اقول: وبہ یضعف مافی جامع الرموز تحت قولہ اوغیرہ طبخا فیہ اشارۃ الی ان الغلبۃ مانعۃ فیما طبخ من ھذا الجنس سواء کانت بالاجزاء اوباللون ۲؎ اھ ویأتی دفع اٰخر۔
میں کہتا ہوں اور اسی سے جامع الرموز کی اس عبارت کی کمزوری سمجھی گئی ماتن کے قول ''اوغیرہ طبخا'' کے تحت ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس جنس میں پکانے سےغلبہ حاصل ہوگا یہ غلبہ اجزاء کے لحاظ سے ہو خواہ رنگ کے اعتبار سے ہو اھ آگے ایک اور اعتراض ہوگا۔ (ت)
(۲؎ جامع الرموز باب الطہارت مکتبہ اسلامیہ گنبد ایران ۱/۴۷)
لاجرم امام قوام الدین کاکی پھر علامہ احمد ابن الشلبی نے فرمایا: عنی بالتغیر بالطبخ الثخانۃ والغلظ ۳؎ اھ وقد تقدم تمامہ فی ۲۱۷۔
پکانے کی بناء پر تغیر سے انہوں نے گاڑھا اور غلیظ مراد لیا ہے اھ اس کی پوری بحث ۲۱۷ میں گزر چکی ہے۔ (ت)
(۳؎ شلبیۃ علی التبیین باب الطہارت المطبعۃ الامیریہ ببولاق مصر ۱/۱۹)
کفایہ میں ہے:عنی بالتغیر الثخونۃ حتی اذاطبخ ولم یثخن بعد بل رقۃ الماء باقیۃ جاز الوضوء بہ ذکرہ الناطفی کذا فی فتاوٰی قاضی خان ۴؎۔
پکانے کےسبب تغیر سےانہوں نے گاڑھا ہونا مراد لیا ہےحتی کہ اگر پکایا اور گاڑھا نہ ہوا اور اس میں رقت باقی تھی تو اس سے وضو جائز ہوگا اس کو ناطفی نےذکر کیا ہےفتاویٰ قاضیخان میں ایسےہی ہے (ت)
(۴؎ الکفایۃ مع الفتح الماء الذی یجوزبہ الوضوء مطبعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۲)
بنایہ میں ہے: م تغیر بالطبخ ش بان صار ثخینا حتی صار کالمرق حتی اذا طبخ و لم یثخن ورقۃ الماء فیہ باقیۃ یجوز الوضوء بہ ۱؎۔
متن میں تغیر بالطبخ پر شارح نے کہا کہ وہ گاڑھا ہوجائے حتی کہ شوربے جیسا ہوجائے لیکن اگر پکایا اور گاڑھانہ ہوا اور اس میں رقت باقی ہو تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ البنایۃ الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ ملک سنز فیصل آباد ۱/۱۸۹)
اسی طرح امام اکمل نے عنایہ میں نقل کرکے مقرر رکھا۔
اگرچہ قیل کے لفظ کے ساتھ ہے جبکہ انہوں نے ماتن کے قول تغیر بالطبخ پر کہا، بعض نے کہا کہ اس تغیر سے مراد گاڑھا ہونا ہے کیونکہ وہ شوربا بن جاتا ہے۔ (ت)
(۲؎ العنایۃ مع الفتح الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ مطبعۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۲)
اسی طرح غایۃ البیان میں ہے یہ تو عام بحث تھی رہی ان میں ہر کتاب پر خاص نظر۔
(۱) ہدایہ اقول متن میں زوال طبع تھا شرح نے اُسے مقرر رکھ کر آبِ باقلاء وغیرہ سے مطبوخ مراد لیا پھر
ان تغیر بالطبخ لایجوز التوضی بہ ۳؎
(اگر پکانے سے متغیر ہوجائے تو اس سے وضو جائز نہیں۔ ت) فرمایا
(۲) نقایہ اقول اس کی اصل وقایہ میں زوال طبع ہے اور خود امام صاحب نقایہ نے شرح میں اعتبار رقت کی تصریح فرمائی اگر کہیے ممکن کہ نقایہ میں رائے کو تغیر ہوا کہ جانب تغیر گئی اقول تالیف شرح تصنیف نقایہ سے متأخر ہے
کمالایخفی علی من طالعہ
(اس پر مخفی نہیں جس نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) اگر کہئے پھر تغیر سے تغییر کیوں فرمائی اقول وہی اشارہ غامضہ کہ ہم نے ۲۱۷ میں بیان کیا کہ طبخ میں زوال رقت کا بالفعل ظہور ضرور نہیں بلکہ اس قابل ہوجانا کہ ٹھنڈا ہوکر رقیق نہ رہے
