلھا اطلاق نص الخانیۃ وخزانۃ المفتین شرع بالتیمم ثم جاء انسان معہ ماء فانہ یمضی فی صلاتہ ۲؎ اھ
ان ہی میں سے وہ عبارتیں بھی ہیں جو پہلے ہم نے تیسرے اور چوتھے مسئلہ میں زیادات، محیط سرخسی، خانیہ، خلاصہ، بزازیہ، صدر الشریعۃ، بحر اور ہندیہ کے حوالوں سے صراحۃً اور جامع کرخی، بدائع اور حلیہ کے حوالوں سے مفہوماً بیان کیں کہ ظنِّ عطا کے وقت نماز توڑنے کا حکم ہے، اس لئے کہ یہ حکم مانگنے کا وجوب لازم کرنا ہے کیونکہ اگر وجوب نہ ہوتا تو نماز توڑنا جائز نہ ہوتا۔ ان عبارتوں کے مقابلہ میں خانیہ اور خزانۃ المفتین کی یہ عبارت ہے: ''تیمم سے نماز شروع کی پھر کوئی آدمی آیا جس کے پاس پانی ہے تو وہ نماز پڑھتا رہے'' اھ (ت)
 (عــہ)کما یستفاد ماقدمنا عن تقریروجوب القطع فی المسألۃ الثالثۃ ۱۲ منہ غفرلہ (م) جیسا کہ وجوب قطع کی اس تقریرسے مستفاد ہوتا ہے جو ہم نے مسئلہ سوم میں پیش کی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی خانیہ   فصل فیما یجوزلہ التیمم    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۱/۲۷)
اقول: وقدعلمت انھم یرمون عن قوس واحدۃ وھو وجوب الطلب فی مظنۃ الاعطاء لا غیرھا وانما نشأ الخلاف من الاختلاف فی ان الماء ھل ھو مبذول عادۃ فی السفر کالخضر اولا فمن قال نعم قال یجب مطلقا ومن قال لاقال لاومن فصل فصل فلم یبق فی الوصول الی الصواب الا انحلال عقدۃ ھذا المبنی فاما المفصلون فقد اعتمدوا المظان وھی الجادۃ الواضحۃ واما المثبتون فنظروا الی حال الحضر والسفر فی منازل ذات مناھل وماء الشرب واما النافون فالی حال السفر فی منازل قلیلۃ المیاہ وماء الطھر۔
اقول: معلوم ہوچکا کہ سبھی حضرات ایک ہی کمان سے تیرچلارہے ہیں۔ وہ یہ ظنِ عطا کی جگہ مانگنا واجب ہے دوسری جگہ نہیں۔ خلاف صرف اس بارے میں اختلاف سے پیدا ہُوا کہ کیا پانی سفر میں بھی حضر کی طرح عادۃً لیا دیا جاتا ہے یا ایسا نہیں؟ جنہوں نے کہا ہاں، وہ مطلقاً وجوب کے قائل ہوئے۔ اور جنہوں نے کہا نہیں، وہ وجوب کے قائل نہیں، اورجنہوں نے اُس میں تفصیل کی، اس میں بھی تفصیل کی تو صواب ودرستی تک رسائی کی راہ میں صرف اس مبنی کی گرہ کشائی حاصل رہی۔ تفصیل کرنے والوں نے ظن کی جگہوں پر اعتماد کیا۔ یہ صاف راستہ ہے۔ اور اثبات کرنے والوں نے حضر اور پنگھٹ اور پینے کے پانی والی جگہوں میں سفر کی حالت پر نظر کی۔ اور نفی کرنے والوں نے کم پانی والی اور آب طہارت کی قلّت والی جگہوں میں سفر کی حالت پر نظر کی۔ (ت)
وانا اقول:  وباللّٰہ التوفیق انما(۱) المبذول عادۃ ماء الشرب لاسیمافی الحضر واما(۲) ماء الطھر خصوصا الغسل فکثیرمن الناس یضنون بہ فی الحضر علی الاجانب حذاران ینفدما عندھم فیتحرجوا الٰی ان یاتی السقاء اویحتاجوا الی کلفۃ الاستقاء بل ان کان احدھم علی رأس رکیۃ وسألہ غریب اوعابر سبیل ماعندہ من الماء للغسل بل للوضوء یقول امالک یدان الست علی البئر فکیف بالسفر۔
