Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹(کتاب الشتّٰی )
3 - 157
علم وتعلیم
مسئلہ ۳تا۷ : از اسارا ڈاکخانہ کرہٹل ضلع میرٹھ مدرسہ حفاظت اسلام مرسلہ منشی محمود علی مدرس مدرسہ مذکور۲۹ ربیع الاخر ۱۳۳۶ھ

(۱) اس زمانے میں جب کہ عام جہالت کی گھٹا پھیلی ہوئی ہے تو اس وجہ سے قرآن پاک ، حدیث شریف ، فقہ حنفیہ کا بوجہ بعض مسائل شرمناک ہونے کے مثلاً حیض ، نفاس ، جماع، طلاق، ثبوت نسب وغیرہ کے کتب بالا کا ترجمہ کرکے عوام کے روبرو اظہار کرنا کیا منع ہے ۔

(۲)کُتب فقہ جو مذہب حنفی کی درسی وغیردرسی مثلاً کنزالدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ، درمختار، عالمگیری، شامی، قاضیخاں وغیرہ اور انکی شروح جو مشہور  مدارس عربیہ میں داخل درس ہیں آیا صحیح ہیں یا فرضی؟

(۳) جو مسائل کتب مذکورہ بالا سے اخذ کرکے اردو میں کردیئے جائیں تاکہ عوام اس سے فائدہ مند ہوں تو کیا وہ قابلِ یقین و عمل نہ ہوں گے جیسے کُتب فارسی واردو مالا بدمنہ، مفتاح الجنت، بہشتی زیور وغیرہ۔

(۴) جو شخص باوجود دعوی حنفیت کرتے ہوئے کتبِ بالا سے انکار کرے اور کہے کہ ان کے مسائل فرضی ہیں ۔ حنفی مذہب کے نہیں جس کی وجہ سے ایک گروہ عظیم کا کتب بالا سے اعتقاد خراب ہوجاتا ہے ، یہ لوگ اپنے دعوٰی میں مقلد ہوں گے یا غیر مقلد ؟

(۵) اکثر لوگ بہشتی زیور کے بعض مسائل پر کہ متفرق طور سے فصل نجاست اور ثبوت نسبت وغیرہ میں ہیں ۔

اعتراض کرتے ہیں ہم نے ان کی تحقیق کتب فقہ میں کی تو شرح و قایہ، درمختار، کنزالدقائق میں پائے جاتے ہیں ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ مسائل فرضی ہیں ان کا کہا کیونکر صحیح ہے؟
الجواب :

(۱) ایسے سوال میں قرآن عظیم کا شامل کرنا سُوء ادب ہے اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہماری ہرحاجت کے متعلق حق و باطل ، نفع و ضرر پر ہمیں مطلع فرمایا ۔ جس طرح ہمیں نماز روزہ سکھایا یونہی جماع و استنجاء تعلیم فرمایا مگر امورِ شرم کا ذکر طرز بیان مختلف ہوجانے سے مختلف ہوجاتا ہے ۔ ایک ہی مسئلہ اگر حیاء کے پیرایہ میں بیان کیا جائے تو کنواری لڑکی کو اس کی تعلیم ہوسکتی ہے اور بے حیائی کے طور پر ہو تو کوئی مہذب آدمی مردوں کے سامنے بھی بیان نہیں کرسکتا۔ خصوصاً ترجمہ کہ وہ گویا متکلم کی طرف سے اس کی زبان کا بیان ہوتا ہے، تو نہایت ضرور ہے کہ اس کی عظمت و شان ملحوظ رہے، وہ لفظ لکھے جائیں جو اس کے کہنے کے ہوں، بعض گمراہوں نے ترجمہ قرآن مجید میں اس کا لحاظ نہ رکھا یہ سخت سوء ادب ہے ۔ غرض ایک ہی بات اختلافِ طرز بیان سے تعظیم سے توہین تک بدل جاتی ہے جیسے اوش فرمائیے، تناول فرمائیے نوشِ جان فرمایئے۔ کھاؤ، نگلو، تھورو ، زہر مار کرو اور تعظیم و توہین میں کس قدر مختلف ہیں تو صرف اتنا عذر کہ ہم نے ترجمہ کیا ہے کافی نہیں ہوسکتا جب کہ طرزِ بیان بے ہودہ ہو۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲) صحیح مقابل فرضی کے لیے تو اس قدر بس ہے کہ وہ کتاب جس کی طرف نسبت کی جائے اس کی ہو اگرچہ کتنے ہی اغلاط پر مشتمل ہو، جن کتابوں کے نام سائل نے لیے ان میں کوئی فرضی نہیں، کنزسے قاضیخاں تک جتنے نام مذکور ہوئے یہ سب صحیح بمعنی معتمد بھی ہیں، مگر اعتماد کیا حاصل اس کی تفصیل ہم نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۳) اگر کتبِ مذکورہ بالا سے صحیح ترجمہ کیا جائے اورطرزِ بیان بھی مقبول و محمود ہو اور اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہ ہو تو وہ گویا انہیں کتابوں کا وجود ثانی ہوگا یقین تو اعتقادیات میں درکار ہوتا ہے اور قابلِ عمل وہ مسئلہ جو مفتی بہ ہو۔ مالا بد میں بھی زیادات ہیں اور مفتاح الجنۃ تو وہابیہ کے ہاتھ میں رہی جس میں بہت کچھ اصلاح ہوئی اور بہشتی زیور اغلاط و ضلالت و بطالت وجہالت کا مجموعہ ہے، واﷲ تعالٰی اعلم ۔
 (۴) کنز سے قاضیخاں تک جتنی کتابوں کے نام لیے ان کی نسبت کوئی حنفی نہیں کہتا کہ ان کے مسائل حنفیہ کے خلاف ہیں اور فرضی ہیں، تو سوال ہی فرضی ہے، مالا بد و مفتاح الجنۃ کے بعض زیادات و الحاقات کو اگر کسی نے ایساکہا تو بیجا نہ کہا اور بہشتی زیور
لا فی العیرولا فی النفیر
 (نہ قافلے میں نہ لشکر میں، یعنی کسی شمار میں نہیں، ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۵)  بہشتی زیور کا حال بالاجمال اُوپر گزرا بے شک اس میں بہت مسائل باطل و ساختہ ہیں وہ کسی طرح اس قابل نہیں کہ کوئی مسلمان اسے دیکھے یا اپنے گھر میں رکھے مگر عالم جید بغرض رَدّوابطال ، مفتی صاحب کا اس پر اعتراض بجا ہے اور عوام اس کے مسائل سے جتنی بھی نفرت کریں ان کے حق میں مصلحت دینیہ ہے۔ 

قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
ایّاکم وایّاھم لایضلونکم و لایفتنو نکم ۔۱؂
اُن سے دور بھاگو اور اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈالیں۔
 (۱؂     صحیح مسلم    باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ / ۱۰)
علمائے کرام نے وصیت فرمائی کہ جاہل کے لکھے ہوئے مسئلہ پر تصدیق نہ کرو اگرچہ مسئلہ فی نفسہا صحیح ہو کہ اس کی تصدیق نگاہِ عوام میں وقعت کاتب کی موجب ہوگی۔ وہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ بھی کوئی مفتی ہے، پھر اور جو اپنی جہالت سے غلط فتوٰی لکھے گا اس پر بھی اعتبار کریں گے۔ جب جاہل کے لیے یہ حکم ہے تو چہ جائے مبتدی چہ جائے مرتد واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸: ازجے پور راجپوتانہ، بازار ہوا محل ، مرسلہ محمد یوسف مدرس مدرسہ فیض محمدی ۲ ربیع الاول ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ درمختار و شرح وقایہ و ہدایہ وفتاوٰی عالمگیر ی و کنزالدقائق و قدوری ومنیۃ المصلی وغیرہ کتب فقہ میں وہ مسائل جو بلفظ
قال ابوحنیفہ و عند ابی حنفیہ
( ابوحنیفہ نے فرمایا اور ابوحنیفہ کے نزدیک یوں ہے، ت) منقول ہیں کیا اُن کی اسناد بقاعدہ محدثین صاحب کتاب سے امام ابوحنفیہ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ تک پہنچتی ہیں تو ایک دو مسئلہ کی سند بطور نظیر کے ارقام فرمادیں۔
الجواب : تمام مسائل کہ صاحبِ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف بلفظ قال وعند نسبت کئے جاتے ہیں کتب ظاہر الروایہ کے مسئلے ہیں او ر اُن تک اسانید متصلہ موجود ہر مسئلہ کے لیے جدا سند کی حاجت نہیں جس طرح صحیح بخاری تک ہم اسانید متصلہ رکھتے ہیں، صحیح کی تمام حدیثیں ہمارے پاس انہیں سندوں سے ہیں ہر حدیث میں جدید سند کی ضرورت نہیں۔
صاحبِ درمختار رضی اللہ تعالٰی عنہ درمختار میں فرماتے ہیں:
  انی ارویہ عن شیخنا الشیخ عبدالنبی الخلیلی عن المصنف (ای شیخ الاسلام ابی عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الغزی التمر تاشی) عن ابن نجیم المصری ( ای العلامۃ المحقق زین صاحب البحر الرائق ) بسندہ الی صاحب المذہب ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ (الٰی قولہ) کما ھو مبسوط فی اجازاتنا بطرق عدیدۃ عن المشائخ المتبحرین الکبار ۔۱؂
میں اس (علم فقہ) کو روایت کرتا ہوں اپنے استاذ شیخ عبدالنبی خلیلی سے، وہ روایت کرتے ہیں مصنف (یعنی شیخ الاسلام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ غزی تمرتاشی ) سے وہ ابن نجیم مصری( یعنی علامہ محقق زین صاحب بحرالرائق ) سے وہ اپنی سند کے ساتھ جو متصل ہے صاحبِ مذہب امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ( مصنف کے اس قول تک کہ) یہ متبحر علماء کبار سے متعدد طرق کے ساتھ ہماری اجازت میں مفصل مذکور ہے(ت)
 (۱؂  الدرالمختار    مقدمۃ الکتاب    مطبع مجتبائی دہلی          ۱/ ۳)
علامہ صاحبِ بحر کی سند یہ ہے:
المحقق زین عن العلامۃ ابن الشلبی صاحب الفتاوٰی عن ابن الشحنۃ شارح الوھبانیۃ عن الامام ابن الہمام صاحب فتح القدیر وزادالفقیر عن الامام العلامۃ قارئ الھدایۃ عن العلامۃ علاء الدین السیرانی عن السید جلال الدین صاحب الکفایۃ عن الامام عبدالعزیز البخاری صاحب کشف بزدوی عن الامام حافظ الدین النفسی صاحب الکنز والوافی والکافی عن الامام شمس الائمۃ الکردری عن الامام برھان الدین صاحب الھدایۃ وکفایۃ المنتھی والتجنیس عن الامام فخر الاسلام علی البزدوی عن الامام شمس الائمۃ السرخسی صاحب المبسوط شرح کافی الامام الحاکم الشھید عن الامام شمس الائمۃ الحلوا نی عن القاضی ابی علی النسفی عن الامام الفضل عن ابی عبداﷲ السبذمونی عن ابی حفص الصغیر عن ابیہ الامام ابی حفص الکبیر عن الامام محمد عن سراج الامۃ الامام الاعظم وایضاعن محمد عن یعقوب عن ابی حنفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہم  ۔۱؂
محقق زین روایت کرتے ہیں علامہ ابن شلبی صاحبِ فتاوٰی سے وہ ابن شحنہ شارح وہبانیہ سے وہ امام ابن ہمام مصنف فتح القدیر وزاد الفقیر سے وہ علامہ قاری الہدایہ سے وہ علامہ علاء الدین سیرانی سے وہ سید جلال الدین صاحب کفایہ سے وہ امام عبدالعزیز بخاری صاحب کشف بزدوی سے وہ کنزووافی و کافی کے مصنف حافظ الدین نسفی سے وہ امام شمس الائمہ کردری سے وہ ہدایہ، کفایۃ المنتہی اور تجنیس کے مصنف امام برہان الدین سے وہ امام فخر الاسلام علی بزدوی سے وہ امام شمس الائمہ سرخسی صاحبِ مبسوط سے وہ امام شمس الائمہ حلوانی سے وہ قاضی ابوعلی نسفی سے وہ امام فضل سے وہ ابوعبداﷲ سبذ مونی سے وہ ابوحفص صغیر سے وہ اپنے والد امام ابوحفص کبیر سے وہ امام محمد سے وہ سراج الامہ امام اعظم ابوحنیفہ سے نیز امام محمد روایت کرتے ہیں امام یعقوب (ابویوسف) سے اور وہ امام ابوحنیفہ سے رضی اللہ تعالٰی عنھم(ت)
 (۱؂البحرالرائق)
صاحب مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ تک فقیر کی سند صدر جلد اول فتاوٰی فقیر اور بفضلہ تعالٰی کتب ظاہر الروایہ بلکہ کتب نوادر بلکہ بکثرت کتب علماء و مشائخ تک باسانید متصلہ موجود، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹: از احمد آباد گجرات ، محلہ جمالپور، مرسلہ مولوی حکیم عبدالرحیم صاحب،۹ صفر المظفر ۱۳۳۷ھ

مرقاۃ شرح مشکوۃ ملا علی قاری کی عبارت اگر آپ کے زیر نظر ہو تویہ پتا بتائیے کہ یہ مرقاۃ کی کون سے باب و فصل اور کون سے صحابی کی حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے یہ حدیث نقل کی ہے اس کی بندہ کو ضرورت ہے ممنون و مشکور ہوگا عبارت یہ ہے:
انہ بلغنی عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان من قال لا الٰہ الا اﷲ سبعین الفاغفر اﷲ تعالٰی لہ ومن قیل لہ غفرلہ ایضا۔
مجھ تک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ  والہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی، آپ نے فرمایا کہ بے شک جس شخص نے ستر ہزار مرتبہ کہا
لا الہٰ الا اﷲ،
اﷲ تعالٰی اس کی مغفرت فرمائے گا اور جس کے لیے یہ کہا گیا اس کی بھی مغفرت فرمائے گا۔(ت)
الجواب : مولانا اکرمکم، السلام علیکم ورحمتہ و برکاتہ !

یہ عبارت مرقاۃ ۔۱؂ کتاب الصلوۃ ، باب ما علی الماموم من المتابعۃ، فصل ثانی ، حدیث علی و معاذ بن جبل علیہما الرضوان کی شرح میں ہے۔ مطبع مصر جلد دوم صفحہ ۱۰۲)
 (۱؂مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثانی، حدیث ۱۱۴۲ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۳/ ۲۲۲)
Flag Counter