کماتقدم التنصیص علیہ من الائمۃ الجلۃ وبہ اندفع مافی شرح نقایۃ البرجندی من الاستشھاد علی التغایر بجعل التغیر قسیم زوال الطبع کماقدمناہ ثمہ
(جیسا کہ اس پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تصریح گزر چکی ہے اور اسی سے علامہ برجندی کی شرح نقایہ میں تغایر کیلئے تغیر کو زوال طبع کے مقابل قرار دینے کو دلیل بنانے کا اعتراض ختم ہوگیا، جس کو ہم نے وہاں ذکر کردیا تھا۔ ت)
(۳ و ۴) کنزو وافی اقول اُن میں بالطبخ کا عطف بکثرۃ الاوراق پر ہے اور وہاں تغیر طبع ہے مراد تو بالطبخ اس کے نیچے داخل وتاویل
(عـہ )البحر قدعلمت مافیہ اعترف بھذا فی النھرو استشکلہ علی تقدیر الاخذ بما فی الخانیۃ من البناء علی وجود ریح الباقلاء فقال کمانقل عنہ ابو السعود علی ھذا یشکل عطف الطبخ علی ماتغیرہ بکثرۃ الاوراق لما علمت ان التغیر بکثرۃ الاوراق بالثخن وھذا بنفس الطبخ سواء ثخن اولا ۱؎ اھ
(بحر کی تاویل کی کمزوری تمہیں معلوم ہوچکی ہے اور نہر میں اس کا اعتراف ہوچکا ہے اور انہوں نے خانیہ کے اُس بیان کو جس میں انہوں نے طبخ کے تغیر پر باقلا کی بُو کو دلیل بنایا ہے پر اشکال وارد کیا ہے اور یوں کہا کہ ماتغیرہ بکثرۃ الاوراق پر طبخ کے عطف کرنے سے اعتراض پیدا ہوگا، کیونکہ کثرتِ اوراق (پتّوں کی کثرت) سے گاڑھا ہونے کی وجہ سے تغیر ہوتا ہے اور یہ محض پکانے سے تغیر ہوگا، گاڑھا ہو یا نہ ہو ابوسعود نے ان سے یوں ہی نقل کیا ہے اھ۔ ت)
(عـہ) تذکر ماتقدم فی ۲۱۷ من حمل البحر التغیر علی تغیر الاطلاق وقولی انہ لایتمشی فی عبارۃ النقایۃ والاصلاح۔
بحر کے اس قول جس میں انہوں نے ''تغیر'' سے اطلاق کا تغیر مراد لیا ہے جو نمبر ۲۱۷ میں گزرا، اور میرے اس قول کو جس میں کہا تھا کہ یہ بات نقایہ اور اصلاح کی عبارت میں درست نہیں ہوگی، کو یاد کرو۔
فان قلت ھلا قلت وفی نفس الکنز فان المفاھیم معتبرۃ فالکتب فاذا حمل التغیر علی تغیر الاطلاق کان المعنی لایجوز الوضوء بماتغیر عن اطلاقہ بالطبخ امالوتغیر عنہ بغیر الطبخ جاز وھو باطل۔
اگر تو اعتراض کرے کہ تم نے اس بارے کنز کا ذکر کیوں نہیں کیا،حالانکہ کتب فقہ میں مفہومات کا اعتبار ہوتا ہے پس جب طبخ والے تغیر سے مراد، اطلاق کا تغیر ہے تو پھر معنی یوں ہوگا کہ پکانے کی وجہ سے جو تغیر پانی کے اطلاق میں پیدا ہوا ہے اس سے وضو جائز نہ ہوگا، اور اگر یہ اطلاق کا تغیر بغیر پکائے حاصل ہو تو اس سے وضو جائز ہوگا حالانکہ یہ باطل ہے۔
اقول: عبارۃ(۱) الکنز وان احتملت المفھوم احتملت ان یکون الطبخ مطلقاعلۃ موجبۃ لتغیر الاطلاق وحصول التقیید وان لم یتغیرالشیء ادعی البحر والمعلول لایتخلف عن علتہ فلایکون لھا مفھوم من ھذہ الجھۃ کأن تقول لایتوضؤ بماء غُلب بکثرۃ اجزاء الممازج فلایحتمل انہ وجدت کثرۃ ولم یغلب بھا جاز بہ الوضوء لاستحالۃ انفکاک الغلبۃ عنھا۔
