Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹(کتاب الشتّٰی )
15 - 157
مسئلہ ۴۸ : از کانپور نئی سڑک مسجد حاجی شکر اﷲ مرحوم مرسلہ امام الدین صاحب ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ

زید خدا کی شان میں یہ کلماتِ توہینیہ کہتا ہے گویا ابتو خدا اچھا خاصا ربڑ ہوگیا ۔ آیا زید خدا کی شان میں ایسے کلمات توہینیہ کہنے سے کافر ہوگیا یا مسلمان رہا؟ مجھے چونکہ بجز حضور کی تحقیقات علمیہ کے تسکین نہیں ہوتی اس واسطے عریضہ خدمت میں روانہ کیا جاتا ہے ۔
الجواب : ایسے مجمل گول مول سوال پر کوئی حکم نہیں ہوسکتا، لفظ ابتو صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ کسی بات پر تفریع ہے وہ بات کیا تھی اور اس کا قائل یہ تھا یا دوسرا، مثلاً کسی کافر یا مرتدیا منافق خبیث نے اپنے معبود کے لیے کوئی بات ایسی کہی جس سے اس کا پھیلنا سمٹنا ثابت ہو، یا اسی قدر کہ یہ ناپاک تغیرات اس کی شان سے ٹھہریں اس پر کسی مسلمان نے اس اندھے کافر کی آنکھیں کھولنے کو یہ تنبیہ کی تو توہین اس کافر مرتد نے کی نہ کہ اس مسلمان نے ، غرض اس میں بہت صورتیں ہوسکتیں ہیں۔ مفصل بات کہی جائے تو حکم دیا جائے، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۹ : ازتیلن پاڑہ اندرون باڑی عجب میاں ضلع ہگلی مرسلہ سلطان احمد خاں مرزا پوری ۱۵ جمادی الاخرے ۱۳۳۶ھ

 لولاک لما خلقت الافلاک  ۔۱؂
کو علمائے دین ہمیشہ سے محفل میلاد شریف میں بیان کرتے آئے اور اب بھی بیان کرتے ہیں اور اکثر علمائے دین نے برسرِ مجلس اس حدیث کو بتلایا کہ یہ حدیث قدسی ہے اور بہت سی اردو میلاد کی کتابوں میں یہی لکھا ہے اور تمام دنیا کے میلاد خواں اسی کو پڑھتے ہیں مگر کسی عالم نے کبھی اس کی نسبت کچھ اعتراض نہ کیا اورمولانا غلام امام شہید کے میلاد شریف شہیدی میں یہی حاشیہ پر لکھا ہے کہ حدیثِ قدسی ہے، اسی طرح بہت سی اردو کی میلاد کی کتابوں میں ہے، اور لغاتِ کشوری میں بھی لکھا ہے کہ قدسی ہے، برعکس اس کے مولانا محمد یعقوب صاحب نے اس حدیث کی بابت بیان کیا ہے کہ یہ حدیث قدسی نہیں ہے اور نہ کسی حدیث میں ہے، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر بزرگان دین سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ اس کے معنی صحیح ہیں۔ اس حدیث کی نسبت جو کچھ حکم خدا و رسول کا ہو بیان فرمائیں۔
 ( ۱ ؎ کشف الخفاء  حدیث  ۲۱۲۱ دارالکتب العلمیہ بیروت  ۲/ ۱۴۸)
الجواب 

