فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ) |
دوم: اس درجہ کثیرو وافر ہوکہ شے مخلوط اس میں عمل نہ کرسکے اس سے نہ طبع بدلے گی نہ اسم کہ بوجہ افراط صالح مقصود آخر نہ ہوگا۔
سوم: زائد ہو مگر نہ اُس درجہ مفرط اس میں محتمل کہ زوالِ طبع نہ ہو اور نام بدل جائے مثلاً کہا جائے شوربا کس قدر زائد کردیا ہے بخلاف اس صورت کے کہ مثلاً دیگچہ(۱) بھر پانی میں چھٹانک بھر گوشت پکائیں اسے کوئی شوربا نہ کہے گا جمہور نے بلحاظ معہودزوال طبع پر اقتصار فرمایا اور ان بعض نے شمول غیر معہود کیلئے بلفظ تغیر تعبیر فرمایا جس سے تغیر اسم مقصود ہے نہ تغیر وصف کہ طبخ پر موقوف نہیں
وقد اشرنا الی ھذا فی ۲۱۷ عند التوفیق بین قولھم اذابرد ثخن وقول الغنیۃ غالبا واللّٰہ تعالٰی اعلم
(ہم ۲۱۷ میں اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جہاں پر ان کے قول ''اذابرد ثخن'' اور غنیہ کےقول ''غالباً'' میں توفیق بیان کی، واللہ تعالٰی اعلم۔ ت)
اقول: وبہ ظھر الفرق بین المنظف وغیرہ فانہ اذا زال الاسم حصل المنع ولایزول الاسم فی المنظف الابزوال الطبع بالفعل لانہ لایقصد بہ الامایقصد من الماء وھو التنظیف فھذا غایۃ التحقیق واللّٰہ سبحٰنہ ولی التوفیق۔
میں کہتا ہوں اسی سے منظّف (یعنی نظافت والی چیز کو پکانے ) اور غیر منظّف کا فرق واضح ہوا، کیونکہ پانی کانام بدل جانے پر وضو منع ہوجاتا ہے جبکہ منظّف میں نام کی تبدیلی اسی صورت میں ہوتی ہے جب بالفعل پانی کی طبع ختم ہوجائے،کیونکہ خالص پانی اور منظّف دونوں کا مقصد نظافت کا حصول ہے، یہ کامل تحقیق ہے اللہ تعالٰی ہی توفیق کامالک ہے (ت)
بالجملہ حاصل تنقید وتنقیح یہ ہے کہ اگر کلام(۲) طبخ معہودسے خاص ہو تو مدار زوال طبع پر ہے اور یہی ہے وہ جسے عامہ کتب معتمدہ نے اختیار کیا اور اس وقت منظّف میں فرق یہ ہوگا کہ غیر منظف میں زوال بالقوۃ کافی ہے یعنی ٹھنڈی ہونے پر جرم دار ہوجائے اور منظف مثل صابون واُشنان میں زوال بالفعل درکار اور اگر معہودو غیر معہود سب کو شامل کریں تو مدار زوال اسم پر ہے خواہ صرف زوال طبع کے ضمن میں پایا جائے جبکہ پانی مقصود نہ ہو یا صرف چیز دیگر مقصد دیگر کیلئے ہوجانے کے ضمن میں جیسے طبخ غیر معہود میں جبکہ زیادت مفرطہ نہ ہو خواہ دونوں کے ضمن میں جہاں طبخ معہود اور پانی مقصود اس وقت بجائے زوال طبع تغیر کہیں گے امام دقیق النظر حافظ الدین نسفی نے وافی وکنز میں یہی مسلک لیا اور نقایہ واصلاح وتبیین وغایۃ البیان نے ان کا اتباع کیا اب منظف وغیر منظف میں فرق یہ ہوگا کہ غیر منظف میں کبھی باوصف بقائے رقت زوال اسم ہوجاتا ہے بخلاف منظف۔ اس کی نظیریں غیر مطبوخ میں کثیر ہیں جیسے نبیذ وصبغ ومداد وغیرہا مسائل کثیرہ۔ یہ ہے وہ جس سے بتوفیقہ تعالٰی تمام کلمات ائمہ ملتئم ہوگئے وللّٰہ الحمد علی الدوام٭ وعلی نبیہ وذویہ الصلاۃ والسلام۔ یہاں تک نوبحثیں ہوئیں، ایک اور اضافہ کریں کہ تلک عشرۃ کاملۃ ہوں۔ بحث دہم ارشادات متون پر نظر اقول ہم فصل دوم میں ثابت کر آئے کہ مائے طاھر غیر مستعمل کے فی نفسہ ناقابل وضو ہوجانے کے چار بلکہ تین ہی سبب ہیں: (۱) کثرت اجزائے مخالط جس میں حکماً دوسری صورت مساوات بھی داخل۔ (۲) زوالِ رقت کہ جرم دار ہوجائے۔ (۳) زوال اسم جس سے یہاں اُس کی وہ خاص صورت مراد کہ مقصد دیگر کیلئے چیز دیگر ہوجائے۔ نیز فصل حاضر کی بحث دوم ابحاث غلبہ میں گزرا کہ غلبہ اجزاء کہ مذہب امام یوسف رحمہ اللہ تعالٰی ہے ان تینوں صورتوں پر بولا جاتا ہے بالجملہ مائے مطلق کی تعریف جو ہم نے محقق ومنقح کی اور امام ابویوسف کا مذہب کہ وہی صحیح صحیح ومعتمد ہے حرف بحرف متطابق ہیں وللہ الحمد۔
