Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
20 - 166
وبہ اندفع ماردبہ السید ابو السعود ثم السید ط علی العلامۃ الشرنبلالی اذقال فی مراقی الفلاح لایجوز بماء زال طبعہ بالطبخ بنحو حمص وعدس لانہ اذابردثخن کما اذا طبخ بما یقصد بہ النظافۃ کالسدر وصار ثخینا ۱؎ اھ،
اس جواب کی تقریر سے سید ابو سعود اور سید طحطاوی کا علامہ شرنبلالی پر اعتراض بھی ختم ہوگیا جو انہوں نے علامہ کی اس عبارت پر کیا جو علامہ نے مراقی الفلاح میں یوں کہی ہے ''چنے اور مسور جیسی چیزوں کو پانی میں پکانے سے جب پانی کی طبع زائل ہوجائے کہ ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں ہے جس طرح نظافت کے مقصد سے پانی میں پکائی ہوئی چیز (جیسی بیری کے پتّے وغیرہ) جو کہ پکنے میں گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں ہے اھ،
 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارت    الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)
فقالا ھذا من المصنف لیس علی ماینبغی فانہ متی طبخ بمالایقصد بہ النظافۃ لایرفع الحدث وان بقی رقیقا سائلا لکمال الامتزاج بخلاف مایقصد بہ النظافۃ فانہ لایمتنع بہ رفعہ الااذاخرج عنہ رقتہ وسیلانہ فالفرق بینھما ثابت وتسویۃ المصنف بینہما ممنوعۃ ۲؎ اھ۔
اس پر دونوں حضرات نے یہ اعتراض کیا کہ مصنف (علامہ شرنبلالی) کا یہ کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایسی چیز پانی میں پکائی جائے جس سے نظافت مقصود نہ ہو تو اس سے طہارت جائز نہیں،اگرچہ اس میں رقت وسیلان باقی ہو اس لئے کہ یہاں کمالِ امتزاج پایا جاتا ہے۔ لیکن جس چیز سے نظافت مقصود ہو تو وہاں جب تک رقت وسیلان ختم نہیں ہوتا اس وقت تک اس سے طہارت جائز ہے یہ فرق واضح ہے اور مصنّف (شرنبلالی) کا دونوں صورتوں کو برابر قرار دینا درست نہیں ہے اھ (ت)
 (۲؎ حاشیۃ طحطاوی         کتاب الطہارت    الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)
اقول اولا(۱) متی سوی وقد قال فی المنظف وصار ثخینا فاعتبر الثخونۃ بالفعل وقال فی غیرہ اذا برد ثخن فاعتبر التھیؤ للثخن
میں کہتا ہوں اولاً کہ علامہ شرنبلالی نے کب دونوں صورتوں کو برابر قرار دیا ہے؟ حالانکہ انہوں نے نظافت والی چیز کے بارے میں کہا کہ گاڑھا پن پایا جائے تو انہوں نے یہاں گاڑھے پن کا بالفعل پایا جانا معتبر قرار دیا اور غیر منظف میں انہوں نے کہا جب ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہو تو یہاں انہوں نے بالفعل گاڑھے ہونے کا اعتبار نہیں کیا بلکہ اس کے قابل ہونے کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)
وثانیاقولھما(۱) وان بقی رقیقاان اراد بہ ماعلیہ المطبوخ قبل ان یبرد فلم ینکرہ المصنف بل قد نص علیہ اذاعتبرہ رقیقابعد ومنع الوضوء بہ وان اراد بہ مایبقی رقیقا بعدمایبرد ایضا فمنع الوضوء بہ ممنوع وکمال الامتزاج مدفوع اذلوکمل لثخن ولوبعد حین۔
اور ثانیا ان دونوں کا یہ قول، کہ غیر منظف سے وضو جائز نہیں اگرچہ اس کی رقت باقی ہو، تو اس رقّت کی بقا سے مراد اگر ٹھنڈا ہونے سے قبل ایسا ہو، تو مصنف نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس رقت پر یہ کہہ کر نص کردی کہ ٹھنڈا ہونے سے قبل رقیق ہو اور ٹھنڈا ہونے کے بعد گاڑھا ہو، کیونکہ انہوں نے ٹھنڈا ہونے کے بعد رقیق کا اعتبار کیا ہے اور یہ کہ اس سے انہوں نے وضو کو ناجائز کہا اور اگر ان کی مراد یہ ہو کہ ٹھنڈا ہونےکے بعد بھی رقیق رہے تو پھر ان دونوں حضرات کا اس سے وضو کو منع کرنا درست نہیں ہے اور یہا ں کمالِ امتزاج ماننا درست نہیں ہے کیونکہ اگر اس وقت کمال امتزاج ہوتا تو پھر کچھ دیر بعد گاڑھا ہوجاتا۔ (ت)
وثالثالئن(۲)سلم فالمنقول عن امامی المذھب ابویوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی ھو التسویۃ بین المنظف وغیرہ علی الروایۃ المشھورۃ عن ابی یوسف وعلی کلتاالروایتین عن محمد تذکر مااسلفنا فی ۱۰۷ عن الحلیۃ عن التتمۃ والذخیرۃ ان ابایوسف یعتبر فی المنظف سلب الرقۃ روایۃ واحدۃ واختلف الروایۃ عنہ فی غیرہ ففی بعضھا اعتبر سلب الرقۃ ای وھی المشھورۃ عنہ وفی بعضھا لم یشترطہ ای واکتفی بتغیر الاوصاف وھی الروایۃ الضعیفۃ المرجوحۃ وان محمدا اعتبر الغلبۃ باللون ای وھی الروایۃ المشھورۃ عنہ وفی بعضھا سلب الرقۃ وکلتاھمامطلقۃ عن التفصیل بین المنظّف وغیرہ فای عتب علی من سوی بینھما تبعا لامامی مذھبہ وھماالمراٰن یقتدی بھما بعد الامام الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم اجمعین واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اور ثالثااور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ علامہ شرنبلالی نے منظّف اور غیر منظف پکنے والے دونوں کو برابر ومساوی قرار دیا ہے تو بھی یہ درست ہے کیونکہ امام ابویوسف اور امام محمد دونوں اماموں کے ہاں منظف اور غیر منظف دونوں برابر ہیں، جیسا کہ امام ابویوسف سے مشہور اور امام محمد سے مشہور اور غیر مشہور دونوں طرح منقول ہے نمبر ۱۰۷ میں حلیہ، تتمہ اور ذخیرہ کے حوالے سے ہم نے جو بیان کیاتھا اس کو یاد کرو، وہ یہ کہ امام ابویوسف منظّف میں رقّت ختم ہونے کا اعتبار کرتے ہیں ان سے یہ ایک ہی روایت ہے جبکہ غیر منظّف کے بارے میں ان سے مروی روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں وہ یہاں رقّت کے خاتمہ کا اعتبار کرتے ہیں یہی روایت مشہور ہے۔ اور بعض روایات میں یہ ہے کہ وہ یہ شرط نہیں لگاتے اور صرف اوصاف کی تبدیلی کااعتبار کرتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اور امام محمد دونوں صورتوں میں غلبہ کیلئے رنگ کی تبدیلی کا اعتبار کرتے ہیں،ان سے یہی مشہور روایت ہے۔اور بعض روایات میں وہ غلبہ میں رقت کے خاتمہ کا اعتبار کرتے ہیں اور انہوں نے منظف وغیر منظف کے فرق کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا، لہذا،اگر بقول دونوں معترضین حضرات، علّامہ شرنبلالی،دونوں صورتوں کو امام ابویوسف اور امام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کی اتباع میں مساوی قرار دیں تو کیاقباحت ہے جبکہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بعدیہ دونوں امام ہی قابلِ اتباع ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
بالجملہ قول مشہور ومسلک جمہوریہی ہے کہ طبخ میں وجہ منع زوال رقت ہے یہی ہے وہ کہ ہم نے ۲۱۷ میں تحقیق کیا والاٰن اقول(اور اب میں کہتا ہوں۔ت) وباللّٰہ التوفیق(۱)(اور اللہ کی توفیق سے۔ ت) اوپر معلوم ہوا کہ یہاں چار چیزیں ہیں:(۱) اجزا ء (۲) اوصاف (۳) طبیعت (۴) اسم۔ اور اعتبار اجزاء تین وجہ پر ہے: مقدار، طبیعت، اسم۔ طبخ میں علتِ منع کثرتِ اجزا لینا تو محتمل نہیں کہ یہ کثرت ہوگی تو ابتدا سے نہ کہ بوجہ طبخ۔ یوں ہی تغیر لون وطعم وریح۔

 اولاً غالباً قبل حصول طبخ ونضج ہوجائے گا تو اُسے بھی تغیر بالطبخ میں نہیں لے سکتے اور بعض جگہ کہ بعد تمامی طبخ ہو اسے علت قرار دینے پر عام مطبوخات تغیر بالطبخ سے نکل جائیں گے کہ ان میں تغیر وصف طبخ سے نہ ہوا۔ 

 ثانیاً اس سب سے قطع نظر ہو تو اعتبار اوصاف مذہب صحیح معتمد کے خلاف ہے خود خانیہ میں اس کے خلاف کی تصحیح فرمائی،کماتقدم مشروحافی ۱۰۱و۱۲۲فھٰذاردجدید(۲)علی مافی البحروالنھر(۳)مستندین الٰی عبارۃ الخانیۃ الحکم علی وجود ریح الباقلاء وجامع(۴) الرموز المعتبر تغیر اللون (جیسا کہ واضح طور پر پہلے ۱۰۱ اور ۱۲۲ میں گزرا۔ پس یہ بحر اور نہر کے اُس بیان کی نئی تردید ہے جو خانیہ کی عبارت کی طرف منسوب ہے جس میں حکم کی بنیاد باقلیٰ کی بُو پر ہے نیز یہ جامع الرموز کی تردید ہے جس نے رنگ کی تبدیلی کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)
ثم اعتبار الریح(۵)فیہ نظر فان محمدا الناظر الی الاوصاف لم یعتبرھا فی المشھور عنہ انما اعتبر اللون ثم الطعم ثم الاجزاء کما سیأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی ولو(۱) سلم فلم القصر علیھا۔
پھر تغیراوصاف میں بُو کا اعتبار محل نظر ہے کیونکہ خود امام محمد جنہوں نے اوصاف کا لحاظ کیا ہے بُو کا اعتبار نہیں کرتے ان سے مشہور روایت یہی ہے کہ وہ صرف رنگ اور پھر ذائقہ اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آئےگا، اور اگر بُو کے اعتبار کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی صرف اسی کا اعتبار کیوں۔ (ت)
    باقی رہے دو طبیعت واسم۔ اعتبار طبیعت تو وہی قول مذکور جمہور ہے اور امام زیلعی واتقانی نے اعتبارا سم ذکر فرمایا۔
ففی التبیین ماتغیر بالطبخ لایجوز الوضوء بہ لزوال اسم الماء عنہ وھو المعتبر فی الباب ۱؎ اھ
تبیین میں ہے پکانے سے جو تغیر پانی میں پیدا ہوا اس سے وضو جائز نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں پانی کا نام ختم 

ہوجاتا ہے اور پانی کی تبدیلی میں اس کے نام کی تبدیلی ہی معتبر ہے اھ
 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ        الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)
ولما قال فی الھدایۃ ان تغیر بالطبخ لایجوز لانہ لم یبق فی معنی المنزل من السماء اذا النار غیرتہ ۲؎ اھ عللہ فی غایۃ البیان(عـہ) بزوال الاسم۔
اور یوں ہی ہدایہ کے قول کی بنیاد پر جس میں ہے کہ اگر پکانے  کی وجہ سے پانی میں تغیر پیدا ہوا تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اب وہ آسمانی پانی کی کیفیت پر نہیں رہابلکہ آگ نے اس کو متغیر کردیا ہے اھ غایۃ البیان میں وضو جائز نہ ہونے کی علت زوالِ اسم کو قرار دیا ہے۔ (ت)
 (۲؎ الہدایۃ        باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ    مطبع عربیہ ببولاق مصر    ۱/۱۸)
 (عـہ) بل فی نفس الھدایۃ وایضاالکافی فیماطبخ المنظّف فغلب علیہ لزوال اسم الماء عنہ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

بلکہ خود ہدایہ اور کافی میں بھی ہے کہ وہ پانی جس میں ایسی چیز جو نظافت کیلئے مفید ہو، کو پکایا اور وہ چیز غالب ہوجائے تو پانی کا نام تبدیل ہوجائےگا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)
Flag Counter