فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ) |
مقدمہ ثالثہ: ثابت ہواکہ رقیق وہ ہے کہ زمین وغیرہ جس شی پر پڑے خشک ہونے کی بعد اس کا دل محسوس نہ ر ہے اور بالبداہۃ ظاہر کہ یہ اُسی شی میں ہوگا جو بہنے میں تمام وکمال پھیل جائے ورنہ اجزاء زیروبالار ہے تو ضرور دَل محسوس ہوگا تو دلیل قطعی سے روشن ہوا کہ یہاں رقیق اس مائع قسم اول کا نام ہے یہ ہی وہ تحقیق معنی رقیق کہ ان سطور کے سوا نہ ملے گی وباللّٰہ التوفیق ولہ الحمد علی ھدایۃ الطریق۔ ثم اقول: ظاہر ہے(۱)کہ پانی فی نفسہٖ ایسا ہی ہے جسے بے جرم سے تعبیر کیا گیا اب اُس میں دوسری شی جرم دار ملنے کی تین صورتیں ہیں: (۱) استہلاک (۲) اختلاط (۳) امتزاج استہلاک: یہ کہ وہ شی اس میں مل کر گم ہوجائے پانی سے اُس کا جرم ظاہر نہ ہو جیسے چھنا ہوا شربت کہ اُس میں شکر کے اجزاء ضرور ہیں مگر ان کا جرم اصلا محسوس نہ رہا اُسی بہائیے تو خالص پانی کی طرح اُس کے سب اجزاء پھیل جائیں گے کہیں دَل نہ ر ہے گا تو رقت بحال خود باقی ہے اگرچہ رقت اضافیہ میں ضرور فرق آئے گا کہ مخلوط ونامخلوط یکساں نہیں ہوسکتے۔ اختلاط : یہ کہ اُس کا جرم کُلاً یا بعضاً باقی ر ہے مگر پانی کو جرم دار نہ کرے بہانےمیں اس کےاجزاء الگ رہ جائیں اور پانی اُنہیں چھوڑ کر خود پھیل جائے جیسے بے چھنا شربت جس میں شکر یا بتاشوں کے کچھ ریزے رہ گئے ہوں ان ریزوں کو اختلاط تھا اور جس قدر کھُل گئے اُن کا استہلاک مگر ان میں کوئی پانی کے اجزاء پھیلنے کو مانع نہ ہوا۔ امتزاج: (عـہ۱) یہ کہ پانی اور وہ شی مل کر ایک ذات ہوگئے ہوں پانی اُسے چھوڑ کر نہ بَہ سکے بلکہ ہر جگہ وہ اس کے ساتھ گھال میل ر ہے ظاہر ہے کہ یہ مجموع مرکب تمام وکمال نہ پھیل سکے گا اور ضرور جرم دار شی کی طرح ختم سیلان پر بھی دَل رکھے گا۔ پہلی دو صورتوں میں پانی اپنی رقت پر ہے اول پر تو ظاہر کہ وہاں کوئی جرم محسوس ہی نہ ہو اور دوم پر جرم جُدا ہے اور پانی جُدا تو پانی بدستور رقیق ہی رہا جیسے کنکریلی یا سنگلاخ زمین میں تالاب کا پانی یا جس لوٹے میں پتھّر لو ہے کے ٹکڑے ڈال دیے جائیں کوئی عاقل نہ کہے گا کہ اس سے پانی ہی رقیق نہ رہا بخلاف صورت سوم کہ بلاشُبہ رقت زائل اور طبیعت متبدل ہوئی زوال طبع سے یہی مراد ہے وللہ الحمد۔
(عـہ۱) کافی وکفایہ وبنایہ میں فرمایا:الامتزاج الاختلاط بین شیئین حتی یمتنع التمییز اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م) امتزاج یہ ہے کہ دو۲ چیزیں آپس میں اس طرح مل جائیں کہ ان کے درمیان تمیز نہ ہوسکے اھ ۱۲ منہ غفرلہ (ت) اقول :اب بتوفیقہ تعالٰی سب اقوال متوافق ہوگئے اور اشارات علماء کے معنی واضح،
