وقداعتمد ھذا الحد یث کبا ر المفسر ین فی تفسیر الکر یمۃ اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ ۲؎کالز مخشر ی فی الکشاف ،والامام الرازی فی مفاتیح الغیب والخازن فی لباب التاویل ،والنیسا بو ری فی رغا ئب الفر قا ن ،والخطیب والجمل و غیرھم و اوردہ الاما م الشعرانی فی کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ ،کما سیاتیک نصوصھم ان شاء اللہ تعالی۔
اس حد یث پر بے شما ر ائمہ مفسر ین نے آیت مبا رکہ اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ کی تفسیر میں اعتما د کیا چنا نچہ کشا ف میں زمخشر ی مفا تیح الغیب میں اما م را زی ،لبا ب التا ویل میں امام خا زن ،رغا ئب الفر قا ن میں امام نیشا پو ر ی خطیب و جمل وغیر ہ نے اسے ذکر کیا اما م شعر ا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب کشف الغمہ عن جمیع الا مۃ میں اس پر اعتما د کیا عبا رتیں سب کی آگے آرہی ہیں ان شا ء اللہ تعا لی ۔
( ۲؎القر آن الکریم ۶۲/۹)
ثم تظافر ت کلمات علمائنا فی الکتب المعتمد ۃ علی النہی عن الاذان فی المسجد و انہ مکر وہ ،نص علیہ الامام فقیہ النفس فی الخا نیۃ ، وا لا ما م البخا ری فی الخلا صۃ ، والامام الا سبیجا بی فی شر ح الطحا و ی ،والا مام الاتقا نی فی غایۃ البیا ن والاما م العینی فی البنا یۃ ،والاما م المحقق علی الا طلا ق فی فتح القد یر ،و الا مام الزندوستی فی النظم ،والامام السمعانی فی خزانۃ المفتین و مختا ر ا لزا ھد ی فی المجتبی ،والمحقق زین بن نجیم فی البحر الر ا ئق ،والمحقق ابر ا ہیم الحلبی فی الغنیۃ وا لبر جند ی فی شر ح النقا یۃ و القہستا نی فی جا مع الر مو ز ،وا لسید الطحطا وی فی الحو ا شی علی مر ا قی الفلا ح وا صحا ب الفتا و ی العا لمگیر یۃ ،وا لفتاوی التا تا ر خا نیۃ و مجمع البرکات ،ولم یسثنو ا منہ فصلا ۔ویلمو ا بتخصیص اصلا ،و الھجو م علی تخصیص النصو ص من دون خصوص فھم مخصوص بل و ھم مر صو ص ۔ثم و لنا القراٰن العظیم و ا لا حا دیث و ا لشا ھد المطبق علیہ فی القدیم و الحد یث ان التا ذین فی جو ف المسجد اسا ء ۃ ادب بالحضر ۃ الا لہیۃ ۔ثم ھو خلا ف ما شر ع لہ الا ذا ن ۔ثم لیس علیہ من حد یث ولا فقہ دلیل ولابرہان ولایعارض العلامۃ الحکم ولا الا شا رۃ العبا رۃ ولا المحتمل الصریح ولا المجا ز علی الحقیقۃ ۔ثم ھو علی حالہ ھذا و ان شاع فی زماننا فی بعض الاصقا ع لم ینعقد قط علیہ الاجما ع ولا علیہ تعامل فی جمیع البقاع ۔ ولا ھو متو ا ر ث من الصدر الاو ل ، فمثل ھذا لا یحتمل ولا یقبل و المنکر لا یصیر معر وفا و ان فشا۔ولا الحادث قدیما وان لم نعلم متی نشاء۔
