بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
رسالہ
قوانین العلماء فی متیمم عہ۱ علم عند زید ماء(۱۳۳۵ھ)
عُلماء کے قوانین اس تیمم کرنے والے کے بارے میں جسے معلوم ہُوا کہ زید کے پاس پانی ہے (ت)
عہ۱: اقول جوتیمم سے ہو اور جوتیمم کرنا چاہتا ہومتیمم دونوں پر صادق ہے اور ان مسائل میں دونوں کا ذکر ہے پھر علم کہا رأی نہ کہا کماقالوا کہ علم شرط ہے دیکھنا ضرور نہیں جیسے پانی اس سے آڑ میں ہے یا یہ اندھا ہے اور اسے علم آیا کہ دوسرے کے پاس پانی ہے اور زید کہا رفیق نہ کہا کماقالوا کہ رفیق ہونا کچھ شرط نہیں ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
شرح تعریف رضوی کے افادہ پنجم میں ضمناً اس مسئلہ کا ذکر آیا کہ اگر دوسرے کے پاس پانی پایا اور نہ مانگا اور تیمم سے پڑھ لی پھر مانگا اور اُس نے دے دیا تو نماز نہ ہوئی، نہ دیا تو ہوگئی۔ اس مسئلہ کی تفصیل وتحقیق وہاں لکھی کہ بجائے خود ایک رسالہ ہوگئی طول کے سبب اُسے وہاں سے جُدا کیا اور رسالہ کا حوالہ دیا۔ یہ وہ رسالہ ہے وباللہ التوفیق۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللّٰہ الذی ارسل من بحرنداہ÷ ماء ھداہ÷ مع مصطفاہ÷ فاعطانا بلا سؤال÷ وطھرنا بہ من دنس الضلال÷ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم÷ وبارک وشرف ومجدوکرم÷ علی التوالی والتواتر والاتصال÷ الٰی ابد الاٰباد من ازل الاٰزال÷ وعلٰی اٰلہ وصحبہ خیرصحب واٰل÷
تمام تعریف خدا کیلئے جس نے اپنے بحرِ سخا سے، آبِ ہدٰی، اپنے مصطفٰی کے ساتھ بھیجا، تو ہمیں بے مانگے عطا کیا اور اس سے ہمیں گمراہی کے میل سے پاک کیا۔ خدائے برتر ان پر درود وسلام نازل فرمائے اور برکت وشرافت، بزرگی وکرامت بخشے۔ پے بہ پے لگاتار اور پیہم، ابدوں کے ابد تک، ازلوں کے ازل سے۔ اور ان کی آل واصحاب پر جو بہتر آل واصحاب ہیں۔ (ت)
متیمّم کہ دوسرے کے پاس پانی پائے یہ مسئلہ بہت معرکۃ الآراء وطویلۃ الاذیال ہے اکثر کتب میں اُس کے بعض جزئیات مذکور ہیں امام صدر الشریعۃ نے شرح وقایہ پھر محقق ابراہیم حلبی نے غنیہ شرح منیہ میں پھر محقق زین العابدین نے بحرالرائق میں رحمھم اللّٰہ تعالٰی ورحمنا بھم (خدائے برتر ان پر رحمت فرمائے اور ان کی برکت سے ہم پر رحمت فرمائے۔ ت) اُس کیلئے قوانین کلیہ وضع فرمانا چاہے کہ جمیع شقوق کو حاوی ہوں۔ فقیراوّلاً چند مسائل ذکر کرے جن کا لحاظ ہر ضابطہ میں ضروری ہے وہی اپنے اختلافات پر مادہ ہر ضابطہ ہیں پھر قوانین علماء اور مالہا وما علیہا پھر وہ جو فیض قدیرسے قلبِ فقیرپر فائض ہُوا وللّٰہ الحمد واللّٰہ المستعان وعلیہ التکلان (اور خدا ہی کیلئے ساری حمد ہے اور خدا ہی مستعان ہے اور اسی پر بھروسہ ہے۔ ت)
مسئلہ۱:(۱) اگر دُوسرے کے پاس اتنا پانی ہونا کہ اس کی طہارت کو کافی اور اس کی حاجت سے زائد ہو معلوم نہ تھا اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی نماز کے بعد معلوم ہوا تو نماز پر اس کا کچھ اثر نہیں نماز ہوگئی اگرچہ بعد نماز وہ اسے پانی خود یا اس کے مانگے سے دے بھی دے۔
