وفی التبیین والحلیۃ والدرران جری علی الاعضاء فالغالب الماء ۱؎ اھ
اور تبیین، حلیہ اور دررمیں ہے کہ اگر وہ اعضاء پر جاری ہو تو غالب پانی ہی ہوگا اھ (ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ الامیریہ ببولاق مصر ۱/۲۱)
الثالث قال المحقق فی الفتح لاباس بالوضوء بماء السیل مختلطا بالطین ان کانت رقۃ الماء غالبۃ فان کان الطین غالبا فلا ۲؎
اھ تیسرے یہ کہ محقق نے فتح میں فرمایا وہ پانی جس میں کیچڑ ملی ہوئی ہو، اگر وہ اعضاء پر بہتا ہو تو اس سےوضو میں حرج نہیں، اور اگر اس میں مٹّی غالب ہو تو وضو جائز نہیں اھ
(۲؎ فتح القدیر الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر۱/۶۵
وفی اجناس الناطفی والمنیۃ ان لم تکن رقۃ الماء غالبۃ لایجوز ۳؎ اھ
اور ناطفی کی اجناس میں اور منیہ میں ہے اگر پانی کی رقت غالب نہ ہو تو وضو جائز نہیں اھ
وفی الھدایۃ والکافی فی مطبوخ الاشنان الا ان یغلب ذلک علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء(۱)عنہ ۱؎ اھ
اور ہدایہ اور کافی میں ہے کہ وہ پانی جس میں اُشنان پکائی جائے، مگر یہ کہ وہ پانی پر ایسی غالب ہوجائے کہ وہ ستّو بن جائے، کیونکہ اب اس پر پانی کا نام نہیں بولا جائے گا اھ
(۱؎ الہدایۃ الماء الذی یجوزبہ الوضوء عربیہ کراچی ۱/۱۸)
وفی الخانیۃ وان صار ثخینا مثل السویق لا ۲؎ اھ
اور خانیہ میں ہے اگر ستّوؤں کی طرح گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں اھ
(۲؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فیما لایجوزبہ التوضی نولکشور لکھنؤ ۱/۹)
وفی البدائع الا اذاصار غلیظا کالسویق المخلوط لانہ حینئذ یزول عنہ اسم الماء ومعناہ ایضا ۳؎ اھ
اور بدائع میں ہے کہ اگر ستوؤں کی طرح گاڑھا ہوجائے، کیونکہ اس صورت میں اس پر پانی کا نام نہیں بولا جائے گا اور نہ ہی معناً وہ پانی رہے گا اھ
اور خلاصہ میں ہے یہ (جواز وضو میں اختلاف مراد ہے) جبکہ میٹھا رقیق ہو اور اعضاء پر بہتا ہو اور اگر شیرہ کی طرح گاڑھا ہو تو بالاجماع جائز نہیں اھ
(۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی الماء المقید نولکشور لکھنؤ ۱/۹)
وفی البدائع(عـہ)ان کان غلیظا کالرب لایجوز بلاخلاف ۶؎ اھ فظاھرالاول ان لایسری التغیراصلا الی رقۃ الماء وسرعۃ سیلانہ۔
اور بدائع میں ہے کہ جب شیرہ کی طرح گاڑھا ہوجائے تو بلاخلاف جائز نہیں اھ تو اول کا ظاہر یہ ہے کہ تغیر پانی کی رقّت کی طرف اور اس کی سرعتِ سیلان کی طرف سرایت نہ کرے۔ (ت)
(عـہ)قولہ فی البدائع بل تقدم فی ۱۰۷عن الحلیۃ عنھاوعن التحفۃ والمحیط الرضوی والخانیۃ وغیرھا اذا صار غلیظابحیث لایجری علی العضو الخ ۱۲ منہ غفرلہ (م)
ان کا قول بدائع میں ہے بلکہ ۱۰۷ میں حلیہ کی نقل اُن سےگزری نیز تحفہ، محیط رضوی اور خانیہ وغیرہا سےہے کہ جب اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اعضاء پر نہ بہے الخ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
اقول: ولیس مراداقطعافان ماء المدالحامل للطین والتراب والرمل والغثاء یستحیل ان یبقی علی رقۃ الصافی وقداعترف انہ باق علی رقتہ واصل سیلانہ وظاھر الثانی الاکتفاء بنفس السیلان وقد اکدہ فی العنایۃ بزیادۃ الامکان فلم یخرج الا مابلغ مبلغ الجامدات حتی خرج عن صلاحیۃ الاسالۃ اصلا فھو مع الاول علی طرفی نقیض۔
میں کہتا ہوں یہ قطعاً مراد نہیں، کیونکہ سیلاب کے پانی میں کیچڑ، مٹی، ریت اور کوڑا کرکٹ ملا ہوا ہوتا ہے اور محال ہے کہ صاف پانی کی سےرقت پر باقی رہے اور وہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ اپنی رقت اور اصل سیلان پر باقی ہے اور دوسرے کا ظاہر نفس سیلان پر اکتفاء کرنا ہے اور اس کو عنایہ میں زیادۃ امکان سےمؤکد کیا ہے تو وہ اُسی حد تک پہنچا جس حد تک جامدات پہنچتی ہیں، یہاں تک کہ وہ اسالت کی صلاحیت سےبالکل خارج ہوگیا تو وہ اول کے ساتھ نقیض کی دوطرفوں پر ہے۔ (ت).
