قا ل الا ما م الجلیل السیو طی فی التد ریب فی عنعنعۃ المد لس ،قا ل جمہو ر من یقبل المر ا سیل تقبل مطلقا ۱؎، اھ
و فیہ عن الا ما م ابن جر یر الطبر ی اجمع التا بعو ن با سر ھم علی قبول المر سل و لم یات عنھم انکا رہ ولا عن احد من الائمہ بعد ھم الی را س الما ئتین ۲؎
اما م جلا ل الد ین سیو طی نے تد ریب میں فر ما یا جمہو ر علما ئے کر ا م جو مرا سیل قبو ل کر تے ہیں وہ عنعنہ کو بھی قبو ل کر تے ہیں اسی میں اما م جر یر طبر ی سے منقو ل ہے کہ جملہ تا بعین نے با لکلیہ مر اسیل قبو ل کر نے پر اجما ع کیا ہے نہ تو تا بعین نے مر ا سیل کا انکا ر کیا نہ ان کے بعد ۲۰۰ ہجر ی تک کسی اور نے۔
(۱؎تد ریب الرا وای فی شر ح تقر یب النووی النو ع الثا نی عشر قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۹۰)
(۲؎تد ریب الرا وای فی شر ح تقر یب النووی النو ع التاسع قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۶۳)
و فی صحیح مسلم و جا مع التر مذ ی عن محمد بن سیر ین التا بعی قا ل لم یکو نو ا یسئلو ن عن الا ستا ذ فلما وقعت الفتنۃ قا لو ا سمو ا لنا رجالکم۳؎۔ اھ
صحیح مسلم اور جا مع میں محمد بن سیر ین تا بعی سے ہے کہ لو گ احا دیث کی سند کے با رے میں کسی سے سو ال ہی نہیں کر تے تھے جب فتنہ وا قع ہو ا تو سو ال کیا جا نے لگا کہ اپنے را ویو ں کو ہم سے بیا ن کر و ۔
(۳؎صحیح مسلم با ب بیان ان الا اسنا د من الد ین الخ قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۱)
قلت و ھذا زید بن اسلم الا ما م مو لی امیر المو منین الفا ر و ق الذی کان الا ما م الا جل زین العابدین یجلس الیہ و یتخطی مجا لس قو مہ فقا ل لہ نا فع ابن جبیر بن مطعم تخطی مجا لس قو مک الی عبد عمر بن الخطا ب ؟فقا ل رضی اللہ تعا لی عنہ انما یجلس الر جل الی من ینفعہ فی دینہ روا ہ البخا ر ی فی تا ریخ۴؎ ،زید ھذا حد ث بحد یث فقا ل لہ رجل یا ابا اسامۃ عمن ھذا فقال یاابن اخی ما کنا نجالس السفہاء ۱ ،قا ل لہ العطا ف بن خا لد۔
میں کہتا ہو ں کہ اما م زیدبن اسلم جو امیر المو منیبن عمر فا رو ق رضی اللہ تعا لی عنہما کے آزاد کر دہ غلا م تھے ان کے پا س اما م جلیل زین العا بد ین بیٹھا کر تے تھے اور اپنی قو م کی مجلس چھو ڑ دیتے تھے نا فع بن جبیر بن مطعم نے آپ سے کہا آپ اپنے لوگو ں کی مجلس چھو ڑ کر عمر بن خطا ب (رضی اللہ تعا لی عنہ ) کے غلا م کی محفل میں بیٹھتے ہیں ؟ آپ نے فر ما یا آدمی و ہیں بیٹھتا ہے کہ جہا ں اس کے دین کا فا ئد ہ ہو تا ہے (تا ر یخ بخا ر ی) انہیں زید نے ایک حد یث بیا ن کی ایک آدمی نے ان سے کہا ابا اسامہ یہ کس سے آ پ بیا ن کر رہے ہیں آپ نے فر ما یا اے بھتیجے! ہم سفہا ء کے سا تھ نہیں بیٹھتے یہ اسے عطا ف بن خا لد نے کہا ۔
(۴؎تا ر یخ البخا ری با ب الا لف تر جمہ زین بن اسلم ۱۲۸۷ دار البا ز للنشر و التو زیع مکۃ المکر مۃ ۳/۳۸۷)
(۱؎تہذیب التہذ یب تر جمہ زیدبن اسلم مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۱/۶۵۸)
قلت و قد اکثر الا رسال ائمۃ التا بعین سعید بن المسیب و القا سم و سالم و الحسن وا بو العا لیۃ و ابر ا ہیم النخعی و عطا ء بن ابی ربا ح و مجا ہد و سعید بن جبیر و طا ؤ س و ا لشعبی وا لا عمش و الزھر ی و قتا د ۃ و مکحو ل و ابو سحق السبیعی و ابرا ہیم التیمی و یحیی بن الکثیر و اسماعیل بن ابی خا لد وعمر و بن دینا ر و معٰو یۃ بن قرۃ و زیدبن اسلم و سلیما ن التیمی ثم الا ئمۃ ما لک ومحمد و السفیا نا ن افترا ھم فعلوہ لترد احا دیثھم وفی مسلم الثبو ت و شر حہ فو ا تح الر حمو ت مر سل الصحا بی یقبل مطلقا اتفا قا وا ن من غیر ہ فالاکثر و منھم الا ئمۃ الثلثۃ ابو حنیفۃ و ما لک و ا حمد رضی اللہ تعا لی عنہم یقبل مطلقا و الظا ہر یۃ و جمہو ر المحد ثین الحا دثین بعد الما ئتین لا۲؎، اھ
میں کہتا ہو ں علما ئے تا بعین مثلا سعید بن مسیب، قا سم ، سا لم، حسن ،ابو العا لیہ ،ابر اہیم نخعی ،عطا ء بن ابی رباح ،مجا ہد ،سعید بن جبیر ،طا ؤ س ،اما م شعبی ،اعمش ،زہر ی ،قتا دہ ،مکحو ل ،ابو ا سحق سبیعی ،ابر ا ہیم تیمی ،یحیی بن کثیر ،اسمعیل بن ابی خالد ،عمر و بن دینا ر ،معا و یہ بن قر ہ ،زید بن اسلم،سلیمن تیمی ،اما م ما لک و محمد اور سفیانین ،کیا یہ سب حضر ا ت اس لیے ارسا ل کر تے تھے کہ ان کی حد یثیں رد کر دی جا ئیں مسلم الثبو ت اور اس کی شر ح فو اتح الر حمو ت میں صحا بہ کر ا م کے مر ا سیل با تفا ق ائمہ مطلقا مقبو ل ہیں اور دو سر و ں کے مرا سیل با تفا ق ائمہ جن میں اما م ابو حنیفہ ،اما م ما لک ،اما م احمد بن حنبل شا مل ہیں یہ سب لو گ اسے مطلقا مقبو ل رکھتے ہیں ہا ں ظا ہریہ اور جمہو ر محد ثین جو ۲۰۰ ہجر ی کے بعد ہو ئے قبو ل نہیں کر تے ۔
(۲؎فو ا تح الر حمو ت شر ح مسلم الثبو ت بذیل المستصفی الا صل الثا نی منشو را ت الشر یف الر ضی قم ایر ا ن ۲/۱۷۴ )
وفی فصو ل البد ا ئع للعلا مۃ مو لی خسر و طعن المحد ثین بما لا یصلح جرحا لا یقبل کا لطعن با لتد لیس فی العنعنۃ فانھا و ھم شبھۃ الا رسا ل و حقیقۃ لیست بجر ح ۱؎، اھ
فصو ل البد ا ئع مو لی خسر و میں ہے اور محد ثین کا ایسا طعن جو جر ح بننے کی صلا حیت نہیں رکھتا جیسے عنعنہ میں تد لیس کا طعن کہ اس میں شبہہ ارسا ل ہے حا لا نکہ خو د ارسا ل اسبا ب طعن سے نہیں ہے۔
(۱؎فصو ل البد ا ئع )
قلت : وروی ابو داود عن عبد اللہ بن حنظلۃ بن ابی عا مر ان رسو ل اللہ امر بالو ضو ء عند کل صلو ۃ فلما شق ذلک علیہ امر بالسو ا ک لکل صلو ۃ ۲؎ فیہ ایضا ابن اسحق و قد عنعن و مع ذلک قا ل الشا می فی سیر ت اسنا دہ جید و فیہ اختلا ف لا یضر۳؎، اھ
چوتھا جواب: ابو داو د رضی اللہ تعا لی عنہ نے حضر ت حنظلہ ابن ابی عا مر سے روا یت کی کہ رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم کو ہر وقت و ضو کا حکم دیا گیا تھا لیکن یہ جب آپ پر مشقت ڈا لنے لگا تو ہر نما ز کے وقت آپ کو مسو ا ک کر نے کا حکم ہو ا اس حد یث میں بھی ابن اسحق نے لٖفظ عن سے روا یت کی اس کے با و جو د اما م شا فعی اپنی سیر ت میں کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں اختلا ف ہے جس سے کو ئی ضر ر نہیں۔
