Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
7 - 135
نفحہ ۲: من الجھل الوخیم رمیہ با لر فض اغتر اراً بقول التقر یب رمی بالتشیع ۲؎ وما بین التشیع و الرفض کما بین السماء  و الار ض فر بما اطلقو ا التشیع علی تفضیل علی علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما وھو مذھب جما عۃ من ائمۃ اھل السنۃ لا سیما ائمۃ الکو فۃ قا ل صا حب التقر یب نفسہ فی ھد ی السا ر ی التشیع محبۃ علی و تقد یمہ علی الصحا بۃ فمن قد مہ علی ابی بکر و عمر فھو غال فی تشیعہ و یطلق علیہ را فضی والا فشیعی فا ن ا نضا ف الی ذلک السب او التصر یح با لبغض فغا ل فی الر فض۱؎اھ وتمام تحقیقہ فی تحر یر اتنا الحد یثیۃ۔
نفحہ ۲: تقر یب کے قو ل ''ان پر تشیع کی تہمت لگا ئی گئی ہے''سے دھو کا کھا کر ان پر رفض کا عیب لگا نا بد بو دار جہا لت ہے رفض و تشیع میں زمین و آسما ن کا فر ق ہے بسا اوقا ت لفظ تشیع کا اطلا ق حضر ت مو لا علی کو عثمان غنی رضی اللہ تعا لی عنہم پر فضیلت دینے پر ہو تا ہے جبکہ یہ ائمہ با لخصو ص اعلا م کو فہ کا مذہب ہے صا حب تقر یب نے خو د بھی ''ہد ی السا ری ''میں فر ما یا تشیع حضر ت علی کی صحا بہ سے زا ئدمحبت کا نا م ہے تو اگر کو ئی آپ کو ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے تو وہ غا لی شیعہ ہے اوراس کے ساتھ گا لی اور بغض کا اظہا ر کر ے تو غا لی را فضی ہے۔اور اس کی پو ر ی تحقیق ہما ر ی تحر یر ا ت حد یثیہ میں ہے۔
 (۲؎تقر یب التہذیب             تر جمہ محمد بن اسحا ق   ۵۷۴۳    دار الکتب العلمیہ بیر وت      ۲/۵۴)

(۱؎ھد ی السا ری مقد مہ فتح البا ری     فصل فی تمییز اسبا ب الطعن فی المذکو رین     مصطفی البا بی مصر    ۲/۲۳۱)
وفی المقا صد للعلا مۃ التفتا زا نی الا فضلیۃ عند نا بتر تیب الخلا فۃ مع تر دد فیما بین عثمان وعلی رضی اللہ تعا لی عنہما ۲؎
مقا صد علامہ تفتازانی میں ہے ہما رے نز دیک خلفا ئے اربعہ میں فضلیت خلا فت تر تیب پر ہے حضر ت عثمان و علی رضی اللہ تعالی عنہما میں تردد کے سا تھ۔
 (۲؎المقا صد علی ہا مش شر ح المقا صد البحث السا دس الافضلیۃ بتریب الخلا فۃ  دار المعا ر ف النعما نیہ لا ہور  ۲/۲۹۸)
وفی شر حہا لہ قا ل اھل السنۃ الا فضل ابو بکر ثم عمر ثم عثما ن ثم علی و قد ما ل بعض منھم الی تفضیل علیّ علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما والبعض الی التو قف فیما بینھما ۳؎ اھ
شر ح مقا صد للتفتا زانی میں ہے اہل سنت نے کہا کہ سب سے افضل ابو بکر پھر عمر پھر عثما ن پھر علی اور بعض حضر ت علی کو عثما ن سے افضل ما نتے ہیں رضو ا ن اللہ تعا لی علیہم اجمعین اور بعض ان دو نو ں کے در میا ن توقف کے قا ئل ہیں۔
 (۳؎ شر ح المقا صد  البحث السا دس الافضلیۃ بتر یب الخلا فۃ  دار المعا ر ف النعما نیہ لا ہور ۲/ ۲۹۸)
وفی الصوا عق لا ما م ابن حجر جز م الکو فیو ن و منھم سفیان الثو ر ی بتفضیل علیٍّ علی عثمان و قیل با لوقف عن التفاضل بینھما وھو روایۃ عن ما لک ۴؎، اھ
اما م ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی صوا عق محر قہ میں ہے ائمہ کو فہ (انہیں میں سفیا ن ثو ر ی ہیں) نے حضر ت علی کو حضر ت عثما ن پر بالیقین افضل گر دا نا اور اما م ما لک وغیر ہ سے تو قف مر و ی ہے۔
