اور مراقی الفلاح میں ہے تیل سےپاک نہ ہوگا کیونکہ وہ خود نہیں نکلتا ہے
(۷؎ مراقی الفلاح باب الانجاس والطہارۃ مطبعۃ ازہریہ مصر ص۹۳)
قال ط فی حاشیتہ ای فکیف یخرج النجاسۃ ۸؎ وقد تقدم فی ۲۸۶ ان ھذا یوھم بقاء الاطلاق مع انتفاء الرقۃ اذالم یسلب السیلان ولیس کذلک۔
"ط" نے اس کے حاشیہ میں فرمایا تو نجاست کیسےنکالے گا۔ اور ۲۸۶ میں گزرا کہ یہ پانی کے اطلاق کو باقی رہنے کا وہم پیدا کرتا ہے جبکہ رقت منتفی ہو اور سیلان باقی ہو حالانکہ ایسا نہیں۔(ت)
(۸؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح باب الانجاس والطہارۃ مطبعۃ ازہریہ مصر ص۹۳)
فان قلت انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی تدارکہ فی الشرح بتقیید السیلان بسیلان کالماء وظاھر ان المراد بہ الماء الصافی الذی لم یخالطہ شیئ ولم یتغیرعن صفتہ الاصلیۃ ولا تسیل تلک المائعات مثلہ لکونہ ارق اماالذی یسیل کسیلانہ فلابد ان ینعصرکانعصارہ فان کان کل منعصر یسیل کالماء تساوی الرقۃ وھذاالسیلان والا کانت الرقۃ اعم وعلی کل لایلزم المحذورفانہ کلماانتفت انتفی،غایتہ ان یبقی ذکر السیلان مستدرکاعلی تقدیر خصوصہ اما علی التساوی فلاغروفی جمع المتساویین تاکیدا۔
اگریہ اعتراض کیا جائے کہ انہوں نے شرح میں اس کا تدارک اس طرح کیا ہے کہ سیلان کو مقید کیا ہے اُس سیلان سےجو پانی کی طرح ہو اور ظاہر ہے کہ اس سےمراد صاف پانی ہے جس میں کوئی چیز ملی نہ ہو اور وہ اپنی اصلی صفت سےمتغیر نہ ہوا ہو اوریہ مائعات اس کی طرح نہیں بہتے کیونکہ پانی زیادہ پتلا ہے، بہرحال وہ چیز جو پانی کی طرح بہے تو ضروری ہے کہ وہ پانی کی طرح نُچڑے تو اگر ہر نچڑ نے والی چیز پانی کی طرح بہتی ہو تورقت اور یہ سیلان مساوی ہوجائیں گی ورنہ تو رقت اعم ہوگی اور ہر صورت میں کوئی محذور لازم نہ آئے گا، کیونکہ جب رقت منتفی ہوگی تو سیلان منتفی ہوگا، نتیجہ یہ کہ سیلان کا ذکر مستدرک ہوگا، برتقدیر اُس کے خاص ہونے کے اور تساوی کی شکل میں تو متساویین کے جمع ہونی میں کوئی حرج نہیں تاکیدا۔ (ت)
اقول فیہ(عہ۱)نظر بالنسبۃ الی بعض الالبان بل لبن المعزربمایکون ارق من بعض المیاہ وعلی التسلیم لانسلم ان کل ماسال کالماء ینعصر لجواز ان یکون فیہ مایمنعہ من الانعصار دون السیل کالدسم فان کان کل منعصر سائلا مثلا عادت الرقۃ اخص مطلقا والا فمن وجہ وعلی کل عاد المحذور۔
میں کہتا ہوں دودھ کے بعض اقسام کے اعتبار سےاس میں اعتراض ہے، بلکہ بکری کا دودھ بعض پانیوں کے اعتبار سےزائد رقیق ہوتا ہے اگر مان بھی لیا جائے تو ہم یہ نہیں مانتے کہ ہر وہ چیز جو پانی کی طرح بہتی ہو وہ نچڑتی بھی ہو کیونکہ یہ جائز ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز ہو جو اس کے نچڑ نے سےمانع ہو نہ کہ بہنے سےجیسےچکناہٹ، تو اگر ہر نچڑ نے والی چیز اس کی طرح بہنے والی ہو تو رقت اخص مطلق ہوجائے گی ورنہ من وجہ ہوگی اور بہرصورت محذور لوٹ آئےگا۔