میں کہتا ہوں کہ کنز کی عبارت میں اگر مفہوم کا احتمال ہے تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ طبخ علی الاطلاق تغیر اطلاق کی علتِ مؤثرہ قرار پائے اور مطلق پانی کو مقید کرنے کی علّت بن جائے، اگرچہ طبخ کے ساتھ کوئی تغیر پیدا نہ ہو، جیسا کہ بحر نے دعویٰ کیا ہے تو اب کوئی مفہوم پیدا نہ ہوگا کیونکہ کوئی معلول اپنی علت سے جُدا نہیں ہوسکتا ہے،یہ یوں ہوا جیسے تم کہو کہ پانی میں ملنے والی چیز کے اجزاء کی کثرت ہونے پر وضو جائز نہیں، تو یہاں مفہوم مخالف پیدا نہیں ہوتا،کہ یوں کہا جاسکے کہ کثرت بغیر غلبہ اگر پائی جائے تو وضو جائز ہوگا،کیونکہ کثرت اجزاء غلبہ کیلئے علت موثرہ ہے جس کا جدا ہونا محال ہے۔
فان قلت الیس ان البحر حمل التغیر المذکور فی المتن علی زوال الاسم بالثخونۃ کماتقدم فی ۷۷ ولاشک ان قولہ بالطبخ داخل تحت ھذا التغیر فیکون المعنی اوثخن بالطبخ فلم لم تحتجّ علی البحر یقول نفسہ۔
اگر تو اعتراض کرے کہ کیا بحر نے متن کی تفسیر میں تغیر سے مراد پانی کے نام کی تبدیلی گاڑھے پن کی وجہ سے نہیں لی؟ جیسا کہ نمبر ۷۷ میں گزرا، اور اس میں شک نہیں کہ اس کا قول ''بالطبخ'' بھی اس کے تحت ہے تو اب معنی یہ ہوا اوثخن بالطبخ یا پکانے سے گاڑھا ہوجائے تو آپ بحر کا رد خود اس کے اپنے قول سے کیوں نہیں کرتے؟
اقول لو ان یقول معنی التغیر ھو التقیید غیر انہ فی الاوراق بالثخن ففسرتہ بہ ھناک وفی الطبخ بنفسہ اماکلام الفقیر ھھنا فمبنی علی التحقیق والیہ اشرت بقولی وتأویل البحر قدعلمت مافیہ فافھم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
تو میں جواب دیتا ہوں کہ بحر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تغیر سے میری مراد تقیید یعنی پانی کو مقید کرنا ہے مگر اوراق (پتّوں) میں یہ تقیید گاڑھے پن سے ہوتی ہے اس لئے میں نے وہاں تغیر کی تفسیر گاڑھے پن سے کی ہے، لیکن مجھ فقیر کا یہ کلام محض تحقیق پر مبنی ہے جس کی طرف میں نے (تاویل البحر قدعلمت مافیہ) بحر کی تاویل میں اعتراض تمہیں معلوم ہے، کہہ کر اشارہ کیا تھا، فافہم ۱۲ منہ غفرلہ۔
(۱؎ فتح اللہ المعین کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۳)
اقول والاشکال مدفوع اولا(۱) بماعلمت من تواتر النصوص علی اعتبار الثخن فی الطبخ ایضا وثانیا(۱) بما سمعت ان الثخن لازم الطبخ عادۃ وثالثا(۲) اعلمناک فی ۲۱۷ ماٰل کلام الخانیۃ ھذا واجاب الحموی ثم ابو السعود عن اشکال النھر انہ یشکل ان لوکان مختار المصنّف ان التغیر بکثرۃ الاوراق بالثخن ولیس کذلک لمامر من ان ظاھر قولہ وان غیر طاھر احد اوصافہ انہ لوغیر اوصافہ الجمیع لایجوز وان لم یصر ثخینا ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں یہ اشکال مدفوع ہے اولاً اس لئے کہ طبخ میں بھی گاڑھے پن کا اعتبار ہے جس پر نصوص کا تواتر تمہیں معلوم ہے اور ثانیاً اس لئے کہ تم سن چکے ہو کہ گاڑھا پن، طبخ کو عادتاً لازم ہے اور ثالثا اس لیے کہ ہم نے خانیہ کے اس کلام کا ماحاصل ۲۱۷ میں آپ کو بتایا تھا اور حموی اور پھر ابوسعود نے نہر کے اشکال کا یہ جواب دیا کہ اشکال تب ہوتا جب مصنّف کثرتِ اوراق میں تغیر کی وجہ سے گاڑھا ہونے کو قرار دیتے حالانکہ ایسا نہیں جیسا کہ گزرا کہ ان کے قول (وان غیر طاھر احد اوصافہ) کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی پاک چیز پانی کے تمام اوصاف کو متغیر کردے تو وضو جائز نہیں اگرچہ وہ گاڑھا نہ ہو اھ (ت)
(۱؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۳)