درمختار کی عبارت مذکورہ نمبر ۱۶ پر شامی میں ہے:المراد بذی الجرم ماتشاھد بالبصر ذاتہ لااثرہ (عـہ)کمامرو یأتی ۲؎۔
ذی جرم سےمراد وہ ہے جس کی ذات آنکھ سےنظر آئے، نہ کہ اس کا اثر، جیسا کہ گزرا۔(ت)
(عـہ)اقول ای مایشاھد اثرہ یعم مالایشاھد منہ الا الاثر فھو عطف علی ماتشاھد بحذف متعلقہ لاعلی ذاتہ کما یتوھم فیکون عدم رؤیۃ الاثر شرطا فی ذی الجرم ولیس کذلک ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اقول: یعنی جس طرح اس کا اثر دیکھا جاتا ہے تاکہ اس کو بھی عام ہو جس کا مشاہدہ نہیں کیاجاتاہے صرف اس کے اثر کامشاہدہ ہوتا ہے تو اس کا عطف ماتشاھد پر ہے اس کا متعلق محذوف ہے ''ذاتہ'' پر عطف نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ہے، تو اثر کا نہ دیکھا جانا جرم دار میں شرط ہوگا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الانجاس مصطفی البابی مصر ۱/۲۳۳)
اسی طرح حلیہ میں ہے کما سیأتی۔
تحقیق شریف٭ فتح بہ اللطیف٭ علی عبدہ الضعیف٭ بفضلہ المنیف٭ اعلم ان ھذا المقام٭ زلت فیہ اقدام اقلام٭
یہ تحقیق ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سےاپنے کمزور بندے پر ظاہر فرمائی جان لے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں قلموں کے قدم پھسل جاتے ہیں۔(ت)
فالاول قال الامام اکمل الدین البابرتی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی العنایۃ عند قول الھدایۃ فی مسألۃ تطھیر النجاسۃ بازالۃ العین والغسل الٰی غلبۃ الظن بالطھارۃ النجاسۃ ضربان مرئیۃ وغیر مرئیۃ الخ مانصہ الحصر ضروری لدورانہ بین النفی والاثبات وذلک لان النجاسۃ بعد الجفاف اما ان تکون مستجسدۃ کالغائط والدم اوغیرھاکالبول وغیرہ ۱؎ اھ وتبعہ چلپی علی صدر الشریعۃ۔
اول،امام اکمل الدین بابرتی نے عنایہ میں فرمایا، ہدایہ میں جہاں یہ ذکر ہے کہ نجاست کی تطہیر کیلئے نجاست کا دور کرنا اور دھونا ضروری ہے، کہ طہارت کا غلبہ ظن ہوجائے، یہاں بابرتی نے کہا کہ نجاست کی دو قسمیں ہیں مرئیہ اور غیر مرئیہ الخ ان کی نص یہ ہے کہ حصر ضروری ہے اس لئے کہ یہ نفی اوراثبات کے درمیان دائر ہے اور یہ اس لئے کہ نجاست خشکی کے بعد یا تو جرم دار ہوگی جیسےپاخانہ اور خون وغیرہ، یا غیر جرم دار ہوگی جیسےپیشاب وغیرہ اھ ا س کی پیروی چلپی علی صدر الشریعۃ نے کی۔ (ت)
(۱؎ العنایۃ مع الفتح باب الانجاس نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۸۲)
الثانی فی تلک المسألۃ نقل القھستانی عبارۃ الصغری المارۃ ان غیر ذات جرم غیر مرئیۃ وانکان لھالون ۲؎۔
دوسرے اس مسئلہ میں قہستانی نے صغری کی عبارت نقل کی جو گزری کہ وہ نجاست کہ جس کا جرم نہ ہو مرئی نہ ہوگی اور اگرچہ اس کا رنگ ہو۔
(۲؎ جامع الرموز فصل یطہر الشیئ اسلامیہ گنبد ایران ۱/۹۶)
الثالث فیھا نقل البرجندی عبارۃ شرح الطحاوی مثلہ ثم قال وھذا یخالف مافی بعض الشروح من ان غیر المرئی مالایری اثرہ بعد الجفاف والمرئی فی مقابلہ ۳؎ اھ
