اقول: الرقۃ طبع الماء والطبع لازم الاجزاء وغلبۃ الملزوم تلزمھا غلبۃ اللازم فمغلوبیۃ الطبع تدل علی مغلوبیۃ الاجزاء ھذا ماظھرلی فی توجیہ ھذا التفسیرفافھم فلایخلو عن مقال فالاولی ان یقال تقیید لاتفسیرای المراد غلبۃ الاجزاء لامن حیث ذواتھا بل من حیث طبعھا ومقتضی ذاتھا فانقلت لم نسبت للاجزاء دون الکل اقول لما اعلمناک ان الثخن لتماسک فی الاجزاء والرقۃ لعدمہ۔
میں کہتا ہوں رقت پانی کی طبیعت ہے اور طبع اجزا کو لازم ہے تو ملزوم کا غلبہ لازم کے غلبہ کو مستلزم ہے تو طبع (رقت) کی مغلوبیت، اجزاء کی مغلوبیت پر دلالت کرے گی،اس تفسیر میں مجھے یہ سمجھ آئی ہے، غور کرو اس میں اعتراض ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کو تفسیر کی بجائے تقیید قرار دیا جائے،یعنی یوں کہا جائے کہ غلبہ میں اعتبار تو اجزاء کاہوگا مگر اجزاء کی ذات کا لحاظ نہیں بلکہ ان کی طبیعت کے لحاظ سے غلبہ معتبر ہوگا۔اگر تو اعتراض کرے کہ تم نے اجزاء کی طبیعت کہہ کر طبیعت و اجزاء کی طرف منسوب کیا، کُل کی طرف کیوں منسوب نہیں کیا؟ تو میں جواب دیتا ہوں کہ چونکہ گاڑھا اور غلیظ ہونا اجزاء کی طرف منسوب ہے لہٰذا اس کی ضد (رقیق ہونا) بھی اجزاء کی طرف منسوب ہوگا (جبکہ رقت ہی پانی کی طبیعت ہے)۔ (ت)
وقایہ واصلاح سے گزرا:لابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء ۱؎۔
غیر کے اجزاء کے غلبہ کی وجہ سے جس پانی کی طبع زائلٍ ہوچکی ہے اس سے وضو جائز نہیں (ت)
۰۷ میں حلیہ وتتمہ وذخیرہ سے گزرا: الغلبۃ من حیث الاجزاء بحیث تسلب رقۃ الماء ۳؎
(غیر کا اجزاء کےلحاظ سے ایسا غلبہ جس سے رقّت ختم ہوجائے۔ ت)
(۳؎ حلیہ)
شلبیہ میں منبع سے ہے : المراد بغلبۃ الاجزاء ان تخرجہ عن صفۃ الاصلیۃ بان یثخن لاالغلبۃ باعتبار الوزن ۴؎۔
اجزاء کے اعتبار سے غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کو صفت اصلیہ سے نکال دے کہ وہ گاڑھا ہوجائے نہ کہ وزن میں غلبہ ہوجائے۔ (ت)
(۴؎ شلبیہ علی التبیین کتاب الطہارۃ الامیریہ مصر ۱/۲۰)
ارکان اربعہ میں ہے:الغلبۃ بالاجزاء بان تذھب رقۃ الماء ۵؎۔
اجزاء کا غلبہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے پانی کی رقت ختم ہوجائے۔ (ت)
(۵؎ رسائل الارکان فصل المیاہ یوسف فرنگی محلی لکھنؤ ص۲۴)
عنایہ وبنایہ میں ہے : الخلط یعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء فان کانت اجزاء الماء غالبۃ ویعلم ذلک ببقائہ علی رقتہ جاز الوضوء بہ وانکانت اجزاء المخلوط غالبۃ بان صار ثخینا زال عنہ رقتہ الاصلیۃ لم یجز اھ ۶؎۔
پانی میں مخلوط چیز کا غلبہ یہ ہے کہ اس کے اجزا غالب ہوں اگر پانی کے اجزاء کا غلبہ ہو جو پانی کی رقت سے معلوم ہوتا ہے تو وضو جائز ہے ورنہ اگر ملنے والی چیز کے اجزاء کا غلبہ ہوجو پانی کے گاڑھا ہونے سے معلوم ہوتا ہے جبکہ پانی کی رقتِ اصلیہ ختم ہوجائے تو وضو ناجائز ہے اھ (ت)
(۶؎ العنایۃ مع الفتح الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۴)
اقول: لکن الاکمل ذکربعدہ فی تصحیح قول الثانی ماتقدم فی البحث الاول ان وجود المرکب باجزائہ فاعتبارھااولی فھذایمیل الی ان المرادکثرۃ الاجزاء کماافصح بہ فی مجمع الانھرلان الترکب منھالامن طبائعھاوانماالطبع وصف لازم فان اعتبرت من حیث اوصافھالم یتم نفی قول الامام الثالث فان فرق باللازم والعارض فعلی تمامیتہ ھوبحث اٰخر غیرالترجیح بان ھذہ حقیقیۃ ذاتیۃ وتلک مجازیۃ عرضیۃ ھذاوقال فی البحر ذکر الحدادی ان غلبۃ الاجزاء فی الجامد تکون بالثلث وفی المائع بالنصف ۱؎ اھ قال عبدالحلیم لعلہ امتحنہ فوجدہ یصیر مغلوبابالقدرالمذکور فعینہ کماشرح المقدسی ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں مگر اس کے بعد اکمل نے دوسرے قول کی تصحیح میں ذکر کیاہے جو پہلے بحث اول میں گزر چکا ہے کہ مرکب کا وجود اس کے اجزاء سے حاصل ہوتاہے لہٰذا غلبہ میں اجزاء کا اعتبار بہتر ہے،اس سے غلبہ میں کثرت اجزاء کا اعتبار بہتر ہے،اس سے غلبہ میں کثرتِ اجزاء کا رُجحان پایاجاتاہے،جیسا کہ مجمع الانہر میں اس کو بیان کیا ہے، کیونکہ ترکیب اجزا سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ طبع سے طبع تو ایک وصف اس کو لازم ہے اگر اوصاف کے لحاظ سے غلبہ کااعتبار کیاجائے تو امام محمد کے قول کی نفی تام نہ ہوگی(جو کہ رنگ، بُو اور ذائقہ جیسے اوصاف سے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں)اگر طبع اور دیگر اوصاف میں یہ فرق کیا جائے کہ طبع پانی کیلئے وصف لازم اور رنگ وغیرہ وصف عارض ہیں تو یہ ترجیح سے ہٹ کر ایک نئی بحث ہوجائے گی کہ طبیعت پانی کی حقیقۃ ذاتیہ ہے اور دوسرے اوصاف مجازی اور عرضی ہیں، اس کو محفوظ کرو، اور بحر میں یہ ذکر ہے کہ حدادی نے کہا ہے کہ جامد میں اجزاء کا غلبہ ایک تہائی سے ہوجاتا ہے اور بہنے والی چیز کا پانی میں غلبہ نصف (مساوی) سے ہوجاتا ہے اھ اس پر عبدالحلیم نے کہا ہوسکتا ہے کہ شاید انہوں نے تجربہ کیا ہو اور جامد کی مذکورہ مقدار کے ملنے پر پانی مغلوب ہوا ہو اس لئے انہوں (حدادی) نے اس ایک تہائی کو مقرر کردیا جیسا کہ مقدسی کی شرح میں ہے اھ۔ (ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
(۲؎ حاشیۃ الدرر للمولیٰ عبدالحلیم فرض الوضو مکتبہ عثمانیہ مصر ۱/۱۸)
اقول ملحظہ الی ماوفق بہ فی البحربین ھذین القولین بانہ ان کان المخالط جامدا فغلبۃ الاجزاء فیہ بثخونتہ وان کان مائعا موافقا للماء فغلبۃ الاجزاء فیہ بالقدر ۱؎ اھ وکانہ رأی ان الثخن لایحصل مالم یکن الجامد نصف الماء فقدرہ بالثلث واللّٰہ تعالٰی اعلم ۔
