Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
7 - 166
ثالثاً  علماء کا اپنے ہی کلام میں تفننِ تعبیر۔
 (۷) بحر میں ہے: اشتراط(۱) الجرم قول الکل لانہ لواصابہ بول فیبس لم یجزہ حتی یغسلہ لان الاجزاء تتشرب فیہ فاتفق الکل علی ان المطلق (ای الاذی الذی یصیب الخف مقید فقیدہ ابو یوسف بغیر الرقیق وقیداہ بالجرم والجفاف ۳؎۔
جرم کی شرط لگانا تمام کا قول ہے کیونکہ اگر   کسی کو پیشاب لگ گیا اور خشک ہوگیا تو بلادھوئے کام    نہیں چلے گا کیونکہ پیشاب کے اجزاء اس میں جذب ہوجاتے  ہیں تو کُل کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مطلق (یعنی وہ گندگی جو موزے کو لگی ہے وہ مقید ہے تو ابویوسف  نے اس کو غیر رقیق سےمقید کیا اور ان دونوں  نے اس کو جِرم اور خشک ہونے سےمقید کیا۔ (ت)
 (۳؎ بحرالرائق        باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۳)
اس پر منحۃ الخالق میں فرمایا: الحاصل انھم اتفقوا علی التقیید بالجرم وانفرد ابوحنیفۃ ومحمد بزیادۃ الجفاف ۴؎۔
حاصل یہ ہے کہ وہ سب جرم کی قید لگا نے پر متفق  ہیں اور ابوحنیفہ اور محمد خشک ہو نے کی قید لگا نے میں متفرد  ہیں۔ (ت)
 (۴؎ منحۃ الخالق مع البحرالرائق     باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۳)
 (۸) اسی میں ہے: لم یعف عن التشرب فی الرقیق لعدم الضرورۃ اذ قد جوز وا کون الجرم من غیرھا بان  یمشی بہ علی رمل او تراب فیصیرلھا جرم ۵؎۔
رقیق میں سرایت کر نے کی وجہ سےمعاف نہیں کہ وہاں ضرورت نہیں اس لئے کہ انہوں نے اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ جرم اس کے غیر سےہو باینطور کہ ریت یا مٹی پر چلے اور جرم حاصل ہوجائے۔ (ت)
 (۵؎ بحرالرائق         باب الانجاس        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۴)
 (۹) فتح القدیر میں ہے :الحاصل بعد ازالۃ الجرم کالحاصل قبل الذلک فی الرقیق ۱؎۔
جرم کو زائل کر نے کے بعد وہی چیز حاصل ہوگی جو رقیق میں جرم کو زائل کئے بغیر ہوتی ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتح القدیر  باب الانجاس  نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۷۲)
 (۱۰) غنیہ میں ہے : عمل ابو یوسف باطلاقہ الا انہ استثنی الرقیق کما قال المصنف (وان لم یکن لھا جرم کالبول والخمر فلابد من الغسل) بالاتفاق ۲؎۔
ابو یوسف  نے اس کے اطلاق پر عمل کیا البتہ انہوں نے رقیق کا استثنا ء کیاجیسا کہ مصنف  نے فرمایا (اور اگر اس کا جرم نہ ہو جیسےپیشاب اور شراب تو اس کا دھونا لازم ہے) بالاتفاق۔ (ت)
 (۲؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)
 (۱۱) اُسی میں حدیث مطلق نقل کرکے قید لھا جرم کی تعلیل میں فرمایا: قال فی الکفایۃ وغیرھا خرجت النجاسۃ الرقیقۃ من اطلاق الحدیث بالتعلیل ۳؎
الخکفایہ وغیرہ میں ہے رقیق نجاست حدیث کے اطلاق سےتعلیل کی وجہ سےنکل گئی الخ (ت)
 (۳؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)
 (۱۲) اُسی میں ہے : من اصاب نعلہ النجاسۃ الرقیقۃ اذا استجسد بالتراب اوالرمل لومسحہ یطھر ۴؎۔
جس کے جُوتے کو رقیق نجاست لگی پھر مٹی یا ریت کی وجہ سےمتجسد ہوگئی اب اگر وہ اس کو رگڑے تو پاک ہو جائے گی۔ (ت)
 (۴؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)