یہ ضرور صحیح ہے کہ اﷲ عزوجل نے تمام جہان حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے بنایا اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیث کثیرہ سے ثابت ہے جن کا بیان ہمارے رسالہ
  تلالؤ الا فلاک بحلال احادیث لولاک
میں ہے اور انہی لفظوں کے ساتھ شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی نے اپنی بعض تصانیف میں لکھی مگر سنداً ثابت یہ لفظ ہیں۔
خلقت الدنیا واھلہالاعرفہم کرامتک ومنزلتک عندی ولولاک یا محمد ماخلقت الدنیا  ۔۲؂
 ( یعنی اﷲ عزوجل اپنے محبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ) میں نے دنیا اور اہل دنیا کو اس لیے بنایا کہ تمہاری عزت اور مرتبہ جو میری بارگاہ مہں ہے ان پر ظاہر کروں، اے محمد ! اگر تم نہ ہوتے میں دنیا کو نہ بتاتا۔
 (۲ ؎ تاریخ دمشق الکبیر ذکر عروجہ الی السماء   داراحیاء التراث العربی بیروت   ۳ / ۲۹۷)
اس میں تو فقط افلاک کا لفظ تھا اس میں ساری دنیا کو فرمایا جس میں افلاک و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب داخل ہیں، اسی کو حدیث قدسی کہتے ہیں کہ وہ کلامِ الہی جو حدیث میں فرمایا گیا ایسی جگہ لفظی بحث پیش کرکے عوام کے دلوں میں شک و شبہہ ڈالنا اور ان کے قلوب کو متزلزل کرنا ہر گز مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں، 

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الدین النصح لکل مسلم  ۔۱؂
دین یہ ہے کہ آدمی ہر مسلمان کی خیر خواہی کرے واﷲ تعالٰی اعلم۔
 ( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الدین النصیحۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳)

(صحیح مسلم کتاب الایمان      باب بیان ان الدین النصیحۃ            قدیمی کتب خانہ کراچی         ۱/ ۵۴ و۵۵)
مسئلہ ۵۰ : ازقدمتلی پوسٹ بانچہ رام پور ضلع تپرہ         مرسلہ طالب علی صاحب  ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ

ذاتِ باری تعالٰی کو فقط عرش ہی پر سمجھے اور ماسوا فوق العرش کسی کو مخلوقات الہی سے بے ذات باری تعالے محیط نہ جاننا بلکہ یہ کہنا کہ فقط علم الہی ساری اشیاء کو محیط ہے اور ذات اس کی فقط عرش ہی پر ہے اور دوسری جگہ نہیں، یہ عقیدہ اہل سنت کا ہے یا نہیں؟ اور جو معتقد اس عقیدے کا ہو نماز پیچھے اس کے ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
واینہم تحریر فرمایند کہ ایشایان ایں عقیدہ را منسوب بحنابلہ مے گویند فی الحقیقت عقائد حنابلہ ہمچنین ست یانہ ؟
اور یہ بھی تحریر فرمائیں کہ لوگ اس عقیدے کو حنابلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، کیا درحقیقت عقائد حنابلہ ایسے ہیں یا نہیں؟(ت)
ھو المصوب ذاتِ پروردگار کو عرش پر سمجھنا بدوں بیان کیفیت استوااور اس کے علم کو محیط تمام عالم سمجھنا اور آیت معیت و قرب وغیرہ کو قرب و معیت علمی پر حمل کرنا مذہب اہلسنت کا ہے اور معتقد اس مذہب کے پیچھے نماز درست ہے بلا کراہت،
شرح حکمت نبویہ میں ہے:
نعتقد انہ علی العرش مستو علیہ استواء منزھا عن التمکن والا ستقرار ، و انہ فوق العرش مع ذٰلک ھو قریب من کل موجود وھو ا قرب من حبل الورید ولا یماثل قربہ قرب الاجسام ۲ ۔اھ
ہمارا اعتقادیہ ہے کہ اﷲ تعالٰی عرش پر ایسے استواء کے ساتھ مستوی ہے جو تمکن وا ستقرار سے منزہ ہے، اور عرش پر جلوہ گر ہونے کے باوجود وہ ہر موجود کے نزدیک اور شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کا قرب اجسام کے قُرب کی مثل نہیں ہے۔ ا ھ (ت)
 ( ۲ ؎ شرح حکمت نبویہ )
اور سیرالنبلا میں ہے:
قال اسحٰق بن راھویۃ اجمع اھل العلم علی انہ تعالٰی علی العرش استوی وھو یعلم کل شیئ فی اسفل الارض السابعۃ  ۔۱؂ انتہی
اسحاق بن راہویہ نے کہا : تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی نے عرش پر استواء فرمایا اور وہ ساتویں زمین کے نیچے ہر شیئ کو جانتا ہے ۔ انتہی(ت)
 ( ۱ ؎ سیراعلام النبلاء ترجمہ  اسحاق بن راہویۃ ۷۹ مؤسسۃ الرسالۃ بیرت ۱۱/ ۳۷۰)
اور جامع ترمذی میں بعد ذکرِ حدیث:
  لوانکم دلیتم اجلاً بحبل الی الارض السفلی لھبط علی اﷲ ثم قرأ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھو الاول والاخر والظاھر و الباطن وھو بکل شیئ علیم  ۔۲؂
اگر تم کوئی رسیّ نیچے والی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ اللہ کے پاس پہنچے گی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی  وہی اول، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن ، اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(ت)

