اول: ا ستواء بمعنی قہرو غلبہ ہے، یہ زبان عرب سے ثابت و پیدا ہے عرش سب مخلوقات سے اوپر اور اونچا ہے اس لیے اس کے ذکر پر اکتفا فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اﷲ تمام مخلوقات پر قاہر و غالب ہے۔
دوم : استواء بمعنی علو ہے، اور علو اﷲ عزوجل کی صفت ہے نہ علو مکان بلکہ علو مالکیت و سلطان، یہ دونوں معنی امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں ذکر فرمائے جس کی عبارات عنقریب آتی ہیں۔
ان شاء اﷲ تعالٰی
سوم : استواء بمعنی قصد وارادہ ہے ،
ثم استوٰی علی العرش
یعنی پھر عرش کی طرف متوجہ ہوا یعنی اس کی آفرینش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی، یہ تاویل امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری نے افادہ فرمائی۔ امام اسمعیل ضریر نے فرمایا :
انہ الصواب ۱ ؎
یہی ٹھیک ہے ،
نقلہ الامام جلال الدین سیوطی فی الاتقان (عہ)
( اس کو امام جلال الدین سیوطی نے اتقان میں نقل کیا ہے۔ت)
عہ: قالہ الفراء والا شعری وجماعۃ اھل المعانی ثم قال یبعدہ تعدیتہ بعلٰی ولوکان کما ذکروہ لتعدی بالٰی کما فی قولہ تعالٰی ثم استوی علی السماء ۔۲وفیہ ان حروف المعانی تنوب بعضہا عن بعض کما نص علیہ فی الصحاح وغیرھا و قدروی الامام البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات عن الفراء ان تقول کان مقبلا علٰی فلان ثم استوی علیّ یشاتمنی والیّ سواء علٰی معنی اقبل الیّ وعلیّ ۔۳ ۱۲ منہ۔
فراء ،اشعری اور اہل معانی کی ایک جماعت کا یہ قول ہے، پھر امام سیوطی نے کہا کہ یہ قول اس کے علٰی کے ساتھ متعدی ہونے سے بعید ہے اگر مطلب وہی ہوتا جو انہوں نے ذکر کیا ہے تو یہ الٰی کے ساتھ متعدی ہوتا جیسا کہ اﷲ تعالٰی کے ارشاد ثم استوٰی الٰی اسماء میں ہے، مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ حروف ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ صحاح وغیرہ میں اس پر نص کی گئی ہے، اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں فراء سے روایت کیا ہے مثلاً تو کہے کہ وہ فلاں کی طرف متوجہ تھا پھر وہ مجھے برا بھلا کہتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوا یعنی چاہے استوی الیّ کہے یا استوی علی دونوں برابر ہیں۔۱۲ منہ (ت)
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۲ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۳کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۴)
چہارم : استواء بمعنی فراغ وتمامی کار ہے یعنی سلسلہ خلق وآفرینش کو عرش پر تمام فرمایا اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی،دنیا وآخرت میں جو کچھ بنایا اور بنائے گا دائرہ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلوق کو حاوی ہے۔ قرآن کی بہترتفسیر وہ ہے وہ قرآن سے ہو۔ استواء بمعنی تمامی خود قرآن عظیم میں ہے،
قال اﷲ تعالٰی: ولمابلغ اشدّہ واستوٰی ۔۱
جب اپنی قوت کے زمانے کو پہنچا اور اس کا شباب پورا ہوا۔
جیسے پودا کہ اس کا خوشہ نکلا تو اس کو بوجھل کیا تو وہ موٹا ہوا تو وہ اپنے تنے پر درست ہوا۔(ت) میں استواء حالتِ کمال سے عبارت ہے، یہ تاویل امام حافظ الحدیث ابن الحجر عسقلانی نے امام ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال سے نقل کی اور یہ کلام امام ابوطاہرقزوینی کا ہے کہ سراج العقول میں افادہ فرمایا، اور امام عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت میں منقول ۔۳
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۸/ ۲۹)
( ۳ ؎ الیوقیت والجواہر بحوالہ سراج العقول المبحث السابع مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۰۲)
اقول: ( میں کہتاہوں، ت) اور اس کے سوا یہ ہے کہ قرآن عظیم میں یہ استواء سات جگہ مذکور ہوا، ساتوں جگہ ذکر آفرینش آسمان و زمین کے ساتھ اور بلافصل اُس کے بعد ہے، سورہ اعراف وسورہ یونس علیہ الصلوۃ والسلام میں فرمایا۔
و ہ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر استواء فرمایا(ت)
(۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۴)
