قوارع القہارعلی المجسمۃ الفجّار ۱۳۱۸ھ
جسمیتِ باری تعالٰی کے قائل فاجروں پر قہر فرمانے والے ( اللہ تعالٰی) کی طرف سے سخت مصیبتیں)
ملقب بلقب تاریخی
ضربِ قہاری
(۱۸ ۱۳ ھ)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
سبحٰنک یا من تعالٰی عما یقول المجسمۃ الظالمون علواکبیرا ٭ صلّ و سلم وبارک علی من اتانا بشیراً و نذیراً ٭ داعیا الیک باذنک سراجاً منیراً ٭ وعلٰی اٰلہ وصحابتہ واھلسنتہ وجماعتہ کثیراکثیرا۔
پاک ہے تو اے وہ ذات جو بلند ترین ہے اس بات سے جو جسم ثابت کرنے والے ظالم لوگ کہتے ہیں، رحمت، سلامتی اور برکت فرما اس شخصیت پر جو ہمارے پاس بشیر و نذیربن کر تشریف لائے اور تیری طرف دعوت دینے والے تیرے حکم سے روشن چراغ ہیں اور اُن کی آل و صحابہ و اہلسنت و جماعت پر کثرت در کثرت سے(ت)
اللہ عزوجل کی تنزیہ میں اہلسنت و جماعت کے عقیدے
(۱) اﷲ تعالٰی ہر عیب و نقصان سے پاک ہے۔
(۲) سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی چیز کی طرف کسی طرح کسی بات میں اصلاً احتیاج نہیں رکھتا۔
(۳) مخلوق کی مشابہت سے منزہ ہے۔
(۴) اس میں تغیر نہیں آسکتا ، ازل میں جیسا تھا ویسا ہی اب ہے اور ویسا ہی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ، یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک طور پر ہو پھر بدل کر اور حالت پر ہوجائے۔
(۵) وہ جسم نہیں جسم والی کسی چیز کو اس سے لگاؤ نہیں۔
(۶) اُسے مقدار عارض نہیں کہ اِتنا یا اُتنا کہہ سکیں، لمبا چوڑا یا دَلدار یا موٹا یا پتلا یا بہت یا تھوڑا یا گنتی یا تول میں بڑا یا چھوٹا یا بھاری یا ہلکا نہیں۔
(۷) وہ شکل سے منزّہ ہے، پھیلا یا سمٹا، گول یا لمبا، تکونا یا چوکھونٹا، سیدھا یا ترچھا یا اور کسی صورت کا نہیں۔
(۸) حد و طرف و نہایت سے پاک ہے اور اس معنی پر نامحدود بھی نہیں کہ بے نہایت پھیلا ہوا ہو بلکہ یہ معنی کہ وہ مقدار وغیرہ تمام اعراض سے منزہ ہے ، غرض نامحدود کہنا نفی حد کے لیے ہے نہ اثبات بے مقدار بے نہایت کے لیے۔
(۹) وہ کسی چیز سے بنا نہیں۔
(۱۰) اس میں اجزا یا حصے فرض نہیں کرسکتے۔
(۱۱) جہت اور طرف سے پاک ہے جس طرح اُسے دہنے بائیں یا نیچے نہیں کہہ سکتے یونہی جہت کے معنی پر آگے پیچھے یا اُوپر بھی ہر گز نہیں۔
(۱۲) وہ کسی مخلوق سے مل نہیں سکتا کہ اس سے لگا ہوا ہو۔
(۱۳)کسی مخلوق سے جُدا نہیں کہ اُس میں اور مخلوق میں مسافت کا فاصلہ ہو۔
(۱۴) اُس کے لیے مکان اور جگہ نہیں۔
(۱۵) اُٹھنے، بیٹھنے، اُترنے، چڑھنے، چلنے، ٹھہرنے وغیرہا تمام عوارض جسم و جسمانیات سے منزّہ ہے۔
محل تفصیل میں عقائد تزیہہ بے شمار ہیں، یہ پندرہ ۱۵ کہ بقدر حاجت یہاں مذکور ہوئے اور انکے سوا ان جملہ مسائل کی اصل یہی تین عقیدے ہیں جو پہلے مذکور ہوئے اور ان میں بھی اصل الاصول عقیدہ اولی ہے کہ تمام مطالب تنزیہیہ کا حاصل و خلاصہ ہے ان کی دلیل قرآن عظیم کی وہ سب آیات ہیں جن میں باری عزوجل کی تسبیح وتقدیس و پاکی و بے نیازی و بے مثلی و بے نظیری ارشاد ہوئی آیات تسبیح خود کس قدر کثیر ووافر ہیں۔
وقال تعالٰی : الملک القدوس السلٰم ۔۱
بادشاہ نہایت پاکی والا ہر عیب سے سلامت ۔
وقال تعالٰی: فان اﷲ غنی عن العٰلمین ۔۲
بے شک اﷲ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔
وقال تعالٰی : ان اﷲ ھوالغنی الحمید ۔۳
بے شک اللہ ہی بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا،
وقال تعالٰی : لیس کمثلہ شیئ ۔۴
اس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔
وقال تعالٰی: ھل تعلم لہ سمیا ۔۵
کیا تو جانتا ہے اس کے نام کا کوئی ،
وقال تعالٰی : ولم یکن لہ کفواً احد ۶
اس کے جوڑ کا کوئی نہیں۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۹/ ۲۳ ) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۹۷) ( ۳ ؎القرآن الکریم ۳۱/ ۲۶)
( ۴ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱) ( ۵ ؎ القرآن الکریم ۱۹/ ۶۵ ) ( ۶ ؎ القرآن ا لکریم ۱۱۲/ ۴)
