ثم اجا ب عنہ البخا ری فا جاد و اصا ب وقد قال فیما قا ل ولم ینج کثیر من النا س من کلام بعض النا س فیھم نحو ما یذکر عن ابراہیم من کلامہ فی الشعبی و کلام الشعبی فی عکر مۃ ولم یلتفت اہل العلم فی ھذا النحو الا ببیان وحجۃ ولم تسقط عد ا لتھم الا ببر ھا ن و حجۃ اھ ۱؎
اما م بخا ری رحمۃ اللہ تعا لی عنہ نے بے سند تنقید وں کا کیا خو ب رد فر ما یا ہے آپ فر ما تے ہیں ایسی تنقید وں سے کم لو گ ہی کا میا ب ہو ئے جیسے اما م شعبی کے با ر ے میں اما م ابر ہیم کاکلا م حضرت عکرمہ کے با رے میں امام شعبی کا کلا م اہل علم میں سے کسی نے اس قسم کی تنقید وں کی طر ف کو ئی توجہ نہ کی جب تک طر ح صر یح اورمدلل نہ ہو اور ایسی تنقید و ں سے کسی کی عد الت پر اثر نہیں پڑتا ۔
(۱؎تہذیب الکما ل بحو ا لہ البخا ری تر جمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ دار الفکر بیر و ت ۱۲/۷۶و۷۷)
(تہذیب التہذیب بحو ا لہ البخا ری تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسہ الر سا لہ بیروت ۳/۵۰۵)
وحسن الا ما م احمد و یحیی بن معین و محمد بن عبد اللہ بن نمیر و محمد بن یحیی کلھم شیو خ البخا ری و ابو داؤد والمنذری و الذھبی حد یثہ و عدہ الا ما م الذ ھبی ثم السیو طی فی اعلی مر اتب الحسن ،قا ل فی التد ر یب الحسن ایضا اعلی مراتب کالصحیح ، قال الذھبی فاعلی مراتبہ بھزبن حکیم عن ابیہ عن جدہ و عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ و ابن اسحا ق عن التیمی وامثال ذلک مما قیل انہ صحیح و ھو ادنی مر ا تب الصحیح ۱؎ اھ
اما م احمد ،اما م یحیی بن معین اورمحمد بن عبد اللہ بن نمیر و محمد ابن یحیی یہ سب اما م بخا ری کے استا ذ ہیں اور ابو داود ،منذری اور ذہبی ان سب لو گو ں نے محمد بن اسحا ق کی حد یث کو حسن قر ا ر دیا ہے اور اما م ذہبی اور سیو طی نے ان کو حسن کے اعلی مدارج میں گر دا نا ہے تد ریب میں ہے ''صحیح کی طر ح حسن کے بھی چند در جے ہیں ''امام ذہبی فر ما تے ہیں کہ اعلی در جہ کی حسن بہز ابن حکیم عن ابیہ عن جد ہ اور عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہ اور ابن اسحق عن تمیی اور ان کے امثا ل ہیں اور اسی کو ادنی در جہ کی صحیح بھی قر ا ر دیا ہے۔
(۱؎تد ریب الر ا و ی فی شر ح تقر یب النو وی النو ع الثا نی قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۲۸)
صححہ ابن المد ینی والترمذی و ابن خزیمۃ و الامام الطحا و ی وقد حسن الدا ر قطنی بعض ما تفر دبہ ابن اسحق وصححہ الحا کم (عہ) وقد تبعھما علیہ البیھقی ، ووصفہ المنذری و الذھبی با حد الا ئمۃ الا علام و انہ صا لح الحد یث ما لہ ذنب الا ما حشا فی ا لسیر ۃ من منا کیر ۱؎
چنا نچہ ابن مدینی ،تر مذی ابن خز یمہ اور اما م طحا وی نے اس کو صحیح کہا اور بعض وہ حد یثیں جن کے تنہا محمد بن اسحق راوی ہیں انہیں دار قطنی نے حسن کہا ،اور حا کم نے صحیح فر ما یا اور ان دو نو ں حضر ا ت کی اما م بیہقی نے اتبا ع کی اما م منذری اور ا ما م ذہبی نے محمد بن ا سحا ق کو ائمہ اعلا م میں شما ر کیا اور صا لح الحد یث قر ار دیا اور فرما یا کہ ان کا اس کے سو ا کو ئی گنا ہ نہیں کہ انہو ں نے سیر ت میں منکر حد یثیں در ج کیں۔
عہ: اورد فی السنن حدیث احمد بن خالد عن ابن اسحق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ فی القراءۃ خلف الامام وقال ،قال علی بن عمر ھذا اسناد حسن ۲ واقرہ البیہقی ، وروی فی باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ابی مسعود رضی اللہ تعالٰی : ان رجلا قال : یارسول اللہ ! اما السلام علیک فقد عرفناہ ،فکیف نصلی علیک اذا نحن صلینا فی صلوتنا ، وقال : قال الدارقطنی : حسن متصل ۳،واقرہ البیہقی وقال ابن الترکمانی لااعلم احدا روی ھذا الحدیث بھذا اللفظ الا محمد بن اسحاق ۴ واوردہ ایضا فی باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی التشھد ثم حکی الحاکم تصحیحہ ، ثم عن الدارقطنی تحسینہ واقرھما۔۱۲منہ
