نفحہ ۹ : اقو ل: وبا للہ التوفیق اعلم و فقنا اللہ تعا لی و ایا ک ان للمسجد اطلا قین احد ھما مو ضع الصلوۃ من الا ر ض المو قو فۃ لھا و ھو الا صل و بھذا المعنی لا یدخل فیہ البنا ء فا ن البنا ء من الا وصا ف کا لا طر ا ف فا لبا ب و الجد ار خارج عن المسجد ۔وکذا ا لدکۃ والمنا ر والحیا ض والا با رو ان کا نت فی حد ودہ بل فی جو فہ اذا بنیت قبل تما م المسجدیۃ اما بعدہ فلا یجو ز تغییر شیئ من الا و قاف عن ھیئتہ الا بشر ط الو ا قف لحا جۃ الوقف و مصلحتہ فکیف بالمسجد فی بر أتہ و حر یتہ و تمنعہ من حق عبد و خیر تہ، فی وقف الدر من احکا م المسجد لو بنی فو قہ بیتا لا ما م لا یضر لانہ من المصا لح اما لو تمت المسجد یۃ ثم اراد البنا ء منع ولو قا ل عنیت ذلک لم یصد ق تا تا ر خا نیۃ فا ذا کا ن ھذا فی الواقف فکیف بغیر ہ فیجب ھدمہ ولو علی جدا ر المسجد ۱؎، اھ
نفحہ ۹: اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو سب کو علم کی توفیق بخشے مسجد کی دو اطلا قا ت ہیں (ا) زمین کا وہ حصہ جو نما ز کے لیے وقف کیا گیا ہو مسجد کے حقیقی معنی یہی ہیں اس اطلاق میں مسجد کی بنیا دیں مسجد میں داخل نہیں کہ بنیا دیں اوصا ف کے حکم میں ہیں جیسے کہ اطرا ف و حد ود پس مسجد کا دروازہ او ر دیو اریں مسجد سے خارج ہیں اسی طر ح اذا ن کے چبو تر ے ،مینا ر یں ،حو ض اور کنو یں حد ود مسجد یا جو ف مسجد ہی میں کیو ں نہ ہوں اگر تما م مسجد یت سے قبل بنا ئے گئے تو مسجد سے خا ر ج ہیں ہا ں مسجد مکمل ہو جا نے کے بعد اگر ان چیزوں کو مسجد میں بنایا تو یہ وقف کو بد لنا ہواجو جا ئز نہیں ۔واقف نے وقف کی ضرورت کے لیے اس کی شرط لگا ئی ہو تو اور بات ہے اور مسجد میں یہ نا ممکن ہے کہ مسجد حقوق عبد سے با لکلیہ آزاد ہو تی ہے ۔درمختا ر کے کتا ب الو قف با ب احکا م المسجد میں ہے :''ُاگر مسجد کے اوپر اما م مسجد کے لیے کمر ہ بنا یا تو حر ج نہیں کہ یہ مصالح مسجد میں ہے لیکن مسجد مکمل ہو گئی تو مسجد کی چھت پر منع کیا جا ئیگا اگر چہ یہ کہے کہ میر ی نیت پہلے ہی کمر ہ بنا نے کی تھی ،اس کی تصدیق نہ کی جا ئے گی ۔''تا تا ر خا نیہ میں ہے ''جب خو د واقف کا یہ حا ل ہے تو دوسرے کا کیا ۔ایسی تعمیر گو مسجد کی دیو ار پر ہو اس کو بھی ڈھا دینا چا ہیے''
والاخر الا رض مع البنا ء وھو الا صل مع الو صف فا لبنیا ن کا لجدا ران والبنیا ن دا خل بھذا المعنی فیہ وعلی الا ول قولہ تعالی انما یعمر مساجد اللہ من امن با للہ والیو م الاخر ۲؎ اخر جہ الا ئمۃ احمد و الد ارمی و التر مذی و حسنہ وابن ما جہ وابن خزیمۃ و ابن حبا ن والحا کم ،وصححہ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذا رأیتم الر جل یعتاد المسجد فا شھدوا لہ با لا یما ن ۱؎قا ل اللہ تعالی انما یعمر مسا جد اللہ من امن با للہ و الیو م الا خر ۲؎فعما ر تھا با لصلو ۃ فیھا لو لم یکن ثم بنا ء کا لمسجد الحرا م فی زمن رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فما کا ن الا ارضا حو ل الکعبۃ مخلا ۃ للطو ا ف ۔ و علی الا خر قو لہ عزوجل لھد مت صو امع و بیع و صلوات و مسا جد ۳؎،فما الھد م الا للبنا ء۔