 (۱۳) اُسی میں ہے :المختار للفتوی الطھارۃ بالدلک فی الخف ونحوہ سواء کانت ذات جرم من نفسھا اوبغیرھا کالرقیقۃ المستجسدۃ بالتراب رطبۃ کانت اویابسۃ ۵؎۔
فتوٰی کے لئے مختار موزہ وغیرہ کی طہارت میں یہ ہے کہ اس کو رگڑ لیا جائے چاہے خود اُس کا اپنا جرم ہو یا   کسی اور کی وجہ سےجیسےوہ جو مٹی میں مل جا نے کی وجہ سےجسم والی ہوجائے خواہ تر ہو یا خشک۔ (ت)
 (۵؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۹)
(۱۴) حلیہ میں اسےمسئلہ اصابتہ نجاسۃ لھا جرم پر حدیث سےاستدلال کرکے فرمایا:
 ھذا الاطلاق حجۃ لابی یوسف فی مساواتہ بین الرطب والیابس نعم علی ابی یوسف ان یقول بالطھارۃ فی الرقیق ایضا لان الاطلاق یتناولہ کما یتناول الکثیف مطلقا ۱؎۔
یہ اطلاق ابو یوسف کی حجت ہے وہ رطب ویابس میں فرق    نہیں کرتے  ہیں، اس کے علاوہ ابویوسف پر لازم ہے کہ وہ رقیق میں بھی طہارت کا قول کریں کیونکہ اطلاق کثیف کی طرح اس کو بھی شامل ہے۔ (ت)
 (۱؎ حلیہ)
 (۱۵) اُسی میں اس جواب اور اُس پر بحث نقل کرکے فرمایا:
علی ان فی البدائع ان ابایوسف فی روایۃ عنہ سوی فی طھارتہ بین ان تکون مستجسدۃ اومائعۃ ۲؎۔
علاوہ ازیں بدائع میں ہے کہ ابویوسف کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے جسم والی اور مائع میں مساوات رکھی ہے۔ (ت)
 (۲؎ حلیہ)
رابعاً صریح تفسیر۔
(۱۶) تنویر میں تھا:عفی عن قدردرھم فی کثیف ۳؎
 (ایک درہم کی مقدار کثیف میں معاف ہے۔ ت)
 (۳؎ درمختار ،باب الانجاس ،مجتبائی دہلی، ۱/۵۴)
درمختار میں اس کی تفسیر کی لہ جرم ۴؎  (جس کیلئے جرم ہو۔ ت)
 (۴؎ درمختار    باب الانجاس  مجتبائی دہلی۱/۵۴)
ردالمحتار میں ہے: قولہ لہ جرم تفسیر الکثیف ۵؎ (ان کا قول لہ جرم کثیف کی تفسیر ہے۔ ت)
 (۵؎ ردالمحتار  باب الانجاس  مصطفی البابی مصر    ۱/۲۳۳)
 (۱۷) جامع الرموز میں ہے:الکثیف مالہ جرم والرقیق مالاجرم لہ ۶؎
 (کثیف وہ ہے جس کاجرم ہو اور رقیق وہ ہے جس کا جرم نہ ہو۔ت)
 (۶؎ جامع الرموز فصل     یطہر الشیئ    اسلامیہ گنبد ایران ۱/۱۵۲)
شامی میں حلیہ سےہے: عدمنہ(ای ممالہ جرم) فی الھدایۃ الدم وعدہ قاضیخان ممالیس لہ جرم ووفق فی الحلیۃ بحمل الاول علی مااذا کان غلیظا والثانی علی مااذا کان رقیقا اھ وھذا یؤدی مؤدی التفسیر وان لم یکن سوقہ لہ ۱؎۔
شمار کیاگیا ہے اس سے(یعنی اس سےجس کاجرم ہو) ہدایہ میں ہے خون کو، اور اس کو قاضیخان  نے اس میں شمار کیا جس کا جرم نہ ہو۔اور حلیہ میں اسی طرح توفیق کی گئی  ہے کہ اول کو غلیظ پر محمول کیا جائے اور دوسری کو رقیق پر یہ تفسیر کا فائدہ دیتا ہے اگرچہ اس کا اس کیلئے سیاق نہیں ہے۔ ت)
 (۱؎ ردالمحتار باب الانجاس  مطبعۃ مصطفی البابی  مصر ۱/۲۳۳)
بالجملہ اصطلاح فقہائے کرام میں رقیق وبے جرم ایک چیز  ہیں۔
مقدمہ ثانیہ: جسم کثیف(۱) ہو خواہ رقیق اِس کا بے جرم ہوناکیونکر متصور کہ جرم وجسم ایک شَی  ہیں اور اگر جرم بمعنی ثخن لیجئے یعنی عمق جسےدَل کہتے  ہیں تو جسم کو اُس سےبھی چارہ نہیں کہ اُس میں ابعاد ثلثہ ضرور  ہیں لہٰذا خود  علماء  نے اس کی تفسیر فرمائی کہ بے جرم سے یہ مراد کہ خشک ہو نے کے بعد مثلاً بدن یا کپڑے کی سطح سےاُبھرا ہو اُس کا کوئی دَل محسوس نہ ہو اگرچہ رنگ نظر آئے۔ان مباحث میں اسی کو غیر مرئی بھی کہتے  ہیں یعنی بنظرِ جرم نہ بنظرِ لون۔تبیین الحقائق وبحرالرائق ومجمع الانہر وفتح اللہ المعین وطحطاوی علی المراقی و ردالمحتار وغیرہا میں ہے:
