Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹(کتاب الشتّٰی )
18 - 157
 (۴) مدارک التنزیل میں ہے۔
منہ اٰیت محکمٰت احکمت عبارتھا بان حفظت من الاحتمال و الاشتباہ ھن ام الکتب، اصل الکتاب تحمل المتشابہات علیہا وتردالیہا واخرمتشابہات مشتبہات محتملات مثال ذٰلک الرحمن علی العرش استوی فالا ستواء یکون بمعنی الجلوس وبمعنی القدرۃ والاستیلاء و لایجوز الاوّل علی اﷲ تعالٰی بدلیل المحکم وھو قولہ تعالٰی لیس کمثلہ شیئ ، فاما الذین فی قلوبھم زیغ میل عن الحق وھم اھل البدع فیتبعون ماتشابہ ، فیتعلقون بالمتشابہ الذی یحتمل مایذھب الیہ المبتدع ممالا یطابق المحکم ویحتمل مایطابقہ من قول اھل الحق منہ ابتغاء الفتنۃ  طلب ان یفتنوا الناس دینھم ویضلوھم وابتغاء تاویلہ  وطلب ان یؤولوہ التاویل الذی یشتہونہ وما یعلم تاویلہ الا اﷲ ای لایھتدی الٰی تاویلہ الحق الذی یجب ان یحمل علیہ الّا اﷲ اھ مختصراً ۔
یعنی قرآن عظیم کی بعض آیتیں محکمات ہیں جن کے معنی صاف ہیں احتمال و اشتباہ کو ان میں گزر نہیں یہ آیات تو کتاب کی اصلی ہیں کہ متشابہات انہیں پر حمل کی جائیں گی اور اُن کے معنی انہیں کی طرف پھیرے جائیں گے اور بعض دوسری متشابہات ہیں جن کے معنی میں اشکال و احتمال ہے جیسے کریمہ الرحمن علی العرش استوی بیٹھنے کے معنی پر بھی آتا ہے اور قدرت و غلبہ کے معنی پر بھی اور پہلے معنی اللہ عزوجل پر محال ہیں کہ آیات محکمات اﷲ تعالٰی کو بیٹھنے سے پاک و منزہ بتارہی ہیں اُن محکمات سے ایک یہ آیت ہے لیس کمثلہ شیئ اﷲ کے مثل کوئی چیز نہیں، پھر وہ جن کے دل حق سے پھرے ہوئے ہیں اور وہ بدمذہب لوگ ہوئے وہ تو آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں ایسی آیتوں کی آڑ لیتے ہیں جن میں ان کی بدمذہبی کے معنی کا احتمال ہوسکے جو آیات محکمات کے مطابق نہیں اور اس مطلب کا بھی احتمال ہو جو محکمات کے مطابق اور اہلسنت کا مذہب ہے وہ بدمذہب اُن آیات متشابہات کی آڑ اس لیے لیتے ہیں کہ فتنہ اٹھائیں لوگوں کو سچے دین سے بہکائیں ان کے وہ معنی بتائیں جو اپنی خواہش کے موافق ہوں، اور انکے معنی تو کوئی نہیں جانتا مگر اﷲ، اﷲ ہی کو خبر ہے کہ ان کے حق معنی کیا ہیں جن پر ان کا اتارنا واجب ہے انتہی۔
 ( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)  آیت ۳/ ۷    دارالکتاب العربی بیروت    ۱/ ۱۴۶)
گمراہ شخص آنکھیں کھول کر دیکھے کہ یہ پاکیزہ تقریر یہ آیت و تفسیر اس کی گمراہی کا کیسا رَد واضح و منیر ہے۔
والحمدﷲ رب العلمین۔
(۵) امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں:
الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک  ۔۱؂
ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔
 ( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ۲/ ۱۵۰)
 (۶) اُسی میں ہے:
  حکینا عن المتقدمین من اصحابنا ترک الکلام فی امثال ذلک، ھذا مع اعتقاد ھم نفی الحدوالتشبیہ والتمثیل عن اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی  ۔۲؂
ہم اپنے اصحاب متقدمین کا مذہب لکھ چکے کہ ایسے نصوص میں اصلاً لب نہ کھولتے اور اس کے ساتھ یہ اعتقاد رکھتے کہ اللہ تعالٰی محدود ہونے یا مخلوق سے کسی بات میں متشابہ و مانند ہونے سے پاک ہے۔
 ( ۲ ؎کتاب الاسماء والصفات باب قول اﷲ تعالٰی یعیسی علیہ السلام انی متوفیک ورافعک الٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۶۹)
 (۷) اُسی میں یحٰیی بن یحیٰی سے روایت کی:
کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج  ۔۳؂
ہم امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔
 (۳ ؎  کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ          ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)
 (۸) اُسی میں عبداللہ بن صالح بن مسلم سے روایت کی:
سئل ربیعۃ الرأی عن قول اﷲ تبارک وتعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی  کیف استوٰی ؟قال الکیف غیر معقول والا ستواء غیر مجہول ویجب علیّ وعلیک الایمان بذلک کلہ  ۔۱؂
