اقول: اسی طرح قیل وقال جاری ہے۔اور زیادہ اقوال لانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم اپنے برتر نگہبان پروردگار کی توفیق سے تفصیل کلام کیلئے اُن دو۲ مقاموں پر آتے ہیں:
المقام الاول: تظافرت ھھناکلمات العلماء علٰی ثلٰثۃ مسالک:
مقامِ اوّل: یہاں کلماتِ علما ء تین مسالک پر کثرت سے وارد ہوئے ہیں:
مسلک اوّل: مطلقاً مانگنا واجب نہیں۔ اور یہ ہمارے امام صاحب کا قول ہے بخلاف صاحبین۔ یا یہ طرفین کاقول ہے بخلاف امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
ودخل فی قولی مطلقامن صرح بالاطلاق کمافی جامع الرموزعن التجریدیصح قبل الطلب من الرفیق وان ظن الاعطاء کماقال ابوحنیفۃ خلافا لابی یوسف ۲؎ اھ۔
میرے ''مطلقاً'' کہنے میں اطلاق کی تصریح کرنے والے اور اس حکم کو بلاقید ذکر کرنے والے سبھی لوگ داخل ہیں۔ اطلاق کی تصریح جیسے جامع الرموز میں تجرید کے حوالہ سے ہے کہ رفیق سے پانی مانگنے سے پہلے تیمم صحیح ہے اگرچہ دینے کا گمان رکھتا ہو جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے بخلاف امام ابویوسف''۔ اھ
(۲؎ جامع الرموز باب التیمم مطبع ایران ۱/۷۵)
ویقرب منہ قول الاختیار المارحیث اطلق الجوازعند الامام وقابلہ بالتفصیل علی قیاس قول محمد ومثلھا عبارۃ الجوھرۃ الاٰتیۃ ومن ارسلوا ارسالا وھم الاکثرون ففی الوقایۃ قبل طلبہ جاز خلافالھما ۱؎ اھ
اس سے قریب ''اختیار'' کی گزشتہ عبارت ہے کہ اس میں امام صاحب کے جواز کو مطلق ذکر کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں قول امام محمد کے قیاس پر تفصیل بیان کی ہے اور اسی کے مثل جوہرہ کی عبارت ہے جو آرہی ہے بلاقید ذکر کرنے والے حضرات زیادہ ہیں۔ وقایہ میں ہے: ''مانگنے سے پہلے جائز ہے بخلاف صاحبین اھ''۔
(۱؎ شرح الوقایہ باب التیمم مطبع رشیدیہدہلی ۱/۱۰۱)
وفی النقایۃ یصح قبل الطلب ۲؎ اھ ومرعن الھدایۃ تیمم قبل الطلب اجزأہ عندا بیحنیفۃ ۳؎،
نقایہ میں ہے: ''قبل طلب صحیح ہے'' اھ۔ اور ہدایہ کی عبارت گزر چکی: ''مانگنے سے پہلے تیمم کیا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہوگیا''۔
(۲؎نقایہ مختصر الوقایہ کتاب الطہار ۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۶)
(۳؎ الہدایۃ مع العینی کتاب الطہار ۃ المکتبۃ الامدادیہ مکہ مکرمہ ۱/۳۳۷)
وفی بدائع ملک العلماء لوکان مع رفیقہ ماء ولم یعلم بہ لایجب الطلب عندناوان علم بہ ولکن لاثمن لہ فکذلک عندا بی حنیفۃ وقال ابویوسف علیہ السؤال وجہ قولہ ان الماء مبذول عادۃ ولابی حنیفۃ ان العجز متحقق والقدرۃ موھومۃ لان الماء من اعزا لاشیاء فی السفر ۴؎ اھ
بدائع ملک العلماء میں ہے: ''اگر اس کے رفیق سفر کے پاس پانی تھا اور اسے علم نہ ہوا تو ہمارے نزدیک مانگنا واجب نہیں اور اگر اسے علم ہوا لیکن اس کا دام نہیں رکھتا تو بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہی ہے اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ اس پر مانگنا ہے۔ ان کے قول کی وجہ یہ ہے کہ پانی عادۃً دے دیا جاتا ہے اور امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ عجز متحقق ہے اور قدرت موہوم ہے اس لئے کہ سفر میں پانی سب سے کم یاب شَے ہے اھ۔
