نواں، اِن دونوں کی تفسیر علامہ ''ش'' نے موزے کی مسئلے میں صحیح طریقہ پر کی ہے، پھر اُس سے انحراف کیا،اور فرمایا اس میں جو بحث ہے ہم اس کو ذکر کریں گے جیسا کہ گزرا،یہ بحث ساتویں تحقیق میں آپ جان چکے ہیں۔(ت)
العاشر:قال فی الجوھرۃ (اذا اصاب الخف نجاسۃ لھاجرم)ای لون و اثر بعدالجفاف کالروث والدم والمنی ۱؎ اھ فرد الصحیح الی الغلط الصریح۔
(۱؎ الجوہرۃ النیرۃ باب الانجاس امدادیہ ملتان ۱/۴۲)
دسواں، جوہرہ میں کہا (جب موزے کو جرم دار نجاست لگ جائے) یعنی جس کا خشک ہونے کے بعد رنگ اور اثر ہو جیسے لید، خون اور منی اھ تو صحیح سے انہوں نے صریحاً غلط مطلب نکالا۔ (ت)
اقول:وتعرف مافی کل ھذہ بحرف واحد فاعلم ان المسائل ھھنا اربع مسألۃالتطہیر بازالۃ العین اوغلبۃ الظن ومسألۃ وقوع نجس فی حوض کبیر ومسألۃ الخف ومسألۃ التقدیر بوزن الدرھم اومساحتہ وزاد فی البدائع اخری مسألۃ الوقوع فی البئر فمسألۃ التطھیر والحوض الکبیر فریق وسائرھن فریق والمراد بالمرئی فی الفریق الاٰخر ھو المتجسد ای مایری لہ بعد الجفاف جرم شاخص فوق سطح المصاب ولا یکفی مجرد اللون وبغیر المرئی غیرالمتجسد ای مالا یری بعد الجفاف جرم شاخص وان بقی اللون وھذا مافی الصغری والتتمۃ وشرح الطحاوی والذخیرۃ والمنبع والمراد بالمرئی فی مسألۃ التطہیر والحوض الکبیر ما یدرکہ البصر وان جف ولوبمجرد لونہ من دون جرم مرتفع فوق المصاب وبغیر المرئی مالایحس لہ بالبصر بعد الجفاف اوفی الماء عین ولا اثر وھذا مافی غایۃ البیان وغیرہا،
میں کہتاہوں جو کچھ مذکورہ ابحاث میں ہے وہ صرف ایک حرف سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دراصل یہاں چار مسائل ہیں، پاک کرنے کیلئے نجاست کے عین کو زائل کردینا یا اس کے زوال کا غلبہ ظن حاصل ہونا، بڑے حوض میں نجاست کے گرنے کا مسئلہ، موزے کا مسئلہ، وزن درہم سے اندازہ یا اس کی پیمائش کا لحاظ۔ اور بدائع میں ایک اور مسئلہ کا اضافہ کیا، کنویں میں گرنے کا مسئلہ، تو پاکی، اور بڑے حوض کا مسئلہ ایک فریق ہے اور باقی دوسرا فریق ہے اور مرئی سے دوسرے فریق میں جسم والا مراد ہے، یعنی جس کا جرم خشک ہونے کے بعد بھی ابھرا ہوا نظر آئے اور اس میں صرف رنگ نظر آنا کافی نہیں ہے، اور غیر مرئی سے مراد غیر متجسد ہے، یعنی خشک ہوجانے کے بعد اُس کا اُبھرا ہوا جرم نظر نہ آئے اگرچہ اس کا رنگ باقی ہو،یہ وہ ہے جو صغرٰی، تتمہ، شرح طحاوی، ذخیرہ اور منبع میں ہے، اور مسئلہ تطہیر، اور بڑے حوض میں مرئی سے مراد وہ ہے جو نظر میں آئے اگرچہ خشک ہوجائے، اگرچہ صرف رنگ نظر آئے جرم نظر نہ آئے، اور غیر مرئی سے مراد جو خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے یا پانی میں کوئی جرم ہو اور نشان نہ ہو یہ غایۃ البیان وغیرہ میں ہے
والدلیل علی ھذا التوزیع:اولا مااستدلوا بہ علی احکام للفریقین کمالایخفی علی من طالع الکتب المعللۃ کالبدائع والھدایۃ والتبیین والکافی والفتح والغنیۃ والحلیۃ والبحر وغیرھا من ذلک قول الھدایۃ اذا اصاب الخف نجاسۃ لھا جرم فجفت فدلکہ جازلان الجلد لصلابتہ لاتتداخلہ اجزاء النجاسۃ الا قلیلا ثم یجتذبہ الجرم اذا جف فاذا زال زال ماقام بہ وان اصابہ بول لم یجز وکذا کل مالاجرم لہ کالخمر لان الاجزاء تتشرب فیہ ولا جاذب یجذبھا ۱؎ اھ
اور اس تو زیع کی دلیل یہ ہے: (ت)
اوّلاً:وہ جو انہوں نے استدلال کیا ہے مسائل کے فریقین کے احکام پر، جیسا کہ مخفی نہیں اس پر جس نے اُن کتب کا مطالعہ کیا ہے جو احکام کی علتیں بیان کرتی ہیں، جیسے بدائع، ہدایہ، تبیین، کافی، فتح، غنیہ، حلیہ اور بحر وغیرہ۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے کہ اگر موزے کو کوئی جرم دار نجاست لگ جائے اور خشک ہوجائے تو وہ رگڑنے سے پاک ہوجاتا ہے، کیونکہ کھال کی سختی کی وجہ سے اس میں نجاست کے اجزاء داخل نہیں ہوسکتے سوائے معمولی اجزاء کے اور جب موزہ خشک ہوگا تو اُن اجزاء کو جرم جذب کرلے گا اور جب وہ جرم زائل ہوگا تو جو اُس کے ساتھ ہوگا وہ بھی زائل ہوجائےگا اور اگر موزے پر پیشاب لگ جائے تو جائز نہیں، اور اسی طرح ہر اس نجاست کا حال ہے جس کا جرم نہ ہو جیسے شراب، کیونکہ شراب کے اجزاء اس میں جذب ہوتے ہیں اور ان کاکوئی جاذب نہیں ہے اھ
اور حلیہ میں ہے کیونکہ وہ محض تری ہے تو وہ موزے کے اجزاء میں داخل ہوگی اور اس کا کوئی جاذب نہیں اھ
(۲؎ حلیہ)
وانت تعلم انہ لااثر فی ھذا للاثر بقی اولا بخلاف مسألۃ التطھیر فان المقصود فیھا ازالۃ المصیب وذلک بالیقین فی المرئی وبغلبۃ الظن فی غیرہ لانہ اذالم یحس لم یبق سبیل الی الیقین بزوالہ فاکتفی باکبر الرأی الملتحق فی الفقہیات بالیقین اما مایری لہ عین اواثرفنعلم زوالہ بزوالہ وبقاء ہ ببقاء ہ لان الاثر لایقوم الابالعین والعرض لاینتقل من عین الی عین قال فی البدائع انکانت النجاسۃ مرئیۃ کالدم ونحوہ فطھارتہ زوال عینھا ولاعبرۃ فیہ بالعددلان النجاسۃ فی العین فان زالت زالت وان بقیت بقیت ولو زالت العین مابقی الاثر فان کان مما یزول اثرہ لایحکم بطھارتہ مالم یزل الاثر لان الاثر لون عینہ لالون الثوب فبقاؤہ یدل علی بقاء عینہ وانکانت مما لایزول اثرہ لایضر بقاء اثرہ لان الحرج (عـہ)مدفوع ۱؎ اھ ملتقطاوبھذا یفترقان فی الحوض فغیر المرئیۃ (عـہ۱) تنعدم والمرئیۃ تبقی ولاتؤثرحتی ان قلت مساحۃ الماء اثرت۔