لما علمت ان لاقدرۃ الا بالعلم حتی لووضع فی رحلہ ماء ونسیہ وصلی تمت وان تذکر بعدھا لم یعد کماتقدم مفصلا فی نمرۃ ۱۵۸۔
اس کی وجہ وہی ہے جو بیان ہوئی کہ بغیرعلم واطلاع کے قدرت نہیں۔ یہاں تک کہ اگر اپنے خیمہ میں پانی رکھا اور بھول گیا اور نماز پڑھ لی تو پوری ہوگئی۔ اگر بعد نماز یاد آیا تو اعادہ نہیں جیسا کہ نمبر۱۵۸ میں تفصیل سے گزرا۔ (ت)
خانیہ میں ہے :المصلی بالتیمم اذاوجد الماء بعد الفراغ من الصلاۃ لاتلزمہ الاعادۃ ولووجد فی خلال الصلاۃ فسدت وکذا (۲) لووجد بعد التشھد قبل السلام وان (۳) وجد بعد ماسلم تسلیمۃ واحدۃ لم تفسد ۱؎۔
تیمم سے نماز ادا کرنے والے کو جب نمازسے فارغ ہونے کے بعد پانی ملے تو اس پر اعادہ لازم نہیں اور اگر نماز کے درمیان پانی پائے تو نماز فاسد ہوگئی۔ اسی طرح اگر تشہد کے بعد سلام سے پہلے پائے۔ اگر ایک سلام پھیرنے کے بعد پائے تو نماز فاسد نہ ہُوئی۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبع نولکشور لکھنؤ ۱/۲۷)
مسئلہ ۲(۱): اگر نماز پڑھتے میں اس نے پانی لاکر رکھا کہ یہ لے لے یا مطلق کہا کہ جس کے جی میں آئے اس سے وضو کرے تو تیمم ٹوٹ گیا نماز جاتی رہی اس کا ذکر ضمناً نمبر۱۶۱ میں گزرا مگر یہاں ایک استثناء نفیس ہے امام فقیہ النفس نے فرمایا(۲)اگر وہ کہنے والا نصرانی ہو نیت نہ توڑے کہ اس کے کہنے کا کیا اعتبار شاید مسخرہ پن سے کہتا ہو، ہاں نماز کے بعد اس سے مانگے دے دے تو نماز پھیرے ورنہ ہوگئی۔
خانیہ میں ہے:المصلی بالتیمم اذا قال لہ نصرانی خذ الماء فانہ یمضی علی صلاتہ ولایقطع لان کلامہ قد یکون علی وجہ الاستھزاء فلایقطع بالشک فاذافرغ من الصلاۃ سألہ ان اعطاہ اعاد الصلاۃ والافلا ۲؎۔
تیمم سے نماز اداکرنے والے سے جب کوئی نصرانی کہے پانی لے تو نماز پڑھتا رہے قطع نہ کرے اس لئے کہ اس کا کلام بطور استہزاء بھی ہوتا ہے تو شک کی بنیاد پر قطع نہ کرے۔ جب نماز سے فارغ ہوجائے تو اس سے طلب کرے اگر دے دے تو نماز کا اعادہ کرے ورنہ نہیں۔ (ت)
اسی طرح خلاصہ میں زیادات وفتاوٰی رزین سے ہے اقول علمائے (۳) کرام اکثر بجائے مناط ذکر مظنہ پر اکتفاء فرماتے اور مثال سے مقصود کی راہ دکھاتے ہیں یہاں نہ نصرانی کی تخصیص نہ کافر کی خصوصیت بلکہ مدار ظن استہزا ہے اگر نصرانی (۴) یا کوئی کافر اس کا نوکر یا ماتحت یار عیت یا اس کی شاگردی میں ہے یا اس سے کسی حاجت کی طمع رکھتا ہے یا خوف کرتا ہے تو ان صورتوں میں اُس پر گمان استہزا نہ ہوگا نیت توڑنی ہوگی ہاں اگر پھر مانگے پر نہ دے توتیمم باقی ہے وذلک لظھور القدرۃ علی الماء ظنامع عدم مایعارضہ(وہ اس لئے کہ ظنی طور پر پانی پر قدرت ظاہر ہوگئی اور اس کا کوئی معارض موجود نہیں۔ ت) اور اگر کوئی (۵) فاسق بیباک تمسخر کا عادی ہے لوگوں سے یونہی کہا کرتا پھر نہیں دیتا ہے تو اُس کے کہنے پر نیت توڑنے کی اجازت نہ ہوگی۔