مرقوم ہے:
قرأۃ الاٰیۃ تدل علٰی انہ ارادبھبط علی اﷲ علٰی علم اﷲ وقدرتہ وسلطانہ وعلم اﷲ فی کل مکان وھو علی العرش کما وصف فی کتابہ  ۔۳؂
آیتِ کریمہ کی تلاوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسی کے اللہ تعالٰی کے پاس پہنچے سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالٰی کے علم، قدرت اور سلطنت میں پہنچی ہے۔ اور اﷲ تعالٰی کا علم ہر جگہ ہے جب کہ وہ خود عرش پر ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں خود اپنا یہ وصف بیان فرمایا ہے۔(ت)
 (۲ ؎  جامع الترمذی     ابواب التفسیر سورۃ الحدید        امین کمپنی دہلی        ۲/ ۱۶۲)

( ۳ ؎  جامع الترمذی     ابواب التفسیرسورۃ الحدید        امین کمپنی             ۲/ ۱۶۲)
اور یہ جو مشہور ہے کہ یہ مذہب حنابلہ کا ہے، غلط ہے۔ بلکہ یہ مذہب جمہور محققین حنفیہ و شافعیہ و مالکیہ وحنابلہ و محدثین وغیرہم کا ہے البتہ بعض حنابلہ استواء مع بیان الکیفیت کے قائل ہوگئے ہیں اور استقرار پر پروردگار کو مثل استقرار مخلوقات کے سمجھتے ہیں یہ مذہب مردود ہے،
والتفصیل یتدعی بسطا بسیطاوفیما ذکرناہ کفایۃ، واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب
( اور تفصیل بہت زیادہ وسعت کو چاہتی ہے جب کہ ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس میں کفایت ہے اور اﷲ تعالٰی درست بات کو خوب جانتا ہے۔ت)
حررہ، محمد کرامت علی عفی عنہ
الجواب 

حاشاﷲ ! یہ ہر گز عقیدہ اہلسنت کا نہیں ، وہ مکان و تمکن سے پاک ہے، نہ عرش اس کا مکان ہے نہ دوسری جگہ، عرش و فرش سب حادثات ہیں، اور وہ قدیم ازلی ابدی سرمدی جب تک یہ کچھ نہ تھے کہاں تھا، جیسا جب تھا ویسا ہی اب ہے اور جیسا اب ہے ویسا ہی ابدالآباد تک رہے گا۔ عرش و فرش سب متغیر ہیں، حادث ہیں، فانی ہیں، اور وہ اور اس کی صفات تغیرو حدوث وفنا سب سے پاک،استواء پر اجماع نقل کرنے کی کیا حاجت ،
خود رحمن عزوجل فرماتا ہے:
  الرحمن علی العرش استٰوی  ۔۱؂
وہ بڑا مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔(ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۵)
مگر اعتقاد اہلسنت کا وہ ہے جو ان کے رب عزوجل نے راسخین فی العلم کو تعلیم فرمایا:
والراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوالالباب  ۔۲؂
اورو ہ پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے ، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔(ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
اعتقاد اہل سنت کا وہ ہے جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا:
الاستواء معلوم والکیف مجہول والایمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ  ۔۳؂
استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ، اور اس پر ایمان واجب، اور اس کی تفتیش گمراہی۔
 ( ۳ ؎ الدرالمنثور     تحت الآیۃ     ۷/ ۵۴    داراحیاء التراث العربی بیروت         ۳/ ۴۲۹)

