مسئلہ ۴۱ تا ۴۶ : از شہر عقب کو توالی مسئولہ عزیز الدین صاحب پیشکار ۱۳ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کی والدہ ماجدہ کا نکاح بعد ولادتِ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے یوسف نجارحضرت مریم کے خالہ زاد بھائی سے ہوا ہے یا نہیں؟
(۲) حضرت مریم نبیہ ہیں یا نہیں؟
(۳) اب کے پیغمبر زندہ ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟
(۴) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیا چوتھے آسمان پر ہیں؟
(۵) ایک شخص زندہ ہونے پیغمبروں کا قائل نہیں ہے اور آیت
قد خلت من قبلہ الرسل ۔۱
(ان سے پہلے رسول ہوچکے۔ت) کہ استدلال میں لاتا ہے، اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
(۶) اور اُسی کا یہ قول ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اگر اُتر یں گے تو وہ رسول ہوں گے یا نہیں اور اگر وہ رسول نہ ہوں اوراُمتِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے اُس وقت ہوں تو خلاف کلام پاک ہوگا کہ اﷲ تعالٰی کسی کی رسالت نہ چھینے گا، اور کیا ان کی امت بلا رسول کے رہ جائے گی ؟
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵/ ۷۵)
الجواب :
(۱) شرع مطہر میں اس کا کہیں ثبوت نہیں، نصارٰی کے یہاں بھی صرف منگیتر لکھا ہے ہاں وہ جنت میں حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہوں گی، کمافی الحدیث ۔
(۲) نہیں، کوئی عورت نبیہ نہیں۔
(۳ ) ہاں بایں معنی کہ اب تک لحوقِ موت اصلاً نہ ہوا چار نبی زندہ ہیں: عیسٰی و ادریس علیہما الصلوۃ والسلام آسمان پر، اور الیاس و خضر علیہما الصلوۃ والسلام زمین پر۔
شرح مقاصد میں ہے:
ذھب الیہ العظماء من العلماء ان ربعۃ من انبیاء فی زمرۃ الاحیاء الخضر والیاس فی الارض وعیسی وادریس فی السماء علیہم الصلوۃ والسلام ۱۔
بزرگ علماء اس طرف گئے ہیں کہ چار انبیاء زندوں کے زمرہ میں ہیں، حضرت خضر اور الیاس علیہما الصلوۃ والسلام زمین میں جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہما الصلوۃ والسلام آسمان پر (ت)
( ۱ ؎ شرح المقاصد الحسنہ الفصل الرابع المبحث السابع دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۳۱۱)
(۴) حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شبِ اسرٰی انہیں آسمانِ دوم پر پایا استقبال سرکار و اقتداء حضور کے لیے تمام انبیاء کرام علیہ وعلیہم افضل الصلوۃ والسلام اوّلاً بیت المقدس میں جمع ہوئے پھر ہر نبی کو ان کے محل میں دیکھا اس سے ظاہر یہ کہ مقامِ سیدنا مسیح علیہ السلام آسمانِ دوم ہے اور مشہور چہارم، واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۵) حیاتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء کا منکر گمراہ بددین ہے اور خلت سرے سے طریان موت پر بھی دلیل نہیں ، نہ کہ معاذ اﷲ استمرار موت یہ لفظ صرف انقضائے عہد پر دال ہے جیسے بلاتشبیہ یہ کہنا کہ سلطان محمد خاں خامس سے پہلے اتنے سلاطین ہو گزرے اس سے یہ نہ سمجھا جائے گا کہ سلطان حمید خان زندہ ہی نہیں۔
انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سب بجیاتِ حقیقی دنیاوی جسمانی زندہ ہیں۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون ۔۱
انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔(ت)
،ان اﷲ حرّم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزق ۔۳
بے شک اﷲ تعالٰی نے نبیوں کے جسم کو کھانا ز مین پر حرام کردیا ہے چنانچہ اﷲ تعالٰی کا نبی زندہ ہوتا ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے۔ت)
(۳ ؎ سنن ابن ماجہ ابواب الجنائز باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۱۹)
(۶) حاشا نہ کوئی رسول رسالت سے معزول کیا جاتا ہے نہ سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام رسالت سے معزول ہوں گے،نہ حضور کا امتی ہونا رسالت کے خلاف، وہ قبلِ نزول اپنے عہد میں بھی ہمارے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے امتی تھے اور بعد رفع بھی اُمتی ہو کر اتریں گے، تمام انبیاء و مرسلین اپنے عہد میں بھی حضور کے امتی تھے اور اب بھی امتی ہیں، جب بھی رسول تھے اور اب بھی رسول ہیں کہ ہمارے حضور نبی الانبیاء ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی: لتؤمنن بہ ولتنصرنہ ۔۱
( تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۸۱)
ہاں اس وقت وہ اپنی شریعت پر حکم فرماتے تھے اب کہ شریعتِ محمدیہ صلی اللہ علی صاحبہا افضل الصلوۃ والتحیہ نے اگلی شریعتیں منسوخ فرمادیں۔ ایک حضرت مسیح نہیں جو کوئی رسول بھی اب ظاہر ہو شریعت محمدیہ پر ہی حکم کرے گا، منسوخ پر حکم باطل،
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر موسٰی میرا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انہیں کچھ گنجائش نہ ہوتی ۔۲
(۲ ؎ مسند احمد بن حنبل عن جابر بن عبداﷲ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۳۸۷)
(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الاول عالم الکتب بیروت الجزء الاول ص ۸)
اور اس کا کہنا ان کی امت بلا رسول کے رہ جائے گی اس کی سخت جہالت پر دلیل ہے اور اگر سمجھ کر کہے تو اس کی نصرانیت ، کیا اب نصرانی امتِ مسیح ہیں، کیا اب وہ ان کے دین پر ہیں،حاشا
کبرت کلمۃ تخرج من افواھم ۔۳
( کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے مونہوں سے نکلتا ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
( ۳ ؎ القرآن الکریم ۱۸/ ۵)
مسئلہ ۴۷: از بریلی مدرسہ اہلسنت و جماعت مسئولہ مولوی شفیع احمد صاحب مبسیلپوری طالب علم مدرسہ مذکور ۱۴ جمادی الاولی ۱۳۳۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسلم الثبوت میں جو یہ دو مذہب بیان کیے ہیں یہ باطل و مردود ہیں یا نہیں؟ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف آزاد خیال شخص ہیں پہلے کی بنا پر ارادہ میں عبد مختار محض ہوا دوسرے کی بنا پر افعال قلوب جزئیہ کا خالق ہوا۔ عبارت یہ ہے:
وقیل بل موجود فیجب تخصیص القصدالمصمم من عموم الخلق بالعقل ۱۔
اور کہا گیا ہے بلکہ قصد موجود ہے چنانچہ نصوص خلق کے عموم سے بندے کے مصمم ارادہ کی تخصیص بقرنیہ عقل واجب ہے (ت)
وعندی مختار بحسب الادراکات الجزئیۃ الجسمانیۃ مجبور بحسب العلوم الکلیۃ العقلیۃ ۔۲
اور میرے نزدیک بندہ ادراکات جزئیہ جسمانیہ کے اعتبار سے مختار اور علوم کلیہ عقلیہ کے اعتبار سے مجبور ہے۔(ت)
( ۲ ؎ مسلم الثبوت فائدۃ عندالجہمیۃ لاقدرۃ فی العبداصلا المطبع الانصاری دہلی ص ۹)
الجواب : پہلا مذہب باطل ہے، اس کا رَد فقیر کے رسالہ القمع المبین میں ہے۔ مذہب دوم محض مہمل و بے معنی ہے جس کا اصلاً کوئی محصل نہیں، مصنف سُنیّ حنفی ہیں آزاد خیال نہیں مگر اس بحر خونخوار میں غوطہ زنی سے ممانعت فرمائی گئی تھی اُس پر جرات باعثِ لغزش و زلت ہوئی اور ہونی ہی تھی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