Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
19 - 166
وقال الدر لایجوز بماء زال طبعہ وھو السیلان بطبخ الا بما قصد بہ التنظیف فیجوز ان بقی رقتہ ۲؎ اھ
اوردُرنے یوں کہا ایسے پانی سے وضو ناجائز ہے پکانے سے جس کی طبع زائل ہوچکی ہو اور وہ طبع، پانی کا سیلان ہے، مگر جب پانی میں پکانے سے مقصد صفائی مقصود ہو تو وضو جائز ہوگا بشرطیکہ پانی کی رقت باقی ہو اھ
 (۲؎ درمختار    باب المیاہ            مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)
والعجب(۱) اَنْ لم یتنبہ لہ الشراح السادۃ حتی(۲)ط الاٰخذ علی المراقی بمایأت وقد(۳) اغتربہ الفاضل عبدالحلیم اذقال لااختلاف فی عدم جواز التوضی بماء زال طبعہ بالطبخ بخلاف مازال طبعہ بالخلط من غیرطبخ ۳؎ اھ
اور تعجب ہے کہ سید شارح حضرات بھی اس اشکال کی طرف متوجہ نہ ہوئے حتی کہ طحطاوی بھی جنہوں نے مراقی الفلاح پر گرفت کی جو آئندہ آئے گی، اور یہاں فاضل عبدالحلیم کو غلط فہمی ہوئی جہاں انہوں نے کہاکہ پکانے  کی وجہ سے جس پانی کی طبع زائل ہوجائے تو اس سے وضو کے ناجائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے برخلاف جبکہ بغیر پکائے کسی چیز کے خلط سے پانی کی طبع زائل ہوجائے تو وضو جائز ہے اھ
 (۳؎ حاشیۃ الدرر للمولی عبدالحلیم کتاب الطہارۃ    عثمانیہ بیروت        ۱/۱۸)

(و خلاصۃ الفتاوٰی     ماء المقید        نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)
ویا سبحٰن اللّٰہ من ذا الذی اجاز الوضوء بماء زال طبعہ ھذالایساعدہ عقل ولانقل وقدمرفی رابع ابحاث زوال الطبع انہ لایجوز بالاجماع بلا خلاف ۴؎ اھ
یا سبحان اللہ وہ کون ہے جو زوالِ طبع کے بعد بھی پانی سے وضو کو جائز قرار دیتا ہو،یہ ایسی بات ہے جو عقل ونقل کے مخالف ہے،اور زوالِ طبع کی چوتھی بحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ زوالِ طبع کے بعد وضو جائز نہیں ہے بلااختلاف یہ بات سب کو مسلّم ہے اھ (ت)
(۴؎ بدائع الصنائع     ماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)
وانا اقول(۱) وباللّٰہ التوفیق وجھد المقل دموعہ یبتنی کشف الغمۃ بعونہ تعالٰی علی تقدیم مقدمات فاعلم۔
میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی سے ہی توفیق،اور اس اشکال کی پریشانی کو کم کرنے والی کوشش ہے۔اس اشکال کے حل کی بنیاد چند مقامات پر ہے۔
اوّلاً ان قول المتن ماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء لابدفیہ من التجوزوذلک لانہ جعلہ خارجا عن طبع الماء ثم سماہ ماء وماء خرج عن طبعہ حقیقۃ لایبقی ماء لماتقدم ان الطبع لازم الذات فتنتفی بانتفائہ وقد افادالمحقق علی الاطلاق فی الفتح ان ماسلب رقتہ لیس ماء اصلاکمایشیرالیہ قول المصنف فی المختلط بالاشنان فیصیرکالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ فلابدمن التجوزامافی الماء سماہ ماء باعتبارماکان وامافی الخروج سمی قرب الخروج خروجاوالثانی اکثر(۲) واقرب لان الاٰتی قریبا احق بالاعتبار من الفائت الساقط وایضاً موضوع الباب الماء الذی یجوز بہ الوضوومالاوایضا ھو اکثر فائدۃ لان الاعلام بماء لایجوز الوضوء بہ اھم من منع الوضوء بمالیس بماء۔