اور میں کہتا ہوں: اور خدا ہی سے توفیق ہے۔ جو عادۃً دیا جاتا ہے وہ صرف پینے کا پانی ہے، خصوصاً حضر میں رہا طہارت خصوصاً غسل کا پانی تو اس میں بہت سے لوگ حضر میں بھی اجنبی لوگوں پر بخل کرتے ہیں اس اندیشہ سے کہ ان کا پانی ختم ہوجائےگا تو انہیں بہشتی کے آنے تک زحمت ومشقت ہوگی یا خود پانی کھینچنے کی زحمت اٹھانے کی ضرورت ہوگی بلکہ اگر کوئی شخص کسی کنویں ہی پر ہو اور اس سے کوئی مسافر یا راہ گیراس کا پانی غسل بلکہ وضو کیلئے بھی مانگے تو وہ کہے گا کیا تمہارے پاس ہاتھ نہیں؟ کیا تمہارے سامنے کنواں نہیں؟ یہ تو حضر کا حال ہے پھر سفر کا کیا حال ہوگا؟ (ت)
ثمّ لایحل التیمم (۳) الا اذا بعد الماء میلا ونعلم قطعا ان المقیم فی مصرہ یتحفظ علی الماء تحفظہ علی الطعام اذا بعد الماء عنہ بھذا القدر فکیف بمن فی السفر فالغالب ھی الضنۃ وما لکونہ مبذولا فیہ من مظنۃ الافی خصوص صور(۱) عدیدۃ کأن(۱) یکون من لہ الماء ولم ھذا او(۲) شقیقہ او(۳) صدیقہ او(۴) اجیرہ او(۵) رعیتہ او(۶) یھا بہ او(۷) لہ فیہ طمع یریدہ او(۸) یعلم ھذا ان الرجل غیرشحیح و لالئیم ولامناوٍ لہ وان عندہ من الماء ماان اعطانی منہ فضل لہ مایبلغہ المنزل وافیا بحاجاتہ من دون تقصیرولاتقتیراو(۹) یکون ھذا مریضا مقعدا اشل مثلا وھو علی رأس البئر او(۱۰) یعلم انہ کریم النفس یستحیی ان یرد السائل لاسیما انکان ممن یؤثرون علٰی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ففی مثل ھذہ الصوریصح لہ الظن الاعطاء المعتبر فی الشرع وھو اکبر الرأی الملتحق فی العمل بالیقین دون الظن الضعیف الملحق بالشک ولاشک ان ھذہ الصور اقل بکثیرمن غیرھا فکیف یقال ان ماء الطھر مبذول عادۃ بل مظنون بہ غالباً نعم لم تبلغ قلۃ ھذہ الصورحد ندرۃ توجب طرحھا عن النظر ونوط الحکم بالمظنۃ فوجب ادارۃ الامر علی ظنہ وھو اعلم بنفسہ فلا(۲) یقید بموضع فیہ الماء عزیز  اوغزیرفلاشک ان الوجہ ھو التفصیل ھذا فی الحکم۔
پھر یہ دیکھئے کہ تیمم کا جواز کب ہوتا ہے؟ جب پانی ایک میل دُوری پر ہو اور یہ ہمیں قطعاً معلوم ہے کہ جب پانی اس قدر دُور ہوگا تو مقیم اپنے شہر میں پانی کی ویسے ہی حفاظت رکھے گا جیسے کھانے کی حفاظت رکھتا ہے پھر اس کا کیا ہوگا جو سفر میں ہو؟ تو سفر میں زیادہ تر بخل ہی ہوگا۔ اور سفر میں پانی کے مبذول ہونے کی کوئی جگہ نہیں مگر چند گنی چنی صورتوں میں مثلاً یہ کہ (۱) پانی کا مالک اس کی اولاد سے ہو، (۲) یا اس کا سگا بھائی ہو (۳) یا دوست ہو، (۴) یا ملازم ہو (۵) یا رعیت ہو (۶) یا اس سے ڈرتا ہو (۷) یا اسے اس سے کوئی طمع ہو جسے وہ بروئے کار لانا چاہتا ہو (۸) یا جانتا ہو کہ یہ آدمی بخیل، پست ہمت اور میرا مخالف نہیں اور اس کے پاس پانی بھی اتنا ہے کہ اگر مجھے اس میں سے دے دے تو اتنا بچ رہے گا جس سے وہ اپنی ضروریات بغیرکوتاہی وکمی کے پُورا کرتا ہوا گھر پہنچ جائے گا (۹) یا یہ اپاہج ہو یا مثلاً ہاتھ شل ہو اور وہ کنویں پر ہے (۱۰) یا جانتا ہو کہ وہ کریم النفس ہے سائل کو رد کرنے سے حیا رکھتا ہے خصوصاً جب کہ ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے اوپر دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں سخت احتیاج ہی کیوں نہ ہو۔ تو ایسی صورتوں میں اس کا ظنِّ عطا جس کا شریعت میں اعتبار ہے درست ہوگا اور یہ غالب گمان ہے جو عمل میں یقین سے ملحق ہے، ضعیف گمان نہیں جو شک میں شامل ہے بلاشبہہ یہ صورتیں دوسری صورتوں سے بہت زیادہ قلیل وکمتر ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آب طہارت عادۃً لیا دیا جاتا ہے۔ بلکہ اس میں تو اکثر بُخل ہی ہوتا ہے۔ ہاں ان صورتوں کی قلت حدِّ ندرت تک نہ پہنچی کہ انہیں بالکل نظر انداز کردینااور حکم کو جائے گمان سے متعلق کرنا لازم ہو تو خود اسی کے گمان پر معاملہ کو دائر رکھنا ضروری ہوا اور وہ خود اپنی حالت زیادہ جانتا ہے تو پانی کے کمیاب یا وافر ہونے کی جگہ سے حکم مقید نہ ہوگا۔ تو اس میں شک نہ رہا کہ وجہِ صواب تفصیل ہی ہے یہ تو حکم سے متعلق کلام ہوا۔
اما التوفیق فاقول وباللّٰہ التوفیق لاغروفی اطلاق الحکم بالنظرالی الغالب الکثیر÷ وکم لہ فی الفقہ من نظیر÷ فکان سیدناالامام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اطلق الحکم بعدم وجوب الطلب÷نظرالماغلب÷ ورواہ الحسن کماسمع÷ وتداولتہ المتون والعامۃ کماوقع÷ وذھب اجتھادالحسن الی اجزائہ علی اطلاقہ فقال بہ وکذلک ظن بعض ففسرواالاطلاق بالعموم وقلیل ماھم ورواہ الصاحبان عن شیخھماوقد عرفا المراد ففسراہ وقالابہ فمنھم من نظر الاطلاق عن الامام والتفصیل عنھافنصب بینھم الخلاف وھومسلک الھدایۃ و کثیرین ومنھم من نظرالمرام وان التفصیل ھو المراد بالاطلاق فصرح بالوفاق اولم یؤم الٰی خلاف وھومسلک المبسوط والکافی ومن حکی عنھم فی النھایۃ وھم الاکثرون علی مافیھا،
رہ گئی تطبیق تو میں کہتا ہوں اور خدا ہی سے توفیق ہے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ غالب وکثیرپر نظر کرتے ہوئے حکم مطلق بیان کردیا جائے۔ فقہ میں اس کی بہت سی نظیریں ہیں۔ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے امام صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غالب وکثیرپر نظر کرتے ہوئے مانگنے کے عدمِ وجوب کا حکم مطلق بیان فرمایا دیااور حسن نے اسے جیساسناروایت کردیااور متون وعامہ کتب نے جیسا وقوع میں آیا ویسا ہی پےش کردیا۔ اور حسن کا اجتہاد اس طرف گیا کہ اسے اطلاق ہی پر جاری رکھا جائے تو وہ اسی کے قائل ہُوئے۔ ایسے ہی کچھ اور حضرات کا بھی گمان ہوا تو انہوں نے اطلاق کی تفسیرعموم سے کردی۔ اور ایسے حضرات کم ہی ہیں۔ اور صاحبیننے اپنے شیخ سے مراد سمجھ کر اس کی روایت کی تو انہوں نے اس کی تفسیرکردی اور خود اسی تفسیرکے قائل ہوئے۔ اب بعض حضرات نے امام کے اطلاق اور صاحبین کی تفصیل پر نظر کی اور ان ائمہ کے درمیان اختلاف پیش کردیا۔ یہ صاحب ہدایہ اور بہت سے حضرات کا مسلک ہے۔ اور بعض حضرات نے مقصد پر نظر کی اور یہ دیکھا کہ اطلاق سے بھی مراد تفصیل ہی ہے تو انہوں نے اتفاق کی تصریح کردی یا کسی خلاف کی جانب اشارہ نہ کیا۔ یہ مبسوط، کافی اور ان حضرات کا مسلک ہے جن سے نہایہ میں حکایت کی۔ اوریہ لوگ اکثر ہیں جیسا کہ نہایہ میں ہے۔
ومنھم من نظر الی جانبی اللفظ والمقصود فاثبت الخلاف لفظاونفاہ معنی فذھب الی التوفیق وھومسلک الامام الجصاص وھوالتحقیق الناصع ولذاتری الخانیۃ مشی علی کلا القولین جازماً بہ غیرمؤم الی الخلاف فی شیئ من الموضعین کمانقلنانصوصھا فی المسلکین الاول و الثالث وتبعہ فی خزانۃ المفتین کماعلمت وکلھم علی الصواب وبعضھم اولٰی بہ من بعض الاشرذمۃ(۱)صرحوا بتعمیم عدم الوجوب مع اتفاقھم جمیعاعلی وجوب الطلب فی مظنۃ القرب واخاف ان یکون ھذا فی عبارۃ التجریدالمحکیۃفی جامع الرموزمن قبل القھستانی نقل بالمعنی علی مافھم فان عبارۃ التجرید التی اثرھاامامان جلیلان فی الخلاصۃ والبنایۃ کمامرلا اثر فیھالھذا التعمیم واللّٰہ تعالٰی بکل شیئ علیم ونظیرہ فی(۲) جانب الایجاب صنیع صدر الشریعۃ وفی الجانبینصنیع الغنیۃ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اور بعض حضرات نے الفاظ اور مقصود دونوں جانب نظر کی تو لفظاً اختلاف ثابت کیا اور معنیً اس کی نفی کی تو وہ تطبیق کی راہ پر گئے۔ یہ امام جصاص کا مسلک ہے اور یہی تحقیق خالص ہے۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ خانیہ میں دونوں ہی قول پر جزم کرتے ہوئے اور دونوں جگہوں میں سے کسی خلاف کا اشارہ کئے بغیرچلے ہیں جیسا کہ ہم نے اس کی عبارتیں مسلک اول اور مسلک سوم میں نقل کیں اور خزانۃ المفتین میں ان ہی کی پیروی کی، جیسا کہ معلوم ہوا۔ اور یہ سبھی حضرات درستی پر ہیں اور بعض، بعض سے اولٰی ہیں مگر وہ گنتی کے لوگ جنہوں نے عدمِ وجوب کی تعمیم کی صراحت کی۔ جبکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پانی قریب ہونے کا گمان ہو تو طلب واجب ہے۔ اور میرا اندیشہ یہ ہے کہ یہ بات جامع الرموز میں تجرید کی حکایت کردہ عبارت میں قہستانی کی طرف سے در آئی ہے اس طرح کہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق اسے معنیً نقل کردیا اس لئے کہ تجرید کی جو عبارت دو۲ بزرگ اماموں نے خلاصہ وبنایہ میں نقل فرمائی جیسا کہ گزری اس میں اس تعمیم کا کوئی نشان، پتا نہیں اور خدائے برتر ہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اسی کی نظیرجانب ایجاب میں صدر الشریعۃ کا طریقہ بھی ہے اور دونوں ہی جانب میں غنیہ کا عمل اور خدائے برتر ہی خُوب جاننے والا ہے۔ (ت)