لان ابطال العمل حرام ولم یحصل الظن علی القدرۃ بقول مثلہ من المستھزئین اللئام۔
اس لئے کہ عمل کا باطل کرنا حرام ہے اور اس جیسے کمینے تمسخر کرنے والے کی بات سے قدرت کا ظن حاصل نہ ہوا۔(ت)
ہاں بعد نماز دے دے تو اعادہ کرنی ہوگی ورنہ نماز بھی ہوگئی اورتیمم بھی باقی واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳ (۱): اگر اس نے اس سے پانی لینے کو نہ کہا مگر عین نماز میں اسے اس کے پاس کافی پانی ہونے کا علم ہوا اقول اگرچہ تذکُّر سے کہ پہلے اس کے پاس پانی ہونا معلوم تھا یاد نہ رہا تیمم کرکے نماز شروع کی نماز میں یاد آیا کہ فلاں کے پاس پانی ہے وھذا ظاھر جدا (اور یہ بہت ظاہر ہے۔ ت) تو دو صورتیں ہیں اگر اسے گمان غالب ہوکہ مانگے سے دے دے گا۔ تو نیت توڑے اور مانگے اور اگر گمان غالب ہوکہ نہ دے گا یا کسی طرف غلبہ ظن نہ ہو شک کی حالت ہو تو نیت توڑنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ صدر الشریعۃ میں زیادات سے ہے:
المتیمم المسافر اذارأی مع رجل ماء کثیرا وھو فی الصلاۃ وغلب علی ظنہ انہ لایعطیہ اوشک مضی علی صلاتہ لانہ صح شروعہ فلایقطع بالشک وان غلب علی ظنہانہ یعطیہ قطع الصلاۃ وطلب منہ الماء ۱؎۔
تیمم والا مسافر حالتِ نماز میں جب کسی کے پاس کثیرپانی دیکھے اور غالب گمان ہوکہ وہ اسے پانی نہ دے گا یا شک ہو تو نماز پڑھتا رہے اس لئے کہ اس کا شروع کرنا صحیح ہے توشک کی وجہ سے نیت نہ توڑے گا اور اگر غالب گمان ہو کہ پانی دے دے گا تو نماز توڑدے اور اس سے پانی طلب کرے۔ (ت)
(۱؎ شرح الوقایہ فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبع رشیدیہ دہلی ۱/۱۰۱)
بعینہٖ اسی طرح بدائع وحلیہ میں جامع کرخی سے ہے: غیرانہ لیس فیہ ذکر ظن العطاء صریحاوانمادل علی القطع فیہ بالمفھوم۔
مگر اس میں دینے کا گمان ہونے والی صورت صراحۃً مذکور نہیں۔ مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں نماز توڑ دینے کا حکم ہے۔ (ت)
بزازیہ میں ہے:ان علم انہ یعطیہ قطع وان اشکل لا ۲؎۔
اگر یہ جانتا ہو کہ وہ دے دے گا تو نماز توڑ دے اور اگر اشکال واشتباہ کی صورت ہو تو نہ توڑے (ت)
(۲؎ فتاوٰی بزازیۃ مع عالمگیری، فصل الخامس فی لتیمم، مطبع نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۱۶)
فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے: المصلی(۲) بالتیمم اذارأی سراباً ان کان اکبر رأیہ انہ ماء یباح لہ ان ینصرف وان استوی الظنان لایحل لہ قطع الصلاۃ واذافرغ من الصلاۃ ان ظھر انہ کان ماء یلزمہ الاعادۃ والافلا ۱؎۔
تیمم سے نماز ادا کرتے ہوئے اگر سراب (پانی کی شکلمیں ریت) دکھائی دے تو اگر اس کا غالب گمان ہوکہ یہ پانی ہے تو اس کیلئے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر دونوں گمان برابر ہوں تو نماز توڑنا جائز نہیں، اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ظاہر ہوجائے کہ پانی ہی ہے تو اعادہ لازم ہے ورنہ نہیں۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۲۸)