الفاصل بینھماان کل مایبقی بعدالجفاف علی ظاھرالخف فھو جرم ومالایری بعد الجفاف فلیس بجرم ۲؎ اھ۔
دونوں میں فصل کر نے والی چیز یہ ہے کہ جو خشک ہو نے کے بعد موزے کے ظاہر پر نظر آئے تو وہ ذی جرم ہے اور جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے وہ ذی جرم  نہیں ہے۔ (ت)
 (۲؎ تبیین الحقائق باب الانجاس مطبعۃ امیریہ ببولاق مصر ۱/۷۱)
اقول لم یردبظاھرہ ظھرہ لعدم اختصاص الحکم بہ بل بطنہ ھوالاکثراصابۃ انمااراد السطح الظاھرمن ظھرہ وبطنہ وقید بہ تحرزاعمایتشربہ داخل الخف فانہ لایختص بذی الجرم بل التشرب من الرقیق اکثروانمااحتاج الیہ لقولہ یبقی ولوقال یری لاستغنی عنہ کما فی مقابلہ فان البصر لایدرک الا ماعلی الظاھرولذااسقطہ السیدان الازھری وط لابدالھماالباقی بالمرئی ومن(۲) اغفل ھذا ابدل وابقی کما قال فی مجمع الانھرکل مایرٰی بعد الجفاف علی ظاھر الخف فھو ذوجرم ۱؎ الخ  و اعجب (۱) منہ صنیع العلامۃ ش اذقال فی الدر ھو کل مایری بعد الجفاف فقال ای علی ظاھر الخف ۲؎ کأنہ قید سقط عن الدر فزادہ۔
میں کہتا ہوں انہوں نے اس کے ظاہر سےاس کی پشت کاارادہ نہیں کیا ہے کیونکہ حکم اس کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ پُشت کے اندرونی حصہ کو زیادہ پہنچتاہے بلکہ ان کا ارادہ اس کی ظاہری سطح ہے خواہ پشت ہو یاباطن،اور یہ قید اس لئے لگائی تاکہ اس سےاحتراز ہو  سکے جس کو موزہ کا داخلی حصہ جذب کرلیتا ہے کیونکہ یہ جرم دار شیئ کے ساتھ مختص نہیں ہے،بلکہ رقیق میں جذب زیادہ ہوتا ہے اور اس کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے یبقیٰ فرمایا ہے اگر وہ یرٰی فرماتے تو اس کی ضرورت نہ ہوتی جیسا کہ اس کے مقابل میں ہے کیونکہ آنکھ تو صرف مقابل آ نے والی چیز کا ادر اک کرتی ہے اس لئے ازہری اور ط  نے اس قید کو ساقط کردیا،کیونکہ انہوں نے باقی کو مرئی سےبدل دیا ہے اور جس  نے اس سےغفلت کی اُسےبدلااور باقی رکھا،جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے ہر وہ چیز جو خشک ہو نے کے بعد موزہ کے ظاہر پر نظر آئے وہ جرم دار ہے الخ اور اس سےزیادہ عجیب وہ ہے جو علامہ "ش"  نے کیا جب مصنف  نے دُر میں یہ فرمایا ''وہ ایسی چیز ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر آتی ہے اس پر "ش"  نے فرمایا یعنی موزہ کے ''ظاہر'' پر، گویا قید دُر سےساقط ہوگئی ہے، تو انہوں نے اس کو زائد کردیا۔ (ت)
 (۱؎ مجمع الانہر        باب الانجاس        دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱/۵۸)

(۲؎ ردالمحتار        باب الانجاس        مصطفی البابی مصر        ۱/۲۲۷)
    فتاوٰی ذخیرہ پھر حلیہ وبحر وعبدالحلیم میں ہے:المرئیۃ ھی التی لھاجرم وغیرالمرئیۃ ھی التی لاجرم لھا ۳؎۔
مرئیہ جرم دار کو   کہتے  ہیں اور غیر مرئیہ اس کو جس کا جسم نہ ہو۔(ت)
(۳؎ بحرالرائق     باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۲۳۶)
شرح طحاوی و فتاوٰی صغریٰ وتتمہ ومنبع پھر بترتیب ان کے حوالہ سےعبدالعلی برجندی وشمس قہستانی وابن امیر الحاج حلبی وعبدالحلیم رومی  نے غیر مرئیہ میں زائد فرمایا:سواء کان لھا لون اولم یکن ۴؎۔
 (۴؎ جامع الرموز    فصل یطہر الشیئ    مطبع اسلامیہ گنبد ایران        ۱/۹۵)
