مسئلہ ۴(۱): یہ حکم نماز کے قطع واتمام کا تھا۔رہا یہکہ اس سے پانی مانگنا اس پر واجب ہے یا نہیں اقول بحال ظن عطا تووجوب میں شبہ نہیں کہ اسی کیلئے نیت توڑنے کا حکم ہوا باقی دو۲ حالتوں میں عبارت خلاصہ یہ ہے بیرون نماز پانی دیکھ کر مانگنا واجب ہونے نہ ہونے کا اختلاف آئندہ اور اور مسائل لکھ کر فرمایا:
ھذا کلہ قبل الشروع فی الصلاۃ ولوشرع بالتیمم فی السفر فرأی رجلا معہ ماء کثیران علم انہ یعطیہ یقطع الصلاۃ وان علم انہ لایعطیہ یمضی علی صلاتہ وان اشکل یمضی علی صلاتہ ثم یسألہ ان اعطاہ اعاد الصلاۃ وان ابی فصلاتہ تامۃ ۱؎۔
یہ سارا حکم نماز شروع کرنے سے پہلے ہے اور اگر سفر میں تیمم سے نماز شروع کردی پھر کسی کو دیکھا کہ اس کے پاس بہت ساپانی ہے تواگر یہ جانتا ہو کہ وہ اسے پانی دے دے گا تو نماز توڑدے۔ اور اگر جانتا ہو کہ نہ دے گا تو نماز پڑھتا رہے اور اگر اشتباہ ہو تو بھی نماز پڑھتارہے پھر فارغ ہوکر اس سے مانگے اگر دے دے تو نماز کا اعادہ کرے اور انکار کرے تو نماز کامل ہوگئی۔ (ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس فی التیمم مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۳۳)
اسی طرح ہندیہ میں محیط سرخسی سے ہے
غیرانہ لم یذکر ظن المنع ۲؎
(مگر انہوں نے منع وانکار کا گمان ہونے والی صورت نہ بیان کی۔ ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ آخر فصل اول مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۹)
اس کا یہ مفاد کہ بحالِ ظن منع سوال کی اصلاً حاجت نہیں اور بحالِ شک نماز پُوری کرکے مانگے یہ صاف نہ فرمایاکہ مانگنا واجب ہے یا مستحب اقول مگر مسئلہ(۱) ظن قرب آب میں تصریح ہے کہ اگر قُرب مشکوک ہو طلب واجب نہیں صرف مستحب ہے، درمختار میں ہے:
الا یغلب علی ظنہ قربہ لایجب بل یندب ان رجاوالالا ۱؎۔
اگر قرب آب کا غالب گمان نہ ہو تو طلب واجب نہیں بلکہ مندوب ہے اگر امید رکھتا ہو ورنہ مندوب بھی نہیں۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب التیمم مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۴۴)
شرح تعریف رضوی کے افادہ پنجم میں اور بعض عبارات بھی اس کے مفید گزریں اورجوہرہ نیّرہ میں ہے:
اذاشک یستحب لہ الطلب ۲؎
(شک کی صورت میں طلب مستحب ہے۔ ت)
(۲؎ الجوہرۃ النیرۃ باب التیمم، مکتبہ امدادیہ ملتان، ۱/۲۸)
اسی طرح ہندیہ میں سراج وہاج سے ہے،بحر میں بدائع سے ہے:
اذالم یغلب علی ظنہ قربہ لایجب بل یستحب اذاکان علی طمع من وجود الماء ۳؎۔
قربِ آب کا غالب گمان نہ ہو تو طلب واجب نہیں بلکہ مستحب ہے جب کہ پانی موجود ہونے کی اسے کچھ امید ہو۔ (ت)