(عہ۱) فان قلت الیس ھذا عین ماقدمت انفا فی البحث الاول فی تبیین کلام التبیین وغیرہ اواقتصروا علی السیلان فقلت یحمل علی السیلان المعھود من الماء فیستلزم الرقۃ اقول نعم شتان ماھما فالسیل کمسیل الماء یستلزم الرقۃ بالمعنی الذی حققت لا الانعصار کالالبان ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اگر آپ اعتراض کریں کہ کیا یہ بیان آپ کے اس بیان کے عین مطابق نہیں ہے جو ابھی آپ نے تبیین وغیرہ کے کلام کی وضاحت کرتے ہوئے پہلی بحث میں فرمایا کہ ''انہوں نے صرف سیلان کو کافی قرار دیا ہے'' اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ اس سیلان کو پانی والے سیلان پر محمول کیا جائےگا جس کو رقت لازم ہے۔ میں کہتا ہوں دونوں مختلف ہیں، سیلاب کے پانی کی رقت میں نچڑ نے کی وہ صلاحیت نہیں جو خالص پانی کی رقت میں ہے سیلاب کے پانی کی رقت دودھ کی رقت جیسی ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
وثانیا افاد(۱)رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان کل مالاینعصر لیس برقیق فعکسہ کل رقیق ینعصر٭ وفیہ نظر لایستتر٭ فان الدھن رقیق ولاینعصر٭ والامر فی اللبن اظھر امارقۃ الدھن فلما صرحوا ان المعتبر فی المقدارالمانع من النجاسۃ(۲) الغلیظۃ وزن الدرھم فی الشیئ الغلیظ ومساحتہ فی الرقیق کتب المذھب طافحۃ بذلک وفی البحر وفق الھندوانی بان روایۃ المساحۃ فی الرقیق والوزن فی الثخین واختار ھذا التوفیق کثیرمن المشائخ وفی البدائع ھوالمختارعندمشائخ ماوراء النھروصححہ الزیلعی وصاحب المجتبی واقرہ فی فتح القدیر ۱؎ اھ
اور ثانیا علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو نچڑ تی نہیں وہ رقیق نہیں ہے، تو اس کا عکس یہ ہوگا کہ ہر رقیق چیز نچڑتی ہے، اور اس میں ظاہری نظر ہے کہ تیل رقیق ہے مگر نچڑتا نہیں اور دودھ کا معاملہ زیادہ ظاہر ہے اور تیل کی رقت توجیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ معتبر وہ مقدار جو نجاست غلیظہ کے مانع ہے، گاڑھی چیز میں ایک درہم کا وزن ہے، اور رقیق میں ایک درہم کی پیمائش معتبر ہے،کُتب مذہب اِس سےپُر ہیں اور بحر اور ہندوا نی میں ہے کہ مساحت کی روایت رقیق میں اور گاڑھی میں وزن کی ہے، اور اس توفیق کو بہت سےمشائخ نے پسند کیاہے اور بدائع میں ہے کہ ماوراء النہر کے مشائخ کے نزدیک یہی مختار ہے اور اس کو زیلعی اور صاحبِ مجتبیٰ نے صحیح قرار دیا ہے اور اس کو فتح القدیر میں برقرار رکھا ہے اھ
(۱؎ بحرالرائق باب الانجاس سعید کمپنی کراچی ۱/۲۲۸)
وفی الغنیۃ قال الفقیہ ابو جعفر یقدربالوزن فی المستجسدۃ ذات الجرم وبالبسط فی الرقیقۃ کالدم المائع ووافقہ علی ذلک من بعدہ وقالواھو الصحیح ۱؎ اھ
اور غنیہ میں ہے فقیہ ابو جعفر نے کہا ہے جو نجاستیں جسم والی ہیں ان میں وزن سےاندازہ لگایا جائے گا، اور رقیق میں پھیلاؤ کا اعتبار کیا جائےگا، جیسےمائع خون اور ان کی موافقت کی ان کے بعد والوں نے، اور کہا کہ وہی صحیح ہے اھ
(۱؎ غنیۃ المستملی فصل فی الاسار سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۷۲)
ثم اختلفوا(۱)فی دھن متنجس اصاب الثوب اقل من درھم ثم انبسط فزاد قال الاکثرون یمنع الصلاۃ لانہ الاٰن اکثر قال فی المنیۃ بہ یؤخذ وقال جمع انما العبرۃ بوقت الاصابۃ المسألۃ دوارۃ ۲؎ فی الکتب کالفتح والبحر والدر وغیرہا وھوصریح دلیل علی ان الدھن من الرقیق والالم یتصورالاختلاف لان البسط لایزیدہ وزنا وقال فی الغنیۃ اصابہ دھن نجس اقل من قدرالدرھم ثم انبسط یمنع الصلاۃ لان مساحۃ النجاسۃ وقت الصلوۃ اکثرمن قدرالدرھم وتحقیقہ ان المعتبر فی المقدارمن النجاسۃ الرقیقۃ لیس جوھر النجاسۃ بل جوھر المتنجس عکس الکثیفۃ ۳؎ اھ فثبت ان من الرقیق مالاینعصر۔
