فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۳۰(فضائل وخصائص ) |
مسئلہ۱ تا ۴: از پٹنہ عظیم آباد لودھی کٹرہ مرسلہ قاضی عبدالوحید صاحب ۲۷ رمضان ۱۳۲۱ ھ مخدومی و مولائی قبلہ مد ظلہ العالی!تسلیم! امور مفصلہ ذیل کا ازراہ کرم مکمل جواب دیجئے کہ فقیر کو سخت تردد ہے ۔ دوسرے بعض علماء سے بھی گفتگو آئی مگر تنقیح امور نہ ہو پائی ۔ لہذا فقیر کو ابھی شک ہے ، للہ دفع فرمائیے، اور اجر عظیم پائیے: (۱) زیارت قبورللنساء کو مولانا فضل رسول بدایونی رضی اللہ تعالٰی عنہ بضمن تردید الحق وہابی دہلوی جائز فرماتے ہیں نیز علامہ عینی بھی ۔ جواب مکمل عطاہوکہ رفع شبہہ ہو۔ (۲) تحفہ رجب میں مختلط خطبہ کو آپ غیر مناسب بوجہ عدم توارث بتاتے ہیں حالانکہ تاج الفحول بدایونی رحمہ اللہ اسے درست وجائز بتاتے ہیں ۔ یہ شبہ بھی رفع ہو۔ (۳) جزاء اللہ عدوہ کے آخر میں جناب حضرات ساداتِ کرام کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان پر طریانِ کفر ناممکن ، نہ یہ نیچری وغیرہ ہوسکیں، حالانکہ مشاہدہ اس کے خلاف ہے ۔ دوسرے جملہ سادات کی سیادت پر تیقن اٹھ جائے گا ۔ استدلال جناب بہ عموم آیت وحدیث شریف تحقیقات دیگر علما جو اسے مخصوص بحضرات طیبین رضیا للہ تعالٰی عنہما بتاتے ہیں ۔ تیسرے پھر سادات کرام بھی قطعی جنتی ہوئے انہیں اندیشہ آخرت کیا باقی رہا! (۴) اسمائے ذیل مثل ضیاء الدین ، منیر الدین وغیرہ کو جناب قطعاً ناجائز بتاتے ہیں ، جس شخص نے براہ تفاؤل خیر رکھا، کیا حرج ہے؟ ورنہ کسی کا نام سعید وغیرہ بھی نہیں رکھ سکتے ، جواب مرحمت فرمائیے۔
الجواب حامی سنن ، ماحی فتن ، ندوہ شکن ، ندوی فگن ، مولانا وحید زمین ، صین عن الفتن وحوادث الزمن امین یا ذالمنن ! اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جواب مسائل اجمالاً حاضر ،تفصیل کا وقت کہاں۔ قرآن مجید سن کر اس وقت آیاہوں، بارہ بجا چاہتے ہیں ، گیارہ بج کر ساڑھے باون منٹ آئے ہیں کہ یہ نیاز نامہ لکھ رہاہوں اوراگر کسی میں تفصیل طلب فرمائیں گے تو امتثال امر کے لیے ہوں اوربارگاہ عزت سے امید ایسی ہی ہے کہ آپ کا ذہن سلیم بحمداللہ تعالٰی اسی اجمال سے ہی بہت کچھ تفصیل پیدا فرمائے گا۔
مسئلہ زیارۃ القبورللنساء
حبیبی اکرمکم اللہ تعالی ! شے کے لیے حکم دو قسم ہے : ذاتی کہ اس کے نفس ذات کے لحاظ سے ہو ۔اور عرضی کہ بوجہ عروض عوارض خارجیہ ہو ۔تمام احکام کہ بنظر سد ذرائع دیے جاتے ہیں جو مذہب حنفی میں بالخصوص ایک اصل اصیل ہے ،اسی قسم دوم سے ہیں ۔یہ دونوں قسمیں باآنکہ نفی و اثبات میں مختلف ہوتی ہیں ہر گز متنافی نہیں کہ مناشی جدا جدا ہے ۔اس کی مثال حضور نساء فی المساجد ہے کہ نظر بذات ہر گز ممنوع نہیں کہ ان کا روکنا ممنوع ہے۔ صحیح حدیث میں ارشاد ہوا:
لاتمنعو ا اماء اللہ مساجد اللہ۱۔
اللہ کی باندیوں کو اللہ تعالی کی مساجد سے نہ روکو ۔
(۱ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ھل علی من لایشہد الجمعۃالخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۳)
اور نظر بحال زناں ممنوع
کما صرح بہ الفقھا ء الکرام
(جیسا کہ فقہا ء کرام اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت)
وقد قالت ام المومنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا لو رای رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ما احدث النساء لمنعھن المساجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔۱
ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے جو نئی باتیں پیداکر لی ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انھیں دیکھتے تو ان کو ایساہی مسجدوں سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئیں۔
(۱ صحیح البخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الی المساجد الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۰)
یونہی دخول نساء فی الحمام کہ پردہ و ستر و عدم فتنہ کے ساتھ ہو تو فی نفسہ اصلا وجہ ممانعت نہیں رکھتا بلکہ طیب و نظافت میں داخل ہے :
بنی الاسلام علی النظافۃ ۲
(اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی گئی ہے ۔ت) مگر نظر بر حال کہ باہم کشف عورات کے عادی ہیں ۔
(۲اتحاف السادۃ المتقین کتاب اسرارالطہارۃ دارالفکر بیروت۲ /۱۲۰) (کشف الخفاء حدیث۹۲۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۵۸)
امام ابن ہمام وغیرہ اعلام نے فرمایا کہ سبیل اطلاق منع ہے ،یہ حکم اسی قسم دوم کا ہے ۔بعینہ یہی لفظ آپ نے اس حکم میں پائے ہوں گے جو فقیر نے مسئلہ زیارت میں اختیار کیا ۔مجھے یاد نہیں کہ میں نے حرام لکھا ہو بلکہ غالبا تعلیم ادب کے ساتھ حلت کی طرف اشارہ کیا اور نظر بحال سبیل اطلاق منع بتایا ہے ،آپ میرے فتوی کو ملاحظہ فرمائیں ،مجھے اس وقت بارہ ۱۲ بج کر دس ۱۰منٹ آگئے اپنے مجموعہ سے نکالنے اور دیکھنے کی فرصت نہیں ۔
فظھر ان لا تعارض و ان الحکمین کلاھما صواب علیحدۃ و اللہ تعالی اعلم ۔
ظاہر ہو گیا کہ کوئی تعارض نہیں اور دونوں حکم علیحدہ علیحدہ درست ہیں ۔واللہ تعالی اعلم (ت)