(ب ) اس اطلاق میں زمین مع بنیادوں کے مسجد ہے، تو دروازے اور دیواریں سب مسجد میں داخل ہیں اللہ تعالٰی کے فرمان
انما یعمر مساجداللہ من اٰمن باللہ
(مسجدیں اللہ تعالٰی پر ایمان لانے والے تعمیر کرتے ہیں) میں یہی مراد ہے۔ امام احمد ، دارمی اور ترمذی نے اس کو تخریج کیا، اور ترمذی نے حسن کہا۔ ابن ماجہ، ابن خزیمہ ، ابن حبان اور حاکم نے اس کی تصحیح کی روایت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:'' جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ مسجد کی حاضری اس کی عادت بن چکی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے مسجد تو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔''مسجد کی آبادی تو نماز پڑھنے سے ہے اگرچہ وہاں کوئی مسجد کی عمارت نہ ہو ۔ جیسا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد حرام کا حال تھا کہ وہ کعبہ کے گرد کی زمین تھی جو طواف کے لئے خالی چھوڑی ہوئی تھی۔ اور اس دوسرے معنٰی پر ہی اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے :
لھدمت صوامع وبیع
(تو البتہ یہود و نصا ری )کے صوا مع اور عبا دت خا نے ڈھا دیئے جا تے اور بنی ہو ئی عما ر ت ہی ڈھا ئی جا تی ہے ۔
(۲؎القران ۹/ ۱۸)
(۱؎جا مع التر مذی ابو اب الا یما ن با ب ما جا ء فی حر مۃ الصلو ۃ امین کمپنی دہلی ۲/۸۶)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/ ۶۸)
( المستدرک للحاکم کتاب الصلوۃ دارالفکر بیروت ۱/ ۲۱۲،۲۱۳)
(مو ارد الظما ن با ب الجلو س فی المسجد للخیر حد یث ۳۱۰ المکتبۃ السلفیۃ ص۹۹)
(صحیح ابن خزیمہ با ب الشہا دۃ بالا یما ن لعما ر المسجد حد یث ۱۵۰۲ المکتب الا سلا می بیر وت ۲/ ۳۷۹)
(۲؎القران الکریم ۹/ ۱۸)
(۳؎القران الکریم ۲۲ /۴۰)
بل لاطلاق الثا لث یشمل الفناء و لھذا جا ز للمعتکف دخو لہ ولا یعد بہ الا معتکفا فی المسجد فی البدا ئع ثم رد المحتا ر لو صعد ای المعتکف المنا رۃ لم یفسد بلا خلا ف و انکا ن با بھا خا رج المسجد لا نھا منہ لا نہ یمنع فیھا من کل ما یمنع فیہ من البول و نحو ہ فا شبہ زاویۃ من زوا یا المسجد ۱؎۔ وعن ھذا تسمع النا س یقو لو ن قد اذ ن فی المسجد اذا سمعوا الاذا ن من منا رتہ مثلا و ان کا نت وا قعۃ خا ر ج المسجد و ھذا محا ورۃ سا ئغۃ شا ئعۃ عر با و عجما ۔ولا یقول احد قو مو ا فقد اذن خا رج المسجد ،وعلی ھذا نظا ئر قول ابن مسعو د رضی اللہ تعا لی عنہ ان من سنن الھد ی الصلو ۃ فی المسجد الذی یؤ ذن فیہ روا ہ مسلم۲؎۔ وقول الفقھاء کر ہ خر وج من لم یصل من مسجد اذن فیہ ۳؎