 (۴؎الصو ا عق المحر قہ         البا ب الثا لث     الفصل الا ول         مکتبہ مجید یہ ملتا ن        ص۵۷)
وفی تہذیب التہذیب فی تر جمۃ الا ما م الا عمش کا ن فیہ تشیع ۵؎ ، اھ
تہذیب التہذیب میں حضر ت اما م اعمش کے حا لا ت میں تحر یر ہے کہ ان میں تشیع تھا ۔
(۵؎تہذیب التہذیب         تر جمہ سلیما ن بن مہران المعر و ف با لاعمش  مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت      ۲/۱۱۰)
وفی شر ح الفقہ الا کبر لعلی قا ر ی رو ی عن ابی حنیفۃ تفضیل علی علٰی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما و الصحیح ما علیہ جمہو ر اھل السنۃ وھو ظا ہر من قو ل ابی حنیفۃ رضی اللہ تعا لی عنہ علی ما رتبہ ھنا وفق مرا تب الخلا فۃ ۱؎۔ اھ
فقہ اکبر ملا علی قا ر ی میں اما م صا حب کے با رے میں لکھا ہے حضر ت ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے حضرت عثما ن غنی پر حضر ت علی کی فضیلت مر و ی ہے (رضی اللہ تعا لی عنہ )لیکن صحیح وہی ہے جس پر جمہو ر اہلسنت ہیں اور فقہ اکبر میں اس کو تر تیب خلا فت کے مو افق رکھنے سے معلو م ہو تا ہے کہ یہی آپ کا قو ل بھی ہے۔
 (۱؎ منح الر وض الا زہر شر ح الفقہ الا کبر     افضل النا س بعدہ الخ         دا رالبشا ئر الا سلا میہ بیر و ت     ص۱۸۷)
ثم لا یذ ھب عنک الفر ق بین شیعی و رمی با لتشیع و کم فی الصحیحین ممن رمی بہ وقد عد فی ھد ی السا ر ی عشر ین منھم فی مسا نید صحیح البخا ر ی فضلا عن تعلیقا تہ ،بل فیہ مثل عبا د بن یعقو ب را فضی جلد ثم الشبھۃ لا قیمہ لہا را سا فکم فی الصحیحین ممن رمی با نو ا ع البد ع وقد تقر ر عند ھم ان المبتدع تقبل روا یۃ اذا لم یکن دا عیۃ۔
پھر لفظ شیعی اور رمی با لتشیع کا فر ق بھی ملحو ظ رہنا چا ہیے ۔بخا ری کے کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن پر تشیع کا الزا م ہے ۔''ہد ی السا ری ''میں ایسی بیس سند و ں کی تفصیل ہے جو خا ص مسا نید بخا ری میں ہیں تعلیقات کا تو ذکر ہی الگ رہا بلکہ روا ۃ بخا ر ی میں عبا د بن یعقوب جیسا را فضی ہے جس پر کو ڑے کی حد جا ری گئی تھی اور جرح میں شبہہ کی تو کو ئی اہمیت نہیں خو د بخا ری ومسلم میں بہت سے روا ی ہیں جن پر انو ا ع واقسا م کی بدعت کا شبہہ کیا گیا اور اصو ل محد ثین کی رو سے خو د بد عتی بھی اپنے مذہب نا مہذب کا دا عی و مبلغ نہ ہو تو اس کی روایت مقبو ل ہے۔
نفحہ ۳: اصل الحد یث روینا ہ فی المسند حدثنا یعقو ب حد ثنا ابی عن ابی اسحق قا ل حد ثنی محمد بن مسلم بن عبید اللہ الزھر ی عن السا ئب بن یزید ابن اخت نمر۱؎فقد صر ح بالسما ع فلا علیک من عنعنۃ ھنا ھذا وجہ ۔
نفحہ ۳: اصل حد یث جسے ہم نے روا یت کیا مسند احمد ابن حنبل میں اس سند کے سا تھ ہے یعقوب ،ابی ،ابن اسحق حد ثنی محمد بن مسلم عبید اللہ الز ہر ی سا ئب بن یز ید یہا ں یہ حد یث لفظ حد ثنی سے مر و ی ہے تو  اب اس روا یت پر نہ تد لیس کا اعتر ا ض ہو سکتا ہے نہ ارسا ل کا ایک جو اب تو یہ ہو ا۔
 (۱؎مسند احمد بن حنبل         حد یث السا ئب بن یزید         المکتب الا سلا می بیر و ت    ۳/۴۴۹)
وثا نیا ابن اسحق کثیر الروا یۃ عن الزھر ی والعنعنہ عن مثل الشیخ تحمل علی السما ع قا ل الذھبی فی مثلہ متی قا ل ''نا''فلا کلا م و متی قا ل ''عن''تطر ق الیہ احتما ل التدلیس الا فی شیو خ لہ اکثر عنہم فا ن روا یتہ عن ھذا الصنف محمو لۃ علی الا تصا ل ۲؎۔ اھ
