Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹(کتاب الشتّٰی )
13 - 157
مسئلہ ۳۹و۴۰ : از موضع درؤ ضلع نینی تال مرسلہ مٹھو نورباف ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ

اﷲ تعالٰی کا جو فرمان ہے وہ کلام پاک ہے ، اس میں سب فیصلے موجود ہیں، اس سے کوئی فیصلہ بچا نہیں ہے، اب اماموں کا جو اختلاف ہے وہ کس بنا پر ہے؟ ایک فعل حرام اور کسی کے یہاں وہی فعل حلال ہے اور کسی کے یہاں وہی فعل فرض اور کسی کے یہاں وہی فعل سنت ، بعض کے یہاں واجب ، مثلاً ایک فعل امام شافعی کے یہاں جائز ہے اور ہمارے امام اعظم رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے یہاں ناجائز ، اور کچھ لوگ اس فعل کو کرتے ہیں اور ہم بچتے ہیں، اور یہ بھی سُنا ہے کہ خدا کے حرام کو حلال جاننے والا کافر، اور یہ بھی سُنا ہے کہ غیر مقلد کے پیچھے نماز ناجائز نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، حضور اس کی تسکین ہو۔
دوسرے یہ کہ جناب باری نے اپنے محبوب کو سب مراتب عنایت فرمائے ہیں اکثر وہابیہ کا جھگڑا سُننے کو ملتا ہے تو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی مثال پیش کرتے ہیں تہمت والی،میرے حضور ! گزارش یہ ہے کہ بعض موقع پر جنابِ باری کی طرف سے پردہ ہوتا تھا یا کیا؟
الجواب : قرآن عظیم میں بے شک سب کچھ موجود ہے مگر اُسے کوئی نہ سمجھ سکتا اگرحدیث اس کی شرح نہ فرماتی۔
قال اﷲ تعالٰی:  لتبین للناس مانزل الیھم  ۔۱؂
تاکہ تم لوگوں سے بیان کردو جو اُن کی طرف اُترا(ت)
 ( ۱ ؎ القرآن الکریم         ۱۶ /۴۴)
اور حدیث بھی کوئی نہ سمجھ سکتا اگر ائمہ مجتہدین اس کی شرح نہ فرماتے، ان کی سمجھ میں مدارج مختلف ہیں، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
  ربّ مبلّغ یبلغہ اوعی لہ من سامع  ۔۲؂
بہت سے لوگ جن تک بات پہنچائی جاتی وہ سننے والے سے زیادہ اس کو یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔(ت)
( ۲ ؎ سنن ابن ماجہ             باب من بلغ علماً            ایچ ایم سعید کمپنی کراچی             ص ۲۱)
اور فرماتے ہیں:
  ربّ حامل فقہ الٰی من ھو افقہ منہ ۔۳؂
بہت سے فقہ اُٹھانے والوں سے وہ زیادہ فقیہ ہوتا ہے جس کو وہ پہنچاتے ہیں۔(ت)
 ( ۳ ؎ جامع الترمذی ابواب العلم   باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع  امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۰)

(سنن ابن ماجہ             باب من بلغ علماً             ایچ ایم سعید کمپنی کراچی             ص ۲۱)
اس تفقّہ فی الدین میں اختلافِ مراتب باعثِ اختلاف ہوا اور ادھر مصلحت الہٰیہ احادیث مختلف آئیں، کسی صحابی نے کوئی حدیث سُنی اور کسی نے کوئی اور وہ بلاد میں متفرق ہوئے، ہر ایک نے اپنا علم شائع فرمایا ، یہ دوسرا باعثِ اختلاف ہوا۔ عبداﷲ بن عمر کا علم امام مالک کو آیا، اور عبداللہ بن عباس کا امام شافعی کو، اور افضل العباد لہ عبداﷲ بن مسعود کا علم ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ کو رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ، حلال کو حرام یا حرام کو حلال جاننا جو کفر کہا گیا ہے وہ ان چیزوں میں ہے جن کا حرام یا حلال ہونا ضروریاتِ دین سے ہے یا کم از کم نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہو۔ اجتہادی مسائل میں کسی پر طعن بھی جائز نہیں نہ کہ معاذ اﷲ ایسا خیال، غیر مقلدوں کے پیچھے نماز باطل محض ہے کہ اصلاً ہوتی ہی نہیں۔ اس کی تفصیل ہمارے رسالہ النہی الاکید میں ہے ان غیر مقلدوں پر بحکم فقہاء کرام ستر وجہ سے کفر لازم ہے او ر ان کے پیچھے نماز ہوسکنا کیا معنی۔
امام اعظم اعظم و امام ابویوسف و امام محمد رضی  اللہ تعالٰی عنہم فرماتے ہیں:
  لاتجوز الصلوۃ خلف اھل الاھواء  ۔۱؂
بدمذہبوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔(ت)
 ( ۱ ؎ فتح القدیر کتاب الصلوۃ  باب الامامۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱/ ۳۰۴)
اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر قرآن عظیم اتارا کہ ہر چیز ان پر روشن فرمادی۔
قال اﷲ تعالٰی:  نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ  ۔۲؂
ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔(ت)
 ( ۲ ؎  القرآن الکریم      ٥/ ٧٥)
قرآن عظیم تھوڑا تھوڑا کرکے تئیس ۲۳ برس میں نازل ہوا، جتنا قرآن عظیم اُترتا گیا، حضور پر غیب روشن ہوتا گیا، جب قرآن عظیم پورانازل ہوچکا روزِ اول سے روز آخر تک کا جمیع ماکان و مایکون کا علم محیط حضور کو حاصل ہوگیا۔ تمامی نزول قرآن سے پہلے اگر کوئی واقعہ کسی حکمت الہٰیہ کے سبب منکشف نہ ہوا ہو تو احاطہ علم اقدس کا منافی نہیں معہذا زمانہ افک میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی نے سکوت فرمایا جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور کو علم نہ تھا، اپنے اہل کی براء ت اپنی زبان سے ظاہر فرمانا یہ بہتر ہوتا یا یہ کہ
رب السموت والارض
نے قرآن کریم میں سترہ آیتیں ان کی براء ت میں نازل فرمائیں جو قیامِ قیامت تک مساجد و مجالس و مجامع میں تلاوت کی جائے گی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter