مسئلہ ۳۳ تا ۳۸ : ازکانپور محلہ روئی گودام مسجد حسینی مستری مرسلہ محمد یعقوب خان ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حضرات اولیاء اﷲ بعد وصال زندہ رہتے ہیں یا نہیں؟ اگر زندہ رہتے ہیں تو کوئی دلیل قطعی ان کی حیاتِ ابدی پر ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں زندہ رہتے تو اس پر کوئی برہان قاطع ہے یا نہیں؟
(۲) اولیاء اﷲ کے تصرفات اور انکے فیوض و انوار و برکات بعد وصال بھی موجود رہتے ہیں یا بعد موت ظاہری وہ سب ختم ہوجاتے ہیں؟ حاجتمندوں کا بزرگانِ دین کی درگاہوں سے فیضیاب ہونا برحق ہے اور اس پر کوئی دلیل شرعی ہے؟ اگر ہے تو کیا دلیل ہے اور اگر نہیں ہے تو کیا یہ سب محض توہمات ہیں؟ ان کے توہمات ہونے پر کیا دلیل ہے؟
(۳) بزرگانِ دین کی درگاہوں میں حاضر ہونا اور ان سے یہ کہنا کہ آپ مستجاب الدعوات اور مقبول بارگاہ ہیں ہمارے لیے دعا کیجئے کہ خداوند عالم ہماری وہ غرض پوری کردے شریعتِ غرا میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟ اگر اس کی کوئی اصل ہے تو کس کتاب میں ہے؟
(۴) اولیاء اﷲ کو مزارات پر جانے سے خبر ہوتی ہے یا نہیں؟ اور ان میں یہ احساس ہے تو بارگاہِ ذوالجلال میں عرض کرکے کسی مصیبت زدہ کی تکلیف اور مصیبت کا ازالہ کرادیں یا نہیں،
(۵) حضرت غوث اعظم پاک قدس سرہ کو دستگیر کہنا جائز ہے یا نہیں؟
(۶) حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کو غریب نواز کے لقب سے پکارنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ روح انسانی بعد موت بھی زندہ رہتی ہے، موت بدن کے لیے ہے روح کے لیے نہیں،
انما خلقتم للابد تم۱
ہمیشہ رہنے کے لیے بنائے گئے ہو۔
(۱ شرح الصدور باب فضل الموت خلافت اکیڈمی سوات ص ۵ )
امام جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں بعض ائمہ کرام سے نقل فرماتے ہیں کہ کسی نے ان کے سامنے موت و روح کا ذکر کیا ، فرمایا:
سبحن اﷲ ھذا قول اھل البدع ۲ سبحان اﷲ !
یہ بدمذہبوں کا قول ہے۔
(۲ شرح الصدور باب مقرالارواح خلافت اکیڈمی سوات ص ۱۰۶)
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
کل نفس ذائقہ الموت ۔۳
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔
(۳القرآن الکریم ۳/ ۱۸۵)
موت جب تک واقع نہ ہوئی معدوم کا مزہ کہاں سے آیا اور جب واقع ہوئی اگر روح مرجائے تو موت کا مزہ کون چکھے یوں ہی اہلسنت و جماعت کا اجماع اور صحیح حدیثوں کی تصریح ہے کہ ہر میت اپنی قبرپر آنے والے کو دیکھتا اور اس کا کلام سنتا ہے، موت کے بعد سمع بصر، علم ادراک، سب بدستور باقی رہتے ہیں بلکہ پہلے سے بہت زیادہ ہوجاتے ہیں، کہ یہ صفتیں روح کی تھیں اور روح اب بھی زندہ ہے پہلے بدن میں مقید تھی اور اب اس قید سے آزاد ہے، اولیائے کرام سے اس طرح عرض حاجت بلاشبہ جائز ہے،
امام اجل ثقی الملۃ والدین علی بن عبدالکافی سبکی قدس سرہ الملکی نے کتاب مستطاب شفاء السقام اور شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اشعۃ اللمعات اور دیگر اکابر نے اپنی تصنیفات میں ان مسائل کی تحقیق جلیل فرمائی۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں زیر آیہ کریمہ