اوّلاً: رقت اضافیہ ضعف وقوت وقلت وکثرت میں بشدت متفاوت ہوتی ہے جس کا بیان اوپر گزرا اس کی انتہاتو شَی کے جامد ہوجانے پر ہے جب تک سیلان کچھ بھی باقی ہے رقت باقی ہے اگرچہ کیسی ہی خفیف اور شک نہیں کہ تینوں صورتوں میں سیلان موجود تو رقت بھی موجود اگرچہ بتفاوت لہٰذا دو صورت اولی میں محقق علی الاطلاق نے رقت آب کو غالب بتایا اور صورت ثالثہ میں امام ناطفی نے مغلوب۔
ثانیاً رقّت جس معنی پر محقق ہوئی یعنی بے جرم ہونا ختم سیلان کے بعد دَل نہ رہنا اس میں تفاوت افراد نہیں دَل اگر کچھ بھی ہوگا یہ رقت معدوم ہوجائے گی اصلاً نہ ہوگا بحال خود باقی ر ہے گی لہٰذا دو صورت اولٰی کو غنیہ میں یوں بتایا کہ پانی ویسا ہی اپنی رقت پر ر ہے جیسا کہ قبل اختلاط تھا اور صورت ثالثہ کو ذخیرہ وتتمہ وحلیہ نے یوں کہ رقت یکسر مسلوب۔ ثالثاً: دو صورت اولٰی ہی کی طرف خلاصہ کا ارشاد کہ پانی اُس میں آشکار ہو مشیر کہ جب تک امتزاج نہ ہو پانی کا ظہور ظاہر ومستنیر۔ رابعاً: خانیہ کا ارشاد کہ اگر متماسک ہوجائے وضو جائز نہیں صورت ثالثہ ہی کا بیان ہے کہ دَل باقی رہنا تماسک اجزاء ہی سے ہوتا ہے اور بحال تماسک دَل ضرور رہتا ہے۔ خامساً: اسی کو علماء کرام نے رُب ودبس ونشاستج وطین وسویق کی مثالیں دے کر بتایا کہ یہ سب اشیا اگرچہ سائل ورقیق اضافی ہیں مگر ان کے اجزا تماسک سے خالی نہیں ولہٰذا ختمِ سیلان پر ان میں ضرور دَل رہتا ہے۔ رُب بالضم میووں کا عرق کہ جوش دے کر قوام پر لایا گیااور غلیظ وبَستہ ہوگیا، دِبس دوشاب اور اس کے مطلق سے دوشاب خرما مراد کہ عرق خرما بدستور نکال کر اتنا جوش دیں کہ انگلی سے اٹھائیں تو انگلی میں لپٹ آئے، نشاستج بالفتح جسے عربی میں نشااور فارسی میں نشاستہ کہتے ہیں۔ نشاستج اس کا معرب ہے یہ کہ گیہوں پانی میں اتنی مدت تک بھگوئے جائیں کہ عفونت لے آئیں اور پوست چھوڑ دیں مغز باریک کوٹ کر صافی میں چھان کر رکھیں یہاں تک کہ گیہوں کے اجزا تہ نشین ہوجائیں پانی اوپر رہ جائے اُسے پھینک کر تَہ نشین کو سُکھالیں ظاہر ہے کہ جب تک اجزاء تہ نشین نہ ہوں گے پانی سے ممتزج رہیں گے طین، کیچڑ، سویق، ستّو یہ مثالیں یاد رکھنے کی ہیں کہ غلظت کی صورت ذہن میں ر ہے ان کو ہم ایک مصرع میں جمع کریں ؎
رُبّ ودِبس ونشاوطین وسویق ہرچہ زینگونہ شد نہ ماند رقیق
(راب، شیرہ، نشاستہ، کیچڑ اور ستّو ان میں سے جو بھی گاڑھا ہوجائے رقیق نہ ر ہے گا۔ ت)
سادساً : ہدایہ وبدائع وغیرہما میں سویق کو مخلوط سے مقید فرمانا صورت ثانیہ وثالثہ کے فرق کی طرف اشارہ فرماتا ہے پانی میں اگر ستّو ڈال دیے کہ تہہ نشین ہوگئے نتھرا پانی یا خفیف آمیزش کا اوپر رہ گیاجو اُسے جرم دار نہ کردے تو وضو جائز نہ ہوگا ولہذا کالسویق المخلوط فرمایایعنی گھُلے ہُوئے ستّو کہ پانی سے ممتزج ہوجائیں،الحمدللہ کہ رقت مطلوبہ کی حد بندی اُس وجہ رفیع پر ہوئی کہ اس رسالہ کے غیرمیں نہ ملے گی۔ اُس کے بیان(۱) کا بھی ایک شعر اشعار تعریف مائے مطلق میں اضافہ کریں ؎