اوّلاً یہ سمجھو کہ ہدایہ کے متن میں یہ قول ''ماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء'' جس پانی میں کوئی چیز مل کر اس پر غالب ہوکر اسے طبع سے خارج کردے،اس قول میں مجاز لازمی ہے کیونکہ یہاں پانی کی طبع ختم ہوجانے کے باوجود اس کو پانی کہاگیا ہے حالانکہ پانی کی طبیعت ختم ہوجانے کے بعد وہ پانی نہیں رہتا ہے اس لئے کہ وہ بات پہلے کہی جاچکی ہے کہ طبع پانی کی ذات کو لازم ہے تو لازم کے ختم ہونے پر ذات کا خاتمہ ضروری ہے محقق مطلق نے فتح القدیر میں یہ واضح کیاہے کہ جب رقّت ختم ہوجائے تو وہ پانی نہیں رہتا،جیسا کہ مصنف نے کہا ستوؤں کی طرح گاڑھا ہونے والے اس پانی کو جس میں اشنان ملا ہو،کے بارے میں کہاکہ اس کا نام پانی نہیں ہوگااھ،لہٰذا یہاں مجاز ماننا ضروری ہے یہ مجاز لفظ ماء(پانی) میں ہوگا کہ قبل ازیں وہ پانی تھا(اس لئے مجازاً،زوالِ طبع کے بعد اسے پانی کہاگیا ہے)یا یہ مجاز لفظِ ''خروج'' میں ماننا ہوگاکہ موجودہ پانی سے عنقریب اس کی طبع خارج ہونے والی ہے (اس لئے طبع سے اس کو خارج قرار دیا،پہلی صورت میں ماکان اور دوسری میں مایکون کے اعتبار سے مجاز ہے)جبکہ مجاز کی دوسری (مایکون والی) قسم کا استعمال زیادہ ہے اور یہ اقرب الی الفہم بھی ہے کیونکہ عنقریب پائے جانی والی چیز اس چیز سے زیادہ معتبر ہے جو پائے جانے کی بعد ختم ہوچکی ہے نیز مجاز کی دوسری قسم کا یہاں اعتبار اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں اس پانی کی بحث ہے جس سے وضو جائز یا ناجائز ہے (یعنی پانی کا وجود ہونا ضروری ہے)نیزاس لئے بھی کہ دوسری قسم کے مجاز میں یہاں زیادہ فائدہ ہے یہ اس لئے کہ پانی موجودہونے پر یہ بتاناکہ اس سے وضو جائز نہیں، زیادہ مفید ہے اس قول کے مقابلہ میں کہ یوں کہا جائے جو پانی نہیں اس سے وضو منع ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)
وثانیاً السبب ھھنا کمال الامتزاج کمانص علیہ فی الکافی والکفایۃ والبنایۃ وغیرھا وسیأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی وکمال الامتزاج اثرہ فی الشیئ المخالط بغیر طبخ اخراج الماء عن الرقۃ بالفعل وفی المخالط طبخا جعلہ متھیأ للخروج بالقوۃ القریبۃ وذلک لان المخالط یریداثخانۃ والنار تلطفہ وترققہ فلایظھر اثرہ کما ھوالا اذا زال المعارض وبرد کما تقدم التنصیص علیہ عن الکتب الکثیرہ فی ۲۱۷۔
ثانیاً اس پانی سے طبع کے زائل وخارج ہونے کا سبب یہ ہے کہ پانی میں کوئی چیز مکمل طور پر مخلوط ہوجائے جیسا کہ اس کو کافی، کفایہ، بنایہ وغیرہا نے واضح طور پر بیان کیا ہے اور عنقریب اس کا ذکر آئےگا اِن شاء اللہ تعالٰی، جبکہ کمالِ امتزاج (مکمل ملاوٹ) اگر بغیر پکائے ہو تو اس کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ پانی کی رقت ختم ہوجاتی ہے (یعنی بالفعل ختم ہوجاتی ہے) اگریہ کمال امتزاج پکانے  کی وجہ سے ہو تو پھر اس کا اثر یہ ہوتا ہے پانی کی رقت عنقریب ختم ہونی والی ہوتی ہے(یعنی بالفعل ختم نہیں ہوتی) کیونکہ ملاوٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ پانی گاڑھا ہوجائے اور آگ کی حرارت اس کو پتلا رکھتی ہے جس کی وجہ سے کمال امتزاج کا اثر فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا، لیکن جب رکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور یہ مخلوط ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو وہ گاڑھا ہوجاتا ہے جیسا کہ ۲۱۷ میں متعدد کتب کی تصریحات گزر چکی ہیں۔ (ت)