اور تم جانتے ہو کہ اس میں اثر کا کوئی دخل نہیں جو باقی رہا یا نہ رہا بخلاف مسئلہ تطہیر کے، کیونکہ وہاں مقصود لگی ہوئی چیز کا ازالہ ہے، اور یہ اُسی وقت ہوگا جبکہ مرئی میں ازالہ کا یقین ہو اور غیر مرئی میں غلبہ ظن ہو کیونکہ جب وہ محسوس نہ ہو تو اس کے زوال کا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں، تو ظنِ غالب پر اکتفاء کرلیا گیا، جس کو فقہی مسائل میں یقین کا قائم مقام سمجھا گیا ہے، اور وہ نجاستیں جن کا جرم یا اثر ہو تو اُن کے زوال کا حال اُن کے زوال سے معلوم ہوجاتا ہے اور اُس کی بقاء ان کے باقی رہنے سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اثر تو عین سے قائم ہوتا ہے اور عرض ایک عین سے دوسرے عین کی طرف منتقل نہیں ہوتا ہے، بدائع میں فرمایا اگر نجاست مرئیہ ہو جیسے خون اور اسی کی مثل تو اس کی طہارت اس کے عین کے زوال پر موقوف ہوگی، اور اس میں عدد کا اعتبار نہیں، کیونکہ نجاست عین میں ہے تو اگر وہ زائل ہوگا تو وہ زائل ہوگی اور وہ باقی ر ہے گا تو وہ باقی ر ہے گی، اور اگر عین زائل ہوگیا تو اثر باقی نہ رہیگا، اور اگر وہ اس قسم کا ہے کہ اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے تو اس کی طہارت کا حکم اس وقت تک نہیں لگایا جائے گا جب تک کہ اثر زائل نہ ہو کیونکہ اثر اس کے عین کا رنگ ہے نہ کہ کپڑے کا، تو اس کی بقاء اس کے عین کی بقاء پر دلالت کرتی ہے اور اگر وہ ایسا ہے کہ اس کا اثر زائل نہیں ہوتا تو اس کے اثر کا باقی رہنا مضر نہیں کیونکہ حرج مدفوع ہے اھ ملتقطاً، تو اس طرح یہ دونوں حوض میں جُدا ہوجائیں گے تو غیر مرئیہ معدوم ہوجائے گی اور مرئیہ باقی ر ہے گی اور اثر انداز نہ ہوگی یہاں تک کہ جب پانی کی پیمائش کم ہوگی تو پھر اثر انداز ہوگی۔ (ت)
(عـہ)اقول استدل رحمہ اللّٰہ تعالٰی علی ھذا باربعۃ اوجہ ھذااحسنھافاقتصرت علیہ تبعا للھدایۃ ولوذکرت سائرا لوجوہ بمالھا وعلیھا طال الکلام ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اقول: صاحب بدائع نے اس پر چار طرح سے دلیل قائم کی ہے میں نے ہدایہ کی اتباع میں صرف اس کو بیان کیا ہے اور اگر میں تمام وجوہ کو ہمہ پہلو ذکر کرتا تو بات طویل ہوجاتی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(عـہ۱) کما حققناہ فی الاصل السادس والعاشر من الجواب الخامس فی رسالتنارحب الساحۃ ۱۲ منہ غفرلہ (م)
جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ''رحب الساحۃ''میں پانچویں جواب کے تحت چھٹے اور دسویں قاعدہ میں اس کی تحقیق کی ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
وثانیا:عد ملک العلماء الدم من المرئی کمارأیت اٰنفاوقدعدہ قبل ھذا بورقتین من غیر ذوات الجرم فقال ان کان غیر مستجسدکالبول والدم والخمر ینزح ماء البئر کلہ ۱؎ اھ وکذلک قول الھدایۃ مالاجرم لہ کالخمر ومعلوم ان الدم والخمر من ذوات اللون فعلم ان لاعبرۃ بہ فی مسألۃ الخف والبئر وکذا مسألۃ التقدیر لان اللون لااثر لہ فی الکثافۃ والرقۃ ولذا قال فی الخانیۃ فی غیرالمستجسدۃ کالبول والخمر والدم یعتبر القدر بسطا ۲؎ اھ بخلاف مسألۃ التطھیر المشروط فیھا زوال الاثرمالم یشق فلذا جعلہ ملک العلماء فیھا من المرئی۔
اور ثانیاً ملک العلماء نے خون کو مرئیہ میں سے شمار کیا ہے جیسے کہ آپ نے ابھی دیکھا،حالانکہ دو ورق پہلے انہوں نے اس کو غیر جرم والی نجاستوں میں شمار کیا تھا، فرمایا اگر وہ جرم دار نہ ہو جیسے پیشاب، خون اور شراب، توکنویں کا سارا پانی نکالا جائے اھ اور ہدایہ کا قول بھی ایسے ہے کہ جس کا جرم نہ ہو جیسے شراب، اور یہ بات معلوم ہے کہ شراب اور خون رنگ والی چیزیں ہیں پس معلوم ہوا کہ موزہ اور کُنویں کے مسئلہ میں رنگ کا اعتبار نہیں ہے اسی طرح اس میں مقدار کا اعتبار نہیں کیونکہ رنگ میں کثافت اور رقت کا اثر نہیں ہوتا، اسی لئے خانیہ میں کہا کہ غیر جسم والی نجاستوں جیسے پیشاب، شراب اور خون میں پھیلاؤکے اعتبار سے اندازہ ہوگا اھ بخلاف مسئلہ تطہیر کے کہ اس میں زوالِ اثر مشروط ہے جب تک کہ دشوار نہ ہو، اس لئے اس کو اس میں ملک العلماء نے مرئی قرار دیا ہے۔ (ت)
وثالثا:لک العلماء عبرفی مسائل الفریق الاخیربالمستجسد وغیر المستجسد او المستجسد والمائع ثم قال فی الفریق الاول النجاسۃ المرئیۃ قط لاتزول بالمرۃ الواحدۃ فکذا غیر المرئیۃ ولافرق سوی ان ذلک یری بالحس وھذا یعلم بالعقل ۱؎ اھ وھذا من اجلی نص علی ان المرئی بلونہ من المرئی فی مسئلۃ التطھیر۔
ثالثا: آخری فریق کے مسائل میں ملک العلماء نے جسم والی اور غیر جسم والی، یا جسم والی اور مائع سے تعبیر کیا، پھر فرمایا کہ فریق اول میں نجاست مرئیہ کبھی ایک مرتبہ میں زائل نہیں ہوتی ہے تو اسی طرح غیر مرئیہ ہوگی اور کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ مرئیہ حِس سے نظر آتی ہے اور غیر مرئیہ عقل سے معلوم ہوتی ہے اھ اور یہ بڑی واضح نص ہے مسئلہ تطہیر میں رنگ والی مرئیہ میں سے ہے۔ (ت)
و رابعا:کذلک الامام تاج الشریعۃ عبر فی مسألۃ التقدیر بالکثیف والرقیق وفی مسألۃ الخف بذی جرم ومالاجرم لہ وقال فی مسألۃ التطھیر یطھر عمالم(عـہ) یراثرہ بغسلہ ثلثا فابان ان مایری اثرہ من المرئی ولا اقول کما قال فی الغنیۃ(۱)تحت قولہ ان لم تکن النجاسۃ مرئیۃ ای ان لم یکن لھالون مخالف اللون الثوب ۱؎ اھ فانہ یحصر المرئی فی الرؤیۃ باللون ویخرج مایری لہ جرم شاخص فوق سطح المصاب مع موافقتہ لہ فی اللون علی انہ یرفع(۲)الامتیاز بین المرئی وغیرہ فکل شیئ اصاب ما یخالفہ فی اللون کان مرئیا واذا اصاب مایوافہ فیہ کان غیر مرئی۔
اور چوتھا، اسی طرح امام تاج الشریعۃ نے مقدار کے مسئلہ میں کثیف اور رقیق سے تعبیر فرمایا، اور موزے کے مسئلہ میں جرم دار یا غیر جرم دار سے تعبیر کیا، اور مسئلہ تطہیر میں فرمایا کہ جس نجاست کا اثر غیر مرئی ہو وہ تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوگی تو انہوں نے واضح کردیا کہ جس کا اثر نظر آئے وہ نجاست مرئیہ ہے، اور میں وہ نہیں کہتا جو غنیہ میں ان لم تکن النجاسۃ مرئیۃ کے تحت فرمایا، یعنی اگر اس کا رنگ کپڑے کے رنگ سے مختلف نہ ہو اھ، کیونکہ یہ مرئی کو رؤیۃ باللون میں منحصر کرتا ہے اور اس سے وہ خارج ہوجائےگا جس کا اُبھرا ہوا جرم نظر آتا ہو حالانکہ وہ رنگ میں کپڑے کے رنگ کے موافق ہوتا ہے علاوہ ازیں ان کابیان مرئی اور غیر مرئی کے درمیان امتیاز کو ختم کردیتا ہے کیونکہ اس طرح ہر وہ چیز جو ایسی چیز کو لگ جائے جو اُس کے رنگ میں مخالف ہو تو وہ مرئی ہوگی اور جب وہ ایسی چیز کو لگی جو رنگ میں اس کے موافق ہو تو غیر مرئی ہوگی۔ (ت)
(عـہ) ولکن اکرم بعقل الذی یری ھذا التصریح المفیض٭ ثم یقوم یفسر النقیض بالنقیض٭ وھو العصری اللکنوی اذقال فی عمدۃ الرعایۃ وھی التی لاجرم لھا ولاتحس بعد الجفاف سواء کان لہ لون ام لاکذا فی خزانۃ الفتاوی اھ فسبحٰن اللّٰہ یقول التاج لم یراثرہ وھذا یفسرہ بمایری اثرہ اولا ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم ۱۲ منہ غفرلہ (م)
لیکن آپ اس کی عقل کو داد دیں جس نے یہ تصریح دیکھ کر اس کی تفسیر اس کی نقیض کے ساتھ کردی اور یہ معاصر لکھنوی ہیں جنہوں نے عمدۃ الرعایۃ میں کہا کہ یہ وہ نجاست ہے جس کا جرم نہ ہو اور وہ خشک ہونے کے بعد محسوس بھی نہ ہو خواہ اس کا رنگ ہو یا نہ ہو خزانۃ المفتین میں ایسے ہے اھ پس سبحان اللہ تاج الشریعۃ تو یہ فرمائیں کہ ''وہ جس کا اثر نظر نہ آئے'' اور یہ صاحب اس کی تفسیر کرتے ہیں کہ اس کا اثر دیکھا جائے یا نہ دیکھا جائے لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
وخامسا: اتفقت المتون والاقدمون علی التعبیر فی مسألتی الخف والتقدیر بذی جرم وغیر ذی جرم والکثیف والرقیق وفی مسألتی التطھیر والحوض الکبیر بالمرئی وغیر المرئی لاشک ان المرئی لونہ مرئی بل لامرئی منہ الا اللون سواء کان کثیفا او رقیقا والذی لاجرم لہ شاخصا بعد الجفاف رقیق ولیس اللون جرما فتبین ان اللون معتبر فی ھذا الفریق دون الاٰخر ولومشت الشروح علی التفسیر فی الموضعین بماھو مؤدی نفس الالفاظ لم یقع الاشتباہ لکنھم کمافسروا فی مسألۃ التطھیر بما یری بعد الجفاف ومالایری بعدہ کما مرعن غایۃ البیان وعنھا فی البحر والشرنبلالیۃ والطحطاوی علی المراقی ومثلہ فی الدر وغیرہ کذلک فسروابھما ذا الجرم وغیر ذی الجرم فی مسألۃ الخف کماتقدم فذھب الوھل الی ان المراد واحد فی الموضعین ولیس کذلک بل ھو علی ظاھرہ فی مسألۃ التطھیر ومؤول برؤیۃ الجرم وعدمھا فی الفریق الاٰخر فھذا ھو التحقیق الانیق الذی لوحانت منھم التفاتۃ الیہ لما(۱)فسرھماالعنایۃ وچلپی فی الفریق الاول بالمستجسدۃ وغیرھا ولا(۲)نقل فیھاالقھستانی عبارۃ الصغری ولا(۳)البرجندی عبارۃ شرح الطحاوی ولا(۴)نصب الخلاف بینھا وبین مافی بعض الشروح ولا(۵) جعل البحر وط معنی العبارتین واحدا ولا نقل فیھا عبدالحلیم مانقل ولا(۶)اثبت الخلاف بین واردین غیر مورد واحد ولا(۷)جعل المنصور ھھنا الاول ولا(۸)صرف الحلیۃ کلام الغایۃ الی غیر المحمل اماکون بعض الابوال قدیری لہ لون فلایقدح فی المثال ولایحصر فیہ مراد المقال ولا(۹)اضطرب کلام الشامی فیہ فجزم فی مسألۃ التقدیر بحمل المرئی علی مرئی الجرم ثم انکرہ ولا (۱۰)احتاج الی ترجیح مافی الغایۃ علی مالایخالفہ اصلا ولا(۱۱) تمسک بالتوفیق فان کلام الھدایۃ فی مسئلۃ الخف قال اذااصاب الخف نجاسۃ لھاجرم کالروث والدم والمنی ۱؎ الخ وکذا کلام الخانیۃ فی مسألۃ التقدیر کماتقدم اٰنفا وھما من الفریق (عـہ)الاٰخر فکون الدم الرقیق من غیر المرئی فیہ لاینافی کونہ مرئیا فی مسئلۃ التطھیر ولا(۱)اورد السیدان علی کلام مسکین عبارۃ الصغری ولا(۲)فسر الجوھرۃ فی مسألۃ الخف الجرم باللون واین الجرم واین اللون واین العین واین الاثر فانما نشأکل ذلک من عدم الفرق بین المقامین وھذہ زلۃ فاشیۃ لم ارمن تنبہ لھااو نبہ علیھاواللّٰہ الموفق لارب سواہ٭ وصلی اللّٰہ تعالی علی مصطفاہ٭ واٰلہ وصحبہ ومن والاہ٭
پانچواں، متون اور متقدمین علماء کا موزے اور مقدار کے مسئلہ میں جرم والی اور غیر جرم والی اور کثیف ورقیق کی تعبیر میں متفق ہیں اور تطہیر اور حوض کبیر کے مسائل میں مرئی اور غیر مرئی کی تعبیر میں اتفاق ہے اور کچھ نہیں کہ مرئی وہ ہے جس کا رنگ نظر آئے بلکہ مرئی کا رنگ ہی نظر آتا ہے خواہ کثیف ہو یا رقیق ہو اور وہ کہ جس کا جرم خشک ہوجانے کی بعد اُبھرا ہوا نظر نہ آئے وہ رقیق ہے، اور رنگ کوئی جرم نہیں تو ظاہر ہوگیا کہ رنگ معتبر ہے اس تطہیر اور حوض کے فریق میں نہ کہ دوسرے فریق میں، اور اگر شروح میں دونوں مقامات پر وہی تفسیر ہوتی جو نفسِ الفاظ سے مستفاد ہوتی ہے تو کوئی اشتباہ واقع نہ ہوتا لیکن انہوں نے تطہیر کے مسئلہ میں اس طرح تفسیر کی ہے کہ وہ جو خشک ہوجانے کے بعد نظر آئے اور وہ جو خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے جیسا کہ غایۃ البیان سے گزرا، اور اسی سے بحر، شرنبلالیہ، طحطاوی علی مراقی الفلاح اور اسی کی مثل دُر وغیرہ میں ہے، اسی طرح انہوں نے موزے کے مسئلہ میں دونوں کی تفسیر جرم دار اور غیر جرم دار سے کی جیسا کہ گزرا تو معاً ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ دونوں جگہ مراد واحد ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ تطہیر میں ظاہر ہے اور جرم کے دیکھنے نہ دیکھنے کے ساتھ فریق آخر میں یہ موؤل ہے تو یہی تحقیق انیق ہے اگر ان کی توجہ اس طرف ہوجاتی تو عنایہ اور چلپی فریق اول میں جسم والی اور غیر جسم والی سے مرئی اور غیر مرئی کی تفسیر نہ کرتے اور نہ قہستانی اس میں صغرٰی کی عبارت نقل کرتے اور نہ برجندی طحاوی کی شرح کی عبارت نقل کرتے، اور نہ وہ اس میں اور بعض شروح کی عبارات میں خلاف قائم کرتے اور نہ بحر اور ط دونوں عبارتوں کا ایک معنی بتاتے اور نہ اس بارے میں عبدالحلیم وہ نقل کرتے جو انہوں نے نقل کیا، اور نہ وہ دونوں مواقع کا خلاف متعدد جگہ ثابت کرتے اور نہ وہ یہاں پہلے کو مضبوط قرار دیتے، اور نہ حلیہ، غایۃ کے کلام کو غیر محمل پر پھیرتے تاہم بعض پیشاب رنگ والے نظر آتے ہیں اس کو مثال کے طور پر ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ کلام کی مراد کو اس میں منحصر نہ کرتے، اور نہ شامی کا کلام اس میں مضطرب ہوتا کہ مقدار کے بیان میں انہوں نے مرئی کو مرئی الجرم قرار دے کر پھر انہوں نے انکار کردیا، اور نہ وہ غایۃ کے بیان کردہ کو بلاوجہ ترجیح دیتے ایسی چیز پر جو بالکل مخالف نہ تھی اور نہ وہ عبارتوں کی توفیق کو دلیل بناتے کیونکہ خُف کے مسئلہ میں جہاں ہدایہ نے کہا،جب موزے کو ایسی نجاست لگ جائے جس کا جرم ہوتا ہے جیسے گوبر، خون اور منی الخ اسی طرح مقدار کے مسئلہ میں خانیہ کا کلام جو ابھی گزرا، یہ دونوں کلام دوسرے فریق کے بارے میں ہیں پس رقیق خون کا خُف کے مسئلہ میں غیر مرئی ہونا تطہیر کے مسئلہ میں مرئی ہونے کے مخالف نہیں،اور نہ دونوں رہنما، علامہ مسکین کے کلام پر صغرٰی کی عبارت سے اعتراض کرتے اور نہ جوہرۃ موزے کے مسئلہ میں جرم کی تفسیر رنگ سے کرتے، کہاں رنگ اور کہاں جرم، کہاں رنگ اور کہاں عین اور کہاں اثر، مذکورہ تمام امور اس لئے پیدا ہوئے کہ دونوں مقاموں (فریقوں) میں فرق نہ کیا گیا، اور یہ بہت واضح بے احتیاطی ہے اس بے احتیاطی کی توجہ کرنے والا یا توجہ دلانے والا مجھے کوئی نظر نہیں آیا واللہ الموفق ولارب سواہ وصلی اللہ تعالٰی مصطفاہ وآلہٖ وصحبہ ومن والاہ۔ (ت)
(۱؎ الہدایۃ باب الانجاس مطبع عربیہ کراچی ۱/۵۶)
(عـہ)ای فالتوفیق فی محلہ فیطھر الخف من دم غلیظ بالحت ویقدر رقیق اصاب ثوبا بالمساحۃ لکن لایصح نقلہ الی مسألۃ التطھیر التی فیھا کلام الشامی فالدم الرقیق لایصح جعلہ فیھا غیر مرئی ۱۲ منہ غفرلہ (م)
یعنی توفیق اپنی جگہ پر ہے غلیظ خون لگنے پر موزے کو رگڑ کر پاک کیا جاسکتا ہے اور وہ رقیق خون جو کپڑے کو لگے تو اس کے پھیلاؤ کی مقدار کا اندازہ کیا جائےگا لیکن اس حکم کو علامہ شامی کے بیان کردہ تطہیر کے مسئلہ میں منتقل نہیں کیا جائے گا لہٰذا اس مسئلہ میں رقیق خون کو غیر مرئی قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ (ت)
التاسع:فسرھما العلامۃ ش فی مسألۃ الخف علی الوجہ الصحیح ثم حادعنہ فقال سنذکر مافیہ من البحث کماتقدم والبحث ماعلمت فی السابع۔