و روی ابن جر یر عن زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنہ سمعت رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقو ل الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فا رجمو ھما البتۃ فقا ل عمر رضی اللہ تعا لی عنہ لما نز لت اتیت النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم۱؎الحد یث۔
ساتواں جواب: ابن جر یر نے زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت کی میں نے آ پ کو فر ما تے ہو ئے سنا کہ بڑھیا بو ڑھے زنا کر یں تو انہیں ضر و ر سنگسا ر کر و ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا ۔(الحدیث)
(۱؎کنزالعما ل بحو الہ ابن جر یر حد یث ۱۳۴۸۲ مو سسۃ الر سا لہ بیروت ۵/۴۱۸)
قال ابن جر یر ھذا حد یث لا یعر ف لہ مخر ج عن عمر عن رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم بھذا اللفظ الا من ھذا الو جہ و ھو عند نا صحیح سندہ لا علۃ فیہ تو ھنہ ولا سبب یضعفہ لعد الۃ نقلتہ و قد یعل با ن قتا دۃ مد لس و لم یصر ح بالسما ع و التحد یث ۲؎، اھ
ابن جر یر نے کہا کہ اس حد یث کی کو ئی تخر یج عمر عن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم یعنی با یں الفا ظ سو ائے اس روا یت کے نہیں پھر بھی یہ حد یث ہما رے نز دیک صحیح اور مستند ہے اس میں کو ئی ایسا عیب نہیں جو اس حد یث کو کمزور کر ے تو ا س کے ضعیف ہو نے کا کو ئی را ستہ نہیں کہ یہ عا دل راویو ں سے مر وی البتہ اس میں ایک علت یہ بیا ن کی جا تی ہے کہ اس کے ایک راو ی حضر ت قتا دہ مد لس ہیں اور انہو ں نے نہ تو سما ع کی با ت کی نہ لفظاً حدثنا کہا ۔
(۲؎کنزالعما ل بحو الہ ابن جر یر حد یث ۱۳۴۸۲ مو سسۃ الر سا لہ بیر وت ۵/۴۱۸و۴۱۹)
وھذا اما م الحنفیۃ اما م الفقہا ء المحد ثین الحا فظ النا قد البصیر بعلل الحد یث الا ما م ابو جعفر احمد الطحا و ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ روی فی کتا ب الحجۃ فی فتح رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مکۃ حدیثین احدھما عن عکر مۃ قا ل لما وادع رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم اھل مکۃ ،والا خر حد یث الز ھر ی وغیر ہ قا ل کا ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم قد صا لح قر یشا ،الحد یثین بطو لہما ،قا ل بعد ہ فان قلتم ان حد یثی الز ھر ی و عکر مۃ الذین ذکر نا منقطعان قیل لکم وقد رو ی عن ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہما حد یث ید ل علی ما روینا ہ حد ثنا فھد بن سلیمن بن یحیی ثنا یو سف بن بہلو ل ثنا عبد اللہ بن ادریس حد ثنی محمد بن اسحق قا ل قا ل الزھر ی حد ثنی عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما الحد یث فی نحو ورقۃ کبیر ۃ قا ل فی اٰ خر ہ فھذا حد یث متصل الا سنا د صحیح ۱؎و معلو م ان ''قا ل فلا ن ''کعن فلا ن لعد م بیا ن السما ع فیھما ۔