والقمر اذااتسق
لکھتے ہیں:
بعضے از خواص اولیاء اﷲ را کہ آلہ جارحہ تکمیل وارشاد بنی نوع خود گردانیدہ انددریں حالت ہم تصرف دردنیا دادہ ، واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمی گردد و اویسیان تحصیل کمالات باطنی از آنہامے نمایند وارباب حاجات و مطالب حل مشکلات خود ازانہامی طلبند و مے یابند ۔۱
اﷲ تعالٰی کے بعض خاص اولیاء ہیں جن کو بندوں کی تربیت کاملہ اور رہنمائی کے لیے ذریعہ بنایا گیا ہے، انہیں اس حالت میں بھی دنیا کے اندر تصرف کی طاقت و اختیار دیا گیا ہے اور کامل وسعتِ مدارک کی وجہ سے ان کا استغراق اس طرف متوجہ ہونے سے مانع نہیں ہوتا۔ صوفیائے اویسیہ باطنی کمالات ان اولیاء اﷲ سے حاصل کرتے ہیں اور غرض مندو محتاج لوگ اپنی مشکلات کا حل ان سے طلب کرتے اور پاتے ہیں(ت)
سوختن گویا روح را بے مکان کردن است و دفن کردن گویا مسکنے برائے روح ساختن است بنا بریں ازا ولیائے مدفونین و دیگر صلحائے مومنین انتفاع واستفادہ جاری ست و آنہا راافادہ اعانت نیز متصور ۔۲؎
جلادینا گویا کہ روح کو بے مکان کرنا ہے جب کہ دفن کرنا گویا کہ روح کے لیے ٹھکانا بنانا ہے۔ اسی سبب سے دفن شدہ اولیاء اﷲاور دیگر صلحائے مومنین سے نفع و فائدہ کا حصول جاری ہے اور ان کے لیے امداد و فائدہ رسانی بھی متصور ہے۔(ت)
مقامِ علیین بالائے ہفت آسمان ست وپائن آں متصل بسدرۃ المنتہی است و بالائے آں متصل بہ پایہ راست عرش مجید است و ارواحِ نیکاں بعد از قبض در آنجامی رسند و مقربان یعنی انبیاء و اولیاء دراں مستقرمی مانند، وعوام صلحاء ربرحسبِ مراتب در آسمان دنیا یا درمیان آسمان و زمین یا در چاہ زمزم قرار می دہند و تعلقے بقبر نیز ایں ارواح رامی باشد کہ بحضور زیارت کنندگان واقارب و دیگر دوستاں بر قبر مطلع و مستانس میگردند زیرا کہ روح را قرب و بعد مکانی مانع ایں دریافت نمی شود، و مثال آں دروجودِ انسانی روحِ بصری ست کہ ستارہ ہائے ہفت آسمان در ون چاہ مے توانددید ۔۱
مقام علیین ساتویں آسمانوں کے اوپر ہے، اس کا نچلا حصہ سدرۃ المنتہی اور اوپر والا عرش مجید کے دائیں پائے سے ملا ہوا ہے، نیک لوگوں کی روحیں قبض ہونے کے بعد وہاں پہنچتی ہیں، مقربین یعنی انبیاء و اولیاء تو وہیں برقرار رہتے ہیں جب کہ عام صالحین کو ان کے مراتب کے مطابق آسمانِ دنیا یا آسمانِ و زمین کے درمیان یا چاہ زمزم میں ٹھہراتے ہیں ان روحوں کا تعلق قبروں کے ساتھ بھی قائم رہتا ہے، چنانچہ وہ زیارت کے لیے قبر پر آنے والے عزیز و اقارب اور دوستوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے انس حاصل کرتے ہیں کیونکہ مکانی قرب و بعد روح کے لیے اس دریافت و علم سے مانع نہیں ہوتا، اس کی مثال انسانی وجود میں روحِ بصری ہے جو ساتویں آسمان کے ستاروں کو چاہ کے اندر دیکھ سکتی ہے۔(ت)
حیاتِ شہداء قرآن عظیم سے ثابت ہے اور شہداء سے علماء افضل، حدیث میں ہے۔ روز قیامت شہداء کا خون اور علماء کی دوات کی سیاہی تو لے جائیں گے علماء کی دوات کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آئے گی۔ ۲ ؎
اور علماء سےاولیاء افضل ہیں، تو جب شہداء زندہ ہیں اور فرمایا کہ انہیں مردہ نہ کہو، تو اولیاء کہ بدرجہا ان سے افضل ہیں ضرور ان سے بہتر حی ابدی ہیں، قرآن کریم کے ایجازات میں یہ بھی ہے کہ امرارشاد فرماتے ہیں اور اس سے اس کے امثال اور اس سے امثل پر دلالت فرمادیتے ہیں۔ جیسے:
لاتقل لہما اُفٍ ولا تنھر ھما ۔۳؎
ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا (ت)
( ۳؎ القرآن الکریم ۱۷ / ۲۳)
ماں باپ کو ہُوں کہنے سے ممانعت فرمائی جو کچھ ا سے زیادہ ہو وہ خود ہی منع ہوگیا، اور یہیں دیکھئے حیاتِ شہداء کی تصریح فرمائی اور حیاتِ انبیاء کا ذکر نہیں کہ اعلٰی خود ہی مفہوم ہوجائے گا اس دلالۃ النص میں اولیاء بلاشبہہ داخل۔
حضرت سیدناغوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ضرور دستگیر ہیں، اور حضرت سلطان الہند معین الحق والدین ضرور غریب نواز ، سیدنا ابوالحسن نورالدین بہجۃ الاسرار شریف میں سیدنا ابوالقاسم عمر بزاز قدس سرہ سے روایت فرماتے ہیں:
قال سمعت السیدالشیخ عبدالقادر الجیلی رضی اللہ تعالٰی عنہ یقول غیر مرۃ عثرا خی حسین الحلاج فلم یکن فی زمانہ من یاخذ بیدہ ولوکنت فی زمانہ لاخذت بیدہ وانا لکل من عثربہ مرکوبہ من اصحابی و مریدی و محبی الٰی یوم القیمۃ اخذبیدہ۱۔ والحمد ﷲ رب العلمین۔
یعنی میں نے اپنے مولٰی حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بار ہا فرماتے سنا میرے بھائی حسین حلاج کا پاؤں پھسلا ان کے وقت میں کوئی ایسا نہ تھا کہ ان کی دستیگری کرتا اس وقت میں ہوتا تو ان کی دستگیری فرماتا اور میرے اصحاب اور میرے مریدوں اور مجھ سے محبت رکھنے والوں میں قیامت تک جس سے لغزش ہوگی میں اس کا دستگیر ہوں۔
تمام مسلمانوں کی زبانوں پر حضور کا لقب غوث اعظم ہے یعنی سب سے بڑے فریاد رس شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبدالعزیز صاحب درکنار خود اسمعیل دہلوی نے جا بجا حضور کو غوث اعظم یاد کیا ہے یہ فریاد رسی و دستگیری نہیں تو کیا ہے،
حضرت شیخ مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں:
بعداز رحلت ارشاد پناہی قبلہ گاہی روزِ عید بزیارت مزار ایشآں رفتہ بوددراثنائے توجہ بمزار متبرک التفات تمام از روحانیت مقدسہ ایشاں ظاہر گشت و از کمال غریب نوازی نسبت خاصہ خود راکہ کہ بحضرت خواجہ احرار منسوب بود مرحمت فرمودند ۔۲ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مرشد گرامی کے وصال کے بعد عید کے روز ان کے مزار اقدس کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ۔ مزار مبارک کی طرف توجہ کے دوران مرشد گرامی کی روحانیت مقدسہ کا التفات تام ظاہر ہوا اور کمال غریب نوازی سے آپ نے وہ نسبت خاص عنایت فرمائی جو آپ کو حضرت خواجہ احرار علیہ الرحمۃ سے حاصل تھی۔(ت)
( ۲ ؎ مکتوبات مجدد الف ثانی مکتوب ۲۹۱ نولکشور لکھنو ۱/ ۴۱۳)