قد علمتم یا سادتی و اخوتی رحمنا اللہ تعالی و ایاکم وبا لسلامۃ حیانا وحیاکم ان خیر الحد یث کتاب اللہ و خیر الھَدی ھدی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وشر الامو ر محدثا تھا وان المعر و ف معر و ف وان صارمنکرا والمنکر منکر و ان صار معر وفا فلر بما یحد ث حدث و یشیع و ینکر علیہ بد ء فیضیع اما لا مر الا ما رۃ او نفو س اما رۃ ۔
اے ہما ر ے سر دا ر و اور بھا ئیو ! اللہ تعا لی ہم پر اور آپ پر رحم فر ما ئے اور ہم سب کو سلا متی کے سا تھ زند ہ رکھے آپ خو ب جا نتے ہیں کہ تما م با تو ں سے بہتر خد ا کی کتا ب ہے اور تما م سیر تو ں سے بر تر سیر ت رسو ل ہے صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور سب چیز و ں سے برے وہ توایجا د ہیں (جن کی دلیل قر آن و حد یث نہ ہو ) پسند ید ہ چیز پسند ید ہ ہی رہے گی چا ہے لو گ اسےنا پسند کریں اور نا پسندیدہ چیز نا پسندیدہ ہی رہے گی چا ہے سب لو گ اس میں مبتلا ہوں۔
والعالم یقول الہوی متبع و القول لا یسمع و قد قضیت ما علی فان سکت فلا علی فیدع ،فلا ید عو ،فالمنکر یر بو ویفشو ، وتنشؤ الصغا ر فتقتفی الکبار فیظن متوارثا وما کان الا حادثا، واٰیۃ ذلک کو نہ علی خلاف السنۃ المرویۃ ومناواۃ الخصلۃ المرضیۃ ومع ذلک اذا فتشتہ فی الصدرالاول ،والقرون الاول لم تر لہ اثرا ۔
بہت سا ری نا پسند ید ہ با تو ں کی سر گز شت یہ ہے کہ پیدا ہو کر پھیل جا تی ہیں اہل حق اس پر نکیر بھی کر تے ہیں لیکن یہ رد و قد ح ضا ئع ہو جا تی ہے جس کے چند اسبا ب ہو تے ہیں
(۱) ان نو ایجا د امو ر کی اشا عت کے لیے حکو مت اپنا اثر ورسو خ استعما ل کر تی ہے۔
(۲) سر کش نفو س اسے روا ج دینے پرآما دہ ہو جا تے ہیں۔
(۳) علما ء جو انہیں روک سکتے تھے ان کا خیا ل ہو تا ہے لو گ اتبا ع نفس میں ایسا گر فتا ر ہیں کہ ہما ر ی با ت سننے کو تیا ر نہیں اور ہم اس سلسلہ میں ہد ایت کا حق ادا کر چکے ہیں اب خا مو ش میں رہیں تو ہم پر کو ئی ذمہ داری نہیں ۔
ان سالت متی حدث ، ومن احدث لم تجد بہ خبر ا فیجعل النا س لعدم العلم بمبد ئہ علما بعدمہ و علما علی قدمہ ، وما الیہ سبیل ، مع خلاف الدلیل ،وانما تحکیم الحال عند الاحتما ل و الا فالحادث لاقرب اوقاتہ ولغفلۃ الناس عن ھذا البنا یۃ تفوہ الالسنۃ انہ السنۃ ، وتصیر النفو س الیہ مطمئنۃ و عند ذلک یکون المعروف منکرا والمنکر معروفا۱۔ کما فی حدیث(عہ۱) عن المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و یکذب الصا دق و یصدق الکاذب ۲کما قد صح(عہ۲) عن سید الاطائب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فمن القی علیھم السنۃ فکانما یحول جبلۃ او یحاول جبلا اویبتدع حکما من عندہ قبلا۔
