فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی) |
نفحہ ۱: أنبا نا شیخنا العلا مۃ الا ما م شیخ العلما ء با لبلد الکر ام السید احمد بن زین بن دحلا ن المکی قدس سر ہ الملکی بمکۃ مکر مۃ ۱۲۹۶ھ عن الشیخ عثما ن بن حسن الد میا طی الا زھر ی عن الشیخ محمد الا میر الما لکی و الشیخ عبد اللہ الشر قاوی الشا فعی الا زھر یین ح،و أنبا نا المو لی المفتی العلا مۃ عبد الر حمن السر ا ج مفتی البلد الحر ام فی ذی الحجۃ ۱۲۹۵ھ عن مفتیھا المو لی جما ل بن عبد اللہ بن عمر ح و أنبا نا عا لیا بد ر جۃ السید حسین بن صالح جمل اللیل المکی ببیتہ عند باب الصفا فی ذی الحجۃ ۱۲۹۵ کلا ھما عن الشیخ عابد السندی المدنی عن الشیخ صالح الغلانی والسید عبدالرحمٰن بن سلیمان الاھدل و یوسف بن محمد المزجاجی و السیدبن احمد و قاسم ابنی سلٰیمن وعمہ محمد حسین الانصاری ح، و انبانا شیخنا السید الامام العارف باللہ الشاہ آل الرسول الاحمدی فی جمادی الاولٰی ۱۲۹۴ھ عن الشاہ عبدالعزیزالدھلوی عن ابیہ الشاہ ولی اللہ الدھلوی عن الشیخ ابی طاہر بن ابراھیم الکردی المدنی ح، وغیرھم من مشایخنا رحمھم اللہ تعالٰی جمیعا باسانیدھم المعروفۃ الٰی ابی داؤد فی سننہ قال حدثنا النفیلی، نا محمد بن سلمۃ عن محمد بن اسحٰق عن الزھری عن السائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنھما قال کان یؤذن بین یدی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علٰی باب المسجد و ابی بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما ۱ ھذا حدیث حسن صحیح، محمد بن اسحٰق ثقۃ صدوق امام قال شعبۃ و ابو زر عۃ و الذھبی و ابن حجر صدوق و قال الامام ابن المبارک انا وجدناہ صدوقا، انا وجدناہ صدوقا، انا وجدناہ صدوقا۱۔تلمیذ لہ ائمۃ اجلاء کابن المبارک و شعبۃ و سفٰین الثوری و ابن عیینۃ والامام ابی یوسف و اکثر عنہ فی کتاب الخراج لہ۔
نفحہ۱: ہمارے شیخ، شیخ علمائے حرم سید احمد ابن زین ابن دحلان مکی قدس سرہ نے مکہ مکرمہ میں ۱۲۹۶ ھ میں ہم سے بیان کیا، ان سے شیخ عثمان بن حسن د میاطی ازہری نے، ان سے شیخ محمد امیر مالکی نے اور شیخ عبداللہ شرقاوی شافعی ازہری نے ح،ہم سے علامہ مولانا مفتی عبدالرحمٰن بن سراج مکی نے ذوالحجہ ۱۲۹۵ھ میں مولانا مفتی مکہ جمال ابن عبداللہ ابن عمر کے واسطہ سے بیان کیاحِ ہمیں حسین ابن صالح جمل اللیل مکی نے باب صفا کے پاس اپنے گھر ذوالحجہ ۱۲۹۵ھ میں بیان کیا اور احمد ابن زید جمل اللیل نے بھی۔ دونوں حضرات نے شیخ عابد سندھی اور انھوں نے شیخ صالح غلانی اور سید عبدالرحمٰن اہدل اور یوسف ابن محمد مزجاجی اور سید احمد و قاسم ابنائے سلیمان اور اپنے چچا محمد حسین انصاری سے ح، ہمارے شیخ سید امام عارف باللہ شاہ آل رسول احمدی نے جمادی الاولٰی ۱۲۹۴ھ میں ہم کو خبر دی، انھیں شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اور انھیں ان کے والدشاہ ولی اللہ دہلوی نے اور انھیں شیخ ابو طاہر بن ابراہیم کردی مدنی نے ح ان سب لوگوں نے اپنے مشائخ کرام سے جن کی معروف و مشہور سندیں امام ابو داود تک متصل ہیں انھوں نے اپنی سنن میں نفیلی،محمد بن مسلمہ، محمد اسحق زہری عن سائب ابن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا:ــــ''حضور صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف لے جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازہ پر حضرت بلال رضی اللہ تعالےٰ عنہ اذان دیتے۔ ایسا ہی ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے زمانہ میں ہوتا رہا۔'' یہ حدیث حسن و صحیح ہے اسکے راوی محمد بن اسحق قابل بھروسہ، نہایت سچے امام ہیں۔ ان کے بارے میں امام شعبی ، محدث ابو زرعہ اور ابن حجر نے فرمایا یہ بہت سچے ہیں ۔ امام عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں:''ہم نے انھیں صدوق پایا، ہم نے انھیں صدوق پایا، ہم نے انھیں صدوق پایا۔'' امام عبداللہ بن مبارک ، امام شعبہ اور سفیان ثوری اور ابن عیینہ اور امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بہت زیادہ روایتیں کیں اور ان کی شاگردی اختیار کی۔
(۱سنن ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب وقت الجمعۃ آفتاب پریس لاہور ۱/۱۵۵) (۱؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۷) (کتاب الثقات لابن حبان تر جمہ محمد بن اسحق دارالکتب العلمیہ بیرو ت ۴/۲۳۶)
و قال ابو زرعۃ الدمشقی اجمع الکبراء من اھل العلم علی الاخذ عنہ قال و قد اختبرہ اھل الحدیث فرؤہ صدقا و خیرا۔۲؎
امام ابو زرعہ دمشقی نے فرمایا :''اجلہ علماء کا اجماع ان سے روایت کرنے پر قائم ہے ، اور آپ کو اہل علم نے آزمایا تو اہل صدق و خیر پایا۔''
(۲؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
و قال ابن عدی لم یتخلف فی الروایۃ عنہ الثقات و الا ئمۃ و لا بأس بہ ۳؎
ابن عدی نے کہا :''آپ کی روایت میں ائمہ ثقات کو کوئی اختلاف نہیں، اور آپ سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔''
(۳ میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/ ۴۷۴)
و قال علی بن المد ینی ما رأیت احدا یتھم ابن اسحق ۴؎
اما م علی ابن المد ینی نے کہا ''کسی اما م یا محد ث کو ابن اسحق پر جر ح کر تے نہیں دیکھا ''
(۴؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
وقال سفیان(عہ) بن عیینہ جا لست ابن اسحق منذ بضع سنین و سبعین سنۃ وما یتھمہ احد من اھل المد ینۃ ولا یقول فیہ شیئا ۱؎
اما م سفیان ابن عیینہ فر ما تے ہیں میں ستر سا ل سے اوپر ابن اسحا ق کی خد مت کر تا رہااہل مدینہ میں سے کسی نے ان پر اتہا م نہیں رکھا نہ ان پر کچھ تنقید کی۔
(۱؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
عہ: وبہ ظہر کذب من زعم الان ان قد جر حہ سفٰین بن عیینہ ،حا شاہ بل قد تلمذ و ذب عنہ وقا ل رایت الزھری قال لمحمدبن اسحق این کنت ؟ فقا ل ھل یصل الیک أحد ؟ فد عا حا جبہ وقال لا تحجبہ اذا جاء ۱؎وقا ل ایضا قا ل ابن شہا ب وسئل عن مغا زیہ فقا ل ھذا أعلم النا س بھا ۲؎ وقا ل ابن المد ینی قلت لسفیان کا ن ابن اسحق جا لس فاطمۃ بنت منذر فقا ل اخبر نی ابن اسحق انھا حد ثتہ وانہ دخل علیہا ۳؎ وقا ل ابن عیینۃ ایضاً سمعت شعبۃ یقو ل محمد بن اسحق امیر المو منین فی الحد یث۲؎فھذا ما جر حہ بہ سفیا ن نعم ذکر ان النا س اتھمو ہ بالقد ر۳؎ ولو کا ن ھذا جر حا فما اکثر المجر و حین فی الصحیحین ،الا تری انہ کا ن یسمع ھذا ثم لا یتر ک مجا لسۃ ابن اسحا ق ولا الا خذ منہ ھل لیس منہ ما ید ل علی تصد یقہ النا س فی ھذا فکم من تھمۃ لا اصل لھا ،وسیا تیک کلا م ابن منیر ۱۲منہ۔