ذخیرۃ العقبٰی میں ہے:ذی جرم ھو کل مایبقی بعد الجفاف علی ظاھر الخف سواء کان جرمہ من نفسہ کالنجس المتعارف والدم والمنی والروث اومن غیرہ کالبول والخمر المتجسدبالرمل اوالتراب اوالرما دبان مشی علیھافالتصق بالخف اوجعل علیہ شیئ منھا۵؎۔
جِرم دار وہ نجاست ہے جو خشک ہو نے کے بعد موزے کے ظاہر پر نظر آئے خواہ اس کا جرم اسی کا ہو جیسےمعروف نجاستیں،اور خون، منی اور لیدیا اس کے غیر سےہو جیسےپیشاب اور شراب جو ریت یا مٹی یا راکھ میں ملنے کی وجہ سےجِرم دار ہوگیا ہو، مثلاً اس پر چلا اور وہ موزے میں لگ گیا یا خود موزے پر ڈال لیا۔ (ت)
اس تمام مضمون کو مع زیادت افادات فتوی درمختار  نے ان معدود لفظوں میں افادہ کیا: (ذی جرم)ھو کل مایری بعد الجفاف ولومن غیرھا کخمر وبول اصاب تراب بہ یفتی اھ ۱؎
جرم دار وہ نجاست ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر آئے خواہ اس کے غیر سےہو جیسےشراب اور پیشاب جس میں مٹی مل گئی ہو، اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت)
 (۵؎ ذخیرۃ العقبی    باب الانجاس    الامیریہ مصر    ۱/۲۴۱)

 (۱؎ درمختار     باب الانجاس    مجتبائی دہلی    ۱/۵۴)
اقول: ولو اسقط(۱) ھو کل ماء لکان(عـہ) اخصر واظھر۔
میں کہتا ہوں اگر وہ ''کل ماءٌ'' کو ساقط کردیتا تو یہ مختصر ہوجاتا اور زیادہ اظہر ہوتا۔ (ت)
 (عـہ) اما کونہ اخصر فظاھر واما کونہ اظھر واحسن وازھر فلان رؤیۃ الشیئ تعم رؤیتہ بلونہ بل لارؤیۃ ھھنا الا ھکذا فیوھم تناول ملون لایبقی لہ بعد الجفاف جرم شاخص فوق المصاب بخلاف مااذا اسقط لانہ یصیر صفۃ لجرم فیصیر نصافی المقصود ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اس کا مختصر ہونا تو ظاہر ہے اور اس کا اظہر واحسن ہونا یہ بھی ظاہر ہے کیونکہ   کسی چیز کا دیکھنا اس کے رنگ کے دیکھنے کو بھی شامل ہے، بلکہ اس کی رؤیت یہاں اسی طرح ہے، تو اس سےوہم ہوتا ہے کہ یہ اُس رنگین کو شامل ہے جو خشک ہو نے کی بعد باقی نہیں رہتا ہے یعنی اس کا ابھرا ہوا جرم  نہیں رہتا ہے بخلاف اس کے کہ اگر اس کو ساقط کردیا جائے کیونکہ یہ جرم کی صفت ہوجائے گا تو یہ مقصود میں نص ہوگا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
اس پر طحطاوی نے زائد کیا:وما لایری بعد الجفاف فلیس بذی جرم ۲؎ اھ
اور جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے وہ جرم دار  نہیں۔(ت)
 (۲؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب الانجاس    بیروت    ۱/۱۵۷)
اقول: واکتفی الدر عنہ بالمفھوم
 (میں کہتا ہوں صاحبِ در  نے اس کے مفہوم پر اکتفاء کیا ہے۔ ت)
شامی  نے کہا:مفادہ ان الخمر والبول لیس بذی جرم مع انہ قدیری اثرہ بعد الجفاف فالمراد بذی الجرم ماتکون ذاتہ مشاھدۃ بحس البصر وبغیرہ مالایکون کذلک کما سنذکرہ مع مافیہ من البحث ۱؎۔
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ پیشاب اور شراب جرم دار  نہیں حالانکہ ان کا اثر کبھی خشک ہو نے کے بعد بھی نظر آتا ہے تو جرم دار سےمراد وہ ہے جس کی ذات کا آنکھ سےمشاہدہ ہو  سکے اور غیر جرم دار وہ ہے جو ایسےنہ ہو جیسا کہ ہم اس کو مع بحث کے ذکر کریں گے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب الانجاس        مصطفی البابی مصر    ۱/۲۲۷)
Flag Counter