عالم یہ سوچ کر رشد و ہد ایت چھو ڑ دیتے ہیں اور گمر اہی پھیلتی رہتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے چھو ٹے لو گ اسے بڑھاوا دیتے ہیں بڑے لوگ ان کے پیچھے چلتے رہتے ہیں اورلو گ انہیں متو ا ر ث سمجھنے لگتے ہیں حالا نکہ وہ ایک نو پید با ت ہو تی اس کے نو زائید ہ ہو نے کی علا مت یہ ہو تی ہے کہ وہ سنت مر ویہ کے خلا ف اور خصا ئص حمید ہ کی ضد ہو تی ہے اور اسلا م کے ابتد ا ئی عہد میں اس کا کہیں پتا ہی نہیں ہو تا اسکی ایجا د کے وقت اور مو جد کا پتا پو چھا جا ئے تو کچھ پتا ہی نہیں چلتا لوگ اس لا علمی کو اس با ت کا ثبو ت ما ن لیتے ہیں کہ یہ شروع سے ہی ایسے ہی ہو رہی ہے حا لا نکہ نہ تو تا ر یخ اس کی تا ئید میں ہو تی نہ دلیل سو ا ئے اس امر کے پتانہیں کب سے ایسا ہی ہو رہا ہے لو گو ں کی طبیعتیں اس در جہ خو د فر ا مو ش وا قع ہو ئی ہیں کہ بہت سے قریب العہد نو پید امو ر کی تا ریخ بھی ان لو گو ں کو معلو م نہیں رہتی اور لو گ اسی کو سنت سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں اس وقت بر ا ئی اچھا ئی بن جا تی ہے اور اچھا ئی بر ا ئی حد یث شر یف میں ہے سچے کو جھو ٹا اور جھو ٹے کو سچا سمجھا جا نے لگتا ہے حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سے یہ صحیح حد یث بھی مرو ی ہے ''تو جو انہیں کسی سنت پر ابھا رے گو یا ان کو فطر ت بد ل رہا ہے یا پہا ڑ منتقل کر نے کا قصد کر رہا ہے یا اپنے پاس سے کو ئی حکم گھڑرہا ہے۔ ''
عہ ۱: روا ہ ابن عسا کر عن محمد بن الحنفیۃ و المسعو دی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲منہ۔
ابن عسا کر نے محمد بن حنفیہ اور مسعو دی سے انہو ں نے حضو ر اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو روا یت کیا (ت)
عہ۲: روا ہ ابن ابی الدنیا و الطبر ا نی فی الکبید و ابو نصر السجزی فی الا با نۃ وابن عسا کر فی تا ریخ دمشق عن ابی موسی الا شعری رضی اللہ تعالی عنہ بسند لا با س بہ ،والطبر نی فیہ والحاکم فی الکنی ابن عساکر عن عوف بن مالک الاشجعی والطبرانی فیہ والبیھقی فی البعث وابن النجا ر عن ابن مسعو د و الطبر انی فیہ عن ام المو منین ام سلمہ ونعیم ابن حما د فی الفتن عن ابی ہر یرہ رضی اللہ تعا لی عنہم و لفظۃ حد یث ام المو منین لیا تین علی النا س زما ن یکذب فیہ الصا دق و یصد ق فیہ الکا ذب ۱؎الحد یث وھو قطعۃ احا دیث عند ھم جمیعا ۱۲منہ۔
ابن ابی الدنیا او ر اما م طبر ا نی نے معجم کبیر میں ،اما م ابو نصر سجزی نے کتا ب الا با نۃ میں ،اما م ابن عسا کر نے تاریخ دمشق حضر ت ابو مو سی اشعر ی رضی اللہ تعا لی عنہ سے لا با س بہ سند کے سا تھ اس کو روا یت کیا طبر انی نے کبیر میں حا کم نے کنی میں اور ابن عسا کر نے عو ف بن ما لک اشجعی رضی اللہ تعا لی عنہ سے روایت کیا طبرانی نے کبیر میں اور اما م بیہقی نے بعث میں اور ابن نجا ر نے ابن مسعو د رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت کیا طبرانی نے حضر ت ام سلمہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے ،اور نعیم بن حما د نے ''فتن''میں ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے (اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روا یت کی ) ام المؤمنین کی روایت کے الفا ظ یہ ہیں : لیا تین علی النا س زما ن یکذب فیہ الصادق و یصد ق فیہ الکا ذب الحد یث۔اور یہ سب کے نز دیک حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۱۲منہ
(۱؎فیض القدیر تحت الحد یث ۶۹۸۹ دا ر الکتب العلمیہ بیر وت ۵ /۲۶۲)
(۲؎المعجم الا وسط حد یث۸۶۳۸، ۲۹۳)
(۱؎المعجم الا وسط حد یث ۸۶۳۸ مکتبۃ المعا ر ف الر یا ض ۹/۲۹۳)
و ان القلب اذ امتلاء بشیئ لم یکد یقبل غیر ہ لدا ب مستمر ،فا ن قرا ء لم یجا وز التراقی او سمع لم یجاوز الاذن وما بھذا امر وانما قا ل لہ ربہ و قو ل الحق و وعدہ الصدق فبشر عباد الذین یستمعو ن القول فیتبعو ن احسنہ اولئک الذین ھدٰھم اللہ واولئک ھم اولو الا لبا ب ۱؎
اور دل مین جب کو ئی با ت سما جا تی ہے تو آدمی اپنی عا دت جا ریہ کے خلا ف کچھ قبو ل ہی نہیں کر تا ۔اگر کوئی با ت اس کے خلا ف پڑھتا ہے تو حلق کے نیچے نہیں اتر تی اور سنتا ہے تو کا ن سے آگے نہیں بڑھتی جبکہ لوگو ں کو اس ہٹ دھر می کا حکم نہیں دیا گیا ہے وہ تو یو ں فر ما تا ہے ''ہما رے ان بند و ں کو بشا ر ت دو جو اچھی با ت سن کر اس کی پیر و ی کر تے ہیں اللہ تعا لی نے انہیں ہد ایت دی اور وہی اہل عقل و بصیر ت ہیں۔''
(۱ القر ان الکر یم ۳۹/۱۷و۱۸)
فالسبیل الا ستما ع ثم الا نتفا ء ثم الا تبا ع ،لا ان یقنع ولا یسمع ،او یکو ن من الذین سمعو ا وھم لا یسمعو ن فھم بالقرآن لا ینتفعو ن۔
تو راستہ تو سن کر انتفاع اور اتباع کا تھا نہ کہ قناعت کر کے بیٹھ رہنے اور نہ سننے کا۔ یا سن کر ان سنی کر دینے کا ایسے لوگ قرآن سے کچھ مستفید نہیں ہوتے۔
وانما النفع لمن کان لہ قلب مرید أو القی السمع وھو شہید۔
نفع تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو ارادہ قلبی اور سماع حضور کے ساتھ سنتے ہیں۔
فعلیک یا اخی القاء السمع وانقاء القلب عن الجزم او لا بایجاب او سلب رجاء ان تجد حقا فتذ عن فان الحکمۃ ضالۃ المؤمن فتدخل او ذاک فی بشارۃ مولاک واللہ یتولی ھدای و ھداک۔
پس اے برادران محترم!غایت توجہ اور عنایت قلب کے ساتھ قبل از مطالعہ یک طرفہ فیصلہ کئے بغیر اس ارادہ سے کہ حق ہوگا تو قبول کروں گا۔ ہمارے معروضات سنیں کہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، اور اللہ تعالٰی ہدایت دینے والا ہے، ہماری اور آپ دونوں کی ہدایت فرمائے ۔