(ج) اور مسجد کا ایک تیسرا اطلا ق بھی ہے اس اطلا ق پر صحن کا حصہ بھی شا مل ہو تا اسی لیے تو معتکف کو اس میں جا نا جا ئز ہے اور اس کے بعد بھی وہ معتکف ہی رہتا ہے بد ائع اور شا می میں ہے :معتکف ایسے منا رہ پر چڑھ سکتا ہے جس کا دروا زہ مسجد سے خا رج ہو کیو نکہ وہ مسجد میں شما ر ہو تا ہے اور وہا ں پیشا ب و پا خا نہ منع ہے ،تو وہ بھی مسجد کے ایک کو نہ کی طر ح ہو ا ''اسی لیے لو گ کسی مسجد کے منا رہ سے ہو نے وا لی اذا ن کو سن کر کہتے ہیں کہ فلا ں مسجد میں اذان ہو گئی حا لا نکہ منا رہ تو مسجد سے خا رج بنا ہے اور چو نکہ یہ محا روہ عرب و عجم میں شا ئع و ذائع ہے کہ اذا ن منا رہ کو سن کر کو ئی نہیں کہتا کہ چلو مسجد کے با ہر اذان ہو گئی ۔اور یہی معنی حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعا لی عنہ کے اس ارشاد کے بھی ہیں جو آپ نے فر ما یا تھا ''جس مسجد میں اذان ہو تی ہو وہا ں نما ز پڑھنا سنت ہد ی ہے ''(مسلم)۔اور فقہا ء کر ام کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ ''مسجد میں اذا ن ہو چکی ہو تو جما عت میں شریک ہو ئے بغیر مسجد سے با ہر جا نا مکر وہ ہے''
(۱؎ رد المحتا ر کتا ب الصو م با ب الاعتکا ف دار احیا ء الترا ث العر ا بی بیر وت ۲/ ۱۳۲)
(۲؎صحیح مسلم کتاب المسا جد با ب صلو ۃ الجماعۃ و بیا ن التشد ید فی التخلف قد یمی کتب خا نہ کر اچی ۱/ ۲۳۲)
(۳؎الد ر المختار کتا ب الصلو ۃ با ب ادراک الفر یضۃ مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۹۹)
اذا علمت ھذا فا علم ان الاذان انما یکر ہ فی اصل المسجد لا فی وصفہ و لا تبعہ وان شئت قلت یکر ہ فی المسجد بالمعنی الا و ل دون الثا نیین ألا تر ی الی ما قد تلو نا علیک من نصو ص الا ئمۃ کیف نھو ا عن الا ذا ن فی المسجد دون المئذنۃ و فنا ء ہ والحد ود بمرای منک حد یث الاذا ن علی با ب المسجد ،واخر ج ابو الشیخ فی کتا ب الا ذا ن عن عبد اللہ ابن زید الا نصاری رضی اللہ تعالی عنہ قا ل رأیت فیما یر ی النا ئم کا ن رجلا علیہ ثو با ن اخضر ان علی سور المسجد یقول اللہ اکبر اللہ اکبر اربعا ۱؎الحدیث وفی اخر ی عنہ رأیت رجلا علیہ ثو با ن اخٖضر ان وانا بین النو م والیقظا ن فقا م علی سطح المسجد فجعل اصبعیہ فی اذنیہ و نا دی ۲؎الحد یث ۔ وتقد م قول المد خل ان محل الا ذا ن المنا ر او سطح المسجد اوبا بہ ۳؎
اس تفصیل کے بعد یہ جاننا چا ہیے کہ اذا ن اصل مسجد میں مکر وہ ہے وصف مسجد میں نہیں ۔اور تبع مسجد میں بھی نہیں اس کی تعبیر یو ں بھی کی جا سکتی ہے اذان مسجد با لمعنی الا ول میں مکر وہ ہے معنی ثا نی اور ثا لث میں نہیں ۔ائمہ کی نصوص سے بھی یہی ظا ہر ہے کہ خا ص مسجد کے اندر مکر وہ ہے منا رہ صحن اور حد ود میں نہیں ۔ حد یث سا ئب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی مفا د ہے
''کا ن الا ذا ن علی با ب المسجد ''
(اذا ن مسجد کے دروازہ پر ہو تی تھی )۔ابو الشیخ نے کتا ب الا ذان میں حضر ت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ''میں نے خو اب میں دیکھا کہ ایک شخص ہر ا جو ڑا پہنے ہو نے مسجد کی چھت پر کھڑا ہوا اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ رہا تھا ''دوسر ی حدیث میں انہیں سے ہے کہ''میں نے خو اب میںؓ ایک شخص کو ہرا جو ڑا پہنے ہو ئے مسجد کی چھت پر کا نو ں میں انگلیا ں دیئے ہوئے کھڑا دیکھا جو کہہ رہا تھا ''(الحد یث) مدخل کی عبا رت ہم پہلے نقل کر آئے ہیں کہ ''اذا ن منا رہ پر یا سطح مسجد پر یا اس کے درواز ہ پر ہونا چا ہیے۔''
(۱؎کنز العما ل بحو الہ ابی الشیخ حد یث۲۳۱۴۲ مو سسۃ الرسا لہ بیر وت ۸/۳۳۱)
(۲؎کنز العما ل بحو الہ ابی الشیخ حد یث ۲۳۱۴۳ مو سسۃ الرسا لہ بیر وت ۸/۳۳۱)
(۳؎المد خل فصل فی النہی عن الا ذا ن فی المسجد دارالکتا ب العر بی بیر وت ۲/ ۲۵۱)
وبما قر رنا وللہ الحمد تبنیت فوا ئد ،الا ولی یجو ز الا ذا ن الد کۃ و المنا رۃ و شفیر البئر و حر یم الحو ض و ان کا نت ھذ ہ الاشیا ء داخل المسجد اذا کا ن البا نی بنا ھا قبل تما م المسجد یۃ لا ن ذلک یبقی مستثنی ولا تشملہ المسجد یۃ فیجوز لہ ان یبنی و للنا س ان یستعملو ھا کما اذا اعد فیہ موضعا للو ضوء وکذا اذا کنت بئر اوحو ض مثلا فی فنا ء المسجد فزید المسجد و احا ط بھا کبئر زمزم فی المسجد الحرام فان کونھا اذذاک قبل المسجدیۃ ابین و اظہر اما بعد تمام المسجد یۃ فلا یجو ز فی ارض اصل المسجد احد اث دکۃ ولا منا رۃ ولا بئر ولا حو ض کما قد منا عن الدر ۱؎من منع بنا ء فو ق جدا ر المسجد او سطحہ فکیف ارضہ ھذا ما نص علیہ علما ؤنا انہ لا یحفر فی المسجد بئر ما ء ولو کا نت البئر قد یمۃ تتر ک کبئر زمزم ۲اھ خا نیۃ و ھند یۃ وغیر ھما و تما م تحقیق المسا لۃ فی جد الممتا ر تعلیقا تنا علی رد المحتا ر و قا ل فی الا شبا ہ والنظا ئر من احکا م المسجد تکر ہ المضمضۃ و الو ضوء فیہ الا ان یکو ن ثمہ موضع اعد لذ لک لایصلی فیہ او فی انا ء ۳؎ اھ و نحو ہ فی الدر۔
ان عبا ر تو ں سے چند فوا ئد حا صل ہو ئے (۱)اذا ن چبو تر ے پر ،منا رہ پر ،کنو یں کی منڈیر پر ،حو ض کی کگر ی پر ،اگر چہ یہ چیزیں مسجد کے اند ر ہی ہو ں جا ئز ہے جب کہ با نی نے اس کی بنا مسجد سے پہلے کی ہو وجہ اس کی یہ ہے وہ ابتداء سے ہی مسجد سے مستثنی ہیں تو با نی ان مطلو بہ چیزو ں کو بنا سکتا ہےاور لوگ اس کو اسی غرض سے استعمال کر سکتے ہیں ، ایسے ہی کو ئی جگہ جو خا ص مسجد میں تمام مسجد یت سے قبل ہی وضو کے لیے خا ص کر دی گئی ہو ۔یہ یو ں بھی ممکن ہے کہ مسجد کے صحن میں کو ئی حو ض تھا کنو ا ں تھا مسجد میں تو سیع ہو ئی یا مسجد کا احا طہ کیا گیا جیسے زمزم شر یف کا کنو ا ں کہ اب تو خا ص مسجد حرام شریف میں ہے جب کہ اس کا اس جگہ مسجد حرام سے قبل ہونابالکل ظاہر ہے ، ہاں مسجد تما م ہو نے کے بعد اصل مسجد میں نہ چبو تر ہ بنا نا جا ئز ہے نہ منا رہ نہ کنو ا ں نہ حوض جیسا کہ ہم در مختا ر سے نقل کر آئے کہ ''تمام مسجد یت کے بعد دیو ار یا چھت پر کو ئی اور عما ر ت منع ہے ''ہما رے علما ء نے اس بات پر تنصیص کی ہے کہ ''مسجد میں کنواں نہیں کھودا جا سکتا ، پرانا ہو تو باقی رہ سکتا ہے جیسا زمزم کا کنواں خانیہ ،ہندیہ وغیرہ اسکی پو ری تحقیق ہما ری کتا ب جدالممتار حا شیہ درمختار و شامی میں ہے اشباہ و نظائر کے با ب احکا م المسجد میں ہے ''مسجد میں کلی وغیر ہ منع ہے ہا ں کو ئی جگہ پہلے ہی سے ان امو ر کے لیے مقر ر ہو تو اور با ت ہے ''ایسا ہی درمختا ر میں ہے۔
(۱؎الد ر المختار کتا ب الوقف مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۳۷۹)
(۲؎فتا وی قا ضیخا ں فصل فی المسجد نو لکشور لکھنو ۱/ ۳۱)
(خلا صۃ الفتا و ی کتا ب الصلو ۃ الفصل السا دس و العشر و ن فی المسجد مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ ۱/ ۲۲۷)
(۳؎الاشبا ہ و النظا ئر الفن الثا لث القو ل فی احکا م المسجد ادارۃ القر آ ن کر اچی ۲/ ۲۳۰)
قا ل الشا می رحمۃ اللہ تعا لی علیہ قو لہ ''الا فیما اعد لذلک ''انظرھل یشترط اعداد ذلک من الوا قف ام لا ۱؎ وکتبت فی جد الممتا ر اقو ل: نعم و شیئ اخر فوق ذلک وھو ان یکو ن الا عدا د قبل تما م المسجد یۃ فا ن بعد ہ لیس لہ ولا لغیر ہ تعر یضہ للمستقذرا ت ولا فعل شیئ یخل بحر متہ اخذتہ مما یا تی فی الو قف من الو ا قف لو بنی فوق سطح المسجد بیتا لسکنی الا ما م ۲؎اھ ثم فی احداثھا فی المسجد بعد ما صار مسجدا موانع اخر ی فا نھا تشغل مو ضع الصلوۃ و تقطع الصفو ف وقد قا ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ۔روا ہ احمد و ابو داؤد۳ و النسا ئی و ابن خزیمہ والحا کم بسند صحیح عن ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنھما قا ل العلا مۃ القار ی فی المرقا ۃ (من قطعہ) ای با لغیبۃ او بعد م السداوبو ضع شیئ ما نع ۱؎وقد نھی العلما ء عن غر س الشجر فی المسجد و عللو ہ با نہ یشغل مکا ن الصلو ۃ کما فی الخا نیۃ و خزا نۃ المفتین والھند یۃ و غیر ھا و اما اباحتہ لتقلیل النز اذا کا نت الا رض نزۃ لا یستقر اسا طینھا فللضر ور ۃ والضرورا ت تبیح المحظورا ت قا ل فی البحر فیغر س لیجذب عروق الا شجا ر ذلک النزفحینئذ یجو ز ، والا فلا۲؎ومثلہ فی الظہیر یۃ والبزا زیۃ و غیر ھما
اما م شا می رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مصنف کے قول الا ما اعد لذ لک پر فر ما یا :''یہ امر غو ر طلب ہے کہ واقف کی طر ف سے ان امو ر کے لیے جگہ مقر ر کر نا شر ط ہے یا نہیں ''میں نے جد الممتار میں اس پر لکھا یہ شر ط تو ضر ور ی ہے ہی یہ بھی ضر وری ہے کہ وا قف مسجد مکمل ہو نے سے پہلے ان امو ر کے لیے یہ جگہیں متعین کر ے مسجد مکمل ہو نے کے بعد نہ واقف کو اس تعین کا اختیا ر ہے نہ کسی اور کو کہ اس صو رت میں مسجد کو گندگی کے لیے پیش کر تا ہے ۔میں نے اس کا استنبا ط کتا ب الوقف کی اس عبا ر ت سے کیا کہ ''واقف بھی مسجد کے اوپر اما م کے رہنے کے لیے کوئی گھر نہیں بنا سکتا ''مسجد مکمل ہو نے کے بعد اس میں ان امو ر کے لیے جگہ نکالنے میں دوسر ی قباحتیں بھی ہیں مثلا اس کی وجہ سے نما ز کی جگہ جا ئے گی اور اس کی وجہ سے صف منقطع ہو سکتی ہے جبکہ حدیث شریف میں ہے ''جس نے صفیں ملا ئیں اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے ملا ئے گا اور جس نے صفیں قطع کیں اللہ تعالی اسے رحمت سے دور کر یگا ا''(احمد ،ابو داؤد ،ابن خزیمہ،اور حاکم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بہ سند صحیح روا یت کی ) ملا علی قار ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مرقا ۃ میں''قطعہ ''کا مطلب یہ تحریر فر ما یا کہ صف سے غا ئب ہو کر یا صف میں لا یعنی کا م کر کے یا کو ئی چیز بیچ صف میں رکھ کر جو صف کے ملنے سے ما نع ہو علما ئے کر ام نے ،مسجدمیں درخت لگا نے سے منع کیا کہ وہ نما ز کی جگہ گھیر ے گا ایسا ہی خانیہ خزا نۃ المفتین وغیر ہما میں لکھا ہے اور مسجد میں نمی ہو تو اسے کم کر نے کے لیے درخت لگا نا جا ئز ہے کہ یہ بہ ضرورت ہے اور ضرو رتیں تو ممنو عا ت کو جا ئز کر دیتی ہیں بحر الرائق میں ہے :''مسجد کے نم فر ش پر درخت لگا سکتے ہیں کہ اس کی جڑیں تر ی چو س لیں ورنہ در خت لگا نا جا ئز نہیں''ایسا ہی ظہیر یہ وبزا زیہ وغیر ہ میں ہے۔
(۱؎رد المحتا ر کتا ب الصلو ۃ با ب ما یفسد الصلو ۃ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۱/ ۴۴۴)
(۲؎جد الممتار کتا ب الصلو ۃ با ب ما یفسد الصلو ۃ المجمع الا سلا می اعظم گڑھ ہند ۱/ ۳۱۶)
(۳؎ سنن ابی دواد کتا ب الصلو ۃ با ب تسو یۃ الصفوف آفتا ب عا لم پر یس لا ہور ۱/۹۷)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر المکتب الاسلا می بیر وت ۲/ ۹۸)
(المستد ر ک للحا کم کتا ب الصلو ۃ دار الفکر بیر وت ۱/ ۲۱۳)
(۱؎مرقاۃ المفاتیح کتا ب الصلو ۃ با ب تسویۃ الصفوف حدیث ۱۱۰۲ المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۳/۱۷۹)
(۲؎بحرالرائق کتا ب الصلو ۃ فصل لما فرغ من بیان الکراہۃ فی الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/۳۵)
قا ل فی منحۃ الخالق : وفی قو لہ ''الا فلا ''دلیل علی انہ لا یجو ز احد اث الغر س فی المسجد ولا ابقا ؤہ فیہ لغیر ذلک العذر و لو کا ن المسجد وا سعا کمسجد المقد س الشر یف ولو قصد بہ الا ستغلا ل او تجو یز ابقا ء ذلک بعد احدا ثہ ولم یقل بذلک احد بلا ضرورۃ دا عیۃ ولا ن فیہ ابطال ما بنی المسجد لا جلہ من صلو ۃ وا عتکا ف ونحو ھما وقد رایت فی ھذہ المسا لۃ رسالۃ بخط العلا مۃ ابن امیر الحا ج الحلبی الفھا فی الر د علی من اجا ز ذلک فی المسجد الا قصی ، ورأ یت فی اخر ھا بخط بعض العلما ء انہ وافقہ علی ذلک العلا مۃ الکما ل ابن الشر یف الشا فعی ۱؎اھ
منحۃ الخا لق میں بحر کے قول ''وا لا فلا ''پر فر ما یا یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ مسجد میں مذکو رہ با لا ضرورت سے درخت لگا نا جا ئز ہے اور ضرورت نہ ہو تو نہ درخت لگا نا جا ئز ہے نہ اس کا با قی رکھنا ۔اور اگر مسجد وسیع ہو جیسے بیت المقد س اور اس کے کسی حصہ میں سا ما ن رکھنا ہو تو یہ بھی منع ہے کہ اس سے مسجد کو گو دا م اور دکا ن بنا نے کی را ہ کھلے گی اور اس کےبا قی رکھنے میں جبکہ بلا ضرور ت ہو مسجد میں دکا ن و مکا ن باقی رکھنے کی راہ استوا ر ہو گی حا لا نکہ اس کا کو ئی قا ئل نہیں ہے اور مسجد میں ایسی چیزیں تیا ر کر نے سے مسجد کی تعمیر کی اصلی غر ض فو ت ہو گی اس مسئلہ میں ایک رسا لہ ابن امیر الحا ج کے ہاتھ کا لکھا ہوا میں نے دیکھا جسے آپ نے اس شخص کے رد میں تحر یر فر ما یا تھا جس نے بیت المقد س میں اس کو روا رکھا تھا اور اسی کے آخر میں بعض علماء کی تحر یر تھی جس میں اس مسئلہ میں علا مہ کما ل ابن ابی شر یف شا فعی نے ابن امیر الحا ج کی تا ئید کی تھی ۔