یہ مطالب کہ اول سے یہاں تک اجمالاً مذکور ہوئے صدہا ائمہ دین کے کلمات عالیہ میں ان کی تصریحات جلیہ ہیں انہیں نقل کیجئے تو دفتر عظیم ہو، اور فقیر کو اس رسالہ میں التزام ہے کہ جن کتابوں کے نام مخالف گمنام نے اغوائے عوام کے لیے لکھ دیئے ہیں اس کے رَد میں انہی کی عبارتیں نقل کرے کہ مسلمان دیکھیں کہ وہابی صاحب کس قدر بے حیا، بیباک ، مکار، چالاک ، بددین، ناپاک ہوتے ہیں کہ جن کتابوں میں اُن کی گمراہیوں کے صریح رَد لکھے ہیں انہی کے نام اپنی سند میں لکھ دیتے ہیں۔ع
چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد
(چور کیسا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے۔ت)
مباحث آئندہ میں جو عبارات ان کتابوں کی منقول ہوں گی انہیں سے ان شاء اللہ العظیم یہ سب بیان واضح ہوجائیں گے یہاں صرف آیات متشابہات کے متعلق بعض عبارات نقل کروں جن سے مطلب سابق بھی ظاہر ہو اور یہ بھی کھل جائے کہ آیہ کریمہ
الرحمن علی العرش استوٰی
آیات متشابہات سے ہے، اور یہ بھی کہ جس طرح مخالف کا مذہب نامہذب یقیناً صریح ضلالت اور مخالف جملہ اہل سنت ہے۔ یونہی اجمالاً اس آیت کے معنی جاننے پر مخالف سلف صالح وجمہور ائمہ اہلسنت وجماعت ہے۔
(۱) موضح القرآن کی عبارت اوپر گزری۔
(۲) معالم و مدارک و کتاب الاسماء و الصفات وجامع البیان کے بیان یہاں سُنئے کہ یہ پانچوں کتابیں بھی اُنہیں کتب سے ہیں جن کا نام مخالف نے گن دیا۔
معالم التنزیل میں ہے:
اما اھل السنۃ یقولون الاستواء علی العرش صفۃ ﷲ تعالٰی بلا کیف یجب علی الرجل الایمان بہ ویکل العلم فیہ الی اﷲ عزوجل ۔۱
یعنی رہے اہلسنت ، وہ یہ فرماتےہیں کہ عرش پر استواء اﷲ عزوجل کی ایک صفت بے چونی و چگونگی ہے، مسلمان پر فرض ہے کہ اُس پر ایمان لائے اور اس کے معنی کا علم خدا کو سونپے ۔
مخالف کو سُوجھے کہ اُسی کی مستند کتاب نے خاص مسئلہ استواء میں اہلسنت کا مذہب کیا لکھا ہے شرم رکھتا ہے تو اپنی خرافات سے باز آئے اور عقیدہ اپنا مطابق اعتقاد اہلسنت کرے۔
(۳) اُسی میں ہے:
ذھب الاکثرون الی ان الواو فی قولہ ، والراسخون واو للاستئناف وتم الکلام عند قولہ و مایعلم تاویلہ الاّ اﷲ وھو قول ابی بن کعب وعائشۃ وعروۃ بن الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم، وروایۃ طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما وبہ قال الحسن واکثر التابعین واختارہ الکسائی والفراء والاخفش (الٰی ان قال) ومما یصدق ذلک قراء ۃ عبداللہ ان تاویلہ الا عند اﷲ والراسخون فی العلم یقولون اٰمنّاو فی حرف ابی ویقول الراسخون فی العلم اٰمنّا بہ، وقال عمر بن عبدالعزیز فی ھٰذہ الایۃ انتھی علم الراسخین فی العلم تاویل القرآن الٰی ان قالواٰمنّا بہ کل من عند ربنا وھٰذا القول اقیس فی العربیۃ واشبہ بظاہر الاٰیۃ ۔۱
یعنی جمہور ائمہ دین صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ والراسخون فی العلم سے جدا بات شروع ہوئی پہلا کلام وہیں پوُرا ہوگیا کہ متشابہات کے معنی اﷲ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ،
یہی قول حضرت سیدّ قاریان صحابہ ابی بن کعب اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ اور عروہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہم کا ہے، اور یہی امام طاؤس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، اور یہی مذہب امام حسن بصری و اکثر تابعین کاہے، اور اسی کو امام کسائی وفراء واخفش نے اختیار کیا اور اس مطلب کی تصدیق حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے کہ آیات متشابہات کی تفسیر اﷲ عزوجل کے سوا کسی کے پاس نہیں، اور پکے علم والے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قراء ت بھی اسی معنی کی تصدیق کرتی ہے۔ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ان کی تفسیر میں محکم علم والوں کا منتہائے علم بس اس قدر ہے کہ کہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور یہ قول عربیت کی رُو سے زیادہ دلنشین اور ظاہر آیت سے بہت موافق ہے۔
( ۱ ؎ معالم التنزیل تحت الآیۃ ۳/ ۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۲۱۴ و ۲۱۵)