Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
16 - 166
فاقول فی خصوص اللفظ لاعموم الطبخ کالشریب(۱)لماء لیس فی عذوبۃ وقد یشرب علی مافیہ والشروب ادون منہ ولایشرب الاضرورۃ کمافی التاج عن التہذیب عن ابی زید قال ومثلہ حکاہ صاحب کتاب المعالم وابن سیدہ فی المخصص والمحکم ۲؎ اھ فھو فی خصوص اللفظین لافی الشرب والشراب وسائر مشتقاتہ۔
پس میں کہتا ہوں خاص طبیخ لفظ کے بارے میں یہ قول ہے ورنہ عام طبخ میں یہ خصوصیت نہیں، جیسا کہ شریب خاص ایسے مشروب کو کہا جاتا ہے جس میں میٹھا نہ ہو حالانکہ میٹھا بھی مشروب ہوتا ہے اور لفظ شروب اس سے بھی کم درجہ ہوتا ہے جس کو صرف ضرورت کے وقت پیا جاتا ہے اس کو تاج العروس میں تہذیب کے حوالہ سے ابوزید سے نقل کیا اور اس نے کہا کہ اس کو کتاب المعالم اور ابن سیدہ نے مخصص اور محکم میں بیان کیا ہے اھ لہٰذا یہ خاص معانی لفظِ ''شریب'' اور ''شروب'' کے بارے میں ہیں اس مادہ سے دوسرے مشتقات شرب، شراب وغیرہ کیلئے یہ خصوصیات نہیں ہیں۔ (ت)
 (۲؎ تاج العروس    باب الباء فصل الشین    احیاء دار التراث العربی بیروت    ۱/۳۱۲)
بحث دوم طبخ میں منع کس وجہ سے ہے ۲۱۷(۲) میں طبخ کی بحث گزری اور یہ کہ اس میں عبارات مختلف آئیں اور یہ کہ طبخ موجب کمال امتزاج ہے ذ ی جرم شے معتدبہ کا پانی سے کامل امتزاج ضرور اس کی رقت میں فرق لائےگا،اور یہ کہ یہی مآل جملہ عبارات مذکورہ ہے اور یہ کہ امام ناطفی وعامہ کتب جامع کبیر ومنیہ وینابیع وتبیین وفتح القدیر وتجنیس امام صاحب ہدایہ وتجنیس ملتقط وحلیہ وظہیریہ وغنیہ ومراقی الفلاح نے پکانے سے اسی زوال رقت آب پر مدار حکم رکھا اسی کو غنیہ نے جامع صغیر امام قاضی خان سے نقل کیا اسی پر متون سے وقایہ وملتقی وغرر وتنویر ونورنے جزم فرمایاکہ
لابماء زال طبعہ بالطبخ ۱؎
 (جس پانی کی طبیعت پکانے سے زائل ہوجائے اس سے  وضو جائز نہیں۔ ت)
 (۱؎ شرح الوقایۃ        فصل فیما لایجوز  الوضوء ومالایجوز    رشیدیہ دہلی    ۱/۸۵)
امام صدر الشریعۃ نے شرح میں فرمایا:
المراد بہ ان یخرجہ عن الرقۃ ۲؎
 (اس سے مراد وہ پانی ہے جس کو رقت سے خارج کردے۔ ت)
 (۲؎ شرح الوقایۃ    فصل فیما لایجوز  الوضوء ومالایجوز    رشیدیہ دہلی    ۱/۸۵)
اقول یہی مختصر امام ابو الحسن وہدایہ امام برہان الدین سے مستفاد لانھما احلا الامر علی اخراج الماء عن طبعہ وذکرا فی 

الامثلۃ المرق ۳؎
(وہ دونوں معاملہ کا مدار اس پر رکھتے ہیں کہ پانی کو اس کی طبع سے نکال دے،اس کی مثال میں شوربا ذکر کیا۔ ت)
 (۳؎ الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء        عربیہ کراچی    ۱/۱۸)
نیز ان دونوں نے زوال طبع کی مثال میں آب باقلا گنا ہدایہ نے اُسے مطبوخ پر حمل کیا اسی طرف کافی نے اشارہ فرمایا بنایہ وکفایہ وعنایہ وغایۃالبیان وفتح نے اسے مقرر رکھا نمبر ۸۹ میں جوہرہ نیرہ کی عبارت گزری
المراد المطبوخ بحیث اذابرد ثخن ۴؎
 (ایسا مطبوخ مراد ہی جو ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہو جائے۔ ت)
 (۴؎ الہدایۃ  کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان  ۱/۱۴)
یہی مضمون کفایہ وبنایہ وغایہ نیز معراج الدرایہ پھر شلبیہ علی الزیلعی سے آتا ہے نیز ان دو سے نمبر ۲۱۷ میں گزرا اور یہ کہ انہوں نے یہی مفاد خانیہ ٹھہرایا اور یہی مطلب خانیہ حلیہ نے بتایا کفایہ بھی اس میں شریک درایہ ہے کماسیأتی (جیسا کہ آئےگا۔ ت) بالجملہ عبارات اس پر متظافر ومتواتر ہیں اور اس درجہ تواتر کے بعد ہدایہ ونقایہ و وافی وکنز واصلاح کی تعبیر تغیر طبع مراد لینا بہت واضح وآسان ہے۔

اقول: بلکہ وہ نفس لفظ کا مفاد ہے کہ انہوں نے پانی کا تغیر لیا اور پانی ذات ہے نہ کہ وصف وصف عارض کا تغیر ذات کا تغیر نہیں عوارض بدلتے رہتے ہیں اور ذات بدستور رہتی ہے ذات نہ رہے تو عوارض بدلیں کس پر بخلاف وصف لازم کہ انتفائے لازم انتفائے ملزوم ہے اور اصل کلام میں حقیقت ہے جب تک وہ ممکن ہو مجاز ممکن نہیں جس طرح عنایہ میں فرمایا کہ
الغلبۃ بالاجزاء غلبۃ حقیقیۃ ۵؎
(اجزاء کے لحاظ سے غلبہ حقیقی ہے۔ ت)
(۵؎ عنایۃ مع فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)
مجمع الانہر میں بڑھایا:بخلاف الغلبۃ باللون فانھا راجعۃ الی الوصف ۱؎ اھ وقد قدمنا ھذا البحث فی قول الکنز فی ۷۷
 (رنگ کے اعتبار سے غلبہ اس کے خلاف ہے کہ وہ وصف کی طرف راجع ہے اس بحث کو ہم نے نمبر ۷۷ میں کنز کے قول میں ذکر کیا ہے۔ ت)
 (۱؎ مجمع الانہر    فصل یجوز الطہارۃ بالماء المطلق    دارالطباعۃ العامرۃ مصر ۱/۲۸)
Flag Counter