مسئلہ ۱۰ : از ملک بنگال ضلع فرید پور مرسلہ شمس الدین صاحب
زنائے خلاف رضا مندی و بلا رضا مندی میں کیا فرق ہے؟
الجواب: مہمل و بے حاصل سوال ہے، خلافِ رضا وعدم رضا میں عموم وخصوص مطلق ہے وہ بات جس کی طرف نہ رغبت نہ نفرت، خلافِ رضا نہیں بلا رضا ہے، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱ : اول : یزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل(ص) وبقولہ جعلتہ مسجدا ۔۱
0
(۱ الدرالمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۹)
دوم : واذا بنی مسجدا لم یزل ملکہ عنہ حتی یفززہ عن ملکہ بطریقہ (ص) یاذن للناس بالصلٰوۃ فیہ ۱؎
جس شخص نے مسجد بنائی تو اس سے بانی کی ملکیت زائل نہ ہوگی جب تک اس کا راستہ الگ کرکے اُسے اپنی ملکیت سے جُدا نہ کردے اور جب تک لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت نہ دے دے۔(ت)یہ واؤ جس پر ص دوسری جگہ ہے اس کے معنی یا کے ہوں گے یا اور کے ؟ اور وجہ کیا ہے؟
(۱ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
الجواب : پہلی عبارت درمختار کی ہے اور اس میں واؤ بمعنی یا ہے یعنی مسجد میں فعلِ نماز سے ملک مالک زائل ہوجاتی ہے اور مالک کے اس قول سے بھی کہ میں نے اس کو مسجد کردیا، دونوں میں جو ہو کافی ہے دونوں کا وجود ضروری نہیں،
ردالمحتار میں اسی پر لکھا ہے:
لم یردانہ لایزول بدونہ لما عرفت انہ یزول بالفعل ایضا بلا خلاف ۔۲ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کے بغیر ملکیت زائل نہیں ہوگی اس لیے کہ تو جان چکا ہے کہ ملکیت تو محض فعل نماز سے بھی زائل ہوجا تی ہے اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت نہ دے دے۔(ت)
(۲ ردالمحتار کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۶۹)
دوسری عبارت ہدایہ کی ہے اور اس میں واؤ بمعنی یا نہیں بلکہ امران ضرور ہے اور اس کے بعد طرفین کے نزدیک ایک بار نماز باذن ہونا لازم، اور امام ابویوسف کے نزدیک صرف زبان سے کہہ دینا کافی کہ میں نے اسے مسجد کیا، اسی کو اس عبارت کے متصل ہدایہ میں بتایا:
وقال ابو یوسف یزول ملکہ لقولہ جعلتہ مسجدا ۔ ۳؎
امام ابویوسف نے فرمایا اس کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میں نے اس کو مسجد کردیا ہے اس کی ملکیت زائل ہوجاتی ہے۔(ت)
(۳ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
اور قول امام ابویوسف پر ہی فتوی ہے کہ دونوں میں سے جو ہو کافی ہے فعل و قول کا جمع ہونا ضروری نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:
دررمنتقٰی میں ہے کہ تنویر، در اور وقایہ میں امام ابویوسف کے قول کو مقدم کیا گیا ہے اور وقف وقضا میں اس کا ارجح ہونا معلوم ہوچکا ہے۔(ت)
( ۴؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۰)
مسئلہ ۱۲ : از مدرسہ منظر الاسلام بریلی ، مرسلہ مولوی اکبر حسین رام پوری طالب علم ۲۸ ربیع الاول شریف ۱۳۲۶ھ
بعالی خدمت اعلٰیحضرت مدظلہ العالی عرض ہے کہ ایک شعر کے معنی میں نہایت فکر کرتا ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آتا، امید کہ میں حضور کی ذاتِ اقدس سے کامیاب ہوں گا، شعر یہ ہے۔
میری تعمیر میں مضمر اک صورت خرابی کی ہیولٰی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا
الجواب : ہیولٰی مادے کو کہتے ہیں جس میں شے کی قابلیت اور استعداد ہوتی ہے اور خون گرم سعی کا سبب کہ دہقان کی سعی سے کھیتی کی پیداوار ہے، اور اس کا محاصل خرمن، کہ برق گرے تو اسے بالکلیہ نیست و نابود کردے، تو کہتا ہے کہ وہ خون گرم دہقان کے سبب پیدا ہوا۔ وہی برق خرمن کا مادہ بنا کر حرارت میں برق بننے کی استعداد تھی اور وہی بالاخر اپنے پیدا کردہ خرمن پر بجلی ہو کر گرا اور اسے فنا کرگیا تو اس تعمیر میں ویرانی کی صورت پنہاں تھی کہ:
لدواللموت وابنواللخراب ۔
جیو مرنے کے لیے اور عمارتیں بناؤ خراب و برباد ہونے کے لیے ۔
مسئلہ ۱۳ : از پیلی بھیت محلہ احمد زئی مرسلہ مولوی سید محمد عمر الہ آبادی سہروردی ۱۸ رجب ۱۳۳۲ھ)
(۱) من آن وقت بودم کہ آدم نبود کہ حوا عدم بود آدم نبود
(۲) من آں وقت کردم خداراسجود کہ ذات وصفات خدا ہم نبود
(۳) غور سے ہم نے محمد کو جو دیکھا فرحاں تین سو ساٹھ برس پایا خدا سے پہلے
(۱) میں اس وقت تھا کہ آدم نہ تھا کہ حوا معدوم تھی اور آدم نہ تھا۔
(۲) میں نے اس وقت خدا کو سجدہ کیا کہ خدا کی ذات و صفات بھی موجود نہ تھیں۔ت)
ان تینوں شعروں کا مطلب تحریر فرمائیے کہ یہ اشعار کس کے ہیں اور کس کتاب میں ہیں؟ ایک شخص نے مجھ سے ان شعروں کا مطلب دریافت کیا ہے مگر مجھے نہیں معلوم میں کیسے بتلاؤں لہذا آنجناب سے سوال ہے کہ مطلب تحریر فرمائیے فقط المستفتی محمد عمر۔
الجواب : ایسے اشعار کا مطلب اس وقت پوچھا جاتا ہے جب معلوم ہو کہ قائل کوئی معتبر شخص تھا ورنہ بے معنی لوگوں کے ہذیان کیا قابلِ التفات ۔
شعر اول کے مصرعہ اخیر میں آں دم نبود چاہیے ورنہ قافیہ غلط ہے بہرحال اس کا مطلب صحیح و صاف ہے وجود ارواحِ قبل اجسام کی طرف اشارہ ہے۔
شعر دوم صریح کفر ہے۔
شعر سوم میں دراصل تین سو تیرہ برس کا لفظ ہے فرحان ہمارے بریلی کے شاعر تھے ان کی زندگی میں ان کی یہ غزل چھپی تھی فقیر نے جبھی دیکھی تھی اس میں تین سو تیرہ کا لفظ تھا اس میں شاعر نے یہ مہمل و بے ہودہ و لغو مطلب رکھا ہے کہ لفظ محمد کے عدد ۹۲ ہیں اور لفظ خدا کے عدد ۶۰۵ ظاہر ہے کہ ۶۰۵ سے ۹۲ بقدر ۵۱۳ کے مقدم ہے۔ بے ہودہ معنی اور بے معنی بات واستغفراﷲ العظیم یہ وہ ہے جو شاعر صاحب نے سمجھا تھا اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محمد سے مراد مرتبہ رسالت حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین ہو جس کا سر صرف ر ہے کہ رویت و روایت و ردیت درائے سب کا مبدا ہے اور انہار رسالت کی یہی منابع ہیں۔
اس کے عدد ۲۰۰ ہیں اور رسول ۳۱۳ کہ حقیقۃً سب ظلال رسالت محمدیہ علیہ صاحبہا افضل الصلوۃ والتحیۃ ہیں مجموع ۵۱۳ ہوا۔ رسل کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرمن اﷲ الی الخلق ہے اور امت کی سیر من الرسل الی اﷲ جب تک رسولوں پر ایمان نہ لائے اﷲ عزوجل پر ایمان نہیں مل سکتا۔ پھر اس تک رسائی تو بے وساطت رسل محال ہے اور تصدیق سب رسولوں کی جزء ایمان ہے۔
لانفرق بین احد من رسلہ۱
( ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے) برس کو عربی میں حول کہتے ہیں کہ تحویل سے مشعر ہے رسولوں کی بدلیاں بھی تحویل تھیں اور برس بمعنی بارش ہے ہر رسول کی رسالت بارش رحمت ہے یعنی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آدم سے خاتم تک رائے رسالت میں یہ تین سو تیرہ تطور فرمائے تین سو تیرہ ابر رحمت برسائے جب تک ان سب کی تصدیق سے بہرہ ور ہو خدا تک رسائی ناممکن ہے واﷲ تعالٰی اعلم۔