تنبیہ۔ اقول: ظاہر (۱) عبارات بحالت ظن غالب عطا وجوب قطع ہے،
لان(۲) صیغۃ الاخبار اکد من صیغۃ الامر ولان بظن العطاء وان لم یقدر علی الماء حتی یبطل تیممہ لکن اورث شبھۃ قویۃ فی بقائہ فلایحل المضی علیہ حتی یظھربطلانھاولان الصلاۃ بالتیمم (۳ )کاملۃ عندنا کالصلاۃ بالوضؤ ولذا (۴) صح اقتداء المتوضئ بالمتیمم بل جاز بلاکراھۃ وان کان العکس افضل فھذا القطع لیس(عـہ)للاکمال بل للابطال ولیس ثمہ فی المضی علی الصلاۃ ضرر علیہ یزال ومثل القطع لولم یجب لم یجزلقولہ تعالٰی ولاتبطلوا اعمالکم واللّٰہ سبحٰنہ اعلم۔
اس کی چند وجہیں ہیں (۱) اس لئے کہ صیغہ خبر صیغہ امر سے زیادہ مؤکد ہے (۲)اس لئے کہ دینے کا اسے گمان ہے تو اتنے سے پانی پر اسے قدرت نہیں حاصل ہوگئی کہ اس کا تیمم باطل ہوجائے لیکن اس گمان سے تیمم باقی رہ جانے میں ایک قوی شبہ ضرور پیدا ہوگیا تو اس تیمم پر برقرار رہنا حلال نہ ہوگا جب تک کہ اس شبہ کا بطلان ظاہر نہ ہوجائے (۳) اس لئے کہ ہمارے نزدیک تیمم سے نماز کی ادائیگی کامل ہے جیسے وضو سے نماز کاحل ہے اسی لئے یہ درست بلکہ بلاکراہت جائز ہے کہ وضو والا تیمم والے کی اقتدا کرے اگرچہ اس کا عکس افضل ہے۔ تو اس گمان کے باعث نماز توڑنا اسے کامل کرنے کیلئے نہیں بلکہ باطل کرنے کیلئے ہے اور وہاں نماز پڑھتے رہنے میں اس کا کوئی نقصان بھی نہیں جسے دُور کرنا ہو۔ اور نماز توڑنا ایسا عمل ہے کہ اگر واجب نہ ہوتا تو اس کا جواز ہی نہ ہوتا اس لئے کہ باری تعالٰی کا فرمان ہے: ''اور تم اپنے عملوں کا باطل نہ کرو''۔ اور اللہ تعالٰی خوب جاننے والا ہے۔ (ت)
(عـہ)فان قلت الیس قدقالواندب لراجی الماء تأخیرالصلاۃ الٰی اٰخر الوقت المستحب لیقع الاداء باکمل الطھارتین اقول الاکمل فوق الکامل والقطع انما جاء للاکمال لاللزیادۃ بعد الکمال قال فی البنایۃ علی قول الھدایۃ باکمل الطھارتین وھو الوضو وصیغۃ افعل تدل علی ان التیمم طھارۃ کاملۃ ولکن الوضؤ اکمل منھا ۳ اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کیا علما نے یہ نہیں فرمایا کہ پانی ملنے کی امید ہو تو آخر وقت مستحب تک نماز مؤخر کرنا مندوب ہے تاکہ نماز کی ادائیگی دونوں طہارتوں میں سے اس طہارت سے ہو جو زیادہ کامل ہے اقول (جواب یہ ہے کہ) زیادہ کامل کا درجہ کامل سے اوپر ہے اور نماز توڑنا کامل کرنے ہی کیلئے ہے کامل ہوجانے کے بعد زیادتی کمال کیلئے نہیں ہے ہدایہ کی عبارت ''باکمل الطھّارتین'' (دونوں سے اکمل طہارت کے ذریعہ) پر بنایہ کے الفاظ یہ ہیں: وہ وضو ہے اورا فعل کا صیغہ یہ بتارہا ہے کہ تیمم بھی طہارت کاملہ ہے لیکن وضو اس سے زیادہ کامل ہے اھ۔ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۳؎البنایہ فی شرح الھدایہ باب التیمم المکتبۃ الامدادیہ مکۃ المکرمہ ۱ /۳۲۶)