اب متون کو دیکھئے تو وہ بھی ان تین سبب سے باہر نہیں انہیں کو وجہ منع ٹھہراتے ہیں اگر سب کااستیعاب نہیں فرماتے اور یہ کچھ نئی بات نہیں متون (۱) نہ متون جن کی وضع اختصار پر ہے بلکہ شروح میں بھی جن کا کام ہی تفصیل وتکمیل ہے صدہا جگہ احاطہ صور نہیں ہوتا۔ بعض کی تصریح بعض کی تلویح کہ اشارت دلالت اقتضاءِ فحوی سے مفہوم ہوں اور کبھی بعض یکسر مطوی کمالایخفی علی من خدم کلماتھم وھذا من اعظم وجوہ العسر فی ادراک الفقہ واللّٰہ المیسر لکل عسیر ولاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (جیسا کہ یہ بات ان لوگوں پر مخفی نہیں جو مصنفین کی عبارات پر کام کرتے ہیں، فقہ کے ادراک میں یہ مشکل مرحلہ ہے، اور اللہ تعالٰی ہر مشکل کو آسان فرماتا ہے لاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ ت)یہاں اکثرمتون نے صرف سبب دوم یعنی زوال طبع کا ذکرفرمایا قدوری وبدایہ نے عبارت میں اس کی کچھ تفصیل نہ فرمائی ہاں مثالوں سے صورت طبخ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاوقایہ وغرر ونورالایضاح نے اُسے دو سببوں کی طرف مفصل کیاطبخ وغلبہ غیراور ملتقیٰ نے تیسراسبب جزئی اور اضافہ کیاکثرت اوراق۔ پھر غلبہ غیر کو ان سب نے مطلق رکھا مگر اول نے کہ اجزا سے مقید کیا۔اقول اور اس کا ارادہ ملتقی میں چاہئے ورنہ کثرت اوراق بھی غلبہ غیر ہی ہے بہرحال کثرتِ اجزاء و زوال اسم جن میں زوال زوال طبع نہ ہو ان چھ(۲) میں مذکور نہ ہوئے ہدایہ نے شرح میں ان کا اشعار فرمایا اول کا ان لفظوں سے
الخلط القلیل لامعتبربہ فیعتبر الغالب والغلبۃ بالاجزاء ۱؎
(قلیل ملاوٹ کا اعتبار نہیں صرف غالب کا اعتبار ہوتا ہے اور غلبہ میں اجزاء کا لحاظ ہوتا ہے۔ ت)
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ الوضو مطبع عربیہ کراچی ۱/۱۸)
دوم کا اشارہ خفیہ اس عبارت سے
ان تغیر بالطبخ لایجوز اذالنار غیرتہ الا اذا طبخ فیہ مایقصد بہ النظافۃ ۱؎
(اگر تغیر پکانے کی وجہ سے ہوا تو وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ آگ سے تغیرپیدا ہوگیا ہے لیکن اگر ایسی چیز ملا کر پانی کو پکایا جائے جس سے نظافت مقصود ہو تو پھر جائز ہے۔ ت) یہ اعتبار مقصدکی طرف ایما ہے
کماتقدم الاٰن تقریرہ
(جیسا کہ اس کی تقریر اب گزری ہے۔ ت)تو کلام ہدایہ جامع اسباب ثلٰثہ ہوا وافی وکنز نے دو سبب ذکر فرمائے کثرتِ اجزاء و زوال طبع۔
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء مطبع عربیہ کراچی ۱/۱۸)
اقول: وہ اعتبار طبیعت کے منافی نہیں کہ تغیر طبع قطعاً موجب زوال اسم ہے مگر یہاں ایک دقیقہ اور ہے۔ فاقول: وبہ نستعین اوپر گزرا کہ طبخ(۲) میں کبھی پانی مقصود نہیں ہوتا تو یہاں زوال اسم بے زوال طبع نہ ہوگا لعدم صیرورتہ شیئا اخر لمقصود اٰخر (کیونکہ چیز دگر مقصد دگر کیلئے نہیں ہوئی۔ ت) اور کبھی خود بھی مقصود ہوتا ہے اس میں تین صورتیں ہیں: