اقول: اولا لیس(۱) الاولی بنا ان نحمل کلام الائمۃ علی الضعیف المھجور مع صحۃ المعنی الصحیح الموافق للجمھور وحدیث احد الاوصاف یأتی مافیہ بعون اللّٰہ تعالٰی۔
میں کہتا ہوں اوّلاً،ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ائمہ کرام کے کلام کو کسی ضعیف اور متروک پر محمول کریں جبکہ اس کا صحیح اور جمہور کے موافق معنی درست ہوسکتا ہو،جس حدیث میں پانی کے کسی ایک وصف کی تبدیلی کا ذکر ہے اس کے بارے میں اللہ کی مدد سے آئندہ بحث آئے گی۔
وثانیا الامام(۲) النسفی حافظ الدین صاحب الکنز ھو القائل فی مستصفاہ ان اعتبار احد الاوصاف خلاف الروایۃ الصحیحۃ ۲؎ کما تقدم فی ۱۰۱۔
اور ثانیاکنز کے مصنف امام حافظ الدین نسفی نے اپنی مستصفیٰ میں کہا ہے کہ کسی ایک وصف کی تبدیلی والی روایت صحیح روایت کے خلاف ہے جیسا کہ ۱۰۱ میں گزرا۔
(۲؎ مستصفی)
(۴) اصلاح اقول کان الاولی بہ الحمل علی مایوافق النصوص المتواترۃلکن العلامۃ الو زیر رحمہ اللّٰہ تعالٰی قال فی منھواتہ من ھھنا علم ان المعتبر فی صورۃ الطبخ تغیر الماء بہ لاخروجہ عن طبعہ کمایفھم من قول تاج الشریعۃ اوبطبخ کیف والمرق لایجوز بہ الوضوء مع انہ انما وجد فیہ تغیر الماء بالطبخ لاخروجہ عن حدالرقۃ والسیلان ۱؎ اھ
اصلاح، میں کہتا ہوں کہ اس کو نصوص متواترہ کے موافق معنی پر محمول کرنا بہتر ہے، لیکن علامہ وزیر رحمہ اللہ نے اپنی منہیات میں فرمایا کہ ''یہاں سے معلوم ہوا کہ پکانے کی صورت میں پانی کا تغیر معتبر ہے پانی کا اپنی طبع سے نکلنا مراد نہیں جیسا کہ تاج الشریعۃ کے اس قول سے مفہوم ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ یا پکانے سے متغیر ہو، تو اس سے وضو کیسے جائز ہو،حالانکہ شوربے سے وضو جائز نہیں باوجود یکہ اس میں پکانے کی وجہ سے تغیر پایا جاتا ہے وہ تغیر ایسا نہیں کہ جس کی وجہ سے پانی رقت وسیلان کی حد سے نکل جائے اھ (ت)
(۱؎ اصلاح للعلامہ وزیر ابن کمال پاشا)
اقول: اولامایفھم(۱) من تاج الشریعۃبل(۲) الذی ھو نصہ ھو الموافق لمتواترات النصوص وثانیا مااستند(۳) الیہ من المرق قد جعلہ القدوری والھدایۃ والوقایۃ والملتقی والغرر والتنویر وغیرھا مماغلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء ۲؎ وتقدم اٰنفا قول البنایۃ وقیل العنایۃ بالثخونۃ یصیر مرقا ۳؎ وثالثا قد(۴) علمت ان الثخن لازم الطبخ عادۃ و رابعا(۵) قدعرفت معنی الرقۃ ولاشک ان المرق اذاسال لاینبسط کلافقد تجسد۔
میں کہتا ہوں اوّلاً تاج الشریعۃ کے کلام سے یہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ انہوں نے جو نص کے طور پر بیان کیا وہ تو نصوص متواترہ کے موافق ہے اور ثانیاً یہ کہ شوربے کے بارے میں انہوں نے تاج الشریعۃ کی طرف جو منسوب کیا اس کو قدوری، ہدایہ، وقایہ، ملتقیٰ، غرر اور تنویر وغیرہا نے اس صورت میں سے بنایا جس میں غیر کے غلبہ کی بنا پر پانی اپنی طبع سے نکل جاتا ہے، اور ابھی بنایہ کا قول اور عنایہ کا قیل گزرا کہ گاڑھے پن کی وجہ سے شوربا بنتا ہے،ثالثاً یہ کہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ عادی طور پر گاڑھا پن، طبخ کو لازم ہے، اور رابعاً آپ کو رقت کا معنی معلوم ہوچکا ہے اور اس میں شک نہیں کہ شوربا جب بہتا ہے تو وہ پوری طرح پھیلتا نہیں۔ (ت)