ہما رے ائمہ فقہ نے کثر ت کے سا تھ فقہ کی کتب معتمد ہ میں مسجد کے اند ر اذان کی مما نعت فر ما ئی کہ مکر و ہ ہے فقیہ النفس اما م قا ضیخا ں نے خا نیہ میں اما م بخا ری نے خلا صہ میں اما م اسبیجا بی نے شر ح طحاوی میں اما م اتقا نی نے غا یۃ البیا ن میں اما م عینی نے بنا یہ میں اما م محقق علی الا طلا ق نے فتح القد یر میں اما م زند و ستی نے نظم میں اما م سمعا نی نے خز انۃ المفتین میں مختا ر زا ہد ی نے مجتبی میں ،محقق زین ابن نجیم نے بحر الرا ئق میں،محقق ابر ا ہیم حلبی نے غنیہ میں ،بر جند ی نے شر ح نقا یہ میں،قہستا نی نے جا مع الر مو ز میں ،سید طحطا وی نے حو اشی مر اقی الفلا ح میں ،نیز اصحا ب فتا و ی عا لمگیر یہ ،فتاو ی تا تا ر خا نیہ اور مجمع البرکا ت نے اس کی تصر یح فر ما ئی ۔ان حضر ا ت نے نہ تو کسی جز ء کا استثنا ء کیا نہ تخصیص کی طر ف اشا رہ فرما یا تو غیر مخصو ص کی تخصیص کا ارادہ ایک نا قص را ئے اور وہمی قیا س آرا ئی ہے ۔اس مسئلہ میں مزید چند امو ر قا بل غور ہیں (۱) جو ف مسجد میں اذا ن دینا دربا ر الہی کی بے ادبی ہے اس پر قرآن و حد یث اور عہد قد یم سے آج تک کا عر ف شا ہد ہے ۔(۲) جو ف مسجد میں اذا ن ،مشر و عیت اذان کے مقصد کے خلا ف ہے۔(۳) جوف مسجد میں اذان کے جو از پر قر آن و حد یث سے کو ئی دلیل نہیں اگر کہیں علا مت یا اشا رۃالنص یا احتما ل و مجا ز کے طو ر پر اس کا تذکر ہ ہو بھی تو یہ اسی با ب میں علی التر تیب حکم ،عبا رۃ النص اور صر یح و حقیقت کے معارض نہیں ہو سکتے (۴) اند رون مسجد اذان گو آجکل بعض مقا مات میں شا ئع و ذا ئع ہو مگر پو رے عا لم اسلام میں نہ تو اس پر اجما ع ہو ا ہے نہ عہد رسا لت سے اس کا تورا ث ثا بت ہے پس ایسے امر کا جو از نہ تو محتمل ہے نہ قا بل قبو ل اور جوفعل شرعا نا پسند یدہ ہو گو لا کھ معر و ف و مشہو ر ہو گو ہم اس کے ایجا د کا زمانہ متعین نہ کر سکیں مقبول و معر و ف شر عی نہیں ہو سکتا ۔
ویاسادتنا علماء السنۃ انتم المدخر و ن لاحیا ء السنۃ و قد ندبکم الی ذلک نبیکم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی غیر (عہ۱) ما حد یث ووعد تم(عہ۲) علیہ اجر ما ئۃ شہید ۔وان (عہ) تکو نو ا بہ مع نبیکم فی دا ر المزید ۔
اے سر دا ر ان امت علما ئے اہلسنت اللہ تعا لی نے آپ لو گو ں کو احیا ئے سنت کے لیے تیا ر کر رکھا ہے اور آپ کے رسو ل گر امی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے متعدد حد یثو ں میں آپ کو اس کی دعو ت دی ہے اس پر سو شہید وں کے اجر اور دا ر آخر ت میں اپنی ہم نشینی کا وعد ہ فر ما یا ہے۔
عہ۱: التر مذی عن بلا ل و ابن ما جہ عن عمر و بن عو ف رضی اللہ تعا لی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : من احیا سنۃ من سنتی قد امیتت بعدی فا ن لہ من الا جر مثل اجر من عمل بھا من غیر ان ینقص من اجو رھم شیئا۱ ۔۱۲منہ
تر مذی نے حضر ت بلا ل و ابن ما جہ نے حضر ت عمر و بن عو ف ٖرضو ا ن اللہ تعا لی عنہم اجمین سے انہوں نے حضور صلی اللہ تعا لی وسلم سے روایت کی جس مے میر ی کسی مر دہ سنت کو زند ہ کیا اسے تما م عمل کر نے والوں کے اجر کے بر ا بر ملے گا ان کے اجرمیں کچھ کمی نہ ہو گی ۔
عہ۲: والبیہقی فی الزھد عن ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہما قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم''من تمسک بسنتی عند فسا دا متی فلہ اجر ما ئۃ شہید۲ ''