(۱؎منحۃ الخا لق حا شیۃ بحر ا لر ائق مع البحرفصل لما فر غ من بیان الکر ا ہۃ فی الصلو ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ۳/ ۳۵)
وقلت فی جد الممتا ر بعد نقل ما ھنا وغیر ہ من نظر ھذ ہ الکلما ت الشر یفۃ بعین الانصا ف لم یلبث فی الحکم بتحر یم کل احدا ث فی المسجد یکو ن فیہ شغل محل منہ لغیر ما بنی لہ سو ا ء کا ن بیتا او حا نو تا او دکۃ او منا ر ۃ او غا سلا او خزا نۃ او بئرا او حو ضا او شجر ا ،أو ،أو، أو الخ و عنیت بہ المسجد با لمعنی الا ول ۔
میں نے جد الممتار میں ان سب با تو ں کو لکھ کر تحر یر کیا جو ان کو انصا ف کی نظر سے دیکھے گا بلا تو قف اس قسم کی تما م ایجا دا ت کو (جن سے تعمیر مسجد کی اصلی غرض میں خلل وا قع ہو) حر ام قرا ر دے گا چا ہے گھر ہو یا دکا ن ،چبو تر ہ ہو یا منا رہ خزا نہ ہو یا گو دا م کنوا ں ہو یا حو ض ،درخت ہو یا کچھ اور الخ ایسے تما م مقاما ت پر ہماری مراد مسجد سے قسم اول (اصل مسجد) ہے ۔
وقا ل الا ما م ابن الحاج المکی فی المد خل و من ھذاالبا ب ایضا ما احد ثو ہ فی المسجد من الصنا دیق المو بد ۃ وذلک غصب لمو ضع مصلی المسلمین۲؎ قا ل و من ھذا البا ب الد کۃ التی یصعد علیھا المو ذنو ن للا ذا ن یو م الجمعۃ بل ھی اشد من الصنادیق اذیمکن نقل الصنا دیق ولا یمکن نقلھا ۱؎ قا ل ومن ھذا البا ب ا یضا اعنی فی امسا ک مو ا ضع فی المسجد و تقطیع الصفو ف بھا اتخا ذ ھذا المنبر العالی فانہ اخذ من المسجد جزا ء جیدا و ھو وقف علی صلا ۃ المسلمین ۲؎ اھ ملتقطا فر حم اللہ من نص و رحم اللہ من قبل۔
اما م ابن الحا ج مکی نے مد خل میں فر ما یا کہ اسی قسم سے وہ صند وق ہیں جن کو مسجد میں رکھنے کا روا ج لو گو ں نے قائم کر لیا ہے یہ نما ز کی جگہ کو گھیر تا ہے اور اسی قسم کے وہ چبو تر ے ہیں جو مسجد و ں میں اذا ن خطبہ کے لیے بعد میں بنا ئے گئے ہیں بلکہ ان کا حکم صند و ق سے زیا دہ سخت ہے کہ وہ بضر ورت کھسک بھی سکتے ہیں جبکہ چبو تر و ں میں یہ نا ممکن ہے اور اسی قسم یعنی مسجد کی جگہ روکنے وا لے اور صفیں قطع کر نے وا لے وہ رفیع منبر ہیں جن سے نما ز کی قا بل ذکر جگہ گھر جا تی ہے جو مسلما نو ں کی نما ز کے لیے وقف تھی ملخصا (اللہ تعالی نصیحت کرنے والے اور قبو ل کر نیو ا لے دو نو ں کو قبو ل فر ما ئے ۔
(۲؎المد خل فصل ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دار الکتاب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۱)
(۱؎المد خل فصل ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دار الکتاب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۱)
(۲؎المد خل فصل فی ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دا ر الکتا ب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۶)