سفیا ن ابن عیینہ کے اس قو ل سے اس شخص کا جھو ٹ ظا ہر ہو گیا جو یہ کہتا ہے کہ حضر ت سفیا ن ابن عیینہ نے ابن اسحق پر جر ح کی ہے خد ا کی پنا ہ انہو ں نے تو ابن اسحق کی شا گر دی اختیا ر کی ہے ان کی طر ف سے مدافعت کی ہے اور فر ما تے ہیں کہ اما م زہر ی کو دیکھا کہ ابن اسحق سے پو چھا آپ کہا ں تھے؟انہو ں نے جو اب دیا کو ئی آپ کے یہا ں بار یا بی بھی تو پا ئے (یعنی در با ن روکے ہو ئے تھا ) تو اما م زہر ی نے اپنے دربا ن کو بلا کر فر ما یا آئند ہ ابن اسحق کو اند ر آنے سے کبھی بھی مت رو کنا ۔حضر ت ابن عیینہ کی ہی روا یت ہے کہ کسی نے اما م زہر ی سے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے غزوا ت کے با ر ے میں پوچھا انہو ں نے ابن اسحق کی طرف اشار ہ کر کے فر ما یا یہ اس کو سب لو گوں سے زیا دہ جا نتے ہیں حضر ت علی بن مدینی روایت کرتے ہیں کہ میں نے سفیا ن سے پو چھا کہ ابن اسحا ق فا طمہ منذر کے پا س بیٹھے تھے ؟ تو حضر ت سفیا ن نے کہا کہ مجھ سے خو د محمد بن اسحا ق نے کہا کہ مجھ سے فا طمہ نے حد یث بیا ن کی اور انکے پا س گیا (تو پا س بیٹھنے کی حقیقت صر ف یہ تھی کہ ان سے حد یث سنی ) ابن عیینہ نے تو ابن اسحق کی تعد یل میں اما م شعبہ کا وہ شا ند ار قو ل نقل کیا کہ یہ امیر المو منین فی الحد یث ہیں (کیا جر ح ایسی ہی ہو تی ہے ؟) ہا ں آپ نے ابن اسحا ق کے با ر ے میں یہ بھی فرما یا ہے کہ لو گو ں نے ان پر قد ر ی ہو نے کا الزا م لگا یا ہے لیکن کیا یہ جر ح ہے ،اگر جر ح ہو تو بخار ی و مسلم ایسے مجر و ح روایو ں سے بھر ی پڑی ہیں ان کے بہت سے راو یوں پر قد ر کا الزا م ہے اگر یہ جر ح ہو تی تو ابن عیینہ کا ابن اسحا ق سے حد یث روا یت کرنا تو بڑی بات ہے ان کاساتھ بھی چھوڑ دیتے لیکن انہو ں نے نہ تو ان کا ساتھ چھو ڑا نہ ان کی شا گر د ی تر ک کی نہ ہی عو ام کے الزا م کی تصد یق کی یہ تہمتیں بے اصل ہیں مزید ابن منیر کا کلا م آرہا ہے ۱۲منہ۔
(۱؎ و۲و ۳ تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۴و ۵۰۵) (۲؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/۵۰۶) (میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/۴۶۹) (۳؎میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/۴۶۹)
وقا ل ابو امعا و یۃ کان اسحاق من احفظ النا س ۱؎وقا ل الا ما م ابن معین اللیث بن سعد اثبت فی یزید بن ابی حبیب من محمد بن اسحق ۲؎
اما م ابو معا ویہ نے فر ما یا :''ابن اسحا ق سب لو گو ں سے زیا دہ یا د رکھنے وا لے تھے''اور اما م ابن معین نے فر ما یا ''یزید بن ابی حبیب سے روایت کرنے والوں میں لیث بن سعد ابن اسحق سے زیا دہ ثبت ہے''
(۱؎تہذیب التہذیب ترجمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسۃالر سا لہ بیر و ت۳/ ۵۰۴) (۲؎ میز ان الا عتدا ل ترجمہ محمد بن اسحا ق ۷۱۹۷ دا ر المعر و فہ بیر و ت۳/ ۴۷۳)