ولنجمل اولا ما وجدہ الفقیر فی ہذہ المسألۃ من الحدیث الکریم والفقہ القویمِ بل ومن القرآن العظیم ،ثم نفصلہ تفصیلا با ذن الفتاح العلیم ۔لا ن التفصیل بعد الاجما ل اوقع فی النفس و اقمع للتکمین وا لحدث و لا ارید کل التفصیل لما بد فا ن المسئلۃ تحتمل مجلدا و لکن ما قل وکفی خیر مما کثر و الہی ۱؎قا لہ(عہ) النبی المصطفی صلی اللہ تعا لی علیہ وعلی الہ افضل الصلو ۃ والثنا ۔
پہلے تو ہم احا دیث کر یمہ ،فقہ مستقیمہ ،بلکہ قر آن عظیم میں ایک فقیہ مسئلہ دائر ہ میں جو کچھ پا سکتا ہے اسے اجما لا بیا ن کر تے ہیں پھر ان شا ء اللہ تعا لی مسئلہ کی ضروری تفصیل بیان کر ینگے کہ اجما ل کے بعد تفصیل نفس میں زیا دہ جا گزیں اور ظن و تخمین کو ز ائل کر نے والی ہو تی ہے پو ری تفصیل کے لیے تو صیحفے در کا ر ہیں مگر جب وا جبی بیان سے کام چل جا ئے تو مکمل تفصیل کی کو ئی خا ص ضر ورت بھی نہیں ۔حد یث شر یف میں ہے ''جو کلا م مختصر اور کفا یت کر نے وا لا ہو طویل اور الجھا دینے و الے بیا ن سے اچھا ہے۔
عہ : رو اہ ابو یعلی او الضیا ء المقد سی فی المختار ۃ عن ابی سعید الخد ری رضی اللہ تعا لی عنہ ۱۲منہ
ابو یعلی اور ضیاء مقد سی نے مختا ر ہ میں ابو سعید خد ری رضی اللہ تعا لی عنہ سے اس کو روا یت کیا ۱۲منہ(ت)
(۱؎کنز العما ل حد یث۱۶۱۲۴ مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۶/۳۷۵)
فا قو ل: وبہ استعین : ارشد نا الحد یث الصحیح الذی روا ہ ابو دواد فی سننہ واما م الا ئمۃابن خزیمہ فی صحیحہ ،امام ابو قا سم الطبر ا نی فی معجمہ الکبیر ان السنۃ فی ھذا الا ذا ن ان یکو ن بین ید یہ الا ما م اذا اجلس علی المنبر فی حدود المسجد لا فی جو فہ ھکذا کا ن یفعل علی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم و عہد صا حبیہ ابی بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنہما ۱؎ ولم یا تنا عن احد من الخلفا ء الر ا شد ین و غیر ھم من الصحا بۃ وا لتا بعین و الا ئمۃ المجتہدین رضو ا ن اللہ تعالی علیہم اجمعین تصر یح قط بخلا ف ذلک وما کا ن لہم ان یقو لو ا والعیا ذ با للہ تر ک ما ھنالک۔
پس میں اس کی مد د کے سا تھ کہتا ہو ں سنن ابی دواد ،صحیح اما م ابن خزیمہ ،معجم کبیر اما م ابو لقا سم الطبرانی کی حد یث سے پتا چلتا ہے کہ اذا ن خطبہ میں سنت یہ ہے اما م مبنر پر بیٹھے تو اس کے سامنے حد و د مسجد کے اند ر (نہ کہ خا ص مسجد میں )اذان دی جا ئے حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور شیخین کر یمین رضی اللہ تعا لی عنہم کے عہد ہائے مبارک و مسعود میں اور دیگر خلفاء راشدین وغیر ہ صحا بہ کر ا م و زمانہ تا بعین و ائمہ مجتہد ین میں ایسا ہی ہو تا رہا ،کسی سے اس کا خلا ف مر و ی نہیں اور معا ذ اللہ رب العا لمین وہ اس کے خلا ف کہہ بھی کیسے سکتے تھے۔
(۱؎سنن ابی دواد کتا ب الصلو ۃ با ب وقت الجمعۃآفتا ب عا لم پر یس لا ہو ۱/۱۵۵)
(المعجم الکبیر حد یث ۶۶۴۴ المکتبۃ الفیصیلۃ بیر و ت۷/۱۴۶)