(فتح الباری کتاب التوحید باب قولہ وکان عرشہ علے الماء      مصطفی البابی مصر     ۱۷/ ۱۷۷)
اہلسنت کے دو مسلک آیاتِ متشابہات میں ہیں سلف صالح کا مسلک تفویض کا ، ہم نہ ان کے معنی جانیں نہ ان سے بحث کریں جو کچھ ان کے ظاہر سے سمجھ میں آتا ہے، وہ قطعاً مراد نہیں اور جو کچھ ان کے رب عزوجل کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔
امنّا بہ کل من عندربنا  ۔۱؂
ہم سب اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔
 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۳/ ۷)
دوسرا مسلک متاخرین کا کہ حفظ دین عوام کے لیے معنی محال سے پھیر کر کسی قریب معنی صحیح کی طرف لے جائیں، مثلاً استواء بمعنی استیلا بھی آتا ہے۔
قد استوی بشر علی العراق	من غیر سیف اودم مھرا ق  ۔۲؂
 ( تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا تلوار کے ساتھ خون بہائے بغیر۔ت)
 ( ۲ ؎ فتح الباری      کتاب التوحید باب قولہ وکان عرشہ علی الماء مصطفیٰ البابی مصر     ۱۷/ ۱۷۶)
مگر یہ مسلک باطل کہ آیات معیت تو تاویل پر محمول ہیں اور آیت استواء ظاہر پر یہ ہر گز مسلک اہل سنت نہیں، عرش پر ہے دوسری جگہ نہیں، یہ صاف تمکن کو بتارہا ہے عرش پر معاذ اﷲ اس کے لیے جگہ ثابت کی جب تو اور مکانات کی نفی کی،
عالمگیریہ ، طریقہ محمدیہ، حدیقہ ندیہ، تاتارخانیہ، خلاصہ ، جامع الفصولین، خزانۃ المفتین وغیرہا
میں تصریح ہے کہ رب عزوجل کے لیے کسی طرح کسی جگہ مکان ثابت کرنا کفر ہے۔ متاخرین  حنابلہ میں بعض خبثاء مجسمہ ہوگئے جیسے ابن تیمیہ وابن قیم، ابن تیمیہ کہتا ہے کہ میں نے سب جگہ ڈھونڈا کہیں نہ پایا اور معدوم ہے ان دونوں میں کچھ فرق نہیں یعنی جو کسی جگہ نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں لیکن رب عزوجل تو معاذ اﷲ ضرور کسی جگہ ہے، اس احمق سفیہ کو اگر مادی اور مجردعن المادہ کا فرق نہ معلوم ہو تو وہ سیف قاطع جو اوپر ہم نے ذکر کی اس کی گردن کاٹنے کو کافی جگہ حادث ہے جب جگہ تھی ہی نہیں کہاں تھا وہ شاید یہ کہے گا کہ جب جگہ نہ تھی وہ بھی نہ تھا یا یہ کہے گا کہ جگہ بھی قدیم ازلی ہے اور دونوں کفر ہیں جب اُس کا معبود اس کے نزدیک بغیر کسی جگہ میں موجود ہوئے نہیں ہوسکتا تو جگہ کا محتاج ہوا، اور جو محتاج ہے اللہ نہیں تو حقیقۃً ان پر انکار خدا ہی لازم ہے ایسے عقیدے والے کے پیچھے نماز ممنوع و ناجائز ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter