Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
13 - 166
یونہی مجمع الانہرمیں فرائد سے ہے جعل المصنف الاشربۃ والخل مثالین لماغلب علیہ غیرہ فیکون المراد من الاشربۃ الحلوالمخلوط بالماء کالدبس والشھد ومن الخل الخل المخلوط بالماء علی مااشیر الیہ فی النھایۃ والعنایۃ ۱؎
 (مصنف نے شربت اور سرکہ کو غیر کے غلبہ کی مثالیں قرار دیا ہے تو شربت سے مراد پانی سے مخلوط میٹھا ہوگا جیسے شیرہ اور  ہد، اور سِرکہ سے پانی میں مخلوط سِرکہ مراد ہوگا جیسا کہ نہایہ اور عنایہ میں ہے۔ ت)
 (۱؎ مجمع الانہر        تجوز الطہارۃ الماء المطلق    عامرہ مصر        ۱/۲۸)
غلبہ اجزاء کنز سے گزرا لابماء غلب علیہ غیرہ اجزاء ۲؎
 (جس پانی پر اجزاء کے لحاظ سے غیر کا غلبہ ہوجائے تو اس سے  وضو جائز نہیں ہے۔ ت)
 (۲؎ کنز الدقائق    باب المیاہ        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱)
ہدایہ سے ۱۲۲ میں الغلبۃ بالاجزاء ھو الصحیح ۳؎
(غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اور یہی صحیح ہے۔ ت)
 (۳؎ الہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    عربیہ کراچی        ۱/۱۸)
نیز خانیہ سے تعتبر من حیث الاجزاء ھو الصحیح ۴؎
(غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اور یہی صحیح ہے۔ ت)
 (۴؎ قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)
۷۱ میں منیہ سے الغلبۃ من حیث الاجزاء ۵؎
 (غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ت)
 (۵؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ        عزیزیہ کشمیری بازار لاہور    ص۱۸)
۸۵ میں جواہر الفتاویٰ سے ان غلب اجزاؤھا علی الماء یمنع التوضی ۶؎
 (اگر ملنے والی چیز کے اجزاء پانی پر غالب ہوجائیں تو اس سے وضو جائز نہیں ہے۔ ت)
(۶؎ جواہر الفتاوی)
بحث دوم :غلبہ اجزاء سے کیا مراد ہے اقول یہ صحیح معتمد قول بھی ان تینوں اجماعی باتوں سے تفسیر کیا گیا اُس سے ظاہر تو کثرت اجزا ہے یعنی پانی میں جو چیز ملے پانی سے مقدار میں زائد ہو اور نمبر ۲۶۲ میں گزرا کہ مساوی کا حکم بھی مثل زائد ہے۔
اقول: ومن العجب قول العلامۃش التقییدبالمغلوب بناء علی الغالب والافقد یمنع التساوی فی بعض الصور کما یأتی ۱؎ اھ وای صورۃ لایمنع فیہ التساوی۔
میں کہتا ہوں اور مجھے علّامہ شامی کے اس قول سے تعجب ہوا،جس میں انہوں نے پانی کے مغلوب ہونے کی قید پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ مغلوب ہونا اکثر حالات کی بنا پر کہا گیا ورنہ بعض صورتوں میں پانی اور اس میں ملنے والی چیز کے مساوی ہونے پر بھی وضو ناجائز ہوتا ہے، جیسے آئندہ آئےگا اھ (تعجب کی وجہ یہ ہے کہ علامہ نے مساوی کو بعض صورتوں میں مانع قرار دیا حالانکہ اجزاء کے لحاظ سے ملنے والی کا غلبہ ہو یا مساوات ہو دونوں کا حکم ایک ہے لہٰذا غیر کے اجزاء کی مساوات کلی طور پر مانع ہے) اگر علامہ شامی کی نظر میں کوئی مساوات والی مانع نہ بنتی ہو تو وہ کون سی صورت ہے (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۳)
غنیہ میں ہے:(الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء) بان تکون اجزاء الماء اکثر من اجزاء المخالط ۲؎۔
پانی کے اجزاء کا غلبہ تب ہوگا جب پانی کے اجزاء اس میں ملنے والی چیز کے اجزا سے زیادہ ہوں (یعنی اگر پانی کے اجزاء مساوی ہوں تو پھر پانی مغلوب رہے گا)۔ (ت)
(۲؎ غنیۃ المستملی    باب احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)
خزانۃ المفتین میں ہے : العبرۃ فیہ بکثرۃ الاجزاء انکان اجزاء الماء اکثر یجوز التوضی بہ والافلا ۳؎ اھ وھو قطعۃ من الضابطۃ الشیبانیۃ وستأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔
غلبہ میں پانی کے اجزاء اس میں ملنے والی چیز کے اجزا کی کثرت کا لحاظ ہے اگر پانی کثیر ہو تو  وضو جائز ورنہ ناجائز ہے اھ یہ ضابطہ شیبانیہ کا ایک حصہ ہے عنقریب آئےگا اِن شاء اللہ تعالٰی (ت)