اس کے بکثرت مؤیدات عنقریب آتے ہیں اِن شاء اللہ تعالٰی تو حاصلِ حکم یہ نکلا کہ بحالِ ظن عطامانگنا واجب اور بحال شک مستحب اور بحالِ ظن منع مستحب بھی نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵ (۲): صحیح و معتمد وظاہر الروایۃ یہ ہے کہ نماز میں بحالِ غلبہ ظن عطا اگرچہ نیت توڑنے کا حکم ہے مگر فقط اس غلبہ ظن سے نہ تیمم ٹوٹے نہ نماز جائے یہاں تک کہ اگر پُوری کرلی اور پھر مانگا اور اُس نے نہ دیا تو نماز بھی صحیح اورتیمم بھی باقی کہ ظاہر ہُواکہ وہ ظن غلط تھا۔اقول یہ حکم خود انہیں عبارات مذکورہ زیادات وجامع کرخی ومحیط سرخسی وخلاصہ وبزازیہ وصدر الشریعۃ وحلیہ وہندیہ سے ظاہر کہ قطع نماز کو فرمایا اور قطع وہی کی جائے گی کہ ہنوز باقی ہے باطل خود ہی معدوم ہوگئی قطع کیا ہو
بحر میں ہے: اذاکان فی الصلاۃ وغلب علی ظنہ الاعطاء لاتبطل بل اذااتمھاسألہ ولم یعطہ تمت صلاتہ لانہ ظھر ان ظنہ کان خطاء کذافی شرح الوقایۃفعلم منہ ان مافی فتح القدیرمن بطلانھا بمجرد غلبۃ ظن الاعطاء لیس بظاھر الا ان قاضیخان فی فتاواہ ذکر البطلان فی ھذہ الصورۃ بمجرد الظن عن محمد ۱؎۔
جب اندرونِ نماز ہو اور اسے غالب گمان ہوا کہ دے دے گا تو اس سے نماز باطل نہیں ہوجاتی بلکہ اس صورت میں جب نماز پُوری کرلے پھر مانگے اور وہ نہ دے تو نماز پُوری ہوگئی اس لئے کہ ظاہر ہوگیاکہ اس کا گمان غلط تھا۔ ایسا ہی شرح وقایہ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محض غلبہ ظن عطا سے بطلانِ نماز کی بات جو فتح القدیرمیں ہے وہ ظاہر نہیں مگر قاضی خان نے اس صورت میں محض گمان کی وجہ سے بطلانِ نماز امام محمد سے اپنے فتاوٰی میں نقل فرمایا ہے۔ (ت)
(۱؎ البحرالرائق باب التیمم مطبع سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵۴)
اسی طرح ردالمحتار میں نہر سے ہے: قال لاتبطل کماجزم بہ الزیلعی وغیرہ فما فی الفتح فیہ نظر نعم فی الخانیۃ عن محمد انھا تبطل بمجرد الظن فمع غلبتہ اولی وعلیہ یحمل مافی الفتح ۲؎ اھ
انہوں نے کہا: نماز باطل نہیں ہوجاتی جیسا کہ اس پر امام زیلعی وغیرہ نے جزم کیا ہے تو فتح القدیرمیں جو لکھا ہے وہ محلِ نظر ہے۔ہاں خانیہ میں امام محمدسے ایک روایت ہے کہ محض گمان سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو غلبہ ظن سے بدرجہ اولٰی باطل ہوجائے گی اور اسی پر محمول ہے وہ جو فتح القدیرمیں ہے۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب التیمم ،مطبع مصطفی البابی مصر، ۱/۸۵)
اقول: (۱) عبارۃ الخانیۃ المسافراذاشرع فی الصلاۃ بالتیمم ثم جاء انسان معہ ماء فانہ یمضی فی صلاتہ فاذاسلم فسألہ ان منع جازت صلاتہ وان اعطاہ بطلت وعن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی اذارأی فی الصلاۃ مع غیرہ ماء وفی غالب ظنہ انہ یعطیہ بطلت صلاتہ ۳؎ اھ
اقول: (میں کہتا ہوں) خانیہ کی عبارت یہ ہے: ''مسافر جب تیمم سے نماز شروع کردے پھر کوئی آدمی آئے جس کے پاس پانی ہو تو وہ نماز پڑھتا رہے جب سلام پھیرلے تو اس سے پانی مانگے اگر نہ دے تو اس کی نماز ہوگئی اور اگر دے دے تو باطل ہوگئی۔اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ''جب اندرون نماز دوسرے کے پاس پانی دیکھے اور اس کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ اسے دے دے گا تو اس کی نماز باطل ہوگئی''۔
(۳؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبع نولکشور لکھنؤ ۱/۲۷)
فلیس فیھا عن محمد بطلانھابمجرد الظن بالمعنی الذی ارادالنھر بل قدقید صریحا بغلبۃ الظن ولولم یقید لکان ھوالمراد اذالظن الضعیف ملتحق بالشک کماصرحوا بہ فکیف تبطل بالشک صلاۃ صح الشروع فیھا بیقین وکأنہ لم یراجع الخانیۃ واعتمد قول اخیہ ذکر البطلان بمجرد الظن فحملہ علی تجرید الظن عن الغلبۃ ولیس کذلک وانما مرادہ بمجرد الظن ای قبل ان یسأل فیظھر تحقیق ظنہ اوخیبتہ۔
اس عبارت کے اندر امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے اُس معنی میں مجرد ظن سے بطلان نماز کا ذکر نہیں جو صاحبِ النہر الفائق نے مراد لیا بلکہ اس میں تو صاف غلبہ ظن کی قہد موجود ہے اور اگر یہ قید نہ ہوتی تو بھی ظن سے غلبہ ظن ہی مراد ہوتا اس لئے کہ ظنِ ضعیف تو شک میں شامل ہے جیسا کہ علما نے اس کی صراحت فرمائی ہے تو شک سے ایسی نماز کیسے باطل ہوجائے گی جسے شروع کرنا یقینی طور پر درست بھی ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صاحب نہر نے خود خانیہ کی مراجعت نہ فرمائی اور اپنے برادر (صاحبِ بحر) کی عبارت ''ذکر البطلان بمجرد الظن'' (مجرد ظن سے بطلان کا ذکر کیا ہے) پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا معنی یہ لے لیا کہ گمان غلبہ سے خالی ہو حالانکہ ایسا نہیں۔ مجرد ظن سے ان کی مراد یہ ہے کہ محض گمان ہو۔ یعنی ابھی مانگا نہیں کہ گمان کی درستی وکامیابی یا ناکامی منکشف ہو۔ (ت)
ثمّ اقول: ماروی عن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی یحتمل تأویلین الاول ان بطلت (۱)بمعنی ستبطل کماھومعروف فی کلماتھم فی غیرمامقام وقد بیناہ فی رسالتنا فصل القضاء فی رسم الافتاء الثانی ان المعنی ان حکم نفس ھذہ الصورۃ ھوالبطلان حتی لولم یزد علی ھذا ومضی علٰی صلاتہ ولم یسأل بعدھاحکم ببطلانھاسواء اعطاہ صاحب الماء بدون سؤال اولاوعبارۃ الفتح ھکذا جماعۃ (۲)من المتیممین وھب لھم صاحب الماء فقبضوہ لاینتقض تیمم احد منھم لانہ لایصیب کلامنھم مایکفیہ علی قولھما وعلی قول ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم لاتصح ھذہ الھبۃ للشیوع ولو(۱) عین الواھب واحدا منھم یبطل تیممہ دونھم حتی لوکان امامابطلت صلاۃ الکل وکذا(۲) لوکان غیرامام الا انہ لمافرغ القوم سألہ الامام فاعطاہ تفسد علی قول الکل لتبین انہ صلی قادرا علی الماء واعلم انھم فرعو الوصلی بتیمم فطلع علیہ رجل معہ ماء فان غلب علی ظنہ انہ یعطیہ بطلت قبل السؤال وان غلب ان لایعطیہ یمضی علی صلاتہ وان اشکل علیہ یمضی ثم یسألہ فان اعطاہ ولوبیعا بثمن المثل ونحوہ اعاد والافھی تامۃ وکذالواعطاہ بعد المنع الا انہ یتوضّأ ھنالصلاۃ اخری وعلی ھذافاطلاق فسادالصلاۃ فی صورۃ سؤال الامام اماان یکون محمولا علی حالۃ الاشکال اوان عدم الفساد عند غلبۃ ظن عدم الاعطاء مقید بمااذالم یظھر لہ بعدُ اعطاؤہ ۱؎ اھ
ثم اقول: امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے جو روایت آئی ہے اس میں دو۲ تاویلیں ہوسکتی ہیں: اول یہ کہ ''باطل ہوئی'' کا معنٰی یہ ہے کہ ابھی باطل ہوجائے گی جیسا کہ ان حضرات کی عبارتوں اور متعدد جگہوں میں یہ معنی معلوم ومعروف ہے۔ اور ہم نے اسے اپنے رسالہ ''فصل القضاء فی رسم الافتاء'' میں بیان کیا ہے۔ دوم یہ کہ خود اس صورت کا حکم یہ ہے کہ نماز باطل ہوگئی یہاں تک کہ اگر اس نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا اور نماز پڑھ لی، بعد میں مانگا بھی نہیں تو اس نماز کے باطل ہونے کا حکم ہوگا خواہ پانی والا بغیرمانگے اسے دے یا نہ دے۔ اور فتح القدیرکی عبارت اس طرح ہے: تیمم والوں کی جماعت ہورہی ہے انہیں پانی کے مالک نے پانی ہبہ کردیا جس پر وہ قابض بھی ہوگئے تو ان میں سے کسی کا تیمم نہ ٹوٹے گا اس لئے کہ ہر ایک کو اتنا نہ پہنچے گا جو اس کیلئے کافی ہو یہ حکم برقول صاحبین ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے قول پر یہ ہبہ ہی شیوع کی وجہ سے صحیح نہیں، اور اگر ہبہ کرنے والے نے ان میں سے کسی ایک کو معین کردیا تو اس کا تیمم باطل ہوجائے گا باقی لوگوں کا نہیں یہاں تک کہ وہ شخص معین اگر امام تھا تو سب کی نماز باطل ہوگئی۔ اسی طرح اگر غیرامام ہو۔ مگر یہ کہ جب لوگ نماز سے فارغ ہوگئے تو امام نے اس سے پانی مانگا اس نے دے دیا تو سب کے قول پر نماز فاسد ہوگی اس لئے کہ ظاہر ہوگیا کہ اس نے پانی پر قدرت ہوتے ہوئے نماز اداکی۔ جاننا چاہئے کہ مشایخ نے یہ تفریع فرمائی ہے کہ اگر کسی نے تیمم سے نماز شروع کی پھر اس کے سامنے ایسا شخص نمودار ہوا جس کے پاس پانی ہے تو اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ وہ پانی دے دے گا تو مانگنے سے پہلے ہی نماز باطل ہوگئی اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ نہ دےگا تو نماز پُوری کرے اور اگر اشتباہ کی صورت ہو تو نماز پوری کرے پھر اس سے مانگے اگر دے دے خواہ ثمن مثل کے بدلے بیع وغیرہ سے ہی دے تو نماز کا اعادہ کرے ورنہ نماز کامل ہوگئی۔ اسی طرح اگر انکار کرنے کے بعد دے مگر اِس صورت میں وہ یہاں کسی دوسری نماز کیلئے وضو کرے گا۔ تو امام کے مانگنے کی صورت میں فساد نماز کو مطلقاً کہنا یا تو حالت اشتباہ پر محمول ہوگا یا اس پر کہ نہ دینے کا غلبہ ظن ہونے کی صورت میں عدم فساد اس سے مقید ہے کہ ابھی اس کے دینے کا حال ظاہر نہ ہُوا ہو اھ،
(۱؎ فتح القدیر ، باب التیمم مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۱۹)