وثالثاً مجرد کمال الامتزاج مع عدم الثخن بالفعل غیر مانع فی المنظف لسریأتیک بیانہ بعونہ جل شانہ وقد قال فی الکافی ومن معھا فی الامتزاج بالطبخ انما یمنع الوضوء ان لم یکن مقصود اللغرض المطلوب من الوضوء وھو التنظیف کالاشنان والصابون الا اذاغلب فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ
ثالثا، محض کمالِ امتزاج جبکہ منظف میں بالفعل گاڑھا پن نہ ہو ............ وضو کیلئے مانع نہیں ہے اس کی وجہ (راز) کا ان شاء اللہ وبعونہ عنقریب بیان ہوگا،جبکہ کافی میں کہا کہ پانی میں کسی چیز کو پکانے سے کمالِ امتزاج، وضو سے مانع تب ہوگا جب کہ یہ امتزاج نظافت کیلئے جو کہ وضو کی غرضِ مطلوب ہے، نہ ہو، جیسا کہ اشنان وصابون، جب تک ان کا ایسا غلبہ نہ ہوجائے جو پانی کو ستووں کی طرح گاڑھا کردے تو اس صورت میں وضو جائز نہیں کیونکہ اتنا گاڑھا ہونے  پر اس کا نام پانی نہیں رہتا اھ
 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)
اذاعلمت ھذا فالشیخ الامام رحمہ اللّٰہ تعالٰی ورحمنا بہ حمل المتن علی المجاز الثانی لماتقدم من ترجیحاتہ وایاہ ارادبالتغیر وقد انحلت الاشکالات جمیعا فان حکم المتن علی مایتھیؤ لزوال الطبع مع بقائہ بعد علیہ بعدم جواز التوضی بہ لابدمن تقییدہ بالمطبوخ لانہ فی غیرہ لایدل علی سبب المنع وھو کمال الامتزاج بل یدل علی عدمہ اذلو کمل لثخن بخلاف المطبوخ فانہ فیہ دلیل علیہ کماعلمت غیر انہ لایمنع فی المنظف الا اذاحصل الثخن بالفعل فاستقام الاستثناءان و للّٰہ الحمد،
جب یہ تین مقدمات آپ کو معلوم ہوگئے تو شیخ (صاحب ہدایہ) نے متن میں مذکور تغیر کو مجاز کی مذکور قسم ثانی قرار دیا اُن ترجیحات کی بنا پر جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔اس سے تمام اشکالات ختم ہوگئے کیونکہ متن کا حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو ابھی تک پانی ہے اگرچہ کچھ دیر بعد وہ اپنی طبیعت کھو بیٹھے گا،اس پانی کے بارے میں کہا کہ اس سےوضو جائز نہیں ہےتو اس صورت میں اس پانی کےتغیر (زوالِ رقت وطبع) کو طبخ (پکانے ) سےمقید کرنا ضروری ہے کیونکہ پکائے بغیر دوسری کسی صورت میں وضو سے مانع سبب (کمال امتزاج) پر دلیل نہیں پائی جاتی،بلکہ وہاں عدمِ سبب پر دلیل پائی جاتی ہے،کیونکہ اگر وہ سبب (کمال امتزاج) پایا جاتا تو پانی مکمل طو رپر گاڑھا ہوتا، پکانے  کی صورت اس کے خلاف ہے جیسا کہ مذکور ہوا(اس کی وجہ یہ مذکور ہوئی کہ ٹھنڈا ہونے کی صورت میں کمال امتزاج سے گاڑھا پن فوراً پیدا ہوجاتاہے جبکہ پکانے  کی صورت میں حرارت گاڑھے پن سے مانع ہوتی ہے) ہاں پکانے  کی صورت میں گاڑھے پن کے بغیر کمال امتزاج وضو کیلئے اس وقت مانع نہ ہوگا جب پانی میں نظافت کی غرض سے کوئی چیز پکائی گئی ہو بشرطیکہ اس سے بالفعل گاڑھا پن پیدا نہ ہو، پس اب ہدایہ کی عبارت میں دونوں استثناء درست ہوگئے۔
Flag Counter