(۲؎ الہدایۃ الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ عربیہ کراچی ۱/۱۸)
(۳؎ العنایۃ مع الفتح الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۲)
اکمال(۱)فی بیان الاشکال وحلہ بفضل الملک المفضال٭ کان فی متن الھدایۃ لاتجوز بماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء کماء الباقلاء والمرق وماء الزردج ۱؎ فقال فی الھدایۃ المراد بماء الباقلاء وغیرہ ماتغیر بالطبخ فان تغیر بدون الطبخ یجوز التوضی بہ ثم قال مستثنیا عما تغیر بالطبخ الا اذا طبخ فیہ مایقصد بہ المبالغۃ فی النظافۃ کالاشنان الا ان یغلب علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۲؎ اھ
اشکال اور اس کے حل کا بیان اللہ تعالٰی کے فضل سے، ہدایہ کے متن میں ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز نہیں جس پر غیر کا غلبہ ہوا ہو اور پانی کو اپنی طبع سے خارج کردیا ہو، جیسا کہ شوربا، زردج اور باقلاء کا پانی، اس پر ہدایہ میں کہا کہ ماء الباقلا وغیرہ سے مراد، پکانے سے متغیر ہونے والا پانی ہے اور اگر پکائے بغیر پانی متغیر ہوجائے تو اس سے وضو جائز ہے، پھر انہوں نے پکانے کی وجہ سے متغیر ہونے والے پانی میں سے استثناء کرتے ہوئے فرمایا، مگر وہ پانی جس میں ایسی چیز پکائی گئی ہو جس سے صفائی میں مبالغہ مقصود ہو جیسے اشنان، اِلّا یہ کہ اس پر اشنان غالب ہو کر مخلوط ستّو کی طرح بنادے (یعنی گاڑھا کردے) تو وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس کا نام پانی نہیں رہتا اھ (ت)
(۱؎ الہدایۃ الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ عربیہ کراچی ۱/۱۸)
(۲؎الہدایۃ الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ عربیہ کراچی ۱/۱۸)
میں کہتا ہوں، میرے نزدیک ہدایہ کی عبارت میں قوی اشکال ہے، اس لئے کہ تغیر بالطبخ سے کیا مراد ہے تغیر الطبع ہے یا تغیر الاوصاف، دوسرا یعنی تغیر الاوصاف مراد نہیں ہوسکتا۔
اوّلاً اس لئے کہ مصنّف،پانی کی طبع کے زوال کے بارے میں کلام فرما رہے ہیں اور زوالِ طبع ہر طرح وضو سے مانع ہے اس پر اجماع ہے لہٰذا اس صورت میں پانی کے پکانے کی قید بے معنی ہے اور یہ بات میں پہلے ۸۹ میں کہہ چکا ہوں۔
وثانیاً کیف یراد بخروجہ عن طبعہ تغیر وصفہ بالطبخ۔
ثانیاً اس لئے کہ ''خروج عن طبع'' سے ''تغیرفی الاوصاف بالطبخ'' کیسے مراد لیا جاسکتا ہے؟
وثالثاً فرق بین بین طبخ المتغیر والتغیر بالطبخ والمتحقق فی ماء الباقلاء والحمص والزردج وامثالھا ھو الاول لان مجرد خلط بعضھا بالماء ومکث بعضھا فیہ مغیرلوصفہ والخلط والمکث متقدمان علی حصول الطبخ وھوالانضاج کماھومعلوم مشھود فلم یحصل التغیربالطبخ بل ورد الطبخ علی المتغیر وشتان ماھماوکذالاسبیل الی الاول اولاً یکون المعنی فان زال طبعہ بدون الطبخ یجوز التوضی بہ وھو بدیھی البطلان وثانیاً یبطل استثناء المنظف من المطبوخ فان زوال الطبع لاثنیا فیہ وثالثاً یتناقض الحکم والثنیافان قولہ الا اذاطبخ فیہ مایقصدبہ دل علی جواز التوضی بمازال طبعہ بطبخہ مع المنظف وھذا ھو الذی ابطلہ بالثنیاالاخیرۃ الا ان یغلب الخ فعلی کل من الوجھین ثلثۃ وجوہ من الاشکال ولم ارمن تعرض لشیئ من ھذا اوحام حولہ فضلاعمن رام حلہ وقد تبعہ(۱) علی الوجہ الاول فی الدرایۃ والشلبیۃ والکفایۃ والبنایۃ والدر فقال الاولان عنی بالتغیر الثخانۃ (الی قولھما ۱؎) ھذا اذا لم یکن المقصودبالطبخ المبالغۃ فی التنظیف فان کان کالاشنان والصابون یجوز الا ان یصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ ونحوہ فی التالیین ،