تیسرے برجندی نے اس میں شرح طحاوی سےایسے ہی عبارت نقل کی پھر فرمایا یہ دوسری شروح سےمختلف ہے جن میں ہے کہ غیر مرئی وہ ہے جس کا اثر خشکی کے بعد نہ دیکھا جائے، اور مرئی اس کے مقابل ہے اھ ۔
(۳؎ نقایۃ للبرجندی فصل تطہیر الانجاس نولکشور لکھنؤ ۱/۶۴)
الرابع: فیھا نقل فی البحر عبارۃ الذخیرۃ وجعلھا معنی ماقال ھھنا فی غایۃ البیان ان المراد بالمرئی مایکون مرئیا بعد الجفاف ومالیس بمرئی ھو مالایکون مرئیا بعد الجفاف کالبول ۴؎ اھ وتبعہ ط۔
چوتھے، بحر نے اس مسئلہ میں ذخیرہ کی عبارت نقل کی اور اس کو اس کے ہم معنی قرار دیا جو یہاں غایۃ البیان میں کہا کہ مرئی سےمراد وہ ہے جو خشکی کے بعد نظر آئے اور جو غیر مرئی ہے اس سےمراد وہ ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے جیسا کہ پیشاب اھ اور ط نے اس کی متابعت کی ہے۔
(۴؎ بحرالرائق باب الانجاس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۳۶)
الخامس : فیھا نقل عبدالحلیم الرومی عن شرح الطحاوی والمنبع والذخیرۃ مامرثم نقل کلام البرجندی انہ یخالف بعض الشروح ثم کلام البحر وجعلہ ایاہ بمعنی الاول ثم قال ردا علیہ انت خبیر بان بینھما مخالفۃ اذرب شیئ لیس لہ جرم ولہ اثر کاللون یبقی اثرہ بعد الجفاف فعلی الاول غیر مرئی وعلی الثانی مرئی والمنصور ھو الاول کمالایخفی ۱؎ اھ
پانچواں،اس میں عبدالحلیم رومی کی نقل شرح طحاوی، منبع اور ذخیرہ سےہے جو گزری، پھر انہوں نے برجندی کا کلام نقل کیا کہ وہ بعض شروح کے مخالف ہے، پھر بحر کا کلام نقل کیا ہے اور اس نے اس کو اول کے ہم معنی کہا پھر ان پر رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اُن دونوں میں مخالفت ہے کیونکہ کئی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا جرم تو نہیں ہے مگر ان کا اثر ہے، جیسےرنگ کہ اس کا اثر خشک ہو نے کے بعد بھی باقی رہتا ہے تو یہ پہلی صورت کے لحاظ سےغیر مرئی ہے اور دوسری کی لحاظ سےمرئی ہے اور راجح پہلا ہی ہے جیسا کہ مخفی نہیں اھ (ت)
(۱؎ حاشیۃ الدرر للمولی عبدالحلیم باب تطہیر الانجاس مکتبہ عثمانیہ مصر ۱/۴۰)
السادس :فیھا نقل فی الحلیۃ کلام الذخیرۃ والتتمۃ والیہ رد عبارۃ غایۃ البیان المذکورۃ فقال مراد بہ ماتکون ذاتہ مشاھدۃ بالبصر بعد الجفاف ومالا فلیس بینھا وبین مافی عامۃ الکتب مخالفۃ فی تفسیرھماوممایرشد الی ماذکرنا التمثیل المذکور فان بعض الابوال قدیری لہ لون بعد الجفاف اھ ۲؎۔
چھٹا، اس مسئلہ میں حلیہ میں ایک نقل ذخیرۃ اور تتمہ سے ہے اور اسی کی طرف غایۃ البیان کی مذکورہ عبارت کو موافق کیا ہے، اور کہا ہے اس سے مراد وہ ہے جس کی ذات خشک ہونے کے بعد مشاہدہ میں آئے، اور جو ایسا نہ ہو وہ مرئی نہیں تو اس میں اور جو عام کتب میں ہے کوئی مخالفت نہیں، اور ہمارے قول پر دلیل وہ ہے جو مثال گزشتہ میں گزرا، کیونکہ بعض پیشاب ایسا ہوتا ہے جس کا رنگ خشک ہونے کے بعد نظر آتا ہے اھ (ت)