(۲؎سنن ابی داو د کتا ب الطہا رۃ با ب السو ا ک آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱/۷)
(۳؎)
وروی احمد عن و ا ثلۃ بن الا سقع رضی اللہ تعا لی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم امر ت بالسو ا ک حتی خشیت ان یکتب علی۴ نقل الزرقا نی علی المو اھب عن المنذری وغیر ہ فیہ لیث بن ابی سلیم ثقۃ مد لس وقد روا ہ بالعنعنۃ۱؎، اھ ومع ذلک قا ل عن المنذر ی اسنا ہ حسن۲؎، اھ
پانچواں جواب : اما م احمد نے و اثلہ بن اسقع رضی اللہ تعا لی عنہ سے یہ حد یث روا یت کی مجھے مسو ا ک کے لیے اتنی با ر حکم دیا گیا کہ مجھے ڈر ہو ا کہ کہیں یہ فر ض نہ کر د ی جا ئے ۔اما م زر قا نی نے یہ حد یث مو اہب کی شر ح میں منذر ی وغیرہ سے روایت کی ، اس روایت میں لیث بن ابی سلیم جو ثقہ مدلس ہیں،اور حد یث کو لفظ عن سے روایت کر تے ہیں منذری کہتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔
(۴؎مسند احمد بن حنبل حد یث و ا ثلۃ بن الاسقع المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/۴۹۰)
(۱؎ شر ح الزر قا نی علی المو ا ہب اللد نیہ المقصد التا سع دا ر المعر فۃ بیر و ت ۷/۲۴۸)
(۲؎شر ح الزر قا نی علی المو ا ہب اللد نیہ المقصد التا سع دا ر المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۲۴۸ )
وقا ل الحا فظ العسقلا نی فی نظم اللالی معنعن ابی الزبیر غیر محمو ل علی الا تصا ل الا اذا کا ن من روا یۃ اللیث عنہ الخ ۳؎ وھذا امر مقرر عند ھؤلا محد ثین و نجد فی صحیح مسلم احا د یث عن ابی الزبیر عن جا بر رضی اللہ تعا لی عنہ لیست من روا یۃ اللیث عنہ قا ل الذھبی فی المیزا ن فی صحیح مسلم عد ۃ احا دیث مما لم یو ضح فیھا ابو الزبیر السماع عن جا بر وہی من غیر طر یق اللیث عنہ ففی القلب منہا ۴؎، اھ
چھٹا جواب: حا فظ ابن حجر عسقلا نی نے نظم اللا لی میں کہا ''ابو زبیر کی معنعن مقبو ل نہیں اوراتصال پر محمول نہیں ہاں لیث سے ہو تو مقبول ہے ''محد ثین کے نزدیک یہ با ت مسلم ہے لیکن اما م مسلم کی صحیح میں چند حدیثیں ابو زبیر بو اسطہ حضر ت جا بر رضی اللہ تعا لی عنہ مر و ی ہیں جن میں ابو زبیر حضر ت لیث سے روا یت نہیں کرتے چنا نچہ اما م ذہبی میزا ن الا عتد ال میں فر ما تے ہیں کہ ''صحیح مسلم میں چند حد یثیں ایسی ہیں جن میں ابو زبیر جا بر رضی اللہ تعا لی سے بو اسطہ لیث کی تصر یح نہیں کی ہے جس سے دل میں کچھ شبہہ ہو تا ہے ۔''
قلت : ولکن لم یکن منھا فی قلب مسلم شیئ فا د ر جھا فی صحیحہ الذی جعلہ حجۃ بینہ وبین ربہ عز وجل ۔
میں کہتا ہوں کہ ا ما م مسلم رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کے دل میں تو ان حد یثو ں کے با ر ے میں کو ئی شبہہ نہیں تھا جبھی تو انہو ں نے یہ روا یتیں اپنی صحیح میں در ج کیں جس کو اپنے اور اپنے رب کے در میا ن حجت قر ا ر دیا ۔
(۳؎نظم اللآلی )
(۴؎میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن مسلم ابو الزبیر المکی ۸۱۶۹ دا ر المعر فۃ بیر و ت ۴/۳۹)