اقول: ولیس مراداقطعا فان الطین والنشاوالسویق المخلوط والدبس والرب من المائعات الممکن تسییلھاواذابلغ الماء الی ھذہ الحال لایشک احد فی ماحدث لطبعہ من التغیر والزوال وھل تری احدایسمی الطین والسویق ماء فالصواب ھوالثالث المنصوص علیہ صریحا فی کلام کبارالائمۃ والثانی یرجع الیہ باقرب تاویل کماتقدمت الاشارۃ الیہ فی صدر الکلام۔
میں کہتا ہوں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ کیچڑ اور نشا(گارا) اور مخلوط ستّو، شیرہ اور راب ایسےمائعات میں سےہے جن کا بہانا ممکن ہے اور جب پانی اس حال پر پہنچ جائے تو کوئی بھی اس کی طبیعت میں پیدا ہونے والے تغیر پر اور زوال پر شک نہیں کرے گا، کیا کوئی ستّوؤں اور کیچڑ کو پانی کہتا ہے؟ تو صحیح تیسرا ہے جس کی صراحت بڑے بڑے ائمہ کے کلام میں موجود ہے، اور دوسرا اس کی طرف قریب ترین تاویل سےرجوع کرتا ہے جیسا کہ اس کی طرف صدر کلام میں اشارہ گزرا ہے۔ (ت)
پہلا باقی رہا تو میں کہتا ہوں عنایہ کا کلام اس میں قریب ہے دُور نہیں کیونکہ انہوں نے اس کی تفسیر غنیہ کی طرح نہ کی،اور اس میں مخالطۃ سےماقبل کااضافہ نہیں کیا ورنہ ان کا کلام دوسرے میں متناقض ہوتا ہے، اور وہ اس میں متفرد ہیں ۱؎ جیسا کہ میں جانتا ہوں،
(عـہ)انما وافقہ ممن اتی بعدہ کلام المولی بحرالعلوم قال فی الارکان الاربعۃ الغلبۃ بالاجزاء بان تذھب رقۃ الماء علی ماکان الماء علیھا ؎۱ اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)
ان کی موافقت ان لوگوں نے کی ہے جو ان کے بعد آئے ہیں، بحرالعلوم نے ارکان اربعہ میں فرمایا اجزاء کے ساتھ غلبہ یہ ہے کہ پانی کی رقت ختم ہوجائے۔
ثم یجعل ماء المدکاللامخالط فادنی (عـہ۱)احوالہ الاضطراب فالماخوذمانص علیہ الاصحاب٭ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب
پھر سیلاب کے پانی کو اس پانی کی طرح کرتے ہیں جو مخلوط نہ ہو، تو کم از کم اضطراب تو ہے ہی، تو ماخوذ وہی ہے جس پر اصحاب نے نص کی ہے، واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ (ت)
(عـہ ۱)لکن سیأتی بتوفیق اللّٰہ تعالٰی التوفیق البازغ فانتظر ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
اس طور پر کہ پانی کے اجزاء مخالط کے اجزاء پر غالب ہوں (ت) انتظار کرو، اللہ تعالٰی کی مدد سےاس کی روشن توفیق آتی ہے۔ (ت)