تنبیہ: جعل فی الحلیۃ الاقوال اربعۃ فافرزقول الصفار عن القول بالظن وانت تعلم انہ ھو(عـہ) فانما اقام المظنۃمقام الظن کمالایخفی وقد قدمتہ فی حاشیۃ نمرۃ ۱۴۴۔
تنبیہ:حلیہ میں اقوال چار کردئے اس طرح کہ صفّار کا قول، قول بالظن سے جُدا شمار کردیاجبکہ ناظر کو معلوم ہے کہ یہ وہی ہے۔ بس یہ ہے کہ انہوں نے ظن کی جگہ مظنہ رکھا ہے جیساکہ مخفی نہیں۔ میں پہلے نمبر ۱۴۴ کے حاشیہ میں بھی اسے بیان کرچکا ہوں۔ (ت)
 (عـہ)اقول سیعلم(۳) من احاط بنصوص مرت وتأتی ان لکلامھم ھھنا وجھتین فمنھم من رددبین نفی اثبات صریحا نحوان ظن العطاء وجب الطلب والالا کالبحر المحیط والاختیار والمبتغی اومفھوما نحوان ظن العطاء لم یجز التیمم کالنھایۃ والخانیۃ وخزانۃ المفتین والخزانۃ وغیرھم فافادوا الحاق الشک بظن المنع ومنھم من ذکر حکم الظنین واھمل ذکر الشک کالکافی والمنیۃ والھندیۃ عن العتابی والزیادات ایضا بتصریح الحلیۃ وقدبحث فی الحلیۃ فی ھذا القول عن الحاق الشک باحد الظنین جعل الکل محتملا ورجح الالحاق بالمنع ولایخرج قول الامامین الصفار وابی زید عن ھذا فلاوجہ لعدہ علیحدۃ الابالنظر الی تغایرفی اللفظ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اقول: گزشتہ وآئندہ نصوص وعبارات کا احاطہ کرنے والے کو معلوم ہوگا کہ یہاں کلام علما کے دو۲ رُخ ہیں۔ بعض حضرات نے صراحۃً نفی واثبات کے درمیان تردیدکی ہے مثلاً یہ کہ ''اگر عطا کا گمان ہو طلب واجب ہے ورنہ نہیں'' جیسے بحر، محیط، اختیار اور مبتغی میں ہے۔یا مفہوماً تردید کی ہے مثلاً یوں کہ ''اگر دینے کا گمان ہو تو تیمم جائز نہیں'' جیسے نہایہ، خانیہ، خزانۃ المفتین اور خزانہ وغیرہامیں ہے تو ان حضرات نے شک کو ظن منع سے ملحق کرنے کاافادہ فرمایا اور بعض حضرات نے دونوں ظن (ظنِّ عطا وظنِّ منع) کاحکم بیان کردیااور شک کا ذکر چھوڑ دیا، جیسے کافی، منیہ اور ہندیہ میں عتابی سے نقل کرتے ہوئے ہے اورحلیہ کی تصریح کے مطابق زیادات میں بھی ہے۔اور حلیہ کے اندر اس قول کے تحت شک کو کسی ایک ظن سے لاحق کرنے سے متعلق بحث کی ہے تو محتمل ہر ایک کو رکھا اور منع سے لاحق کرنے کو ترجیح دی اور امام صفار وامام ابوزیدکا قول اس سے باہر نہیں تو اسے علیحدہ شمار کرنے کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ لفظوں کے اختلاف پر نظر ہو ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)
Flag Counter