Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۴(کتاب الطہارۃ)
4 - 2323
اقول:  الصفار(۱) لم یحدث قولا خلاف اقوالھم بل ھو کالشرح لھاکما فعل الامام الجصاص فلولاحظ ھذا لما احتاج الی الخروج عن اقوال ائمۃ المذھب جمیعا بالتوزیع والتلفیق قال اما اذا شک فی موضع عزۃ الماء اوظن المنع فی غیرہ فالاحتیاط فی قولھما والتوسعۃ فی قولہ لان فی السؤال ذلا وقول من قال لا ذل فی سؤال مایحتاج الیہ ممنوع ۲؎ اھ۔
اقول:  صفار نے اقوالِ ائمہ کے برخلاف کوئی نیا قول ایجاد نہ کیا بلکہ یہ ان ہی اقوال کی شرح کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ امام جصاص نے کیا ہے۔ صاحبِ غنیہ اگر اس کا خیال فرماتے تو انہیں تو زیع وتلفیق کرکے ائمہ مذہب کے سارے اقوال سے خروج کی ضرورت نہ پیش آتی وہ لکھتے ہیں: ''لیکن جب ایسی جگہ ہو جہاں پانی کمیاب ہو یا ایسی جگہ نہ ہو لیکن انکار کا گمان ہو تو احتیاط صاحبین کے قول میں ہے اور وسعت امام صاحب کے قول میں ہے اس لئے کہ مانگنے میں ایک ذلّت ضرور ہے اور یہ بات ہمیں تسلیم نہیں کہ ضرورت کی چیز مانگنے میں کوئی ذلت نہیں'' اھ (ت)
 (۲؎ غنیۃ المستملی        باب التیمم    مطبع سہیل اکیڈمی لاہور    ص۶۹)
اقول: فاذن(۲) یؤل الامر الی ترجیح قول الامام مطلقاویذھب اختیار قولھماعندظن العطاء لان الذل محترز عنہ مطلقا وقدثبت فی الحدیث(عـہ۱) نھی (۱) المؤمن عن ان یذل نفسہ الا ان یقال انما یذل(عـہ۲) بالسؤال حیث یعزلانہ اذن شیئ مضنون بہ فالمسئول منہ ان منع فھذا ذل ظاھر وان دفع من وتحمل المنۃ ذل حاضر بخلاف موضع لایعز فیہ فانھم یتباذلون بہ فیہ ولایتوقع المنع ولا الامتنان فی الدفع وعن ھذاقال فیہ لظھوردلیلھما قال واستدلالہ بانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قدسأل بعض حوائجہ من غیرہ مستدرک لانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان بالمؤمنین(۲) اولٰی من انفسھم فلایقاس غیرہ علیہ لانہ اذاسال افترض علی المسؤل البذل ولاکذلک غیرہ ۱؎ اھ۔
اقول: تو معاملہ اس پر آجائے گا کہ امام صاحب کے قول کو مطلقاً ترجیح ہے اور ظن عطا کی صورت میں صاحبین کا قول مختار نہ رہ جائےگا اس لئے کہ ذلّت مطلقاً پرہیز کیے جانے کے لائق ہےحدیث میں بھی اس بات سے ممانعت آئی ہے کہ مومن اپنے کو ذلت میں ڈالے۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مانگنے سے ذلت وہاں ہوگی جہاں پانی کمیاب ہو اس لئے کہ ایسی صورت میں پانی ایسی چیز ٹھہرے گا جس میں بخل وانکار ہوتا ہے اب جس سے مانگا گیا اگر نہ دے تو اس میں مانگنے والے کی کھلی ہوئی ذلت ہے اور اگر دے دے تو اس کا احسان ہوگا اور احسان لینا بروقت ذلت ہے بخلاف ایسی جگہ کے جہاں پانی کمیاب نہ ہو کیونکہ لوگ وہاں آپس میں پانی لیتے دیتے ہوں گے اور انکار ومنع متوقع نہ ہوگا اور دے دینے میں احسان جتلانے کی صورت بھی نہ ہوگی۔ اسی لئے صاحبِ غنیہ نے اس صورت سے متعلق فرمایا کہ اس میں صاحبین کی دلیل ظاہر ہے۔ مزید لکھتے ہیں: ''اور اس بات سے استدلال کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں دوسرے سے مانگیں قابل استدراک ہے اس لئے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ اختیار ہے تو حضور پر کسی اور کا قیاس نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ جب طلب کریں تو جس سے طلب فرمایا اس پر دینا فرض ہوگیا۔ یہ حال کسی اور کا نہیں اھ (ت)
