Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
15 - 166
کماتقدم قبیل الاضافات وفی نمرۃ ۲۶۲
 (جیسا کہ اضافات کی بحث سے ذرا پہلے اور نمبر ۲۶۲ میں گزرا۔ ت) تو اس کا اعتبار دونوں سے مغنی(عـہ) اور سب صورتوں کو جامع تو قول امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اسی کا ارادہ الیق وانسب کہ محیط صور وضابطہ کلیہ ہو تعریف مطلق میں کہ چار سبب منع بیان ہوئے تھے سب اس میں آگئے ولہٰذا امام زیلعی نے فرمایا
زوال الاسم ھو المعتبر فی الباب
 (نام کا ختم ہوجانا ہی اس بارے میں معتبر ہے۔ت) حلیہ سے آتا ہے کہ یہی تمام اقوال کا مرجع ہے وللّٰہ الحمد وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم۔
 (عـہ)اقول وبہ ظھران(۱)قصرالتفسیرعلی کثرۃ الاجزاء کماتوھمہ عبارۃ الغنیۃ ومجمع الانھر والجوھرۃ وغیرھا(۲)اوعلی زوال الطبع کماتوھمہ عبارۃ المنبع وغیرھا لیس کماینبغی وعلی ھذا یحمل مافعل فی العنایۃ والبنایۃ وغیرھما من التفسیر مرۃ بھذا ومرۃ بذاک ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں کہ غلبہ کی تفسیر میں صرف کثرۃ الاجزاء کو ذکر کرنا جیسا کہ غنیہ، مجمع الانہر اور جوہرۃ وغیرہ کی عبارات سے وہم ہوتا ہے یا صرف زوالِ طبع کو سمجھنا جیسا کہ منبع وغیرہ کی عبارت سے وہم ہوسکتا ہے، درست نہیں ہے بنایہ اور عنایہ میں غلبہ کی تفسیر کبھی یوں اور کبھی یوں کی گئے ہے (کہ غلبہ کی مواقع کے لحاظ سے تفاسیر مختلف ہیں) اس کی یہی وجہ ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
بحث سوم : ان میں کس معنی کو ترجیح ہے اقول ان میں تنافی نہیں دوشاب خرما کہ پانی میں برابر سے زیادہ ممتزج ہو وہاں کثرت اجزا اور زوال طبع وزوال اسم سب کچھ ہے پھر زوال اسم ان دونوں اور ان کے غیر کو بھی شامل ظاہر ہے کہ رقت نہ رہے تو پانی نہ کہلائے گا کیچڑ کو کوئی پانی نہیں کہتا اور اگر جنس دیگر برابر یا زائد مل جائے تو ارتفاع نام اظہر ہے
طبخ باغیر یہاں دو بحثیں ہیں:
بحث اول: طبخ کی حقیقت اور یہ کہ اُس کے صدق کو کیا کیا درکار اقول وباللہ التوفیق اسی میں چند امور کا لحاظ ضرور:

(۱) تنہا پانی کا جوش دینا پکانا نہیں کہا جاتا جب تک اُس میں کوئی اور چیز نہ ڈالی جائے سادات ثلثہ ابو السعود ازہری علی مسکین پھر طحطاوی پھر شامی میں ہے:
الطبخ یشعر بالخلط والا فمجرد تسخین الماء بدون خلط لایسمی طبخا ۱؎ اھ زاد الشامی ای لان الطبخ ھو الانضاج استواء(عـہ) قاموس ۲؎ اھ
کہ پکنا، خلط کرنے سے عبارت ہے اگر صرف پانی گرم کیا جائے اور اس میں کسی چیز کا خلط نہ ہو تو اس کو پکنا نہیں کہیں گے اھ اس پر شامی نے یہ زیادہ کیا اور کہا ''پکنا مکمل طور پر پک کر اور بھُن کر تیار ہونے کو کہتے ہیں'' قاموس اھ
 (۱؎ فتح المعین    اکل الطعام المتغیر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)
(عـہ)اقول فھمہ(۱) رحمہ اللّٰہ تعالٰی بالسین المہملۃ فاقتصرعلیہ وصوابہ بالمعجمۃ وتمامہ واقتدارا کمافی القاموس فالاشتواء الشیُّ ومنہ الشواء ویکون بلاماء والاقتدار من القدر بالکسر ای الطبخ فی القدر قال فی القاموس القدار الطابخ فی القدر کالمقتدر قال فی تاج العروس یقال اقتدر وقدر مثل طبخ واطبخ ومنہ قولھم اتقتدرون ام تشتوون اھ ومعنی النضج ھو الادراک کما فی القاموس ویؤدی مؤداہ الاستواء بالمھملۃ فلذا ذھب الیہ وھلہ رحمہ اللّٰہ تعالی ولم یعد نظرہ الی قولہ واقتدارا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
میں کہتا ہوں کہ علامہ شامی نے ''استواء'' کو "س "مہملہ سے سمجھا لہٰذا یوں بیان کردیا اور صحیح یہ ہے کہ یہ ش معجمہ کے ساتھ ''اشتواء''ہے اور قاموس میں مکمل یوں ہے''اشتواءً'' واقتدارً ہے، الاشتواء، الشی اور اسی سے الشواء ہے بغیر پانی بھُنی ہوئے چیز کو کہتے ہیں۔ الاقتدار،قِدر کسرہ کی ساتھ ہے جس کا معنی ہانڈی میں پکانا ہے،قاموس میں بیان ہے القدّار ہانڈی میں پکانے والا، جیسے کہ المقتدر کایہی معنی ہے۔ تاج العروس میں ہے اِقتدر اور قَدّر، طَبَخ اور اطّبخ کی طرح ہے۔ اسی لفظ سے عرب کہتے ہیں اتقتدرون ام تشتوون یعنی ہانڈی میں پکاؤ گے یا خشک بھُونو گے اھ اور النضج کا معنیٰ "تیار ہونا" ہے جیسا کہ قاموس میں ہے الاستواء (س مہملہ) بھی یہی معنی دیتا ہے اس لئے علامہ شامی رحمہ اللہ کا خیال ''الاستوا'' کی طرف گیااور انہوں نے بعد والے لفظ اقتداراً کی طرف توجہ نہ فرمائی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)
ای ومعلوم ان الماء لاینضج اقول وعلیہ قول الوقایۃ والنقایۃ والوافی والکنز والملتقی والغرر والتنویر ونور الایضاح وکثیرین لایحصون اذاقتصروا علی ذکر الطبخ ولم یقیدوا بکونہ مع غیرہ لانہ قد انفہم من نفس اللفظ فمن التجرید لاجل التوضیح قول الاصلاح اوتغیر بالطبخ معہ والھدایۃ فان تغیر بالطبخ بعد ماخلط بہ غیرہ وبہ(۱) یضعف مافی العنایۃ والبنایۃ انما قید بہ ای بالخلط لان الماء اذاطبخ وحدہ وتغیر جاز  الوضوء بہ ۱؎ اھ ومافی الحموی علی قول مسکین ای تغیر بسبب الطبخ بخلط طاھرالخ انہ اشاربھذہ الزیادۃ الی اصلاح کلام المصنف لان مجرد الطبخ دون الخلط لایکون مانعا ۲؎ اھ وقدتعقبہ السید الازھری بمامرفاصاب واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
یعنی یہ بات معلوم ہے کہ پانی بھُن کرتیار نہیں ہوتا،میں کہتا ہوں اسی بنیاد پر وقایہ، نقایہ، وافی،کنز، ملتقیٰ، غرر ، تنویر ، نورالایضاح اور بے شمار لوگوں نے صرف طبخ کو ذکر کرکے یہی معنی مراد لیا ہے جبکہ اس کے ساتھ کسی دوسری چیز کے پکنے کا ذکر نہ کیا، کیونکہ خود لفظ سے یہ معنی سمجھ آتا ہے،اور اصلاح کے قول تغیر بالطبخ معہ(دوسری چیز کے ساتھ پک کر متغیر ہوجائے) اور ہدایہ کے قول، غیر کے ساتھ مل کر پکے اور متغیر ہوجائے (جہاں طبخ ذکر کرنے کے باوجود اس کے ساتھ خلط کا ذکر کیا گیا)کو وضاحت کیلئے تجرید قرار دیں گے (یعنی طبخ کو خلط کے معنی سے خالی کرنے کے بعد خلط کو ذکر کیا ہے) اور اسی معنی کی بنا پر عنایہ اور بنایہ کے اس قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے طبخ کو خلط کے ساتھ ذکر کرنے کو قید قرار دیا اور کہا کہ طبخ کو خلط کے ساتھ مقید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانی اکیلا پکایا جائے اور متغیر ہوجائے تو اس سے  وضو جائز ہے اھ (یہ تضعیف اس لئے کہ خلط، طبخ کے معنی کا جز ہے اس کو قیدبنانا درست نہیں) اور اسی بنا پر مسکین کے قول '' کسی پاک چیز کے ساتھ پکنے سے پانی میں تغیر الخ'' پر حموی کے اس قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مسکین نے طبخ کے ساتھ غیر کے خلط کا ذکر کرکے مصنف کے کلام کو درست کیا ہے کیونکہ خلط کے بغیر طبخ، وضو سے مانع نہیں ہے، حموی کے اس قول پر سید ازہری نے یہی اعتراض کیا اور درست کیا واللہ تعالٰی اعلم بالصواب (ت)
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)

(۲؎ فتح المعین        اکل الطعام المتغیر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)
(۲) جو چیز آگ پر رکھی جائے بالطبع نرم ہو کہ آگ کا اثر جلد قبول کرسکے جس سے اس کے اجزامتخلخل ہوجائیں پہلے جو صلابت تھی باقی نہ رہے خامی جاکر استعمال مطلوب کے لئے مہیا ہوسکے لوہے یا پتھر کنکر کو تنہا یا پانی میں ڈال کر آگ پر رکھنے کو پکانا نہ کہیں گے وھذا حاصل بنفس مدلول الانضاج کمالایخفی (اور یہی حاصل ہے مکمل طور پر پکنے کا، جیسا کہ مخفی نہیں۔ ت)

(۳) صرف اُس شے کا یہ قابلیت رکھنا کافی نہیں یہاں کہ آگ پر رکھی جائے کہ یہ امور بالفعل حاصل ہوجائیں اگر پہلے ہی جُدا کرلی گئی پکانا نہ کہیں گے بلکہ کچا رکھنا۔

(۴) بعد حصول اتنی دیر نہ ہو کہ زائل ہوجائیں اگر اثر نار اور بڑھاکہ استعمال مطلوب کی صلاحیت سے نقل گئے تو پکانا نہ کہیں گے بلکہ جلانا وھذا التوسط ھوالانضاج (یہ واسطہ وہ تیار ہونا ہے۔ ت)

(۵) پکانے کو ضرور ہے کہ وہ شے مقصود ہو اگر پانی میں جوش دینے سے مقصود صرف پانی ہے مثلاً اس کی اصلاح ورفع غائلہ وغیرہ کے لئے دوسری شے کا صرف اثر لے کر پھینک دیناتو اسے اس چیز کا پکانا نہ کہیں گے زخم دھونے کیلئے پانی میں نیم ڈال کر جوش دینے کو نہ کہا جائے گا کہ نیم کی پتّی باریک رہے ہیں۔
تنبیہ پانی میں پکانے سے کبھی پانی بھی مقصود ہوتا ہے جیسے شوربا دار گوشت مگر یہ طبخ کیلئے لازم نہیں جیسے پانی میں شنجرف پکاتے نشاستہ کیلئے گیہوں آش کیلئے جَواور وہ پانی پھینکے اور یہ چھ چھ بدلے جاتے ہیں
امامافی المغرب قال الکرخی الطبیخ مالہ مرق وفیہ لحم اوشحم فاماالقلیۃ الیابسۃ ونحوھا فلا ۱؎ اھ
 (مغرب میں ہے کہ کرخی نے فرمایاطبیخ وہ ہے جس میں شوربا اور اس کے ساتھ گوشت اور چربی ہو لیکن خالص مشک بھُونی ہوئی چیز وغیرہ کو طبیخ نہیں کیا جائےگا۔ ت)
 (۱؎ المغرب )
Flag Counter