ان مطالب کی آیتیں صدہا ہیں، یہ آیاتِ محکمات ہیں، یہ اُم الکتاب ہیں، ان کے معنی میں کوئی خفا و اجمال نہیں، اصلاً دقت واشکال نہیں جو کچھ ان کے صریح لفظوں سے بے پردہ روشن وہویدا ہے بے تغیر وتبدیل بے تخصیص وتاویل اس پر ایمان لانا ضروریاتِ دین اسلام سے ہے، وباﷲ التوفیق ۔
آیاتِ متشابہات کے باب میں اہلسنت کا اعتقاد
قال اﷲ تعالٰی
(اﷲ تعالٰی نے فرمایا):
ھو الذی انزل علیک الکتٰب منہ اٰیت محکمٰت ھن ام الکتٰب و اٰخرمتشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ oومایعلم تاویلہ الا اﷲ م و الراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکرالا اولوالالباب ۔۱
(موضح القرآن میں اس کا ترجمہ یوں ہے۔ وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں پکی ہیں سو جڑ ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی، سوجن کے دل ہیں پھرے ہوئے وہ لگتے ہیں ان کے ڈھب والیوں سے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں اُن کی کل بیٹھانی ، اور ان کی کل کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں سوکہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور سمجھائے وہی سمجھے ہیں جن کو عقل ہے۔۲
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
( ۲ ؎ موضح القرآن ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور ص ۶۲)
اور اس کے فائدے میں لکھا : اللہ صاحب فرماتا ہے کہ ہر کلام میں اﷲ نے بعضی باتیں رکھی ہیں جن کے معنی صاف نہیں کھلتے تو جو گمراہ ہو اُن کے معنی عقل سے لگے پکڑنے اور جو مضبوط علم رکھے وہ ان کے معنی اور آیتوں سے ملا کر سمجھے جو جڑ کتاب کی ہے اس کے موافق سمجھ پائے تو سمجھے اور اگر نہ پائے تو اﷲ پر چھوڑ دے کہ وہی بہترجانے ہم کو ایمان سے کام ہے ۳انتہی۔
( ۳؎ موضح القرآن ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور ص ۶۲)
اقول: ( میں کہتا ہوں ، ت) بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید اتارا ہے ہدایت فرمانے اور بندوں کو جانچنے آزمانے کو،
یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیر اً ۔۴
اسی قرآن سے بہتوں کو گمراہ فرمائے اور بہتیروں کو راہ دکھائے۔
( ۴ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۶)
اس ہدایت وضلالت کا بڑا منشا قرآن عظیم کی آیتوں کا دو قسم ہونا ہے: محکمات جن کے معنی صاف بے دقت ہیں جیسے ا ﷲ تعالٰی کی پاکی و بے نیازی و بے مثلی کی آیتیں جن کا ذکر اوپر گزرا، اور دوسری متشا بہات جن کے معنٰی میں اشکال ہے یا تو ظاہر لفظ سے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا جیسے حروفِ مقطعات الم وغیرہ یا جو سمجھ میں آتا ہے وہ اﷲ عزوجل پر محال ہے، جیسے
الرحمن علٰی العرش استوی ۔۵
(وہ بڑا مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت)
یا ثم استوٰی علی العرش ۔۶
(پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت)
( ۵ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۵)( ۶ ؎ القرآن الکریم ۷/ ۵۴ و ۱۰/ ۳ وغیرہ )
پھر جن کے دلوں میں کجی و گمراہی تھی وہ تو ان کو اپنے ڈھب کا پاکر ان کے ذریعہ سے بے علموں کو بہکانے اور دین میں فتنے پھیلانے لگے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہے اﷲ عرش پر بیٹھا ہے، عرش پر چڑھا ہوا ہے، عرش پر ٹھہر گیا ہے۔ اور آیاتِ محکمات جو کتاب کی جڑ تھیں اُن کے ارشاد دل سے بھلادیئے حالانکہ قرآن عظیم میں تو استواء آیا ہے اور اس کے معنی چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا، ہونا کچھ ضرور نہیں یہ تو تمہاری اپنی سمجھ ہے جس کا حکم خدا پر لگا رہے۔
ما انزل اﷲ بھا من سلطٰن ۔۱
(اللہ تعالٰی نے اس پر کوئی دلیل نازل نہ فرمائی۔ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۴۰)
اگر بالفرض قرآن مجید میں یہی الفاظ چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا آتے تو قرآن ہی کے حکم سے فرض قطعی تھا کہ انہیں ان ظاہری معنی پر نہ سمجھو جو ان لفظوں سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں کہ یہ کام تو اجسام کے ہیں اور اﷲ تعالٰی جسم نہیں مگر یہ لوگ اپنی گمراہی سے اسی معنی پر جم گئے انہیں کو قرآن مجید نے فرمایا۔
الذین فی قلوبھم زیغ ۔۲
ان کے دل پھرے ہوئے ہیں۔
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳ /۷)
اور جو لوگ علم میں پکے اور اپنے رب کے پاس سے ہدایت رکھتے تھے وہ سمجھے کہ آیات محکمات سے قطعاً ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی مکان وجہت و جسم و اعراض سے پاک ہے بیٹھنے، چڑھنے، بیٹھنے سے منزہ ہے کہ یہ سب باتیں اس بے عیب کے حق میں عیب ہیں جن کا بیان ان شاء اللہ المستعان عنقریب آتا ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے ان میں اللہ عزوجل کے لیے اپنی مخلوق عرش کی طرف حاجت نکلے گی اور وہ ہر احتیاج سے پاک ہے ان میں مخلوقات سے مشابہت ثابت ہوگی کہ اٹھنا، بیٹھنا، چڑھنا، اترنا، سرکنا ٹھہرنا اجسام کے کام ہیں اور وہ ہر مشابہت خلق سے پاک ہے تو قطعاً یقیناً ان لفظوں کے ظاہری معنی جو ہماری سمجھ میں آتے ہیں ہر گز مراد نہیں، پھر آخر معنی کیا لیں۔ اس میں یہ ہدایت والے دوروش ہوگئے۔
اکثر نے فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں، یہی بہتر کہ اس کا علم اﷲ پر چھوڑیں ہمیں ہمارے رب نے آیاتِ متشابہات کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں، اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ
امنا بہ کل من عند ربنا ۔۳
جو کچھ ہمارے مولٰی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے،
(۳ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
یہ مذہب جمہورائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم واولٰی ہے اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں، ان ائمہ نے فرمایا استواء معلوم ہے کہ ضرور اللہ تعالٰی کی ایک صفت ہے اور کیف مجہول ہے کہ اس کے معنی ہماری سمجھ سے وراء ہیں، اور ایمان اس پر واجب ہے کہ نص قطعی قرآن سے ثابت ہے اور سوال اس سے بدعت ہے کہ سوال نہ ہوگا مگر تعیین مراد کے لیے اور تعین مراد کی طرف راہ نہیں اور بعض نے خیال کیا کہ جب اﷲ عزوجل نے محکم متشابہ دو قسمیں فرما کر محکمات کو
ھنّ ام الکتب۱
فرمایا کہ وہ کتاب کی جڑ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فرع اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے تو آیہ کریمہ نے تاویل متشا بہات کی راہ خود بتادی اور ان کی ٹھیک معیار ہمیں سجھادی کہ ان میں وہ درست وپاکیز ہ احتمالات پیدا کرو جن سے یہ اپنی اصل یعنی محکمات کے مطابق آجائیں اور فتنہ و ضلال و باطل و محال راہ نہ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے نکالے ہوئے معنی پر یقین نہیں کرسکتے کہ اللہ عزوجل کی یہی مراد ہے مگر جب معنی صاف و پاکیزہ ہیں اور مخالفت محکمات سے بری و منزہ ہیں اور محاورات عرب کے لحاظ سے بن بھی سکتے ہیں تو احتمالی طور پر بیان کرنے میں کیا حرج ہے اور اس میں نفع یہ ہے کہ بعض عوام کی طبائع صرف اتنی بات پر مشکل سے قناعت کریں کہ انکے معنی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور جب انہیں روکا جائے گا تو خواہ مخواہ ان میں فکر کی اور حرص بڑھے گی۔
ان ابن ادم(عہ) لحریص علٰی مامنع ۲
انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے وہ اس پر حریص ہوتا ہے۔(ت)
عہ: رواہ الطبرانی ۳ ومن طریقہ الدیلمی عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
اس کو طبرانی نے روایت کیا اور دیلمی نے طبرانی کے طریق پر ابن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔(ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
( ۲ ؎ الفردوس بماثورالخطاب حدیث ۸۸۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۳۱)
( ۳ ؎ کشف الخفاء بحوالہ الطبرانی حدیث ۶۷۴ ۱/ ۱۹۹)
اور جب فکر کریں گے فتنے میں پڑیں گے گمراہی میں گریں گے، تو یہی انسب ہے کہ ان کی افکار ایک مناسب و ملائم معنی کی طرف کہ محکمات سے مطابق محاورات سے موافق ہوں پھیردی جائیں کہ فتنہ و ضلال سے نجات پائیں یہ مسلک بہت علمائے متاخرین کا ہے کہ نظر بحال عوام اسے اختیار کیا ہے اسے مسلک تاویل کہتے یہ علماء بوجوہ کثیر تاویل آیت فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس و واضح ہیں۔