 (۳؎ خزانۃ المفتین)
مجمع الانہر میں ہے : غلبۃ غیرہ بان تکون اجزاء المخالط ازیدمن اجزاء الماء وھو قول ابی یوسف لانہ غلبۃ حقیقۃ لرجوعھا الی الذات بخلاف الغلبۃ باللون فانھا راجعۃ الی الوصف ومحمد اعتبر الغلبۃ باللون فی الصحیح عنہ لان اللون مشاھد۱؎۔؂
غیر کے غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ پانی میں ملنے والی چیز پانی سے زائد ہو، یہ امام ابویوسف کا قول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل غلبہ وہی ہے جس کا تعلق ذات سے ہو اور اس کے خلاف رنگ کے غلبہ کا تعلق وصف سے ہوتا ہے، امام محمد نے اس کا اعتبار اس لئے کیا کہ وہ نظر آتا ہے۔ (ت)
(۱؎ مجمع الانہر    فصل تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبع عامرہ مصر    ۱/۱۸)
یہی مضمون ابھی عنایہ سے گزرا،حلیہ میں بحوالہ زاہدی زادالفقہا سے نیز بنایہ میں ہے: تعتبر الغلبۃ فی الاجزاء فان کان اجزاء الماء اکثر یجوز  والا لا ۲؎۔
غلبہ میں اجزا کا اعتبار ہے اگر پانی کے اجزا غالب ہوں تو وضو جائز ورنہ نہیں۔ (ت)
 (۲؎ بنایۃ        باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء الخ    مطبع امدادیہ مکۃ المکرم    ۱/۱۹۲)
جوہرہ نیرہ میں ہے : الاصح ان المعتبر بالاجزاء وھو ان المخالط اذا کان مائعا فمادون النصف جائز فان کان النصف اواکثر لایجوز ۳؎ اھ۔
صحیح ترین یہ ہے کہ غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اگر پانی میں ملنے والی چیز بہنے والی ہو تو اگر وہ نصف سے کم ہو تو اس پانی سے وضو جائز ہے اور اگر وہ ملنے والی چیز برابر ہو یا پانی سے زیادہ ہو تو پھر وضو جائز نہیں۔ (ت)
 (۳؎ جوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)
اقول: اراد بالمخالط الممازج وستعرف ان المائع غیر مقصورعلی الحکم وان کان الحکم مقصور علی المائع۔
میں کہتا ہوں پانی میں مخلوط چیز سے مراد وہ صورت ہے جب اس کے اور پانی کے اجزاء آپس میں ممتاز نہ رہیں، اور آپ کو عنقریب معلوم ہوگا کہ ہر بہنے والی چیز کا یہ حکم نہیں ہے اگرچہ یہ حکم صرف بہنے والی چیز میں پایا جاتا ہے۔ (ت)
نمبر ۲۶۲ میں بدائع سے گزرا: تعتبر الغلبۃ فی الاجزاء فان استویا فی الاجزاء قالوا حکمہ حکم الماء المغلوب ۴؎۔
پانی کے غالب ہونے میں اس کے اجزاء کی کثرت کا اعتبار ہے اگر پانی کے اجزاء ملنے والی چیز کے مساوی ہوں تو اس پر فقہا نے فرمایا کہ ایسی صورت میں پانی مغلوب ہوگا۔ (ت)
 (۴؎ بدائع الصنائع    الماء المقید            ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)
اور اہلِ ضابطہ زیلعیہ عموماً یہی کثرتِ اجزامراد لیتے ہیں نمبر ۱۱۵ میں مراقی الفلاح وابو السعود ومنحۃ الخالق سے گزرا:
الغلبۃ بالوزن ۵؎
 (غلبہ وزن کے اعتبار سے ہوگا۔ ت)
 (۵؎ منحۃ الخالق علی البحر    الطہارت ، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)
غنیہ میں ہے:المعتبر کون اجزاءہ اکثر من اجزاء الماء ۱؎۔
معتبر یہ ہے کہ ملنے والی چیز کے اجزاء پانی کے اجزاء سے زیادہ ہوں۔ (ت)
 (۱؎ غنیۃ المستملی  احکام المیاہ   سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)
بحر وطحطاوی میں:ۤالعبرۃ للاجزاء فان کان الماء اکثر جاز وان مغلوبالا ۲؎۔
اعتبار اجزاء کا ہے اگر پانی کے اجزاء زیادہ ہوں تو اس سے  وضو جائز ہے اور اگر پانی کے اجزاء مغلوب ہوں تو وضو جائز  ہیں۔ (ت)
 (۲؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)
درمختار میں:بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز والالا ۳؎۔
مطلق پانی کے اجزاء اگر نصف سے زیادہ ہوں تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں۔ (ت)
 (۳؎ درمختار         باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)
Flag Counter