وانت تعلم ان(۳)ھذہ العبارۃ بعیدۃ عن ذینک التاویلین اماالاول فظاھرواما الثانی فلان مفاد ماحکاہ عندہ ان عند ظن العطاء اوالمنع لاتوقف علی السؤال بل صحت فی ظن المنع وبطلت فی ظن العطاء سأل اولم یسأل انما یتوقف الامر علی السؤال عند الشک والاشکال ولذا فھم المخالفۃ بینہ وبین فرع سؤال الامام حیث حکموا فیہ ببطلان صلاتھم اذا اعطاہ وھو باطلاقہ یشمل مااذاکان الامام ظن فی صلاتہ عطاء اومنعا اوشک فتوقفت الصحۃ فی ظن المنع ایضا علی مایتبین من الحال بعد السؤال ولذا ردد التوفیق بین حملین اما ان یخص الفرع بصورۃ الشک فیصح التوقف علی السؤال اویقال ان فی ظن المنع ایضا یزول حکم الصحۃ بظھور خطائہ بعد الصلاۃ فھذا مافھمہ ورامہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وھو غیرمنسوج علی منوال ماروی عن الامام الربانی رحمہ اللّٰہ تعالٰی کیف وقد نسبہ الی المشایخ انھم ھم الذین فرعوہ(۱)
ناظر کومعلوم ہے کہ یہ عبارت صاحب فتح القدیرکی ان دونوں تاویلوں سے بعید ہے۔ پہلی تاویل کا بعد تو ظاہر ہے دوسری اس طرح کہ اپنے طور پر انہوں نے جو حکایت فرمائی اس کا مفاد یہ ہے کہ دینے یا نہ دینے کا ظن ہونے کی صورت میں مانگنے پر کچھ موقوف نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ دینے کا ظن ہو تو نماز صحیح اور دینے کا ظن ہو تو باطل ہوگئی مانگے یا نہ مانگے۔ صرف شک واشکال کی صورت میں مانگنے پر معاملہ موقوف رہتا ہے۔اس لئے انہوں نے اس مسئلہ میں اور امام کے مانگنے کے مسئلہ میں اختلاف سمجھا کیوں کہ اس میں علما نے سبھی کی نماز باطل ہونے کا حکم کیا ہے جب امام کو مانگنے پر پانی والا پانی دے دے۔ اور یہ حکم اپنے اطلاق کی وجہ سے دورانِ نماز امام کے ظن عطا، ظن منع اور شک تمام صورتوں کو شامل ہے تو ظن منع کی صورت میں بھی مانگنے کے بعد ظاہر ہونے والے حال پر نماز کی صحت موقوف رہی اور اسی لئے انہوں نے دو حمل کے درمیان تطبیق دائر فرمائی کہ یا تو جزئیہ کو صورت شک سے خاص کیا جائے تو صحتِ نماز مانگنے پر موقوف رہے گی یا یہ کہا جائے کہ بعد نماز گمان کی خطا ظاہر ہوجانے سے صحتِ نماز کا حکم ظن منع کی صورت میں بھی ختم ہوجاتا ہے۔یہ وہ ہے جو صاحبِ فتح القدیررحمہ اللہ تعالٰی نے سمجھا اور مراد لیا ۔ ان کا یہ سارا کلام امام ربانی رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل شدہ روایت کے طریقہ پروارد نہیں اور یہ کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ صاف اس کی نسبت مشائخ کی طرف فرمارہے ہیں کہ ان ہی حضرات نے یہ تفریع کی ہے۔
وانت تعلم ان ماحکاہ عین مافی الخلاصۃ سوی ان فیھاان علم انہ یعطیہ یقطع الصلاۃ ووقع بدلہ فی الفتح بطلت قبل السؤال ولیس مفادھا البطلان بمجرد ظن العطاء ولا الجزم بالصحۃ مطلقا فی ظن المنع حتی لاتعادو ان اعطی ولا تخصیص احالۃ الحکم علی مایتبین بعد السؤال÷ بصورۃ الاشکال÷ بل ھو عام یشمل جمیع الاشکال÷ کما یتجلی فی کل ذلک حقیقۃ الحال÷ بعون المولی ذی الجلال÷ والظاھر (۲) واللّٰہ تعالٰی اعلم انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اعتمدھھنا علی مافی صدرہ ولم یراجع کلماتھم ولذاردد فی التوفیق مع ان الشق الاول لامساغ لہ والاخیر(۱) ھو المنصوص علیہ فی کتب المذھب کما سیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔
یہ بھی معلوم ہے کہ صاحبِ فتح القدیرنے جو حکایت فرمائی بعینہٖ وہی ہے جو خلاصہ میں تحریرہوئی۔ فرق یہ ہے کہ خلاصہ میں ہے ''اگر جانتا ہو کہ دے دے گا تو نماز توڑدے''۔ اس کے بدلہ فتح القدیرمیں یہ ہے کہ ''مانگنے سے پہلے ہی نماز باطل ہوگئی۔ حالانکہ اس عبارت کا مفاد یہ نہیں کہ محض ظن عطا سے نماز باطل ہوگئی،نہ ہی ظن منع کی صورت میں مطلقاً صحت نماز کا جزم ہے یہاں تک کہ دے دینے پر بھی اعادہ نماز نہ ہو، نہ ہی یہ کہ مانگنے کے بعد ظاہر ہونے والی حالت پر حکم کا حوالہ صرف صورت شک کے ساتھ خاص ہے بلکہ یہ حکم عام اور تمام صورتوں کو شامل ہے جیسا کہ اس سلسلہ میں حقیقتِ حال بعونِ مولائے ذی الجلال روشن ہوگی۔ ظاہر یہ ہے اور خدائے برتر ہی جاننے والا ہے کہ صاحب فتح القدیررحمہ اللہ تعالٰی نے یہاں اپنی یاد پر اعتماد فرمایا ہے کلمات علماء کی مراجعت نہ فرمائی اسی لئے تطبیق میں تردید کی صورت اختیار کی حالانکہ شق اول کی تو کوئی گنجایش ہی نہیں اور اخیرپر تو کتب مذہب میں نص موجود ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا اگر خدائے برتر نے چاہا۔ (ت)
مسئلہ ۶(۲): اگر شروع نماز سے پہلے دوسرے کے پاس پانی معلوم ہوا تو آیا اس سے مانگنا واجب ہے یا نہیں یہاں اختلاف روایت تاحدِ اضطراب ہے اور وہ کہ مطالعہ کتب ونظر دلائل سے فقیرکو منقح ہوا یہ کہ یہاں بھی وہی حکم ہے جو مسئلہ ۴ میں گزرا یعنی ظن غالب ہوکہ دے دے گا تو سوال واجب اور بے مانگے تیمم کرکے نماز پڑھنا حلال نہیں ورنہ واجب نہیں اور بلاسوال نماز حلال ہاں بحال شک سوال مستحب مسئلہ ہر دوظن میں خود یہی تحقیق وتوفیق ہے اور مسئلہ شک میں یہی قول جمہور وراجح علی التحقیق ہے اس اختلاف روایات کے متعلق بعض عبارات دکھا کر اپنے دونوں دعووں کو دو۲ مقاموں میں تحقیق کریں وباللہ التوفیق۔ ہدایہ میں ہے:
(ان کان مع رفیقہ ماء طلب منہ قبل ان یتیمم)لعدم المنع غالبا(ولوتیمم قبل الطلب اجزأہ عندابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)لانہ لایلزمہ الطلب من ملک الغیروقالا لایجزیہ لان الماء مبذول عادۃ ۱؎۔
اگر رفیق سفر کے پاس پانی ہو تو قبل تیمم اس سے طلب کرے کیونکہ عموماً اس سے انکار نہیں ہوتا۔ اور اگر بغیرمانگے تیمم کرلیا تو امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہوجائے گا۔ اس لئے کہ دوسرے کی ملک سے مانگنا اس پر لازم نہیں۔ اور صاحبین نے فرمایا تیمم نہ ہوگا اس لئے کہ پانی عموماً خرچ کیا اور دیا جاتا ہے۔ (ت)
(۱؎ ہدایہ مع الفتح، باب التیمم، مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۲۵)
عنایہ وبنایہ میں ہے: ذکر الاختلاف فی الایضاح والتقریب وشرح الاقطع بین ابی حنیفۃ وصاحبیہ کماذکر فی الکتاب وقال فی المبسوط ان کان مع رفیقہ ماء فعلیہ ان یسألہ الاعلی قول الحسن بن زیاد فانہ کان یقول السؤال ذل وفیہ بعض الحرج وماشرع التیمم الالدفع الحرج ۱؎۔
ایضاح، تقریب اور شرح اقطع میں امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے درمیان اختلاف ذکر کیاہے جیسے کتاب میں بیان کیا ہے۔اور مبسوط میں فرمایا:اگر رفیق کے پاس پانی ہو تو اس پر یہ ہے کہ رفیق سے مانگے مگر حسن بن زیاد کے قول پر ایسا نہیں وہ کہتے تھے کہ مانگنا ذلّت کا کام ہے اور اس میں کچھ حرج بھی ہے جبکہ تیمم کی مشروعیت دفع حرج ہی کیلئے ہے۔ (ت)
(۱؎ العنایہ مع فتح القدیر باب التیمم مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۲۵)
فتح القدیرمیں ہے: القدرۃ علی الماء بملکہ اوبملک بدلہ اذاکان یباع اوبالاباحۃ امامع ملک الرفیق فلا لان الملک حاجز فثبت العجز ۲؎۔