پھر فقہاء کا اختلاف ہے ناپاک تیل میں جو کسی کپڑے کو ایک درہم سےکم مقدار میں لگ جائے پھر پھیل جائے اور زائد ہوجائے اکثر نے فرمایا یہ مانع صلوٰۃ ہے کیونکہ یہ اب زائد ہے، منیہ میں فرمایا اسےکو لیا جائے گا،اور ایک جماعت نے فرمایا اس وقت کا اعتبار ہوگا جبکہ یہ لگا ہو،یہ مسئلہ عام طور پر کتب میں موجود ہے،جیسےفتح، بحر اور دُر وغیرہ اور یہ صریح دلیل ہے اس امر کی کہ تیل رقیق ہے ورنہ تو اختلاف ہی متصور نہ تھا، کیونکہ پھیلنے سےاس کا وزن زائد نہ ہوگا، اور غنیہ میں فرمایا اگر اس کو نجس تیل لگا ایک درہم سےکم پھر پھیل گیا تو نماز نہ ہوگی،کیونکہ نجاست کی پیمائش نماز کے وقت درہم کی مقدار سےزائد ہوگئی ہے اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ رقیق نجاست میں معتبر جوہرِ نجاست نہیں بلکہ نجس ہو نے والی چیز کاجوہر ہے یہ کثیفہ نجاست کا عکس ہے اھ تو ثابت ہوا کہ بعض رقیق چیزیں وہ ہیں جو نُچڑتی نہیں۔ (ت)
وانا اقول: (۲) وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق
(میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی کی توفیق سےتحقیق کی گہرائی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ت) اہل سنت(۳) حفظہم اللہ تعالٰی کے نزدیک ترکیب اجسام اگرچہ جواہر فردہ متجاورہ غیر متلاصقہ سےہے اور یہی حق ہے فقیر نے بحمدللہ تعالٰی اپنے فتاوٰی کلامیہ میں اسےقرآن عظیم سےثابت کیا ہے جس کی طرف علماءمتکلمین کی نظر اب تک نہ گئی تھی
فیمااعلم واللّٰہ اعلم اذلم اقف علیہ فی کلامھم
(اس میں جو میں جانتا ہوں اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ اس معاملہ میں ان کے کلام میں واقفیت حاصل نہ کرسکا۔ ت) مگر اتصال حسی ضرور ہے
کما بیناہ فی رسالتناالنمیقۃ الانقی
(جیسا کہ ہم نے اسےاپنے رسالہ النمیقۃ الانقی میں بیان کیا ہے۔ ت) تمام احکامِ دین ودنیا اسی اتصال مرئی پر مبنی ہیں،یہ اتصال دو قسم ہے: قوی وضعیف۔ قوی یہ کہ جب تک خارج سےکوئی سبب نہ پیدا ہوا نفکاک نہیں ہوتا، ایسی ہی شی کا نام جامد ہے۔ پھر یہ خود قوت وضعف میں بریان پاپڑ سےلے کر سنگ خاراکی چٹان اور فولاد تک مختلف ہے مگر یہ نہ ہوگا کہ خودبخود اس کے اجزا بکھر جائیں یا بہ کر اُتر جائیں۔ ضعیف یہ کہ محض مجاورت کے سوااجزا میں عام بستگی وگرفتگی نہ ہو دَل پیدا کر نے والا ترا کم کہ اجزا یکے بالائے دیگرے ہیں جگہ نپانے کی باعث ہو گنجائش ملتی ہی اجزا اُتر کر پھیلنے لگیں ایسی ہی شی کا نام مائع وسائل ہے اور ازاں جاکہ اجزاء میں تماسک یعنی جامدات کی مانند بستگی وگرفتگی نہیں اور میل طبعی ہرثقیل کاجانب تحت ہے تونشیب پاتے ہی جو حرکت ثقیل اشیاء میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کوئی مانع نہ ہو جامد میں سارے جسم کو معاً متحرک کرتی تھی کہ اجزا اول سےآخر تک ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے ہیں یہاں ایسا نہ ہوگا بلکہ جانب نشیب کے پہلے اجزاء حرکت میں پچھلوں کا انتظار کریں گے ان کے آگے بڑھتے ہی ان کے متصل جو اجزاء تھے جگہ پائیں گے اور وہ اپنے پچھلوں کے منتظر نہ رہ کر جنبش کریں گے یوں ہی یہ سلسلہ اخیر اجزاء تک پہنچے گا تواس جسم کی حرکت حرکتِ واحدہ نہ ہوگی بلکہ حرکات عدیدہ متوالیہ اور ازانجا کہ اگلوں کا بڑھنا اور پچھلوں کا اُن