اور ثالثاً،اس لئے کہ ''متغیر کو پکانے'' اور ''پکانے سے تغیر'' میں بڑا فرق ہے، اور یہاں باقلٰی،چنوں، زردج وغیرہا کے پانی میں پہلی یعنی ''متغیر کا پکانا'' صورت پائی جاتی ہے کیونکہ ان میں سے بعض کے ملنے اور بعض کے پانی میں کچھ دیر پڑے رہنے سے ہی پانی متغیر ہوجاتا ہے اور اس کو پکانے کا مرحلہ بعد میں ہوتا ہے جس کو تیاری کا مرحلہ کہتے ہیں یہ بات مشاہدہ سے معلوم ہے پس یہاں طبخ سے تغیر نہ ہوا بلکہ متغیر شدہ چیز پر طبخ واقع ہوا ہے، اور ان دونوں میں فرق واضح ہے اسی طرح پہلی شق (یعنی تغیر الطبع، مراد نہیں ہوسکتی) اوّلاً اس لئے کہ اس صورت میں معنی یوں ہوگا کہ اگر پکائے بغیر پانی کی طبع زائل ہوجائے تو وضو جائز ہے، حالانکہ یہ بدیہی طور پر غلط ہے(کیونکہ زوال طبع کے بعد کسی صورت میں وضو جائز نہیں ہے)اور ثانیاً، اس لئے کہ صفائی کی خاطر پکائی ہوئی چیز کا استثناء، اس صورت میں درست نہ ہوگا کیونکہ زوال طبع بلااستثناء جس چیز سے بھی ہو تو وضو جائز نہیں ہے، اور ثالثا اس لئے کہ اس صورت میں حکم اور استثناء دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہونگے کیونکہ ہدایہ میں پہلے متغیر بالطبخ کے ساتھ وضو کو ناجائز قرار دے کر اس سے نظافت کے مقصد کیلئے پانی میں پکائی ہوئی چیز کو مستثنٰی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نظافت کی خاطر پانی میں پکائی ہوئی چیز جس سے پانی کی طبع ختم ہوچکی ہو، سے وضو جائز ہو حالانکہ یہی وہ صورت ہے جس کو دوبارہ استثناء سے باطل کیا ہے اور یوں کہا الا ان یغلب الخ (یعنی نظافت کی خاطر پانی میں پکائی ہوئی چیز سے وضو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ نظافت والی چیز پانی پر غالب نہ ہو یعنی اس چیز نے پانی کی طبع کو زائل نہ کیا ہو) پس ہدایہ کی عبارت میں دونوں احتمال تین تین وجوہ سے اشکال کے حامل ہیں، میری نظر میں ان اشکال میں سے کسی ایک کو بیان کرنے یا ان کے قریب پھٹکنے والا کوئی نہیں چہ جائیکہ وہ ان کا حل پیش کرے، ہدایہ کی عبارت، تغیر بالطبخ کے دو احتمالوں میں سے پہلے احتمال کو درایہ، شلبیہ، کفایہ، بنایہ، اور دُر میں ذکر کیا گیا ہے، پہلی دونوں کتب یعنی درایہ اور شلبیہ نے کہا کہ ہدایہ نے تغیر سے گاڑھا پن مراد لیا ہے اور اس کو آخر تک یوں بیان کیا،یہ اس صورت میں ہے جب پکانے میں نظافت کا مبالغہ مقصود نہ ہو اور اگر یہ مقصد ہو تو پھر وضو جائز ہے جیسے اشنان اور صابون وغیرہ سے، بشرطیکہ اس صورت میں اشنان وصابون کی وجہ سے پانی مخلوط ستّوؤں کی طرح نہ بن جائے کیونکہ ایسا ہوجانے پراس کوپانی نہیں کہا جاتا اھ،اور اسی طرح کا بیان دوسری دونوں کتب یعنی کفایہ اور بنایہ میں ہے،
(۱؎ شلبیہ علی التبیین کتاب الطہارۃ الاسلامیہ ببولاق مصر ۱/۱۹)
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ مطبع عربیہ کراچی ۱/۱۸)