آٹھو اں جواب : اما م الحنیفہ ،اما م الفقہاء و ا لمحد ثین ،حا فظ ،نا قد و بصیر ،اما م ابو جعفر احمد طحا و ی نے شر ح معانی الا ۤثا ر ''کتا ب الحجۃ فی فتح رسو ل اللہ مکۃ عنو ۃ ''میں دو حد یثیں روا یت کیں ایک حضر ت عکر مہ سے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب اہل مکہ سے رخصت ہو ئے اور دو سر ی حد یث اما م زہر ی وغیر ہ سے جس میں ہے کہ ''حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے اہل مکہ سے مصا لحت فر ما ئی ''یہ دو نو ں حد یثیں مکمل نقل فرما کر ارشا د فر ما یا کہ ''اگر کو ئی اعترا ض کر ے کہ زہر ی و عکر مہ کی مذکو رمنقطع ہیں ، ''فہد بن سلیمن ،
یو سف بن بہلو ل ،عبد اللہ بن ادریس ،محمد بن اسحق قا ل قا ل الزہر ی عبید ا للہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہ سے یہ حد یث بیا ن کی یہ حد یث حضر ت اما م طحا و ی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے بڑی طو یل ایک بڑے ورق کی مقد ا ر میں روا یت کر کے فر ما یا یہ حد یث متصل الا سنا د صحیح ہے حا لا نکہ سب کو معلو م ہے کہ اصطلا ح میں قا ل کا حکم لفظ عن کا ہے کیو نکہ دو نو ں میں سما ع کی تصر یح نہیں۔
(۱؎شر ح معا نی الا ثا ر کتاب الحجہ فی فتح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ عنو ۃ ایچ ایم کمپنی کرا چی ۲/۲۰۳تا۲۰۸)
قا ل الا ما م النو وی فی التقریب تد لیس الا سنا د با ن یر عی عمن عا صر ہ ما لم یسمعہ منہ مو ھما سما عہ قا ئلا :قا ل فلا ن او عن فلا ن و نحو ہ ۲؎،الا فی ما عنعنۃ ابن اسحق ان حکم ھذاقیل الا ما م الحجہ انہ متصل الا سنا د و انہ صحیح فقد رفع مکحو ل و ابو ا سحق السبیعی کلتا الشبھتین الکلا م فی ابن اسحق وعد التہ وا لا تیا ن من قبل عنعنۃ بلفظ الکریم الصر یح ،و للہ الحمد ۔
اور اما م نو وی نے تقر یب میں فر ما یا کہ ''تد لیس اسنا د یہ نہیں کہ را وی اس سے روا یت کر ے جس کا معا صر ہو جب تک اس سے خو د نہ سنے اور لفظ ایسے بو لے جس سے وہم ہو کہ راوی نے خو د اس سے سنا ہے جیسے قا ل فلا ں یا عن فلا ن مگر ان روا یتو ں میں جن کو محمد بن اسحا ق نے لفظ عن سے روا یت کیا ہو بیشک ان کی ایسی روا یت کا بھی حکم یہی ہے کہ وہ متصل الا سنا د اور صحیح ہیں ،وہ اما م حجۃ ہیں مکحو ل اور ابو اسحق سبیعی نے ان سے دو نو ں شبہو ں کو دفع کیا ہے ۔''
(۲؎التقر یب للنو وی مع تد ریب الرا وی النو ع الثانی عشر قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۸۶)
وھذااما منا ثا نی ائمہ مذھبنا الا ما م ابو یو سف رضی اللہ تعا لی عنہم قد اکثر فی کتا ب الخرا ج الاحتجا ج با حا دیث محمد بن اسحق معنعنۃ و غیر معنعنۃ و قد قا لو ا کما فی رد المحتا ر و غیر ہ ان المجتھد اذا استد ل بحد یث کا ن تصحیحا لہ فقد صحح الا ما م ابو یو سف احا دیث ابن اسحق و عنعنۃ کیف ؟ وقد ا در جھا فیما اوجب العمل بہ اذقا ل فی مبدء کتا بہ ان امیر المو منین ایدہ اللہ تعا لی سالنی ان اضع لہ کتا با جا معا یعمل بہ فی جبا یۃ الخرا ج و العشو ر والصدقات و الجو ا لی وغیر ہ ذالک مما یجب العمل بہ وقد فسر ت ذلک و شر حتہ ۱؎، اھ