سےآملنا مسلسل ہے کہیں انفکاک محسوس نہ ہوگا جسم واحد کے اجزا میں اسی سلسلہ وار حرکت متوالی کا نام سیلان ہے پھر جس طرح جامدات قوت وضعف میں اُس درجہ مختلف تھے یوں ہی ان مائعات میں یہ اختلاف ہے کہ جہاں بوجہ مانع انفکاک حسی کے محتاج ہوں بعض بہت باریک ذروں پر منقسم ہو سکیں گے اور بعض زیادہ حجم کے اجزاء پر کہ ایک نوع تماسُک سےخالی نہیں اگرچہ جامدات کی طرح عام تماسُک نہیں چھاننے میں اختلاف مائعات کی یہی وجہ ہی ظاہر ہے کہ کپڑا یا چھلنی جس چیز میں چھانیے اُس میں کچھ تو منافذومسام ہوں گے کہ اجزائے مائع کو نکلنے کی جگہ دیں گے اورکچھ کپڑے یا لوہے وغیرہ کی تار ہوں گے کہ اپنے محاذی اجزاء کو روکیں گے ناچار مائع اپنے اجزاء کی تفریق کا محتاج ہوگا پھر جو جس قدر باریک اجزا پر منقسم ہو سکے گا اُتنے ہی تنگ منفذسےنفوذ کرجائے گا اور دوسرا اس پر قادر نہ ہوگا یہی سبب ہے کہ بعض مائعات چھاننی میں سنگین کپڑے سےنفوذ کر جاتے ہیں کہ اُس کپڑے کی باریک مسام سےبھی زیادہ باریک اجزاء پر متفرق ہوسکتے ہیں اور بعض باریک کپڑے سےنکل سکیں گے جو زیادہ گھنا نہ بُنا ہو بعض چھلنی کی وسیع منفذ چا ہیں گے وعلٰی ہذا القیاس اسی منشاء اختلاف کا نام مائع کی رقت وغلظت ہے ورنہ جامدات(۱) میں بھی رقیق وغلیظ ہوتے ہیں پتلے کپڑے کو ثوبِ رقیق کہتے ہیں پتلی چپاتی کو خبزرُقاق، استخوان زمان پیری کو عظمِ رقیق،حدیث امیر المومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے:
اے اللہ میری عمر بڑی ہوگئی اور میری ہڈی پتلی ہوگئی پس مجھے عاجز اور شرمسار کئے بغیر اپنے دربار میں حاضر کرلے۔(ت)
شیشہ کہ باریک دَل کا ہو زجاج رقیق۔ قال قائلھم ع: رق الزجاج ورق الخمر فاشتبھا
(ترجمہ: شیشہ پتلا(باریک)ہوا،اورشراب پتلی ہوئی،یوں دونوں آپس میں مشابہ ہوئے۔ت)
بالجملہ(۱) رقت ودقت متقارب ہیں رقیق پتلا دقیق باریک۔
اقول: مگردقت میں کمی عرض کی طرف لحاظ ہے ولہٰذا خط کو دقیق کہیں گے اور رقت میں کمی عمق کی جانب تو سطح رقیق ہے یہ وہ ہے جو نظر بمحاورت خیال فقیر میں آیا پھر تاج العروس میں اس کی تصریح پائی۔
حیث قال قال المناوی فی التوقیف الرقۃ کالدقۃ لکن الدقۃ یقال اعتبار المراعاۃ جوانب الشیئ والرقۃ اعتبارا بعمقہ ۱؎۔
فرمایا کہ مناوی نے توقیف میں فرمایا رقت مثل دقت ہے لیکن دقۃ میں کسی چیز کے کناروں کا اعتبار ہوتا ہے اور رقت میں اس کی گہرائی کا۔ (ت)
(۱؎ تاج العروس فصل الراء من باب القاف احیاء التراث العربی مصر ۶/۳۵۸)
اسی لئے تالاب یا نالے میں جب پانی تھوڑی دَل کا رَہ جائے اُسےرُق ورُقارِق کہتے ہیں قاموس میں ہے:
الرقارق بالضم الماء الرقیق فی البحر اوالوادی لاغزر لہ ۲؎ اھ وقدم مثلہ فی الرق الا قولہ لاغزرلہ فزادہ الشارح۔
رقارق بالضم پتلا پانی دریا یا وادی میں جو گہرا نہ ہو اھ اور اس کی مثل الرق میں گزرا اس کے قول لاغزر کا ذکر نہیں، اس کا اضافہ شارح نے کیا ہے۔ (ت)
(۲؎ قاموس المحیط فصل الراء باب القاف مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۵)
نیز اُسی میں ہے: استرق الماء نضب الایسیرا ۳؎۔
نیز اس میں ہے پانی رقیق ہوا یعنی قلیل گہرائی والا ہو۔ (ت)
(۳؎ قاموس المحیط فصل الراء باب القاف مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۵)
اللھم کبر سنی و رق عظمی فاقبضنی الیک غیرعاجزولاملوم۔