(۲؎ حلیہ)
السابع: فیھا قال فی الشامی قولہ بعد جفاف ظرف لمرئیۃ وقید بہ لان جمیع النجاسات تری قبلہ وتقدم ان مالہ جرم ھو مایری بعد الجفاف فھو مساو للمرئیۃ وقدعد منہ فی الھدایۃ الدم وعدہ قاضیخان مما لاجرم لہ وقدمنا عن الحلیۃ التوفیق بحمل الاول علی مااذا کان غلیظا والثانی علی مااذا کان رقیقا اھ ثم نقل عبارۃ غایۃ البیان وعقبھا بعبارۃ التتمۃ ثم ذکرتاویل الحلیۃ المار اٰنفا قال ویوافقہ التوفیق المار لکن فیہ نظر لانہ یلزم منہ ان الدم الرقیق والبول الذی یری لونہ من النجاسۃ الغیر المرئیۃ وانہ یکتفی بالغسل ثلثا بلااشتراط زوال الاثر مع ان المفھوم من کلامھم ان غیر المرئیۃ مالایری لہ اثر اصلا لاکتفائھم فیھا بمجرد الغسل بخلاف المرئیۃ المشروط فیھا زوال الاثر فالمناسب مافی غایۃ البیان وان مرادہ بالبول مالالون لہ والاکان من المرئیۃ اھ ۱؎۔
ساتواں، اس بحث میں، شامی میں فرمایا کہ ماتن کا قول ''بعد جفاف'' یہ مرئیہ کا ظرف ہے اور یہ قید اس لئے لگائی ہے کہ تمام نجاستیں خشک ہونے سے قبل دیکھی جاسکتی ہیں اور یہ پہلے گزرا کہ جرم دار وہ ہے جو خشک ہونے کے بعد دیکھا جائے تو یہ مرئیہ کے مساوی ہے اور ہدایہ میں اس میں سے خون کو شمار کیا ہے اور قاضی خان نے خُون کو اُن چیزوں میں شمار کیا ہے جو جرم دار نہ ہوں۔ اور ہم نے حلیہ سے تطبیق نقل کی ہے کہ پہلے کو گاڑھے پر محمول کیا جائے اور دوسرے کو رقیق پر اھ پھر انہوں نے غایۃ البیان کی عبارت کو نقل کیا اور اس کے بعد تتمہ کی عبارت لائے پھر حلیہ کی گزشتہ تاویل کو ذکر کیا لیکن اس میں نظر ہے کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ رقیق خون اور پیشاب جس کا رنگ نظر آتا ہے کہ نجاست غیر مرئیہ سے ہو اور یہ کہ تین مرتبہ دھونے پر اکتفاء کیا جائے اور اس میں اثر کے زوال کی شرط نہ رکھی جائے حالانکہ اُن کے کلام سے مفہوم یہ ہے کہ غیر مرئیہ وہ ہے جس کا کوئی اثر نظر آئے، کیونکہ وہ اس میں صرف دھونے پر اکتفا کرتے ہیں بخلاف مرئیہ کے جس میں اثر کا زائل ہونا بھی شرط ہے تو مناسب وہی ہے جو غایۃ البیان میں ہے اور یہ کہ ان کی مراد پیشاب سے وہ ہے جس کا رنگ نہ ہو ورنہ وہ بھی نجاست مرئیہ ہوتا اھ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الانجاس مصطفی البابی مصر ۱/۲۴۰)
الثامن: عبارۃ الکنز الصحیحۃ النجس المرئی یطھر بزوال عینہ وغیرہ بالغسل زاد فیھا مسکین مایفسدھااذقال (النجس المرئی) عینہ ثم قال (وغیرہ) ای غیر المرئی عینہ لکنہ تدارکہ بوصل قولہ وھو الذی لایری اثرہ بعد الجفاف ۱؎ اھ فلم یبق (۱) علیہ الاضیاع زیادۃ عینہ فی الموضعین بل ایھامھا خلاف المراد ثم بالتدارک رجوع الکلام الی عدم التفرقۃ بین العین والاثر وکأنہ اخذہ من عبارۃ الامام القدوری النجاسۃ ان کان لھا عین مرئیۃ فطھارتھا زوال عینھا الا ان یبقی من اثرھا مایشق ازالتھا ومالیس لھا عین مرئیۃ فطھارتھا ان تغسل ۲؎ الخ فالمراد العین المرئیۃ ولو برؤیۃ لونھا الا تری الی استثنائہ الاثر من العین بل المقرر ان بصر البشر فی الدنیا لایدرک الا اللون والضوء وبالجملۃ استقام الکلام بالتدارک لکن السید اباالسعود نقلا عن السید الحموی اراد ردہ الی خلافہ فقال علی قولہ وھو الذی لایری اثرہ حکاہ فی الصغری بقیل بعد ان صدر بقولہ المرئی(عـہ) مالہ جرم سواء کان لہ لون ام لا ۳؎ اھ
آٹھواں، کنز کی عبارت ہے جو صحیح ہے کہ نجاست مرئیہ کا حکم یہ ہے کہ اس کے عین کے زوال کے بعد وہ طاہر ہوجاتا ہے اور جو اس کے علاوہ ہو وہ صرف دھونے سے پاک ہوتا ہے مسکین نے اس میں یہ اضافہ کیا (کہ دیکھی جانے والی نجاست) یعنی جس کا جرم نظر آئے، پھر کہا (اور اس کے علاوہ)یعنی جس کا جرم نظر نہ آئے، پھر اس کا تدارک اپنے اس قول سے کیا کہ جس کا اثر خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے اھ تو اُن کے ذمہ صرف یہ اعتراض رہا کہ دونوں جگہ لفظ عین کا لانا فضول ہوا، بلکہ یہ خلاف مراد کا وہم پیدا کرتا ہے پھر تدارک کے ساتھ کلام کا ماحصل یہ نکلتا ہے کہ عین واثر میں فرق نہیں رہتا اور غالباً انہوں نے یہ قید قدوری کے کلام سے اخذ کی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسی نجاست کہ اگر اس کا جرم نظر آتا ہے تو اس کی پاکی اس طرح ہوگی کہ اس کا جرم ختم ہوجائے، اگر اُس کا کوئی ایسا نشان باقی رہ جائے کہ اس کا ازالہ دشوار ہو تو حرج نہیں اور جس نجاست کا جرم نظر نہیں آتا تو اس کی طہارت یہ ہے کہ اسے دھویا جائے الخ تو مراد وہ جرم ہے جو نظر آتا ہے خواہ اس کا رنگ ہی نظر آئے، جیسا کہ اُن کے استثناء سےمفہوم ہوتا ہے جو عین سے ہے بلکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ انسانی آنکھ دنیا میں سوائے رنگ اور روشنی کے کچھ اور نہیں دیکھتی ہے اور خلاصہ یہ کہ کلام تدارک کے ساتھ درست ہوگیا لیکن ابو السعود نے حموی سے نقل کرتے ہوئے اس کے مخالف معنی لینے کا ارادہ کیا ہے تو ان کے قول ھو الذی لایری اثرہ پر فرمایا کہ صغرٰی میں اس کو ''قیل''سے ذکر کیا ہے اور ابتدا اس طرح کی ہے کہ مرئی وہ ہے جس کا جرم ہو خواہ رنگ ہو یا نہ ہو اھ (ت)
(۱؎ فتح اللہ المعین باب الانجاس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۳۰)
(۲؎ قدوری باب الانجاس مجتبائی دہلی ص۱۸)
(عـہ)اقول کما فسرفی الصغری المرئی بھذا فسر غیر المرئی بقولہ مالاجرم لہ سواء کان لہ لون اولا کمافی جامع الرموز فکان اولی نقلہ لان الکلام ھھنا فی غیر المرئی ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اقول: مرئی کی صغرٰی میں جس طرح تفسیر اس کے ساتھ کی ہے اس طرح غیر مرئی کی تفسیر یوں کی ہے کہ جس کا جرم نہ ہو خواہ اس کا رنگ ہو یا نہ ہو جیسا کہ جامع الرموز میں ہے تو اولٰی اس کا نقل کرنا ہے کیونکہ کلام یہاں غیر مرئی میں ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۳؎ فتح اللہ المعین باب الانجاس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۳۱)