ہما ر ے اما م مذہب ثا نی الا ئمہ قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے کثر ت کے سا تھ کتا ب الخرا ج میں ان حدیثوں سے استدلال فرمایا جوحضرت محمد بن اسحاق سے بصیغہ عن وبغیر عن مروی تھیں اور علما ئے حد یث نے تصر یح کی ہے (جیسا کہ رد المحتا ر وغیر ہ صحیفو ں میں ہے)کہ مجتہد کا کسی حد یث سے استد لا ل کر نا اس حدیث کی تصیح شما ر ہو تا ہے تو قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے ابن اسحق کی معنعن اور غیر معنعن حدیثو ں کو اپنی کتا ب میں دا خل فر ما کر ان کی تصیح کی اور استدلال بھی ایسی کتاب میں کیا جس کے واجب العمل ہونے کی تصریح خود اس کتا ب کے مقدمہ میں فر ما ئی آپ لکھتے ہیں بے شک امیر المو منین نے (خد ا ان کی مد د فرما ئے) مجھ سے ایک ایسی جا مع کتا ب کی فر ما ئش کی جس پر وہ اپنی زند گی بھر جبا یا خر ا ج عشر صدقا ت اور جو الی وغیر ہ میں عملد رآمد کر یں اور وہ احکا م و اجب العمل ہو ں تومیں نے ان کی تعبیر اور تو ضیح کر دی
(۱؎کتا ب الخر اج خطا ب من المؤ الف الی امیر المو منین ہا رون الر شید دا ر المعر فۃ بیر و ت ص۳)
نفحہ ۴: کفا نا المو لی سبحا نہ و تعالی النظر فی تو ثیق ابن اسحق و حجیۃ حد یثہ با ن الذی الین لہ الحد یث کما الین لداؤ د علیہ الصلو ۃ السلا م الحد ید۲؎ روا ہ فی کتا بہ الذی قا لو ا فیہ من کا ن فی بیتہ فکا نما فی بیتہ نبی یتکلم و سکت علیہ ۔
نفحہ ۴: رو ا یت ابن اسحق کی تا ئید و تو ثیق اور ان کی طر ف سے دفا ع کی مشقت سے اللہ تعا لی نے ہما ری یو ں کفایت کی کہ ان کی محو لہ با لا حد یث کو اس اما م نے اپنی مسند میں روا یت کیا جن کے ہا تھ میں علم حدیث اس طرح نر م و ملا ئم ہو گیا تھا جیسے حضر ت داود علیہ السلا م کے دست کر یم میں لو ہا نر م کر دیا گیا تھا جن کے مجموعہ حدیث کے با رے میں علما ئے حد یث کی یہ شہا د ت ہے کہ جس گھر میں یہ کتا ب ہو اس گھر میں گویا نبی ہے جو کلا م کر رہا ہے ،ایسے اما م میں یہ حد یث اپنی کتا ب میں در ج فر ما کر سکو ت کیا اور اس پر کو ئی جر ح نہیں کی ۔
(۲؎فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الا مام الطبر ی ۱/ ۸۷ ومعالم السنن للخطابی ۱/ ۵)
وقد قا ل کما فی مقد مۃ الا مام ابن الصلا ح ذکر ت فیہ الصحیح وما یشبہ و یقا ر بہ ۳؎
مقدمہ ابن صلا ح میں حضر ت ا بو دا ود رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کا یہ قو ل اس کتاب کے با رے میں منقو ل ہو ا :''میں نے اپنی کتا ب میں صحا ح کو جمع کیا یا جو اس کے مشا بہ اور قر یب ہو ۔''
(۳؎مقد مہ ابن صلا ح الثا نی معرفۃ الحسن من الحد یث فا رو قی کتب خا نہ ملتا ن ص۱۸)
وفی فتح المغیث عن الا ما م ابن کثیر رو ی عنہ ما سکت عنہ فھو حسن ۴؎، اھ
فتح المغیث میں اما م ابن کثیر سے انہیں کا یہ قو ل منقو ل ہوا ''اس کتا ب میں میں جس حد یث پر سکوت کر و ں تو وہ حسن ہے۔''
(۴؎فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الا مام الطبر ی ۱/ ۹۰)
(تد ریب الر اوی بحو الہ ابن کثیر النو ع الثا نی الحسن قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۳۵)