رقت آن دان کہ بہ سیلان ہمہ یک سطح شود خالی ازجرم اگر مانع اوناید پیش
(رقّت یہ ہے کہ بہنے پر سطح برابر ہو اور اس کا حجم نہ بنے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو۔ ت) یا یوں کہیے: ؎
آں رقیق ست کہ اجزاش بختم سیلان زیرو بالا نبود ہیچ سوائے پس وپیش
(رقیق وہ چیز ہے کہ بہاؤ کے ختم ہونے پر اس کے اجزاء کا حجم نہ بنے بلکہ بہنے میں صرف ان کا تقدم وتاخر ہو۔ ت) الحمدللہ اس تقریر منیر سے فوائد کثیر حاصل ہوئے:
فائدہ ۱: طبیعت اور اس کی بقاو زوال کا بیان۔ فائدہ ۲: حقیقت سیلان اور اس کا فلسفہ اور جامدوسائل کا فرق اور یہ کہ اگر اُوپر سے نشیب میں مثلاً گیہوں کے دانے اور کوئی تختہ اور پانی گرائیں سب اپنی حرکت بالطبع سے متحرک ہوکر نیچے اُتر جائیں گے مگر ان میں پانی ہی کی حرکت کو سیلان کہیں گے نہ ان دو کی اس کی وجہ کہ اول اجسام منفصلہ کی حرکات عدیدہ ہیں اور دوم جسم واحد کی حرکت واحدہ اور سوم جسم واحد متصل حسّی کے اجزائے متجاورہ کی متوالی حرکات طبیعہ پے درپے کہ انکاک حسّی نہ ہونے دیں اسی کا نام سیلان ہے۔ فائدہ ۳: رقت مطلق کے معنی اور اس کے مواضع اطلاق۔ فائدہ ۴: وہ امر اضافی ومقول بالتشکیک ہے۔ فائدہ ۵: وہ اپنے نفس معنی کے لحاظ سے سیلان کے ساتھ مساوی بلکہ معنی شامل جامدات پر اُس سے عام مطلقاً ہے اور ہنگامِ اضافت عام من وجہ کہ شیر شتربہ اضافت شیربز رقیق نہیں اور سائل ہے اور گلاب کا شیشہ حلبی آئینہ کے اعتبار سے رقیق ہے اور سائل نہیں۔فائدہ ۶: مسائل خف وغیرہ میں معنی جرم وعدم جرم۔ فائدہ ۷: اُن میں معنی مرئی وغیر مرئی۔ فائدہ ۸: مرئی وغیر مرئی معتبر مسئلہ تطہیر ومسئلہ حوضِ کبیر سے اُن کا فرق۔ فائدہ ۹: انظار ماہرین کی ان میں انواع انواع لغزش۔ فائدہ ۱۰: رقت مطلوبہ ومصطلحہ ائمہ کے معنی یہ سب بھی روشن طور پر واضح ہوگئے۔ فائدہ ۱۱: جرم میں بے جرمی کیونکر ہوتی ہے۔ فائدہ ۱۲: نیز یہاں کلام ائمہ میں بمعنی تماسک۔ فائدہ ۱۳: کہ رقت مطلوبہ وبے جرمی ایک شے ہیں اور غلظت یہ کہ بعد ختم سیلان دَل باقی رکھے۔ فائدہ ۱۴: رقتِ آب غالب ومغلوب یا موجودو مسلوب ہونے سے مراد یہ کہ اُن کا ایک ہی مفاد۔ فائدہ ۱۵: کہ یہ رقت سیلان سے خاص ہے اور اس کے بعد محل اثبات میں ذکر سیلان کی حاجت نہیں مثلاً یوں کہنا کہ فلاں صورت میں رقت وسیلان باقی رہیں تو وضو جائز ہے،ہاں یوں کہنے میں حرج نہیں کہ سیلان ورقت باقی رہیں کہ ذکر سیلان ذکر رقت سی مغنی نہیں اگرچہ تنہا ذکر رقت بس ہے تو اطناب ہوا نہ اہمال۔ فائدہ ۱۶: محل نفی میں ذکر سیلان بحرفِ واو مضر وموہم خلاف مقصود ہے اور بحرف یا کہ تردید کیلئے ہے بیکار۔ فائدہ ۱۷: کپڑے سے نہ نچڑ سکنا اس رقت سے خاص ہے دُودھ رقیق ہے اور نچڑ نہیں سکتا۔ فائدہ ۱۸: یہ رقت نہ معنی اضافی ہے نہ اس میں تشکیک۔