میں کہتا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے جو بحر میں ان دونوں قولوں میں موافقت پیدا کرتے ہوئے کہا کہ پانی میں ملنے والی چیز جامد ہو تو پھر اس کے اجزا کے غلبہ کا مطلب پانی کا گاڑھا ہونا ہے اور وہ چیز بہنے والی پانی کے موافق ہو تو اس کے غلبہ کا مطلب اس کی مقدار کا غلبہ ہے اھ گویا کہ حدادی نے یہ سمجھا کہ جب پانی میں جامد نصف برابر ہونے پر پانی مکمل گاڑھا ہوجاتا ہے تو ایک تہائی سے ضرور غلبہ ہوجاتا ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)
میں کہتا ہوں کہ بحر کا یہ کہنا بہنے والی چیز پانی کے موافق ہو محض ضابطہ کے لحاظ سے ہے، یہ بات نہ بھُولنا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ کبھی پانی کی رقت ایسے مائع (بہنے والی) سے زائل ہوجاتی ہے جو جِرم والی ہو،لہٰذا بحر کی مذکورہ تقسیم غیر مسلّم ہے اسی سے وہ بات واضح ہوگئی جو ہم نے جوہرہ کے قول کے تحت کہی تھی۔ (ت)
زوال اسم سے تفسیر، ۱۲۲ میں فتح وحلیہ سے گزرا:
صرح فی التجنیس ان من التفریع علی غلبۃ الاجزاء قول الجرجانی اذا طرح الزاج فی الماء جاز الوضوء ان کان لاینقش اذا
کتب والا فالماء ھو المغلوب ۲؎ اھ
تجنیس میں تصریح کی ہے کہ غلبہ اجزاء کی ایک تفریع جرجانی صاحب کا یہ قول ہے کہ جب پانی میں زاج (سیاہی) ڈالی جائے تو اگر لکھائی میں اس سے نقوش ظاہر نہ ہوں تو وضو جائز ہے ورنہ پانی مغلوب ہوگا اھ
(۲ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)
فان قلت ای نظر ھھنا الی الاجزاء حتی یسمی غلبۃ من حیث الاجزاء اقول بلی لابدلصلاحیۃ النقش اوالصبغ بازاء قدرمعلوم من الزاج والعفص اوالزعفران والعصفرقدرمخصوص من الماء حتی لوطرح فیہ اقل من القدر اوھذا القدر فی اکثر منہ لم ینقش ولم یصبغ فکانت اجزاؤھا مغلوبۃ بالماء اذلم تعمل فیہ بخلاف ما اذاصلح فقد غلبتہ اذغیرتہ۔
اگر تو اعتراض کرے یہاں اجزاء کا اعتبار کیسے ہوا جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ یہ اجزاء کے لحاظ سے غلبہ ہے،
(تو میں اس کے جواب میں) کہتا ہوں کہ کتابت میں نقوش ظاہر ہونے کی صلاحیت زاج، عفص، زعفران اور عصفر کی ایک خاص مقدار پانی میں ملانے سے حاصل ہوتی ہے اگر اس مقدار سے کم پانی میں ملائی جائے یا اتنی مقدار زیادہ پانی میں ملادی جائے تو کتابت میں رنگ ونقوش ظاہر نہ ہوں گے لہٰذا پانی غالب ہوگا اور اگر ان مذکورہ چیزوں کے ملانے سے کتابت کا عمل درست ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ پانی مغلوب ہے اور ان مذکورہ چیزوں کے اجزا غالب ہوگئے۔ (ت)