نیز ذخیرۃ وتتمہ وحلیہ سے یغلب علی الماء حتی تزول بہ الرقۃ ۲؎
(وہ چیز پانی پر اس طرح غالب ہوجائے کہ پانی کی رقت زائل ہوجائے۔ ت)
(۲؎ فتاوی ذخیرۃ )
نمبر ۱۱۹ میں خانیہ سے ان غلبۃ الحمرۃ وصار متماسکا لایجوز ۳؎
(اگر پانی پر سرخی غالب ہوگئی اور وہ گاڑھا ہوگیا تو وضو جائز نہیں۔ ت)
(۳؎ فتاوی قاضی خان فیما لایجوزبہ التوضی نولکشور لکھنؤ ۱/۹)
نیز خلاصہ سے ان غلب علیہ الحمرۃ وصار نشاستج لایجوز ۴؎
(اگر اس پر سُرخی غالب ہوگئی اور وہ نشاستہ کی طرح ہوگیا تو وضو جائز نہیں۔ ت)
(۴؎ خلاصۃ الفتاوٰی الماء المقید نولکشور لکھنؤ ۱/۸)
غلبہ مقاصد نمبر ۱۰۷ میں حلیہ وتتمہ وذخیرہ سے قول امام ابی یوسف گزرا ان غلب علی الماء حتی یقال ماء البابونج والاٰس لایجوز ۵؎۔
(اگر پانی پر اس طرح غلبہ ہوجائے کہ اس کو بابونہ کا عرق یا جوس کہا جائے تو وضو جائز نہیں۔ ت)
(۵؎ حلیہ)
نمبر ۳۰۴ میں قول ملک العلما اذا خالطہ علی وجہ زال عنہ اسم الماء بان صار مغلوبا بہ ۶؎
(جب پانی پر اس طرح غلبہ پاتے ہوئے ملے کہ اس کا نام پانی نہ رہے۔ ت)
(۶؎ بدائع الصنائع الماء المقید سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵)
عنایہ، بنایہ، غایۃ البیان میں ہے وان اراد بالاشربۃ الحلو المخلوط بالماء کالدبس والشھد المخلوط وبہ من الخل الخل المخلوط بالماء کانت نظیر(عـہ) ماء غلب علیہ غیرہ ۷؎
(اگر شربت سے مراد پانی میں مخلوط میٹھا ہو جیسا کجھور کا شیرہ اور شہد پانی ملا ہوا ہو،اور سرکہ سے مراد وہ جس میں پانی ملا ہو تو یہ پانی پر غیر کے غلبہ کی نظیر ہوگی۔ ت)
(عـہ)اقول لکن ھذا صحیح علی ماحملنا علیہ لاعلی ما(۱) حملوا لان عبارۃ الھدایۃبماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء اھ والشھد والدبس لایخلطان فی الاشربۃ بحیث یخرجان الماء عن رقتہ وان(۱) فرض فکیف یستقیم ھذا فی الخل فالصواب ماافاد فی الغایۃ اخراوفی العنایۃ والبنایۃ اولا انہ وان ارادبھا الاشربۃ المتخذۃ من الشجر کشراب الرمان والحماض وبالخل الخل الخالص کانا من نظیر المعتصر من الشجر والثمر اھ وقد نص علی(عـہ۱)ذلک فی شرح الوقایۃ وغیرہ نعم ذھب(۱) ھذا عن العلامۃ ابراھیم الحلبی فی متنہ الملتقی فاسقط ماکان فی اصولہ القدوری والوقایۃ من ذکر مااعتصرمن شجر اوثمر وابقی فی الامثلۃ الاشربۃ والخل وجعل الغلبۃ باعتبار المطبع حیث قال لابماء خرج عن طبعہ بغلبۃ غیرہ اوبالطبخ کالاشربۃ والخل وماء الورد والباقلاء والمرق اھ فلزمہ مالزم العنایۃ فی العنایۃ الاخری بالخل والاشربۃ وشیئ زائد(۲) وھو ماء الورد فلیس قطعا ماء خرج عن طبعہ بغلبۃ غیرہ اوبالطبخ وکذلک(۳) یرد ھذا علی الفرائد اماماردبہ علیہ فی مجمع الانھر اذقال لاوجہ لان یکون الخل مثالا لماغلب علیہ غیرہ وانکان مخلوطا بالماء فانہ لایصدق علیہ انہ ماء غلب علیہ غیرہ فان الخل اذا اختلط بالماء والماء مغلوب یقال خل مخلوط بالماء لاماء مخلوط بالخل تدبر اھ فاقول لیس بشیئ(۴) اذلیس الکلام ھھنا فی بقاء اطلاق اسم الماء بل بیان للواقع ان ماء خلط بالخل والخل اکثر لایجوز الوضوء بہ ولاشک انہ ماء وقد قلتم والماء مغلوب اما الاسم وقد اشار الیہ المتن اذعبر عنہ بالخل لابالماء ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اقول: لیکن یہ ہمارے بیان کردہ محمل پر درست ہے ان کے محمل پر درست نہیں،کیونکہ ہدایہ کی عبارت یوں ہے وہ پانی جس پر غیر غالب ہوجائے اور وہ پانی کو اس کی طبیعت سے نکال دے اھ جبکہ شہد اور شیرہ کو پانی میں ملائیں تو ان کے ملنے میں پانی اپنی رقت سے خارج نہیں ہوتا اور بالفرض یہ مان لیا جائے تو سرکہ میں یہ بات کیسے درست ہوگی(کیونکہ سِرکہ خود رقیق ہے پانی کی رقت کو ختم نہیں کرتا) لہٰذا غایۃ میں آخری اور عنایۃ اور بنایۃ میں اول جومفاد حاصل ہوا وہ درست ہے کہ اگر شربت سے انار کا یا لیموں وغیرہ کا جوس مراد ہو اور سرکہ سے خالص سرکہ مراد ہو، تو پھر یہ دونوں شجر وثمر کے جوس کی نظیر ہیں اھ شرح وقایہ وغیرہ میں یہ منصوص ہے، ہاں علّامہ ابراہیم چلپی سے یہ بات چھُوٹ گئی ہے اور انہوں نے اپنے متن ملتقیٰ میں اس کے اصول قدوری اور وقایہ کی عبارت میں مااعتصر من شجر اوثمر کے ذکر کو ساقط کردیا اور شربت اور سرکہ کی مثالوں کو باقی رکھا اور غلبہ کو طبع کے اعتبار سے قرار دیا،اور یوں کہا جو پانی اپنی طبع سے غیر کے غلبہ یا پکانے کی وجہ سے خارج ہوچکا ہو تو اس سے وضو جائز نہیں، جیسے شربت اور سرِکہ، عرق گلاب وباقلاء اور شوربا اھ تو ان کو عنایہ والی آخری دشواری لازم آئی جس کی وجہ سرکہ، شربت اور مزید عرق گلاب کا ذکر ہے اور یہ قطعاً ایسے پانی نہیں ہیں جو غیر کے غلبہ یا پکانے کی وجہ سے اپنی طبیعت سے یعنی رقت سے خارج ہوئے ہوں اور یہی اعتراض فرائد پر بھی لازم آتا ہے لیکن فرائد پر مجمع الانہر میں جو اعتراض کیا، جہاں یہ کہا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ سرکہ کو غیر کے غلبہ کی مثال قرار دیا جائے اگرچہ وہ پانی سے مخلوط ہو، کیونکہ جب سرکہ میں پانی ملایا جائے اور پانی مغلوب ہو تو اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایسا پانی ہے جس پر غیر کا غلبہ ہے کیونکہ سرکہ جب پانی میں ملے اور پانی مغلوب ہو تو کہا جاتا ہے یہ سرکہ ہے جس میں پانی ملایاگیا نہ کہ یہ پانی ہے جس میں سرکہ ملایا گیا تدبر اھ پس اس بارے میں میں کہتا ہوں کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہاں پانی کے نام کے اطلاق کی بقاء کا بیان نہیں ہے بلکہ یہ تو بیان واقع ہے کہ جب پانی سرکہ میں ملے اور سرکہ غالب ہو تو اس سے وضو جائز نہیں ہے،اور بیشک یہ پانی ہے تم نے خود اس میں پانی کا ذکر کیاکہ یہ پانی مغلوب ہے لیکن پانی کے نام کا مسئلہ تواس کی طرف ماتن نے اشارہ کرتے ہوئے اس کو سرکہ سے تعبیر کیا ہے پانی سے تعبیر نہیں کیا۔ (ت)
(۷؎ عنایۃ مع القدیر الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۲)
(عـہ۱)اقول والعجب(۲)من الفاضل قرہ باغی فی حاشیۃ صدر الشریعۃ استظھر مالایصح واعرض عن نص صدر الشریعۃ الصحیح کانہ یرید الرد علیہ فقال الظاھران المراد من قول المصنف کالاشربۃ الاشربۃ التی تتخذمن الدبس والشھدوالسکر یخلطھا مع الماء فحینئذ یکون قولہ کالاشربۃ نظیر مازال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء وقولہ ماء الباقلاء والمرق نظیرمازال طبعہ بالطبخ اھ وفیہ کلام من وجوہ اخر لانطیل بھا ۱۲ منہ غفرلہ (م)
اقول: فاضل قرہ باغی پر تعجب ہے کہ انہوں نے صدر الشریعۃ کے حاشیہ میں غلط کو ظاہر کیا اور صدر الشریعۃ کی صحیح نص سے اعراض کیا جس سے انہوں نے مصنف پر اعتراض کا ارادہ کرتے ہوئے کہاکہ ظاہر یہ ہے کہ مصنف کے قول کالاشربۃسے مراد وہ شربت ہیں جو شہد، شیرہ اور شکر ملا کر پانی بنایا گیاہو تو اس صورت میں یہ شربت اس پانی کی نظیر بن جائیں گے جس پر غیر کے غلبہ کی وجہ سے اس کی طبع ختم ہوچکی ہو اور مصنف کا قول ماء الباقلاء والمرق اس پانی کی نظیر ہوگی جو پکانے کی وجہ سے طبع ختم کرچکا ہو،اس فاضل کے کلام میں دوسری وجوہ سے اعتراض ہیں جن کے بیان سے ہم کلام کو طویل نہیں کرتے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)