 (۱؎ غنیۃ المستملی        باب التیمم    مطبع سہیل اکیڈمی لاہور    ص۶۹ )
(عـہ۱) الطبرانی فی المعجم الکبیرعن ابی ذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اعطی الذلۃ من نفسہ طائعا غیرمکرہ فلیس منا ۲؎۱۲ منہ غفرلہ (م)

امام طبرانی نے معجم کبیرمیں حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو اپنی ذات کو ذلّت بخوشی بغیراکراہ کے دے دے وہ ہم میں سے نہیں۱۲منہ غفرلہ (ت)
  ( ۲؎مجمع الزوائد بحوالہ طبرا نی     ۱۰/۲۴۸    الترغیب والترھیب بحوالہ طبرانی     ۴/۱۷۹)
 (عـہ۲) ظھرلی ھذا ثم رأیت العلامۃ الشرنبلالی اشار الی ھذا الفرق کمایاتی اٰنفا فی عبارات القول الثالث ۱۲ منہ غفرلہ (م) 

یہ کلام میرے ذہن میں آیا تھا پھر میں نے دیکھا کہ علامہ شرنبلالی اس فرق کی طرف اشارہ فرماچکے ہیں جیسا کہ قول سوم کی عبارتوں میں ابھی آئے گا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
اقول:  لیس (۱)کمثلہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم غیرہ فی شیئ من الصفات ومنھاالغیرۃ فھو صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اغیرخلق اللّٰہ واللّٰہ تعالٰی اغیرمنہ ومحال من نفس کریمۃ غیراء ان تتعرض لشیئ ممایعد ذلافثبت ان من سؤال الحاجۃ مالیس بذل والالماوقع منہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولادخل (۲) فی ھذا لافتراض البذل وعدمہ وقد یفترض(۳) فی حق غیرہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ایضا کاطعام(۴) ذی مخمصۃ فھذا قد ینتفع بہ لمافی المبسوط۔
اقول: کسی بھی صفت میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مثل دوسرا شخص نہیں۔ حضور کی ایک صفت ''غیرت'' بھی ہے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خلقِ خدا میں سب سے زیادہ غیرت مند ہیں اور خدائے برتران سے بڑھ کر غیرت والا ہے، اور کسی بھی باعزّت طبیعت سے یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی ایسے فعل سے تعرض کرے جو ذلّت شمار ہوتا ہو۔ اس سے ثابت ہُوا کہ ضرورت کی چیز مانگنا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جس کا ذلّت میں شمار نہیں ہوتا ورنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے واقع ہی نہ ہوتا __اور اس میں دینا فرض ہونے نہ ہونے کا کوئی دخل نہیں فرض تو کبھی غیرحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حق میں بھی ہوجاتا ہے، جیسے بھُوک کی شدّت والے کو کھانا دینا اس گفتگو سے کلام مبسوط کی حمایت میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ (ت)
وانا اقول: انما(۵)الجواب فی انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اولی بالمؤمنین من انفسھم علی منزع اٰخر دقیق وھو ان (۶) املاکہم املاکہ اذھم انفسھم املاکہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولااحتمال لذل فی سؤال المولٰی بعض عبیدہ ممافی یدہ فانہ ومافی یدہ ملک مولاہ فلیس من السؤال فی شیئ بل استخدام فبھذا یتجہ مرامہ ویتضح کلامہ ثم قال لکن عدم وجوب الطلب من الرفیق نسبہ صاحب الھدایۃ وصاحب الایضاح الٰی ابی حنیفۃ کماتقدم واماشمس الائمۃ فی المبسوط فانہ نسبہ الی الحسن بن زیاد فانہ یقول السؤال ذل وفیہ بعض الحرج وربمایوفق بان الحسن رواہ عن ابی حنیفۃ فی غیرظاھرالروایۃ واخذھوبہ فاعتمد فی المبسوط ظاھرالروایۃ واعتبرصاحب الھدایۃ والایضاح روایۃ الحسن لکونھا انسب بمذھب ابی حنیفۃ فی عدم اعتبار القدرۃ بالغیروفی اعتبار العجز للحال واللّٰہ سبحنہ تعالی اعلم ۱؎ اھ۔
اور میں کہتا ہوں(اس بات کا جواب کہ ''حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مومنوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں'' ایک دوسرے دقیق انداز پر ہے۔ وہ یہ کہ مومنوں کی ملکیتیں خود حضور کی مِلک ہیں اس لئے کہ خود مومنین کی جانیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مِلک ہیں اور اس میں کسی ذلّت کا احتمال نہیں کہ آقا اپنے غلام سے اس کے ہاتھ کی کوئی چیز طلب کرے اس لئے کہ خود غلام اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے سب اس کے آقا کی ملکیت ہے تو دراصل یہ مانگنا ہے ہی نہیں بلکہ یہ خدمت لیناہے۔ اس بیان سے صاحبِ غنیہ کے مقصد کی توجیہ اور ان کے کلام کی توضیح ہوجاتی ہے۔ پھر لکھتے ہیں: ''لیکن رفیق سے مانگنا واجب نہ ہونے کو صاحبِ ہدایہ اور صاحبِ ایضاح نے امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ پہلے گزرا۔ لیکن شمس الائمہ نے مبسوط میں اسے حسن بن زیاد کی طرف منسوب کیاہے کہ وہی یہ کہتے ہیں کہ مانگنے میں ذلّت ہے اور اس میں کچھ حرج ہے تطبیق یُوں دی جاسکتی ہے کہ حسن نے اسے امام ابوحنیفہ سے غیرظاہر الروایۃ میں روایت کیااور خود حسن نے اسی کو لیا۔ تو مبسوط میں ظاہر الروایۃ پر اعتماد کیا اور صاحبِ ہدایہ وصاحبِ ایضاح نے روایت حسن کا اعتبار کیا اس لئے کہ وہ اس بارے میں امام ابوحنیفہ کے مذہب سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے کہ قدرت کااعتبار دوسرے کے لحاظ سے نہیں ہوتا اور اس بارے میں کہ فی الحال جو عجز ہے اسی کا اعتبار ہے۔ اور خدائے پاک ہی خُوب جاننے والا ہے اھ (ت)
 (۱؎ غنیۃ المستملی        باب التیمم    مطبع سہیل اکیڈمی لاہور    ص۶۹)
اقول:  ولی(۱) فیہ کلام سیاتی (اس میں مجھے کلام ہے جو عنقریب آرہا ہے۔ ت)
حلیہ میں ہے: فی الاختیار جاز(ای التیمم قبل الطلب)عند ابی حنیفۃ وعند ابی یوسف لایجوز ولم یذکر (عـہ)محمدا وانما ذکران قیاس قولہ ان غلب علی ظنہ انہ یعطیہ لایجوز والا یجوز ۱؎ اھ
اختیار میں ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک (مانگنے سے پہلے تیمم) جائز ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک جائز نہیں۔ امام محمد کا ذکر نہ کیا صرف یہ ذکر کیا کہ ان کے قول کے قیاس کا اقتضایہ ہے کہ اگر اسے غالب گمان ہو کہ دے دے گا تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے اھ (ت)
 (۱؎الاختیار لتعلیل المختار ،  باب التیمم،  درفراس للنشر والتوزیع بیروت    ۱/۲۲)
 (عـہ)ای صاحب الاختیار ۱۲ (یعنی صاحبِ اختیار نے ۱۲۔ ت)
Flag Counter