یعنی امام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن استاذ امام مالک سے جنہیں بوجہ قوت عقل و کثرت قیاس ربیعۃ الرائے لکھا جاتا یہی سوال ہوا، فرمایا کیفیت غیر معقول ہے اور اﷲ تعالٰی کا استواء مجہول نہیں اور مجھ پر اور تجھ پر ان سب باتوں پر ایمان لانا واجب ہے۔
 ( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی            المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۱۵۱)
(۹) اُسی میں بطریق امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے:
ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ  ۔۲؂
یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔
 ( ۲ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش                 ۲/ ۱۵۱  وباب ماذکر فی یمین والکف         ۲/ ۱۵۱)
بطریق اسحق بن موسٰی انصاری زائد کیا:
لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ  ۔۳؂
کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔
 ( ۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی     باب ماجاء فی اثبات العین المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۴۲)
 (۱۰) اُسی میں حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے:
الرحمن علی العرش استوی بلاکیف  ۴ ؎
رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔
 (۴ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی            المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ۲/ ۱۵۲)
 (۱۱) اسی میں ہے :
والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی  ۔۱؂
یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔
 ( ۱ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش                 المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۱۵۲)
الحمدﷲ امام اعظم سے روایت عنقریب آتی ہے ، ائمہ ثلٰثہ سے یہ موجود ہیں، ثابت ہوا کہ چاروں اماموں کا اجماع ہے کہ استواء کے معنی کچھ نہ کہے جائیں اس پر ایمان واجب ہے اور معنی کی تفتیش حرام یہی طریقہ جملہ سلف صالحین کا ہے۔
 (۱۲) اُسی میں امام خطابی سے ہے
"  ونحن احری بان لانتقدم فیما تأخر عنہ من ھو اکثر علما و اقدم زمانا وسنا، ولکن الزمان الذی نحن فیہ قد صاراھلہ حزبین منکرلما یروی من نوع ھٰذہ الاحادیث راسا ومکذب بہ اصلا، وفی ذلک تکذیب العلماء الذین ردوا ھٰذہ الاحادیث وھم ائمۃ الدین ونقلۃ السنن و الواسطۃ بیننا و بین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، والطائفۃ الاخرٰی مسلمۃ للروایۃ فیہا ذاھبۃ فی تحقیق منہا مذھبا یکاد یفضی بھم الی القول بالتشبیہ و نحن نرغب عن الامرین معاً ، ولا نرضی بواحد منھما مذہبا، فیحق علینا ان نطلب لما یرد من ھٰذہ الاحادیث اذا صحت من طریق فالنقل والسند ، تاویلا یخرج علی معانی اصول الدین ومذاہب العلماء و لاتبطل الروایۃ فیہا اصلا، اذا کانت طرقہا مرضیۃ ونقلتہا عدولا۔۱؂
یعنی جب اُن ائمہ کرام نے جو ہم میں سے علم میں زائد اور زمانے میں مقدم اور عمر میں بڑے تھے متشا بہات میں سکوت فرمایا تو ہمیں ساکت رہنا اور ان کے معنی کچھ نہ کہنا اور زیادہ لائق تھا مگر ہمارے زمانے میں دو گروہ پیدا ہوئے ایک تو اس قسم کی حدیثوں کو سرے سے رَد کرتا اور جھوٹ بتاتا ہے، اس میں علمائے رواۃ احادیث کی تکذیب لازم آتی ہے، حالانکہ وہ دین کے امام ہیں اور سنتوں کے ناقل اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک ہمارے وسائط و رسائل۔ اور دوسرا گر وہ ان روایتوں کو مان کر ان کے ظاہری معنی کی طرف ایسا جاتا ہے کہ اس کا کلام اﷲ عزوجل کو خلق سے مشابہ کردینے تک پہنچنا چاہتا ہے اور ہمیں یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں ہم ان میں سے کسی کو مذہب بنانے پر راضی نہیں، تو ہمیں ضرور ہوا کہ اس بات میں جو صحیح حدیثیں آئیں اُن کی وہ تاویل کردیں جس سے ان کے معنی اصول عقائد وآیات محکمات کے مطابق ہوجائیں اور صحیح روایتیں کہ علماء ثقات کی سند سے آئیں باطل نہ ہونے پائیں۔
 ( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماذکر فی القدم الرجل المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۸۶)
Flag Counter