دوسرا یہ ہے کہ اما م محمد بن اسحق اما م زہر ی سے کثیر الروا یت ہیں اور ایسے راوی کا عنعنہ بھی سما ع پر محمو ل ہو تا ہے اما م ذہبی فر ما تے ہیں را وی جب روا یت میں لفظ عن سے کسی با ت کا اضا فہ کر ے تو تد لیس کا احتما ل ہو تا ہے مگر جب روا ی ایسے شیخ سے روا یت کر ے جس سے وہ کثیر الر وا یت ہو تو یہ روا یت متصل ہو گی ۔
 (۲؎میزا ن الا عتد ال         تر جمہ ۳۵۱۷ سلیما ن بن مہر ان        دارالمعر فۃ بیروت        ۲/۲۲۴)
لا سیما ابن اسحق فقد عر ف منہ النزو ل فی اشیا خ اکثر عنھم قال ابن المد ینی حد یث ابن اسحق لیتبین فیہ الصد ق وھو من اروی النا س عن سا لم بن ابی النضر و روی عن رجل عنہ وھو من اروی النا س عن عمرو بن شعیب و روی عن رجل عن ایو ب عنہ ۱؎، اھ
اور ابن اسحق کے با رے میں معر و ف مشہو ر ہے کہ وہ ایسے اسا تذہ کی حد یثو ں کو بطو ر نز و ل بھی روا یت کر تے جن سے وہ اکثر روا یت کر تے ہیں علی بن المد ینی فر ما تے ہیں محمد بن اسحاق کی حدیثوں میں صدق ظاہر ہے وہ سا لم بن ابی نضر سے بنسبت ان کے دو سرے شا گر دوں کے کثیر الروایت ہیں پھر بھی ان کی روایت  عن رجل عن سا لم (یعنی اپنے سے کم  د رجہ کے آدمی کے و اسطہ سے بھی سا لم سے ان کی روا یت ہے) اسی طر ح وہ عمر و بن شعیب کے شا گردوں  میں بھی اروی النا س عنہ ہیں اور انکی روا یت عن رجل عن ایو ب عن عمر و بن شعیب بھی ہے۔
 (۱؎تہذیب التہذیب         تر جمہ بن اسحا ق             مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت    ۳/۵۰۶)
قلت و کذا ھو من اروی النا س عن ابن شہا ب وقد رو ینا فی کتا ب الخر ا ج للا ما م ابی یو سف حد ثنی محمد بن اسحق عن عبد السلا م عن الز ھر ی ۲؎
میں کہتا ہو ں ا بن اسحا ق اما م زہر ی کے بھی ارو ی النا س شا گر د ہیں مگر قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ ''کتا ب الخر ا ج''میں فر ما تے ہیں مجھ سے محمد بن اسحق نے بیا ن کیا کہ ان سے عبد السلا م نے رو ا یت کی اور ان سے اما م زہر ی نے (تو ابن اسحا ق کی یہ رو ا یتیں لفظ عن سے ہو نے کے با و جو د تد لیس نہیں ہے روا یت متصل ہے)
 (۲؎کتا ب الخر ا ج         احا دیث تر غیب و تحضیض         دا رالمعر فۃ بیر و ت        ص۹ )
و ثالثا ھذا کلہ علی طر یقۃ ھٰو لا ء المحد ثین اما علی اصو لنا معشر الحنفیۃ و الما لکیۃ والحنبلیۃ الجمہو ر فسؤ ا ل العنعنۃ سا قط عن را سہ فا ن مبنا ہ علی شبھۃ الا رسا ل و حقیقتہ مقبو لۃ عند نا و عند الجمہو ر فکیف بشبہتہ ۔
تیسر ا جو اب : محمد ابن اسحا ق کی تد لیس او ر عنعنہ کے با ر ے میں اب تک جو بحث تھی وہ ان محد ثین کے مسلک کی بنیا د تھی جو حد یث کی جر ح میں عنعنہ اور تد لیس کا لحا ظ کر تے ہیں لیکن ہم حنفیو ں ،ما لکیو ں ،حنبلیو ں جمہو ر علما ء کے اصو ل پر عنعنہ کا لحا ظ ہی اصلاً ساقط ہے کیونکہ عنعنہ کے لحاظ کی وجہ تو یہ شبہہ ہے کہ تد لیس حد یث کے مر سل ہو نے کا ڈ ر ہے اور ہما ر ے اورجمہو ر کے نزد یک تو خود ارسا ل بھی سند کا عیب نہیں اور حدیث مرسل بھی مقبول ہے تو پھر شبہ ارسال سے حد یث پر کیا اثر پڑے گا ۔
Flag Counter