Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۴(کتاب الطہارۃ)
6 - 2323
اقول: (۱) وبھذہ النصوص ظھر مافی قول النھایۃ لم یذکر الخلاف الا فی الایضاح وکذ لک یقال للعلامۃ البحر ھٰوُلاء المتون والعمائد البدایۃ والوقایۃ والاصلاح والمجمع والتجرید والایضاح والتقریب و شرح الاقطع والبدائع والخلاصۃ والفتح والاختیار والجوھرۃ کلھم ناصون بالخلاف بین الامام وصاحبیہ والامام الاجل ابوبکر الجصاص یوفق بین قول الامام وصاحبیہ وقال فی البرھان شرح مواھب الرحمٰن الاظھر قولھما ثم ذکر توفیق الجصاص وایدہ بقولہ ولھذا لم یحک الکافی خلافا ۱؎ اھ
اقول: ان ہی نصوص سے نہایہ کے اس قول کی خامی ظاہر ہوگئی کہ ''صرف ایضاح میں اختلاف کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح علامہ بحر سے بھی عرض کیا جائے گا کہ یہ متون وعمائد بدایہ، وقایہ، اصلاح، مجمع، تجرید، ایضاح، تقریب، شرح اقطع، بدائع، خلاصہ، فتح، اختیار، جوہرہ سب کے سب اس پر نص کررہے ہیں کہ امام اعظم اور صاحبین کے درمیان اختلاف ہے۔ اور امام اجل ابوبکر جصاص امام صاحب اور صاحبین کے قول میں تطبیق دے رہے۔ اور برہان شرح مواہب الرحمن میں فرمایا: زیادہ ظاہر قولِ صاحبین ہے، پھر جصاص کی تطبیق ذکر کی ہے اور اپنے اس قول سے اس کی تائید کی ہے کہ اسی لئے ''کافی'' نے کسی اختلاف کی حکایت نہ کی اھ،
 (۱؎ غنیۃ المستملی    باب التیمم    مطبع احمد کامل الکائنہ فی دار السعادۃ    ۱/۳۲)
نقلہ العلامۃ الشرنبلالی فی غنیۃ ذوی الاحکام کیف یرد قولھم جمیعا بمجرد ان فی المبسوط لم ینسب الخلاف الا الی الحسن الیس المثبتون وھم عصبۃ مقدمین علی ناف واحد الیس ان ظاھر (۱) الروایۃ ربما (۲) تتعدد فی مسألۃ واحدۃ وقولی ھذا اولی من توفیق الغنیۃ المار فی عبارتھا ان ھؤلاء اعتبروا الروایۃ النادرۃ لکونھا انسب بمذھب الامام فاعتبارھا لھذا شیئ وجعلھا قول الامام ونصب الخلاف بینہ وبین صاحبیہ فی المذھب شیئ اٰخروان(۳) اقرہ فی ردالمحتار ومنحۃ الخالق واللّٰہ سبحٰنہ الموفق۔
اسے علامہ شرنبلالی نے غنیۃ ذوی الاحکام میں نقل کیا۔ ان تمام حضرات کا قول صرف اس وجہ سے کےسے رد کردیا جائے گا کہ ''مبسوط نے محض حسن کی طرف اختلاف کی نسبت کی ہے'' کیا اثبات کرنے والے جبکہ وہ طاقتور بھی ہیں ایک نفی کرنے والے پر مقدم نہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ بارہا ایک مسئلہ میں ظاہر الروایۃ متعدد بھی ہوتی ہے۔ میرا یہ قول (تعدد ظاہر الروایۃ) غنیہ کی اس تطبیق سے بہتر ہے جو اس کی عبارت میں گزری کہ ''ان حضرات نے روایت نادرہ کا اعتبار کیا اس لئے کہ وہ مذہب امام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے''۔ اس وجہ سے اس کا اعتبار کرنا اور چیز ہے۔ اور اسے امام کا قول قرار دینااور ان کے اور صاحبین کے درمیان مذہب میں اختلاف قائم کرنا اور چیز ہے۔ اگرچہ غنیہ کی تطبیق کو علامہ شامی نے بھی ردالمحتار اور منحۃ الخالق میں برقرار رکھا ہے، اور خدائے پاک ہی توفیق بخشنے والا ہے۔ (ت)
وثانیھا: یجب مطلقا وانہ ظاھر الروایۃ عن ائمتنا الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وذلک مامر عن المبسوط واعتمدہ تبعا لشیخہ فی التنویر فقال قبل طلبہ لاتیمم علی الظاھر  اھ قال فی المدرای ظاھر الروایۃ عن اصحابنا لانہ مبذول عادۃ وعلیہ الفتوٰی ۱؎ اھ۔
مسلک دوم: مانگنا مطلقاً واجب ہے اور یہ کہ یہ ہمارے تینوں ائمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ظاہر الروایۃ ہے۔ اور یہی وہ ہے جو مبسوط کے حوالہ سےگزرا۔ اور تنویرمیں اپنے شیخ کا اتباع کرتے ہوئے اسی پر اعتماد کیا تو یہ لکھا کہ ''اس سے مانگنے سے پہلے ظاہر کی بنیاد پر تیمم نہیں کرے گا'' اھ۔ درمختار میں فرمایا: ''ظاہر سے مراد ہمارے اصحاب سے ظاہر الروایہ، اس لئے کہ پانی عادۃً دیا جاتا ہے اور اسی پر فتوٰی ہے'' اھ (ت)
 (۱؎ درمختار،  باب التیمم  ،  مطبع دہلی،   ۱/۴۴)
اقول: ولم ارھذہ اللفظۃ لغیرہ ولاعزاہ محشوہ لاحد وفی التبیین لوعلم بہ خارج الصلاۃ وصلی بالتیمم قبل الطلب لایجزئہ ۲؎ اھ ثم ذکر روایۃ الحسن ثم توفیق الجصاص،
 ( ۲؎ تبیین الحقائق    باب التیمم        مطبع الازہریہ مصر    ۱/۴۴)
اقول: یہ لفظ میں نے کسی اور کے یہاں نہ دیکھا، اور نہ ہی درمختار کے محشی حضرات نے اس پر کسی کا حوالہ دیا۔ تبیین میں ہے: اگر خارج نماز اسے اس کا علم ہوگیا پھر بھی مانگنے سے پہلے تیمم سے نماز پڑھ لی تو یہ اس کیلئے کفایت نہیں کرسکتا'' اھ۔ پھر انہوں نے حسن کی روایت اور جصاص کی تطبیق ذکر کی۔
و فی جواھر الاخلاطی مع رفیقہ ماء  وشرع فی الصلاۃ قبل الطلب لایجوز  وقیل یجوز علی قیاس قول الامام  خلافا للقاضی      ۳؂اھ۔
 جواہر الاخلاطی میں ہے: ''اس کے رفیق کے پاس پانی ہے اور مانگنے سے پہلے نماز شروع کردی تو جائز نہیں اور کہا گیا کہ قول امام کے قیاس پر جائز ہے بخلاف قاضی کے۔ اھ (ت)
 (۳؎ جواہر الاخلاطی    فصل فی التیمم    (قلمی نسخہ)    ۱/۱۳)
اقول: وھنا عبارات اُخر لیست صرائح کماتقدم عن الخلاصۃ عن الاصل انہ یسأل فان (۱) الصیغۃ وان کان ظاھرھا الوجوب کثیرا ماتأتی للندب کمالایخفی علی من خدم کلماتھم ویقرب منہ قول القدوری ان کان مع رفیقہ ماء طلب منہ قبل ان یتیمم فان منعہ منہ تیمم ۴؎ اھ
اقول: یہاں کچھ اور عبارتیں بھی ہیں جو صریح نہیں جیسے خلاصہ سے بحوالہ اصل گزرا کہ ''وہ مانگے گا'' اس لئے کہ صیغہ خبر اگرچہ وجوب میں ظاہر ہے لیکن ندب واستحباب کے لئے بھی کثرت سے آتا ہے جیسا کہ کلمات علما ءکے خدمت گزاروں پر مخفی نہیں۔ اس سے قریب یہ عبارتیں بھی ہیں (۱) اگر اس کے رفیق کے پاس پانی ہو تو تیمم کرنے سے پہلے اس سے طلب کرے اگر نہ دے تو تیمم کرے'' اھ قدوری۔ (۲) ''اپنے رفیق کے پاس پانی پائے تو اس سے مانگے اگر نہ دے تو تیمم کرے اور نماز پڑھے'' اھ
 (۴؎ قدوری        باب التیمم        مطبع کان پور    ص۱۲)
والسراجیۃاذاوجد مع رفیقہ ماء فانہ یسألہ فان لم یعطہ تیمم وصلی ۱؎ اھ، سراجیہ۔ (۳)
''اپنے رفیق سے پانی طلب کرے اگر نہ دے تو تیمم کرے'' اھ
 (۱؎ فتاوٰی سراجیہ  باب التیمم    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ        ص۱۲)
والکنز یطلبہ من رفیقہ فان منعہ تیمم ۲؎ اھ کیف وقد قال مثلہ فی الملتقی واعتمد مذھب الامام وھذا نصہ ان کان مع رفیقہ ماء طلبہ وان منعہ تیمم وان تیمم قبل الطلب اجزأہ ۳؎ اھ۔
کنزالدقائق۔ یہ صیغہ ہاں وجوب کیلئے کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ملتقی میں بھی اسی کے مثل فرمایا پھر بھی ان کا اعتماد مذہب امام پر ہے، ان کی عبارت یہ ہے: ''اگر اس کے رفیق کے پاس پانی ہو تو اس سے طلب کرے، اگر نہ دے تو تیمم کرے اور اگر مانگنے سے پہلے تیمم کرلیا تو بھی ہوگیا''۔ اھ (ت)
 (۲؎ کنز الدقائق مع التبیین        باب التیمم    المطبعۃ الازہریہ بولاق مصر        ۱/۴۴)

(۳؎ ملتقی الابحرمع مجمع الانہر        باب التیمم    دار احیاء التراث العربی    ۱/۴۴)
تنبیہ :قولی ھھنا یجب مطلقا المراد بہ انھم ذکروھا مرسلۃ ولم یقیدوھا بمایاتی فی القول الثالث اذ ھذا ھو الواقع فی کلام المبسوط واتباعہ نعم حملہ الامام صدر الشریعۃ علی صریح التعمیم کماسیاتی فی ذکر قانونہ مع تضعیفہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی ویقرب منہ مامرعن الغنیۃ من حمل کل من قولی الامام وصاحبیہ علی التعمیم حتی تأتی لہ التلفیق وقد تقدم انہ لیس بتحقیق۔
تنبیہ: میرے ''مطلقاً واجب'' کہنے سے مراد یہ ہے کہ علما نے اسے مرسل ذکر کیا ہے اور وہ قید نہیں لگائی ہے جو تیسرے قول میں آرہی ہے۔ اس لئے کہ مبسوط اور اس کے اتباع کے کلام میں یہی صورت واقع ہے (یعنی ارسال ہے تقیید نہیں)۔ ہاں امام صدر الشریعۃ نے اسے صریح تعمیم پر محمول کیا ہے جیسا کہ ان کے قانون کے ذکر میں تضعیف کے ساتھ اس کا ذکر آرہا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ اور اس سے قریب وہ بھی ہے جو غنیہ سے گزرا کہ انہوں نے امام اور صاحبین کے دونوں قولوں کو تعمیم پر رکھا یہاں تک کہ ان کیلئے تلفیق کی گنجائش نکل آئی وہاں گزر چکا کہ یہ تحقیق نہیں۔ (ت)
وثالثھا: ادارۃ الامر علی ظنہ فان ظن العطاء وجب الطلب ولم یجزالتیمم قبلہ تقدم فیہ نص النھایۃ وستأتی نصوص البحر المحیط والمنیۃ والخزانۃ والبرجندی وفی الخانیۃ وخزانۃ المفتین رأی مع رفیقہ ماء ان کان غالب ظنہ انہ یطیہ لایجوزلہ ان یتیمم بل یسألہ ۱؎ اھ
مسلک سوم: معاملہ اس کے گمان پر دائر رکھنا کہ اگر اسے دینے کا گمان ہو تو مانگنا واجب ہے اور اس سے پہلے تیمم جائز نہیں۔ اس بارے میں نہایہ کی عبارت گزرچکی اور بحر محیط، منیہ، خزانہ اور برجندی کی عبارتیں آرہی ہیں۔ خانیہ اور خزانۃ المفتین میں ہے: ''اپنے رفیق کے پاس پانی دیکھا اور گمان کیا کہ اگر اس سے مانگے تو دے دے گا تو تیمم جائز نہیں بلکہ اس سے طلب کرے'' اھ
 (۱ فتاوٰی قاضی خان    فصل فیما یجوزلہ التیمم    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۱/۲۶)
وفی الکافی مع رفیقہ ماء وظن انہ ان سألہ اعطاہ لم یجز التیمم وان کان عندہ انہ لایعطیہ تیمم وان شک وتیمم وصلی فسأل فاعطی یعید ۲؎ اھ وفی الھندیہ بعد نقلہ وھکذا فی شرح الزیادات للعتابی ۳؎ اھ ،
اور کافی میں ہے اگر اس کے رفیق کے پاس پانی ہو اور اسے گمان ہو کہ اگر طلب کرے تو دے دےگا تو تیمم جائز نہیں اور اگر اس کے گمان میں یہ ہو کہ نہیں دےگا تو تیمم کرے اور اگر شک رکھتا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر مانگے اور وہ دے دے تو اعادہ کرے'' اھ ہندیہ میں مذکورہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ''اسی طرح عتابی کی شرح زیادات میں ہے'' اھ۔
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ الکافی    الفصل الاول من التیمم          مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۹)

(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ الکافی    الفصل الاول من التیمم          مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۹)
وفی البرجندی نقل عن القاضی الامام ابی زید رحمہ اللّٰہ تعالٰی انہ یجب الطلب فی موضع لایعز الماء فیہ لافی موضع یعز ۴؎ اھ،
برجندی میں قاضی امام ابوزید رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل ہے کہ ''مانگنا اےسی جگہ واجب ہے جہاں پانی کمیاب نہ ہو ایسی جگہ نہیں جہاں کمیاب ہو'' اھ۔
 (۴؎ شرح النقایۃ للبرجندی    فصل فی التیمم    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ        ۱/۴۸)
وفی المنیۃ وشرح مسکین للکنز وعن ابی نصر الصفار رحمہ اللّٰہ تعالٰی اذاکان فی موضع یعز فیہ الماء فالافضل ان یسأل من رفیقہ وان لم یسأل اجزأہ فان کان فی موضع لایعز الماء فیہ لایجزئہ قبل الطلب ۵؎اھ  زاد فی المنیۃ کمافی عمرانات ۶؎۔
منیہ اور شرح مسکین للکنز میں ہے کہ ابو نصر صفار سے ہے کہ جب ایسی جگہ ہو جہاں پانی کم یاب ہو تو بہتر یہ ہے کہ اپنے رفیق سے طلب کرے اور اگر طلب نہ کیا تو یہ اس کو کفایت کرے گا اور اگر وہ ایسی جگہ ہو جہاں پانی کمیاب نہیں ہوتا تو طلب سے پہلے اسے کفایت نہیں کرے گا اھ منیہ میں یہ اضافہ کیا:''جیسے آبادیوں میں'' اھ۔
 (۵؎ شرح مسکین للکنز علٰی حاشیۃ فتح المعین     فصل فی التیمم	 سعیدکمپنی کراچی    ۱/۹۷)

(۶؎ منیۃ المصلی     فصل فی التیمم    مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور ۵۰)
Flag Counter