وفی الخانیۃ لورأی مع رفیقہ ماء فتیمم قبل ان یسأل وصلی جاز ۵؎ اھ وفی الخلاصۃ وفی الاصل لوکان مع رفیقہ ماء فانہ یسأل قال فی التجرید السؤال لیس بواجب عندا بی حنیفۃ وقال ابویوسف واجب ۶؎ اھ و
خانیہ میں ہے: ''اگر اپنے رفیق کے پاس پانی دیکھا پھر مانگنے سے پہلے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی تو جائز ہے'' اھ خلاصہ میں ہے: ''اصل (مبسوط) میں ہے: اگر رفیق سفر کے پاس پانی ہو تو مانگے گا۔ تجرید میں ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مانگنا واجب نہیں اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ واجب ہے'' اھ
(۵؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۲۶)
(۶؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس فے التیمم مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۳۲)
لفظ البنایۃ عن التجرید لایجب الطلب من الرفیق عند ابی حنیفۃ و محمد خلافا لابی یوسف رحمھم اللّٰہ تعالٰی ۱؎ اھ وفی ملتقی الابحران تیمم قبل الطلب اجزأہ ۲؎ اھ
تجرید کا حوالہ دیتے ہُوئے بنایہ کے الفاظ یہ ہیں: ''رفیق سے مانگنا امام ابوحنیفہ وامام محمد کے نزدیک واجب نہیں بخلاف امام ابویوسف- رحمہم اللہ تعالٰی اھ۔ ملتقی الابحر میں ہے: ''اگر مانگنے سے پہلے تیمم کرلیا تو ہوگیا'' اھ۔
(۱؎ عینی شرح الہدایۃ باب التیمم مطبع المکتبۃ الامدادیہ مکہ مکرمہ ۱/۳۳۷)
(۲؎ ملتقی الابحر باب التیمم مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۱/۳۲)
وفی الاصلاح ویصح قبل طلبہ من رفیق لہ ماء خلافالھما ۳؎ اھ قال ش وبقول الامام جزم فی المجمع والملتقی والوقایۃ وابن الکمال اھ وقال العلامۃ الوزیرفی الایضاح ھذا علی وفق مافی الھدایۃ والایضاح والتقریب وغیرھا(ای کشرح الاقطع کماتقدم عن العنایۃ والبنایۃ والبحرقال) وفی التجرید ذکر محمدا مع ابی حنیفۃ ۴؎ اھ ثم ذکر توفیق الجصاص ثم کلام المبسوط المارفی عبارۃ العنایۃ والبحر ثم اعقبہ بکلام البدائع المار۔
اصلاح میں ہے: ''اپنے کسی رفیق سے پانی مانگنے سے پہلے تیمم کرلیناصحیح ہے بخلاف صاحبین'' اھ۔ علّامہ شامی لکھتے ہیں: ''امام صاحب ہی کے قول پر مجمع، ملتقی، وقایہ اور ابن الکمال کا جزم ہے'' اھ علامہ وزیرایضاح میں رقمطراز ہیں: ''یہ اس کے مطابق ہے جو ہدایہ، ایضاح، تقریب اور ان کے علاوہ (یعنی جیسے شرح اقطع جیسا کہ عنایہ، بنایہ اور بحر کے حوالوں سے گزرا) میں ہے۔اور تجرید میں امام محمد کو امام ابوحنیفہ کے ساتھ ذکر کیا ہے'' اھ پھر امام جصاص کی تطبیق ذکر کی ہے پھر مبسوط کاکلام جو عنایہ وبحر کی عبارتوں میں گزرااس کے بعد بدائع کی عبارت لکھی ہے جو ابھی گزری۔ (ت)
(۳؎ اصلاح ایضاح)
(۴؎ ردالمحتار باب التیمم مصطفی البابی مصر ۱/۱۸۳)