سنن میں حدیث احمد بن خالد ، ابن اسحاق، مکحول ، محمود بن ربیع ،عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ باب قرأۃ خلف الامام میں نقل کرکے فرمایا علی بن عمر نے اس سند کوحسن قرار دیاہے ، اور امام بیہقی نے اس کو ثابت رکھا ہے اور باب وجوب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث کو نقل کیا: ایک شخص نے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم ! سلام کو تو ہم نے خوب سمجھ لیا ہے کہ نماز میں کیسے پڑھنا چاہئے اب یہ فرمائیے کہ جب ہم آپ پر درود پڑھیں اپنی نمازوں میں توکیسے پڑھیں ۔ اورفرمایا کہ دار قطنی اس کوحسن متصل قرار دیتے ہیں اور بیہقی اس کو برقرار رکھتے ہیں ،ابن ترکمانی کہتے ہیں یہ حدیث ان الفاظ میں ہمارے علم میں ابن اسحاق کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ،پھر بھی حدیث باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی التشہد میں نقل کرکے کہا حاکم نے اس کی تصحیح کی اور دار قطنی نے تحسین ، اورخود اس کو برقرار رکھا،۱۲ منہ
( ۱؎ میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن اسحا ق۷۱۹۷ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/۴۶۹)
(۲ السنن الکبری کتاب الصلوۃ ۲/ ۱۶۴ و ۲ / ۳۷۸ دار صادر بیروت )
(۳الجوھر النقی بذیل السنن الکبری با ب وجود الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲/ ۳۷۸،۳۷۹ )
واوردہ الحا فظ العسقلا نی فی طبقا ت المد لسین فیمن لم یضعف بشیئ لا عیب علیہ الا التد لیس ۔ حا فظ ابن حجر نے انہیں مد لسین کے طبقا ت میں ذکر کیا جن میں تد لیس کے علاوہ کو ئی ضعف ہے نہ علت۔
حا فظ ابن حجر نے انہیں مد لسین کے طبقا ت میں ذکر کیا جن میں تد لیس کے علاوہ کو ئی ضعف ہے نہ علت۔
وقا ل اما م النو وی لیس فیہ الا التدلیس وقا ل محمد بن عبد اللہ بن نمیر رمی با لقدر و کا ن ابعد النا س منہ ۲؎
اما م نو و ی بھی فر ما تے ہیں کہ ان میں تد لیس کے علا وہ کو ئی کمی نہیں محمد بن عبد اللہ نمیر ی نے فر ما یا ان پہ قدر یہ ہو نے کا الزا م ہے لیکن و ہ اس سے کو سو ں دو ر ہیں۔
(۲؎ میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن اسحا ق ۷۱۹۷ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/۴۶۹)
(تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر وت ۳/۵۰۵)
وقا ل یعقو ب بن شیبہ سا لت ابن المد ینی عن ابن اسحق قا ل حد یثہ عند ی صحیح قلت فکلام ما لک فیہ قا ل ما لک لم یجا لسہ و لم یعر فہ۳؎
یعقوب ابن شیبہ فر ما تے ہیں میں نے ان کے با رے میں علی ابن المد ینی سے سو ا ل کیا تو فر مایا کہ میر ے نز دیک ان کی حد یثیں صحیح ہیں میں نے اما م ما لک کی تنقید و ں کا ذکر کیا تو فر ما یا وہ نہ ان کے سا تھ رہے نہ انہیں پہچانا ۔
(۳؎میزان الا عتد ال تر جمہ محمد بن اسحا ق دار المعرفۃ بیر و ت ۳/۴۷۵)
وذکر ہ ابن حبا ن فی ثقا تہ و ان ما لکا رجع عن الکلا م فی ابن اسحق و اصطلح معہ و بعث الیہ ھد یۃ۴؎
ابن حبا ن نے انہیں ثقا ت میں شما ر کیا اور فر ما یا اما م ما لک نے ابن اسحق کی جر ح سے رجو ع فر ما یا اور ان سے صلح کر لی اور انہیں تحفہ بھیجا ۔
(۴؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ مکتبہ نو ر یہ سکھر ۱/۲۰۰ و تحفۃ الاحو ذی کتا ب الصلو ۃ داراحیا ء التراث العر بی بیر وت ۲/۲۳۹)
وقا ل مصعب الز بیری و دھیم وابن حبا ن لم یکن یقد ح فیہ من اجل الحد یث ۱؎وقد تکفل با لجو ا ب عنہ الا ئمۃ احمد و ابن المد ینی و البخا ر ی و ابن حبا ن و المزی و الذھبی و العسقلا نی والمحقق حیث اطلق کما ھو مفصل مع زیا دات کثیرۃ فی کتا ب ولدی المحفو ظ بکر م اللہ تعا لی ''وقا یۃ اھل السنۃ ''وللہ الحمد والمنۃ۔
مصعب زبیر ی ،دہیم اور ابن حبا ن نے کہا ان پر حد یث کی وجہ سے جر ح نہیں کی گئی اور ائمہ میں احمد ،ابن مد ینی ،بخا ر ی ،ابن حبا ن مزی ،ذہبی اور محقق علی الا طلا ق نے ان کی طر ف سے دفا ع کیا ۔یہ اور مزید اضا فے میر ے فر زند سلمہ کی کتا ب ''وقا یہ اہل سنۃ''میں ہیں و الحمد للہ و المنۃ۔
(۱؎تہذیب التہذیب بحو الہ ابن حبا ن تر جمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسہ الر سا لہ بیر و ت ۳/۵۰۷)
(کتا ب الثقا ت لا بن حبا ن تر جمہ محمد بن اسحا ق ۴۰۶۶ دار الکتب العلمیہ بیر وت ۴/۲۳۶)