اما م بیہقی نے کتا ب الز ہد میں ابن عبا س سے انہو ں نے رسول اللہ تعالی وسلم سے روا یت کی ''جس نے میر ی امت کے فسا د کے وقت میر ی سنتو ں پر مضبو طی سے عمل کیا اسے سو شیہد و ں کا ثو ا ب ملے گا ''
عہ: السجزی فی الا با نۃ عن انس رضی اللہ تعا لی عنہ : من احیا سنتی فقد احبنی ومن احبنی کا ن معی فی الجنۃ ۱؎
اما م سجزی نے کتا ب الا با نۃ میں حضر ت انس اور انہو ں نے حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روا یت کی ۔''جس نے میر ی سنت زند ہ کی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت رکھی وہ میر ے ساتھ جنت میں ہو گا ''
اور اما م تر مذی نے لفظ احب کے سا تھ رو ایت فر ما یا ہے یا اللہ ! ہم سب کو آپ کی محبت عطا فر ما !۱۲منہ
(۱؎جا مع التر مذی ابو اب العلم باب الا خذ بالسنۃالخ امین کمپنی دہلی۲/۹۲)
(سنن ابن ما جہ با ب من احیا ء سنۃ قد امیتت ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ص۱۹)
(۲؎کتا ب الزہد الکبیر للبیہقی حد یث ۲۰۹دا ر القلم الکو یت ص۱۵۱)
(۱؎کنز العما ل بحو الہ السجزی عن انس حد یث ۹۳۳مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت۱ /۱۸۴)
و انما تحی اذا امیتت و انما تمو ت اذا تر ک النا س العمل بھا و سکت عنھا علما ؤ ھم لما قد مر او شبہ لھم فلمن احیا لاحقا اجر ہ و لمن سکت سابقا عذر ہ علی ذلک مضی امر احیا ء السنن و تجدید الدین من سا لف الزمن الی ھذا الحین فا لا ستنا د فی مثلہ بعمل النا س و عا دتھم او سکو ت من سلف قر یب من سا دتھم او زعم انہ یلحقھم بذلک شین مع جلا لتھم۔
سنت کا احیا جبھی ہو گا کہ لو گو ں نے اسے مر دہ کر ڈا لا اور موت اسی صورت میں ہوگی کہ لوگ اس پر عملد ر آمد تر ک دیں اور اس وقت کے علما ء مذکو رہ با لا وجو ہ کی بنیا د پر ان کی اس حر کت پر خمو ش رہے ہو ں پس جو ایسی سنت زند ہ کر ے اسے اس کا اجر ملے گا اور جس نے خا مو شی اختیا ر کی وہ معذو رسمجھا جا ئے گا اسی نہج پر احیا ئے سنت کا معا ملہ عہد قد یم سے آج تک چلتا رہا ہے اس لیے لو گو ں کے عمل یاعادت یا کسی عمل پر ماضی قریب کے علماء کی خمو شی سے استد لا ل اور یہ خیا ل کہ اگر مسئلہ دا ئر ہ خلا ف شر ع ہوتا تو اس پر ان علماء کی خمو شی ان کے لیے با عث عا ر ہو تی۔
کل ذلک جہل وا ضح و و ھم فا ضح وسد لبا ب احیا السنۃ مع انہ مفتو ح بید المصطفی سید الا نس و ا لجن صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و مو عو د علیہ عظیم المنۃ۔
یہ سب خیا ل کھلی جہا لت اور وا ضح وہم پر ستی ہے اور احیا ئے سنت کا سد با ب ہے حا لانکہ حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے احیا ئے سنت کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اس پر عظیم انعام و اکر ام کا وعد ہ فر ما یا ہے۔
واما تفصیل کل مع اجملت ھنا ففی شما ئم زا کیا ت ،فی کل شما ئمۃ نفحا ت طیبا ت و علی حبیبنا و الہ اطیب الصلو ۃ و انمی التحیا ت۔
اب ہم مہکتے شما مو ں اور لہکتے نفحا ت میں اس کی تفصیل بیا ن کر تے ہیں اللہ تعا لی ہما رے حبیب صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحا ب پر مقد س درود اور مبا ر ک تسلیما ت نا ز ل فر ما ئے ۔آمین