پانی پر قدرت یُوں ہوتی ہے کہ خود اس کامالک ہو یا فروخت ہورہا ہو تو اس کے بدل کامالک ہو یا اس کے استعمال کی اباحت ہو۔ لیکن پانی رفیقِ سفر کی ملک ہو تو ایسا نہیں اس لئے کہ ملک مانع ہے تو عجز ثابت ہوگیا۔ (ت)
(۲؎ فتح القدیر باب التیمم مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۲۵)
اس میں نیز ذخیرہ امام برہان الدین سے بنایہ وغیرہ کتب کثیرہ میں ہے: عن الجصاص لاخلاف بینھم فمراد ابی حنیفۃ اذاغلب علی ظنہ منعہ ومرادھما اذاظن عدم المنع لثبوت القدرۃ بالاباحۃ فی الماء لافی غیرہ عندہ ۳؎۔
جصاص سے منقول ہے کہ ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام ابوحنیفہ کی مراد یہ ہے کہ غالب گمان نہ دینے کاہو اور صاحبین کی مراد یہ ہے کہ عدم انکار کا گمان ہو اس لئے کہ امام صاحب کے نزدیک پانی میں اباحت سے قدرت ثابت ہوجاتی ہے دوسری چیزوں میں نہیں۔(ت)
(۳؎فتح القدیر، باب التیمم مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۲۵)
نہایہ امام سغناقی پھر بنایہ امام عینی وذخیرہ اخی چلپی میں ہے: لم یذکر فی عامۃ النسخ قول ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی ھذا الموضع بل قیل لایجوز التیمم قبل الطلب اذاکان غالب ظنہ ان یعطیہ مطلقامن غیرذکرالخلاف بین علمائناالثلٰثۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم الافی الایضاح ۱؎ اھ ھذا نقل الذخیرۃ ولم یذکر فی البنایۃ قولہ الا فی الایضاح وذکر مکانہ الاعلی قول الحسن بن زیاد فانہ یقول السؤال ذلۃ وفیہ ضرر ۲؎۔
اکثر نسخوں میں اس جگہ امام ابی حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول مذکور نہیں بلکہ یہ کہا گیا کہ مانگے بغیرتیمم جائز نہیں جبکہ غالب گمان یہ ہو کہ دے دے گا۔یہ ہمارے تینوں علماء رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان کوئی اختلاف بتائے بغیرمطلقاً مذکور ہے۔ مگر ایضاح میں ذکر خلاف ہے اھ یہ ذخیرہ کی عبارت ہے اور بنایہ میں ''الا فی الایضاح'' نہیں اس کی جگہ یہ ہے: مگر حسن بن زیاد کے قول پر ایسا نہیں وہ کہتے ہیں کہ مانگنا ذلت ہے اور اس میں ضرر ہے۔ (ت)
(۱؎ ذخیرۃ العقبٰی باب التیمم مطبع الاسلامیہ لاہور ۱/۱۸۰)
(۲؎ عینی شرح الہدایۃ باب التیمم مطبع المکتبۃ الامدادیہ مکہ مکرمہ ۱/۳۳۷)
نیز عینی میں ہے: ذکر الزوزنی وغیرہ لوتیمم قبل الطلب اجزأہ عند ابی حنیفۃ فی روایۃ الحسن عنہ ۳؎۔
زوزنی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ اگر مانگے بغیرتیمم کرلیا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس میں جو حسن نے ان سے روایت کی، تیمم ہوجائے گا۔ (ت)
(۳؎ عینی شرح الہدایۃ باب التیمم مطبع المکتبۃ الامدادیہ مکہ مکرمہ ۱/۳۳۷)
بحر میں ہے: اعلم ان ظاھر الروایۃ عن اصحابنا الثلثۃ وجوب السؤال من الرفیق کمایفیدہ مافی المبسوط قال واذا کان مع رفیقہ ماء فعلیہ ان یسألہ الا علی قول الحسن بن زیاد فانہ کان یقول السؤال ذل وفیہ بعض الحرج وماشرع التیمم الالدفع الحرج ولکنا نقول ماء الطھارۃ مبذول عادۃ بین الناس ولیس فی سؤال مایحتاج الیہ مذلۃ فقد سأل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بعض حوائجہ من غیرہ اھ فاندفع بھذا ماوقع فی الھدایۃ وشرح الاقطع من الخلاف بین ابی حنیفۃ وصاحبیہ فعندہ لایلزمہ الطلب وعندھما یلزمہ واندفع مافی غایۃ البیان من ان قول الحسن حسن وفی الذخیرۃ نقلا عن الجصّاص انہ لاخلاف بین ابی حنیفۃ وصاحبیہ فمرادہ فیما اذاغلب علی ظنہ منعہ ایاہ ومرادھما عند غلبۃ الظن بعدم المنع وفی المجتبی الغالب عدم الظنۃ بالماء حتی لوکان فی موضع تجری الظنۃ علیہ لایجب الطلب منہ ۱؎ اھ۔
معلوم ہو کہ ہمارے تینوں اصحاب سے ظاہر روایت یہ ہے کہ رفیق سے مانگنا واجب ہے جیسا کہ یہ اس سے مستفاد ہوتا ہے جو مبسوط میں ہے، فرماتے ہیں: جب اس کے رفیق سے مانگے مگر حسن بن زیاد کے قول پر ایسا نہیں اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ مانگنا ذلت ہے اور اس میں کچھ حرج ہے جبکہ تیمم کی مشروعیت دفع حرج ہی کیلئے ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ طہارت کا پانی لوگوں کے درمیان عادۃً لیا دیا جاتا ہے اور جس چیز کا ضرورت مند ہو اس کے مانگنے میں ذلّت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی اپنی ضرورت کی بعض چیزیں دوسرے سے مانگی ہیں۔ اھ اس سے وہ دفع ہوگیا جو ہدایہ اور شرح اقطع میں امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے درمیان اختلاف کا ذکر واقع ہوا کہ امام صاحب کے نزدیک طلب لازم نہیں اور صاحبین کے نزدیک لازم ہے اور وہ بھی دفع ہوگیا جو غایۃ البیان میں ہے کہ حسن کا قول حسن ہے اور وہ بھی جو ذخیرہ میں جصّاص سے منقول ہے کہ امام ابوحنیفہ اور صاحبین میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام صاحب کی مراد وہ صورت ہے جب اس کا غالب گمان ہو کہ اسے نہ دے گا اور صاحبین کی مراد وہ صورت ہے جب غالب گمان ہوکہ انکار نہ کرے گا۔ مجتبٰی میں ہے اکثر یہی ہے کہ پانی میں بخل نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ اگر کسی ایسی جگہ ہو جہاں پانی میں بخل ہوتا ہے تو اس سے مانگنا واجب نہیں اھ۔ (ت)
(۱؎ البحرالرائق باب التیمم مطبع ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱/۱۶۲)
غنیہ میں ہے: اذاتیمم وصلی ولم یسأل فعلی قول ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ صلاتہ صحیحۃ فی الوجوہ کلھا (ای سواء ظن منحا اومنعا اوشک) وقالا لایجزئہ والوجہ ھو التفصیل کما قال ابونصر الصفار انہ انما یجب السؤال فی غیرموضع عزۃ الماء فانہ حینئذ یتحقق ماقالاہ من انہ مبذول والا فکونہ مبذولا عادۃ فی کل موضع ظاھر المنع علی مایشھد بہ کل من عانی الاسفار فینبغی ان یجب الطلب ولاتصح الصلاۃ بدونہ فیما اذاظن الاعطاء لظھور دلیلھما دون مااذا ظن عدمہ لکونہ فی موضع عزۃ الماء۱ اھ۔
جب تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور طلب نہ کرے تو امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول پر اس کی نماز تمام صورتوں میں صحیح ہے (یعنی خواہ دینے کا گمان ہویا نہ دینے کا یا شک کی صورت ہو) اور صاحبین فرماتے ہیں: نماز نہ ہوگی۔ اور وجہ صواب یہ ہے کہ تفصیل کی جائے، جیسا کہ ابونصر صفار نے فرمایا کہ مانگنا ایسی ہی جگہ واجب ہے جہاں پانی کم یاب نہ ہو کیونکہ اسی صورت میں وہ بات متحقق ہوگی جو صاحبین نے فرمائی کہ پانی لیا دیا جاتا ہے ورنہ ہر جگہ پانی کا عادۃً مبذول ہونا (لیا دیا جانا) کھلے طور پر قابلِ رد ومنع ہے جس پر سفروں کی زحمت اٹھانے والا ہر شخص شاہد ہے۔ تو حکم یہ ہونا چاہیے کہ مانگنا واجب ہے اور اس کے بغیرنماز صحیح نہیں اس صورت میں جبکہ دینے کا گمان ہو کیونکہ اس صورت میں صاحبین کی دلیل ظاہر ہے مگر اس صورت میں نہیں جبکہ نہ دینے کا گمان ہو اس لئے کہ یہ پانی کی کمیابی کی جگہ ہوگا اھ (ت)۔
(۱؎ غنیۃ المستملی باب التیمم مطبع سہیل اکیڈمی لاہور ص۶۹)